Showing posts with label love. Show all posts
Showing posts with label love. Show all posts
Mar 17, 2021
Jul 10, 2020
"شوہرکو چھوڑ دو!"
Originally published here NayaDaur Urdu
پچھلے چوبیس گھنٹے سے سوشل میڈیا پر ایک خبر زور و شور سے گردش کر رہی ہے جس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک خود ساختہ صحافی، ٹی وی پروڈیوسر نے مبینہ طور پر اپنی بیوی کا قتل کردیا ہے.
یہ قتل ٢٩ جون کو ہوا تھا اور مقتولہ کی بہن کے مطابق، ان کی بہن ظالمانہ گھریلو تشدد کا شکار تھی. یوں تو قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم پڑتا ہے کہ موت گلا دبانے سے ہوئی تھی.
ظلم، تشدد، قتل، خودکشی، یہ کچھ بھی مملکت خداداد میں نیا نہیں ہے.
سنہ ٢٠١٨ میں ہونے والی Thompson Reuters سروے کے مطابق پاکستان عورتوں کے لئے دنیا کا چھٹا خطرناک ملک ہے. اس خطرے کی بنیادی وجہ عزت کے نام پہ قتل، ریپ، اور گھریلو تشدد ہے.
ایسے تمام واقعات جب سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتے ہیں توعمومی طور پر لوگ اپنی دانست میں، شدید جدّت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لڑکی کو شوہر کو چھوڑ دینا چاہئے تھا.
کیا ہمارے معاشرے میں شوہر کو چھوڑنا اتنا آسان ہے؟
نہیں !
ہمارے معاشرے میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی بنیادی تربیت اس طرز پہ کی جاتی ہے کہ اس کو کل کو 'دوسرے' گھر جانا ہے. ایسی معاشرتی روایات اور اصولوں پہ پروان چڑھنے والی بچیوں یا خواتین سے یہ امید کرنا کہ انہوں نے شوہر کے غلط روّیے کے باعث 'گھر کیوں نہیں چھوڑ دیا؟' انتہائی بیوقوفانہ امید ہے.
بچیاں بچے، کم عمری سے ہی اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنانے لگتے ہیں جہاں وہ عورت کو چولہے چکّی میں پستا، باپ سے پٹتا، گھر والوں سے کوسنے سنتے، بزرگوں سے صبر کی تلقین اور ہر طرح کی قربانی کا واعظ سنتے ہیں.
خصوصی طور پی لڑکیوں کو شروع سے جھکاؤ سکھایا جاتا ہے. بھائی چھوٹا بھی ہو تو رعب دبدبہ بڑوں والا ہوگا. باپ کا غصہ ٹھنڈے پانی کی طرح پی جانے کا حکم ہوگا کیوںکہ وہ تمہاری دال روٹی کا مالک ہے. حد تو حد، اگر کوئی اولاد اپنے ساتھ ہونے والی کسی قسم کی زیادتی، بشمول جنسی، کی شکایات کردے تو اس کو خاموشی کا درس سکھایا جاتا ہے.
ہم نے تو اپنے بچوں کو بھی وہ محفوظ گھر نہیں دیا جہاں انکی چیخ سنی جا سکے، جہاں انہیں رشتوں پر اعتبار ہو کہ وہ ان کے حقوق کا استحصال نہیں کریں گے.
ایسے ماحول میں ہم ایسا کیسے سوچ لیں کے صدیوں کی روایات اور بوسیدہ اقدار کو ایک کمزور عورت للکارنے کی جرّت کرے گی.
لڑکیوں کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے گھر جانا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ اس گھر سے واپس بھی آسکتی ہے. ہم انہیں ان کی ذات کی نفی سکھا کر ، شادی قائم رکھنے کے بہترین سماجی ٹوٹکے بتاتے ہیں. حالانکہ بتانا یہ چاہئے کہ یہ نکاح نامہ ہے، تمہاری موت کا پروانہ نہیں ہے.
طلاق، جو کہ ایک مذہبی اور معاشرتی حق ہے، اس کو کالا دھبّہ بنا کر اپنے والدین ہونے کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں. اس تربیتی طرز کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر لڑکیاں گھر واپسی کا راستہ نہیں چنتی ہیں، بلکہ زندہ یا مردہ بیاہتا قبر میں دفن ہوجاتی ہیں.
پہلی اور سب سے اہم وجہ ہے مضبوط تعلیم!
گھر میں اگر ٤ بچے ہوں تو سب سے زیادہ تعلیم کا دھیان لڑکے کی جانب جاتا ہے. اسے مہنگے سکول میں ڈالا جاتا ہے، پروفیشنل ڈگری دلوائی جاتی ہے، کیوںکہ اس نے بوڑھے ما باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے. دوسری جانب لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ BA پاس کروا کر شادی کے پلو میں بندہ دیا جاتا ہے کہ تم اب اپنے شوہر کی ذمے داری ہو.
گھر میں اگر ٤ بچے ہوں تو سب سے زیادہ تعلیم کا دھیان لڑکے کی جانب جاتا ہے. اسے مہنگے سکول میں ڈالا جاتا ہے، پروفیشنل ڈگری دلوائی جاتی ہے، کیوںکہ اس نے بوڑھے ما باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے. دوسری جانب لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ BA پاس کروا کر شادی کے پلو میں بندہ دیا جاتا ہے کہ تم اب اپنے شوہر کی ذمے داری ہو.
جب لڑکی نے دنیا داری تو سیکھی ہو لیکن دنیا نہ دیکھی ہو تو اس کے اندر خود اعتمادی کا شدید فقدان ہوتا ہے اور یوں وہ مکمل طور پر شوہر کے رحم و کرم پر ہوتی ہے. ماں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کرکے چار ثواب زیادہ نہیں کمائیں گے.
اب آپ کہ ذہن میں آئے گا کہ پھر پڑھی لکھی عورتیں کیوں پرتشدد زندگی سہتی ہیں؟ اس کا جواب ہیں آپ اور آپ کا بنایا ہوا کھوکھلا سماج!
سال ٢٠٢٠ ہے، لیکن پاکستانی ڈراموں میں ابھی بھی طلاق ایک انتہائی ممنوع فعل ہے. حالیہ ہی ایک ڈرامے میں دکھایا جارہا ہے کیسے ایک لڑکے کی ماں اپنے پڑوس کی لڑکی پر پہلے الزام لگاتی ہے کہ وہ اس کے معصوم بیٹے کو پھنسا رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ "میرے بیٹے کے لئے طلاق یافتہ ہی رہ گئی ہے؟"
جب لاکھوں لوگ پرائم ٹائم میں بیٹھ کر یہ ڈرامہ دیکھیں گے تو ان کے ذہن طلاق یافتہ عورت ایک گالی کی صورت ابھرے گی.
آج بھی برصغیر میں شادی بیاہ، بچے کی پیدائش جیسے خوشی کے موقعے پر طلاق شدہ اور بانجھ عورتوں کو دلہن سے فاصلے پر رکھا جاتا ہے کہ کہیں اس کا 'منحوس' سایا نو بیاہتا پر نہ پڑ جائے. سننے میں یہ باتیں زمانہ قدیم کی لگتی ہیں لیکن یہ ہیں اسی جدید اکیسویں صدی کی باتیں.
سماجی بے دخلی یا در بدری ایک بہت بڑی وجہ ہے جو عورتوں کو بے وفا،ظالم،یا فحش شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبورکردیتا ہے. ہمارے سماج میں مرد کتنا ہی ناکارہ کیوں نہ ہو، اسکا نام عورت کے ساتھ ہونا چاہئے.
اگر کوئی عورت طلاق یا شوہر سے علیحدگی سوچ بھی لیتی ہے تو اس کے دل میں طرح طرح کے خوف ڈالے جاتے ہیں. جیسے.....
-- بھابھی کے ساتھ رہو گی؟
-- بوڑھے ماں باپ خاندان میں کیا منہ دکھائیں گے؟
-- چھوٹی بہنوں کا رشتہ کیسے ہوگا؟
-- بچے اکیلے پال لو گی؟
-- کل کو بیٹی کے سسرال والوں سے کیا کہو گی؟
-- اکیلی عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی. سوچ لو؟
قصّہ مختصر، طلاق کو تیسری عالمی جنگ کا درجہ دے دیا جائے گا. اس بیچاری عورت کو لگے گا اگر اس نے طلاق لی یا دی تو حضرت اسرافیل صور پھونک دیں گے.
اب آپ ہی بتایئں، کون عورت اپنے سر یہ گناہ لے گی؟
اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ پسند کی شادی کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے جیسا لاہور کے صحافی کی بیوی کے ساتھ ہوا.
اصل میں یہ تمام باتیں ایک سوچی سمجھی، سماجی منصوبہ بندی ہے جس کا بنیادی مقصد عورت کو بندی نہیں بلکہ باندی بنانا مقصد ہے.اس منصوبہ بندی کا سہرا یوں تو پدر شاہی کو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں عورت کا کردار بھی ہے جیسے ماں، ساس، نند، بہنیں،خالہ، پھوپھی، جیٹھانی، دیورانی، بھابھی، اور محللے والیاں بھی......یہ وہ زنانہ رشتے ہیں جن میں مردوں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے تو وہ نظام میں رہ کر نظام کا ساتھ دیتی ہیں.
ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ شادی اگر والدین کی مرضی سے ہوگی تو کامیاب ہوگی. کامیابی کا انحصار آپ کی پسند پر نہیں ہے.
شادی والدین کی پسند سے ہو یا اپنی پسند سے، واپسی کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہونا چاہئے اور کھلے دل سے ہونا چاہئے.
پاکستان میں سماجی فقدان کے ساتھ ہی حکومتی منصوبہ بندی بھی ناکام ہے. ملک میں تقریبآ ایک تہائی کیسز گھریلو تشدد سے جڑے ہوتے ہیں لیکن بمشکل صرف ١-٢.٥% ہی قانونی انجام کو پہنچتے ہیں. ہمارے ملک میں عورتوں کے لئے پناہ گاہوں کی کمی ہے اور جو ہیں وہاں وہ محفوظ نہیں ہیں.
اس کے ساتھ ہی قانونی چارہ جوئی ایک انتہائی مشکل کام ہے. ہمارے معاشرے میں تھانہ کچہری کرنا شرمندگی کا باعث بنتا ہے بھلے قصور سامنے والے کا ہو. ہم بیٹی پر چار لات گھونسیں برداشت کرلیں گے لیکن تھانے جا کر رپورٹ نہیں کریں گے. جو رپورٹ ہو بھی گئی، تو ایک بار پھر قانون آپ کو تاریخوں کے لئے دوڑائے گا.
مضبوط قانونی نظام اور سماجی و اخلاقی حمایت کی کمی ہماری عورتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دنیا چھوڑ دیتی ہیں لیکن 'شوہر کا گھر' نہیں چھوڑتی ہیں.
Jun 21, 2020
آخری خط -- The Last Letter
23-May-2020
1:15am
Dearest Matter of my Heart,
I wish today, tonight I could have hugged you and tell you how much you mean to me. How much my little heart is filled with love for you. How much I look forward to seeing your face, and to be held by you at the airport. Above all, how ardent I am for you to become reality and drop the distance between us.
Maybe, I am running how on emotions given what a painful and tragic day it was for both of us. Yet, the hardest for those who lost their loved ones in that fateful plane crash. You and I both are scheduled to travel sometime soon and that was the first thought that crossed my mind.
During all the chaos, shown on the news, someone mentioned that the plane was just 1 minute away from the landing. Just one minute. Sixty seconds!
The world of those people and their families went upside down by one minute.
Life is so uncertain. So short. Uncontrollable and shocking. Slipping away from our hands without us paying attention.........and look at us!
Wasting time, fighting for things which may mean nothing at the time of death or running after what is not meant for us. You and I often talk about our retirements. I want a life away in mountains, cooking from homegrown vegetables, baking fresh loaves of bread, spending my days in teaching children, and calling it a night after reading and writing to the content of my heart.
You know, if all this comes true, my house will have a red color roof.
I do not know our future or your intentions, but I know that everything can finish in one minute. Hence, I want to ask you, if everything goes well between us and if you wish, would you like to be with me when I turn 50 or 60 or even 70? Will you be willing to help me growing vegetables in the backyard? Would you like to read me your favorite poetry while we take a stroll? Will you watch with me the movies of my choice?
Would you like to be there?
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
Jun 20, 2020
نواں خط -- Ninth Letter
19-May-2020
11:45pm
میرے ہمسر،میرے دلبرم،
ابھی تک تم کو میرا ایک بھی خط نہیں پہنچ سکا ہے. اب تو مجھے بھی یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا اور کیوں لکھا تھا. خیر میری یاداشت مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جس کہ لئے لکھے ہان، وہ کب پڑھےگا.
آج بہت دنوں کے بعد خط لکھنے بیٹھی ہوں. میں وہ سب کہہ نہیں پاتی جو دن بھر سوچتی ہوں سو لکھنے میں ہی عافیت ہے.
کبھی کبھی لگتا ہے اپنا آپ، اپنی محبّت بیان کرنا بلکل بھی آسان نہیں ہے. کاش، یہ کام میرا دل یا میری آنکھیں کر دیتیں. یقین نہیں آتا، بالاخر تم نے مجھے دیکھ ہی لیا باتیں کرتے، چٹر پٹر...... ایسی کوئی بچوں والی خوشی ہو رہی ہے جیسے کلاس میں فرسٹ آگئی ہوں!
جانتے ہو، مجھے لگتا تھا کہ مجھے پھر سے عشق والی محبّت نہیں ہو سکتی تھی. پھر خدا نے کہا پکچر ابھی باقی ہے دوست!
ویسے دیکھا جائے تو تم میں کچھ خاص نہیں اور نہ ہی مختلف لیکن پھر بھی تمہاری بنیادی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو ایک ساتھ چلنے والے میں ہونا چاہئے. سب سے اچھی بات، تم سننا، سمجھنا، اور سیکھنا چاہتے ہو. مجھے چاہتے ضرور ہو لیکن ساتھ میں میری ذات کے دائرے بھی گھومنا چاہتے ہو. یا شاید یہ سب میرا وہم ہو.
اس روز، جب میں تم سے الگ ہونے کا سوچا تو وہ میرا خوف تھا. مجھے کسی سے امیدیں لگانا پسند نہیں اور ایسا ہونے لگے تو میں دو چھوڑ چار قدم پیچھے چلی جاتی ہوں. مجھے یہ امید، اظہار، پیار اپنے اندر نہیں پالنا. میں وہ انسان ہوں جو ایک بار محبّت کے کعبے میں داخل ہوگئی تو طواف کرتے کرتے خود کی نفی کردے گی......لیکن جس روز دائرہ ختم، اس دن کیا ہوگا؟
تم مجھے دائرے میں تو لے آئے ہو لیکن میری ذات کی نفی نہیں ہونے دیتے. تم مجھے، مجھ سے آگاہ کر رہے ہو. میں نے ان پانچ دنوں میں یہ سیکھا کہ مجھے تم سے عشق والی محبّت ہے لیکن پاگل پن نہیں ہے. شاید اس لئے کہ تم کبھی کچھ نہ کہتے ہو، نہ مانگتے ہو. میں جیسی ہوں تمہاری ہوں.
تم بہت عجیب ہو لیکن اتنے قریب ہو کہ اب کچھ ہو نہیں سکتا!
میں دل کی غلام ہوں، اور میرا دل محبّت کی مریدی میں ہے. تم جبکہ دماغ کی بساط پہ چلتے ہو. شاید یہی وجہ تھی، اس دن تم نے مجھے روکا نہیں کیوںکہ دماغ نے کہا ہوگا دل کو وقت دو.....تھوڑا رک کر دیکھو..........اور تم رک گئے لیکن روکا نہیں!
میں وعدہ نہیں کرتی کے ہمیشہ کے لئے ہوں کیوںکہ اس کا دار و مدار تم پر ہے. بس یہ امید کرتی ہوں کہ ہمارے بیچ کبھی اتنا تکلیف دہ احساس اور فاصلہ نہ آئے.
تمہاری،
جھانسی کی رانی!
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
Jun 19, 2020
آٹھواں خط -- Eighth Letter
02-Apr-2020
12:45am
Dear Not-So-Phantom,
Thank you for suggesting that film. It was indeed, worth watching more than once. I can't believe, I missed it. Gotta be my crazy life, for sure.
Alma was not in love. She was more of territorial, I believe. She wanted to own Woodcock without his own free will. What love is love, if it has no free will for the lover. When in love, you let the love be.
Anyway, it was a beautiful movie with a bitter script.
The days when I feel distant from you, are the days when I am certainly lost. So lost that I could not even decide if my tea tasted good enough. The distance had nothing to do with you, or us. There are times in my life when I lose my balance without a reason. I lose my sleep, my sanity, my focus, and everything. I never understood why but I know in those something bad was happening, or about to happen. Just something that I did not know in time.
This time, I learnt that I detest the distance between us.
The distance where I could not bring myself to kiss you before goodnight. I absolutely hated myself for this. Although, I know that you slept like a baby with or without my kiss.
It is just my own way to be there, even when we are thousands of mile apart!
I love the silence of the nights but they are equally scary to me. There is no daylight to put everything out for the naked eye. I am writing this letter from the small garden that we have at my place, while everyone else has fallen asleep.
This whole lockdown has given my city a feeling of graveyard like. No horns, no street lights, no cars, no random neighborhood noise, nothing. Just pin drop silence.
All this makes my nights far more dreadful than I ever imagined. I wish you were here so I could feel the warmth of life next to me.
The whole world is going through horrible times but I have someone so dear to hold on to.
My hope to meet you someday, somewhere makes me see the light at the end of the tunnel. At the back of my mind, I have my fears peeking through but for now, I want to bask in this hope.
Tumhari,
Munatzir!
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
12:45am
Dear Not-So-Phantom,
Thank you for suggesting that film. It was indeed, worth watching more than once. I can't believe, I missed it. Gotta be my crazy life, for sure.
Alma was not in love. She was more of territorial, I believe. She wanted to own Woodcock without his own free will. What love is love, if it has no free will for the lover. When in love, you let the love be.
Anyway, it was a beautiful movie with a bitter script.
The days when I feel distant from you, are the days when I am certainly lost. So lost that I could not even decide if my tea tasted good enough. The distance had nothing to do with you, or us. There are times in my life when I lose my balance without a reason. I lose my sleep, my sanity, my focus, and everything. I never understood why but I know in those something bad was happening, or about to happen. Just something that I did not know in time.
This time, I learnt that I detest the distance between us.
The distance where I could not bring myself to kiss you before goodnight. I absolutely hated myself for this. Although, I know that you slept like a baby with or without my kiss.
It is just my own way to be there, even when we are thousands of mile apart!
I love the silence of the nights but they are equally scary to me. There is no daylight to put everything out for the naked eye. I am writing this letter from the small garden that we have at my place, while everyone else has fallen asleep.
This whole lockdown has given my city a feeling of graveyard like. No horns, no street lights, no cars, no random neighborhood noise, nothing. Just pin drop silence.
All this makes my nights far more dreadful than I ever imagined. I wish you were here so I could feel the warmth of life next to me.
The whole world is going through horrible times but I have someone so dear to hold on to.
My hope to meet you someday, somewhere makes me see the light at the end of the tunnel. At the back of my mind, I have my fears peeking through but for now, I want to bask in this hope.
Tumhari,
Munatzir!
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
Jun 18, 2020
ساتواں خط -- Seventh Letter
28-Mar-2020
1:15am
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
1:15am
ستلج کے منافقاں،
چناب کے عاشقاں بن جاؤ!
جانتے ہو جب تم صرف اپنی باتیں کرتے ہو تب دل کرتا ہے اڑ کر تم تک پہنچ جاؤں. بس پھر تمھیں سنتی رہوں اور تم پر نقش گندھتی رہوں.
لوگوں کو دن یا ہفتے گننے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنی پہلی ملاقات کے لئے مہینوں یا شاید سال کا انتظار کرنا پڑے.تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم مجھے اچھے نہیں لگو گے؟ آج تک جو اچھے بلکہ بہت اچھے لگے ہو، وہ دیکھ کر تو نہیں لگے. 26 فروری کو میں نے کہا تھا میں تمھیں خط لکھ ہی نہ دوں........اور آج دیکھو یہ میرا تم کو ساتواں خط ہے.
کہہ نہیں سکتی محبّت ہوگئی ہے لیکن کچھ اس سے ملتا جلتا ہے. میں جب رات کے آخری پہر میں باہرجا کر رات کا سناٹا سنتی ہوں، اور ٹھنڈی ہوا میں کھڑے ہو کر تم کو سوچتی ہوں تب لگتا ہے تم نے اپنی شال میرے کاندھے پی رکھ دی ہو.
کبھی مسجد میں فجر سنی ہے؟
تم اس وقت کے سناٹے کا سکون ہو!
عجیب کشش ہے تمہاری طبیعت میں. ایک ہی وقت میں خود سے اتنے مطمئن ہوتے ہو اور دوسرے ہی لمحے انجان کا خوف ہوتا ہے. سوچتی ہوں، تمھیں مجھ میں کیا اچھا لگا؟ تم میں بلا کا ٹھہراؤ ہے، جنگل جیسی گہری خاموشی ہے تمہارے لہجے میں.
ایک میں ہوں، شور مچاتی بارش سی.
رات کے دو بج رہے ہیں اور میں مدھم روشنی میں لکھ رہی ہوں ورنہ کوئی جاگ نہ جاۓ اور پوچھے کیوں جاگ رہی ہو؟ کیا کہوں گی .....یہ کہ میری نیند ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سو گئی ہے؟
کسے معلوم تھا میرے دل میں ابھی بھی عشق کی رمق باقی ہے. زندگی کی طرف لوٹنے کا راستہ مل گیا ہے. راستے میں رک کر تمہارے ساتھ سردی کی دھوپ میں بیٹھنا ہے. تم سے باتیں کرنی ہے. بارش میں بھیگنا ہے. پہاڑ چڑھ کر دور کہیں برف دیکھنی ہے. تمہاری جھوٹی چائے پینی ہے. بابا فرید کے مزار پہ تمہارا دیدار کرنا ہے...........ایک بار کرنا ہے بس یہ سب!
کم از کم ایک بار تاکہ مرتے وقت کہہ سکوں، زندگی اتنی بھی رائیگاں نہیں گزری.
تم سے دور،
تمہارے پاس،
تمہاری.
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
Jun 17, 2020
چھٹا خط -- Sixth Letter
24-Mar-2020
1:00 am
اے دلنشیں خواب،
اگر تم خواب نہیں تو پھر کیا ہو؟ روز یہی سوچ کر سوتی ہوں کہ اٹھوں گی تو سب ختم ہو چکا ہوگا.....جیسے کوئی اچھا خواب. جیسے تم.
کیا معلوم کل دنیا کہاں ہوگی. ہم تم کہاں ہوں گے!
نومبر تک حالات کی کوئی خبر نہیں. سچ تو یہ ہے کہ مجھے مارچ بھی بھاری لگ رہا ہے. نہ جانے کیوں وقت نے اپنے پر کاٹ دئیے ہیں. میں دعا کروں گی، ہم اچھے وقتوں میں ملیں. تمھیں کوئی خط پڑھ کر سناؤں، یا کوئی غزل گاؤں. اگر تمھیں کبھی مجھے یونہی خوش کرنا ہو تو کیا کرو گے؟
میرا ماننا ہے خدا زندگی میں ہر انسان سے کوئی نہ کوئی کہانی جوڑ رکھتا ہے. کوئی ہمیں محبّت کا درس دیتا ہے، تو کوئی ہمیں لڑنا سکھا دیتا ہے. تم معلوم نہیں کیا مقصد لے کر آئے ہو. شاید یہ بتانے کہ میرا دل ابھی بھی دھڑکتا ہے، گال سرخ ہوجاتے ہیں جب تم میرے چاؤ اٹھاتے ہو.
تم جو بھی ہو، بہت اچھے ہو!
الله جانے یہ خطوط تمھیں کب ملیں گے. میں نے سوچ لیا ہے، میں لکھتی رہوں گی اور تمہارے لئے جمع کرتی جاؤں گی. ایک ساتھ بہت سارے خط پڑھ لینا.
ٹھیک ؟
لوگوں کو کھونے کا خوف ہوتا ہے. مجھے تمھیں پانے کا خوف ہے. تم سمندر کی مانند ہو. تم اپنی جگہ سے نہیں ہلو گے لیکن میں جھیل، بلکہ دریا جیسی ہوں. آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہی ہوں اور پھر ایک دن تم میں شامل ہوجاؤں گی.
سمندر کو شاید کوئی فرق نہ پڑے لیکن دریا گم جاۓ گا.
سنو، مجھے کبھی لال پھول مت دینا. گلابی، سفید، یا پھر کوئی بھی اور کھلتا رنگ. پوچھو کیوں؟ کیوںکہ جب ہم دونوں روایتی نہیں تو پھول کیوں ہو.
مجھے یہ خط یہیں ختم کرنا ہوگا.
ایک دن تمہارے چہرے پہ اپنی انگلیوں سے تمہارا ہی چہرہ تراشوں گی.
تب تک اور جب تک تم چاہو،
تمہاری.
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
Jun 16, 2020
پانچواں خط -- Fifth Letter
17-Mar-2020
11:30pm
جان من،
کیسے ہو؟ کبھی کبھی دل تم سے اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ تم جان ہی ہو اور کبھی اتنا خالی جیسے تم ایک خواب ہو اور میں جاگ رہی ہوں. ویسے تو میں تمھیں خط لکھنے تب ہی بیٹھتی ہوں جب دنیا کے جھمیلے ختم ہو چکے ہوتے ہیں. آج لیکن زیادہ جھمیلے تھے، پھر بھی ضروری ہے.
تم ہر دو دن بعد مجھے یہ کیوں جتاتے ہو کہ تم نے کبھی شادی نہیں کرنی ہے. مجھے بھی گھونگھٹ کاڑھنے کا شوق نہیں ہے. وہ الگ بات ہے اگر تم سے دل ملنے لگے. میں نے اپنی زندگی کے سارے خواب ایک عشق میں دیکھ لئے تھے اورپھر ان ہی خوابوں کو سمیٹ کر دفنا دیا.................اور آپ جناب کو لگتا ہے میں آپ کے ساتھ آپ کی اجازت کے بغیر خواب دیکھوں گی؟
ہمارا رشتہ تو ویسے بھی ابھی بھرم، وہم، اور فریب جیسا ہے. فاصلہ ہی اتنا ہے!
میں بہت مختلف تو نہیں لیکن میرے خدا نے مجھے اکیلے جینے کا ہنر سکھا دیا ہے. تم اکثر جب اپنی انسیت کا اظہار کرتے ہو تو دل کہتا ہے یقین کرلو لیکن دماغ کا حساب کتاب ختم نہیں ہوتا ہے.
میرے تمہارے، ہمارے بہت چھوٹے چھوٹے خواب ہیں.
تمھیں سردی کی دھوپ میں، میری گود چاہئے اور مجھے ستاروں کے سائے میں تمہارا شانہ............ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جہاں تک ہو.....ورنہ تو ہم دونوں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں.
تمہاری،
جب تک تم چاہو!
Note: These are anonymous love letters shared with me to be published publicly. The sender was able to send the first four letters to her beloved but afterward, due to lockdown, it became impossible. Later, the writer of these letters chose to part her way.
May 14, 2020
The Burden of a Heartbreak
I was 8 or 9 years old when my mother's best
friend was visiting us from a different city. Since she was
visiting us after some time, my mother decided to give them gifts before they
leave which included my new, untouched dress to her friend’s daughter.
It is obvious that my mother managed to source me another
new dress the very next day, but it couldn’t make me as happy as expected. This
memory is so vivid as if happened yesterday.
You know, why?
Because this was the first time I experienced a heartbreak through a loss of something I loved.
I was unable to enjoy my new dress despite as a child, I
loved new clothes.
A heartbreak disables the senses to feel the fullness of
emotion. Any emotion. Be it your happiness, sadness, or even anger. Your body
refuses to experience the momentary pinnacle of that feeling, leaving you
indifferent towards the severity of that event.
When my mother pestered me to let her give away that dress,
I remember crying and putting up a fight because I had energy in me.
Standing today, in front of the mirror, in my mid-30s, if
you ask me, I possess the same energy to fight back after a heartbreak. My
answer will be a straight no!
We all have heard that life is not a bed of roses, but
that’s a half-cooked piece of information. They forgot to tell us the type of
thorns we will have to face and how long they going to hurt. Finding all of
this on our own can not only be exhausting but leave some of us with emptiness.
In my case, it is numbness.
Some of us start fighting our battles from early childhood
such as taking the burden of handling younger siblings or competing with our
cousins to secure better marks in our studies. Many of us went through
organized bullying at school for our looks or with our extended families for
different socio-economic reasons.
All in all, these are the fights that we start fighting
internally while externally we find coping mechanisms. It can be in the shape
of a company of friends, getting lost in books, or just picking a useless fight
with everyone at home. This mechanism does not last very long because it does
not heal us.
We lose a little bit of us as we grow up and start getting
drained. It is not necessary that every time we must give back to the world, to
the people around us. This is something we all need to learn early in life that
giving away too many emotions can leave you empty and callous.
This whole process includes several heartbreaks, but we were
young. We picked up our pieces and became whole again. But not for very long!
Over the years, our emotional well being gets compromised on
our way to be a little more loved. Instead, most of us got a little more hurt.
As much as hope and love is what keeps the world going, we cannot deny the
strength we invest to keep it going.
Every time I have loved and lost, I realized how stronger my
heart became. So strong that now it is indifferent to the pain of loss. Life
has made us struggled and fought so much already that moving forward, I want
one less battle to fight.
We owe this to our broken heart and tired soul!
Mar 2, 2020
"آپ اور میں"
آپ کمال کرتے ہیں ہمیں آزمانے میں
ہم ہُنَر رکھتے ہیں سَر جھکانے میں
پابندیِ وقت سے، ہر وقت بُھلاتے رہے
جان جاتی رہی یوں، دِل جلانے میں
زندگی امتحان ہے گَر، اُستاد ہےعشق
مُنتظرِ سراب رکھا، دل کے تہہ خانے میں
دنیائے انقلاب کا شوق اب قلب میں نہیں
ہم سوچ چھوڑ آئے کسی مے خانے میں
وہ عادی قرینے کا، یہ دل فگار اس کا
سو گُما دیا خود کو اُس کے آشیانے میں
دل مضطر کو سمجھ بڑی دیر سے آئی
نہیں آتے یوں کسی اجنبی کے بہکانے میں
ہم ہُنَر رکھتے ہیں سَر جھکانے میں
پابندیِ وقت سے، ہر وقت بُھلاتے رہے
جان جاتی رہی یوں، دِل جلانے میں
زندگی امتحان ہے گَر، اُستاد ہےعشق
مُنتظرِ سراب رکھا، دل کے تہہ خانے میں
دنیائے انقلاب کا شوق اب قلب میں نہیں
ہم سوچ چھوڑ آئے کسی مے خانے میں
وہ عادی قرینے کا، یہ دل فگار اس کا
سو گُما دیا خود کو اُس کے آشیانے میں
دل مضطر کو سمجھ بڑی دیر سے آئی
نہیں آتے یوں کسی اجنبی کے بہکانے میں
#بانوسازی
٢٨ اگست، ٢٠١٩
رات ٢:٢٥
Jan 7, 2020
تصویر سے باتیں
میں نے جب اس کو پہلی بار دیکھا تویوں لگا دو آنکھیں چیرتی ہوئی بس مجھے تک رہی ہیں. اتنی تکتی آنکھیں تھیں کہ میں من ہی من مسکرا دیتی تھی.
اس کے پس منظر میں پرانے لاہور کی دیوار کی جھلک تھی. وہی لاہور جس سے مجھے کچھ طبعی سا لگاؤ ہے، جس کی لال اینٹوں میں سرمئی شاموں کا عشق اوراور چاندنی راتوں کا لمس دفن ہے. مجھے لگا میرا دل ان آنکھوں میں نہیں، لاہور میں اٹکا ہے.
غلط فہمی تھی!
دل پس منظر میں نہیں، منظر میں اٹک گیا تھا.
#بانوسازی
#بانوسازی
Jan 15, 2019
بےخوابی
ایک بار پھر نیند سے میری ناراضگی ہوگئی ہے. کتنے دن اور کتنی راتیں گزر جاتی ہیں اور میں خود کو خلا میں محسوس کرتی ہوں. ایسی خلا جس میں نیند نام کا سیارہ نہیں ہے.
قصور نیند کا بھی نہیں ہے. اس بیچاری کو تمہاری بانہوں میں اترنے کی عادت تھی، صرف اس سینے پر سر جھکا کر آنکھیں موندنے کی اجازت تھی. اب احساس تو ہے مگر وجود نہیں تو ہم دونوں اکثر لڑتے ہیں. کبھی نیند تھک کر میرے پاس سوجاتی ہے یا پھر اڑ کر تمہارے سرہانے رکھے ٹیبل لیمپ پر جا بیٹھتی ہے.
مجھے یقین ہے، میری نیند دبے قدموں سے تمہارے پاس آتی ہے اور تمہارے گال سے لگی داڑھی سہلا کر تمھیں جگا دیتی ہے بلکل ویسے جیسے پچھلی زندگی میں ایک رات، میں چوروں کی طرح تمہارے پاس آئ تھی اور خود کو لٹا کر صبح کا سورج دیکھا تھا. اگلی زندگی کے اندھیرے اس اجالے میں مجھے دکھائی ہی نہ دئیے.
میں نے نیند سے کہہ رکھا ہے، تمھارے گھر کا طواف کرلیا کرے، میرے لمس کو زندہ کردیا کرے. اس دروازے پر پھر سے ہاتھ رکھ دے جو تمھارے دفتر سے واپس آنے پر کھلتا تھا اور ساتھ ہی میری مسکراہٹ بھی کھلتی تھی. صبح کی چائے سے نکلتی بھاپ پر میری شکل بنا چھوڑے جو بس تم دیکھو. میری خوشیوں کا سورج تمہاری سفید شرٹ پر چمکا دے. اس آئینے کو چوم لے جس میں تم مجھے دیکھا کرتے تھے. تمھارے چھوڑے میٹھے کی پلیٹ کو جھوٹا کردے جیسے میں کرتی تھی تمھارے حصّے کا چھین کر.
سب سے آخر میں بستر کی سلوٹ پر میری حرارت بچھا دے تاکہ تمہاری بےچینیاں ان میں دفن ہوجائیں.
میری فکر مت کرنا. میری نیند نے تمھارے لکھے خطوں کو سینے سے لگا لیا ہے. تم نہ سہی، تمہاری انگلیوں سے نکلی روشنائی سہی !
#بانوسازی
١٥ جنوری
رات ٣ بج کر ٢ منٹ
Aug 15, 2018
Baat say Baat - V
تم: "تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے پڑ رہے ہیں."
میں: "ہاں محبّت نام کے دئیے جلائے تھے. ان کے بجھ جانے کے نشان ہیں."
#بانوسازی
Dec 28, 2016
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی
سردیوں کی شام ویسے بھی مہرکو بےحد پسند تھی. ایسی ہی سردی کی کوئی شام تھی جب "اس" کی ماں نے مہر کے نام پر سرد مہری دکھائی تھی اور وہ چنگاریوں کو راکھ میں تبدیل کر کے وہاں سے اٹھ گیا تھا.
خشک، سرد ہوا جب مہر کے چہرے کو چھوتیں تو اسکو یقین ہوجاتا کہ وجود میں تو گرمی باقی ہے لیکن احساس ٹھنڈے پڑ چکے ہیں. سرمئی شام آہستہ آہستہ تمام روشنی کو اپنی لپیٹ میں لئے رات کی طرف بڑھ رہی تھی اورمہر یادوں کے غار میں جہاں سے واپسی کا راستہ وہ ہمیشہ بھول جاتی تھی.
برابر میں بیٹھی سادیہ نے پھیکی سی مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا اورسمجھ گئی مہرکو راستہ دکھانے کا وقت آگیا ہے. سادیہ نے آواز اونچی کر کے اس کا دھیان اپنی طرف کیا اور کہا،
"میرا خیال ہے میں اس کو بھول چکی ہوں."
مہر نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور کہا، "بھول چکی ہوتی تو یوں یاد نہ ہوتا"
"کیا مطلب؟"
"محبّت ایک دائرہ ہے. تم دائرے سے کبھی نہیں نکل سکتی بس دوسرے سرے پر آکر اس مغالطے میں مت رہو کہ بھول گئی ہو."
"ہو سکتا ہو میں نے دائرہ توڑ دیا ہو؟"
"محبّت نامکمّل ہو تو پہلے درد دیتی ہے، پھر صبر بن کر ذات بن جاتی ہے. وہ دائرہ تمہاری ذات ہے جس کے ساتھ رہنا سیکھ لیتے ہیں."
"پھر تم صبرکیوں نہیں کرلیتی مہر؟"
"میرا درد جو ختم نہیں ہوتا."
بانوسازی
دسمبر ٢٨، ٢٠١٦
رات ١:١٥
May 28, 2016
قیامت-- Qayam'at
اک روز میری حیات میں ایسا ہے
جب ایمان بھی تیرے حوالے کیا
سرکار کے سب کچھ نام کیا
میں ان راستوں سے اب گزروں تو
دھوپ کی چمک چلّاتی ہے
تیرا ہمسفر کہاں ہے؟
درخت جھک کر ٹٹولتے ہیں،
میرا سایا نہیں ملتا.....
ہوا ٹھہر کر پوچھتی ہے،
آج تیرا سائبان نہیں دیکھتا؟
اس اک روز کے جب
تیرے سینے پر سانس جا ٹھہری تھی
گردن کے خم پر زندگی کی حرارت تھی
تب میری آنکھوں پر
تیرے ہونٹوں نے مہر لگا دی تھی
اس روز کا سورج ٹھنڈا تھا
پھر بھی قیامت جاری تھی!
بانوسازی
٢٣ جنوری، ٢٠١٠
Nov 17, 2015
روشن کاغذ -- Roshan Kaghaz
پرانے وقتوں میں لوگ خط وغیرہ سنبھال کر رکھتے تھے. کبھی صندوقوں میں تو کبھی تکیے کے اندر، کتابوں کے بیچ یا پھر تہہ لگے کپڑوں کے درمیان سینت سینت کر.
ایسی تحریروں کا گمنامی میں رہنا ہی ان کے مالکان کے لئے عافیت تھا. ہر کاغذ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا. کچھ کاغذات کے جملہ حقوق محفوظ ہوتے ہیں. یہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو اکیلے میں پڑھو تو بنا بات رلا دیں یا بے وجہ ہنسا دیں.
صرف جائیدادیں نسل در نسل نہیں ہوتی، یہ خطوط بھی ہوتے ہیں. خطوط جن کی ملکیت میں حوالے کر دئے جاتے ہیں وہ یا تو سمجھتے نہیں ہیں یا سمجھ کر ضایع کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں.
میرے پاس بھی ہماری ایسی کچھ تحریریں ہیں !
ہزاروں، سینکڑوں تو نہیں لیکن اتنی ہیں جنہیں کوئی انگلیوں پر نہیں گن سکتا.
خیر گنّنا کیسا؟ کوئی کمائی تھوڑی نا ہے.
بس کاغذ پر روشن وقت ہے.
آٹھ سال کا وقت!
کچھ خط جو میرے ذھن میں ہی لکھے رہ گئے اور کچھ جو تم تک پہنچ گئے. اکیسویں صدی کہ لوگ ہیں ہم تو ہمارے الفاظ بھی جدید کاغذوں پر محفوظ ہیں.
عرصہ ہوا تھا قلم اٹھا کر کاغذ کو روشن کئے مگر یاد ہے نا ایک لکھا تھا تم کو چند سال پہلے؟
شاید نہ یاد ہو.
میں یاد نہیں تو میرا خط کیسے؟
یہ الفاظ بھی نا ....... وقت پرتو دھوکہ دے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد اس دھوکے کی سزا کاٹتے ہیں. میں، تم، اور وقت تو گزر گئے یہ لیکن وہیں کے وہیں ثبت ہو کر رہ گئے. انہیں ابھی بھی شبہہ سا ہے یا تم پلٹو گے یا وقت.
لیکن یہ کیسے ممکن ہو کیوںکہ کچھ تحریروں کو صرف پڑھنا تھا، ان پر ایمان نہیں لانا تھا.
کتنی بار سوچا یہ سارے خطوط اور انکی نشانیاں مٹا دوں. عجیب بے جان سا بوجھ ہے لیکن ہر بار کوئی اچھی یاد سوچ کر بہانہ بنا کر رکھ لیا کہ یوں مسکرانے کی کوئی وجہ تو باقی ہے.
میں اکثر وہ خطوط کھول کر پڑھنے لگتی ہوں اور اس وقت سے گزرتی ہوں. آج بھی ایک خط کھول لیا اور بےدھیانی میں تمہارےبنے خواب پڑھنے لگی.
اب کئی روز تک نیند ان کاغذوں میں جاگتی رہے گی.
بانو سازی
نومبر ١٧، ٢٠١٥
رات ١٢:٤٣
Oct 3, 2015
باندی
جب دلیل نہیں، دل ہوتا ہے، تا عمر پھر غلام ہوتا ہے،
اداس رہنے کا بہانہ ہوتا ہے .
بانو سازی
ستمبر ٢٩، ٢٠١٥
رات ٨: ٣٢