Jan 13, 2017

میری آواز کو قفل ڈال، سچ کی گونج لے جا!

 Originally published here HumSub
بچپن میں جب کچھ غلط کرتے ہیں  ہیں تو گھر کے بڑے بزرگ ڈانٹ مار کر سمجھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ سچ بولو اور اچھا کرو لیکن دستور وطن کچھ اور ٹہرا .سچ بولنے کو خاموشی کا سبق دیا جاتا ہے  اور حق کی آواز اٹھانے والوں کو ہی اٹھا لیا جاتا ہے.
وطن عزیز میں مثالیں تو بہت ہیں جب جب ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ ہم نے انگریزوں سے تو آزادی حاصل کرلی، لیکن خود سے آزاد نہ ہو سکے.
سلمان حیدر، احمد رضا، احمد وقاص گورایا اور عاصم سعید وہ چند نام ہیں جو ٤ جنوری سے ٧ جنوری کے بیچ پاکستان کے مختلف علاقوں سے غائب کردیۓ گئے. ٢٠١٦ تک تو ہم بس سنتے تھے کہ گمشدہ یا تو بلوچ ہوتے ہیں یا پھر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان لیکن ٢٠١٧ نے تو مجھ جیسی عام  انسان کی آنکھیں ہی کھول دی ہیں اورساتھ ہی عقل نے زبان پر تالہ ڈالنے کا تقاضا کردیا.
کیا انسانوں کی گمشدگی  ان کی اٹھائی آوازوں کو بھی گم کردے گی؟ یا پھر یہ اشارہ ہے اس خاموشی کا جو خوف کی صورت پیدا ہوتی ہے.
لے جا،
میری زبان سے
 نکلے الفاظ
لے جا


میرے ذہن پہ
لکھےخیال 
لے جا 

میری جنگ کے
ہتھیار لے جا
 
کوئی چارہ گر 
رہ نہ جائے
میرے یار
میرے احباب 
لے جا 

میری سوچ کا 
قاتل بن کر
میری نظموں کا 
مضمون 
لے جا

جنوں کو ضرب 
لگانے والے
زمانے بھر سے
مرہم لے جا 

میری آواز کو
قفل ڈال 
اور
سچ کی گونج 
لے جا !


Jan 2, 2017

2016 – دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت سے لتھڑا سال

Originally published here HumSub

نیا سال مبارک ہو آپکو ! 

لیکن کس بات کی مبارکباد دوں یہ سمجھ نہیں آرہا کیوں کہ ٢٠١٦ میں اتنے ظلم ہوئے ، اتنے زخم کاری ہوئے جن کا درد اور یاد دونوں میری مبارکباد سے کم نہیں ھونگے . ہم دنیا بھر میں اک دوسرے کو فیشن کے طور پر ٣١ دسمبر کی رات بہت گرمجوشی اور ہنستے مسکراتے نئے سال کی دعا دیتے ہیں جب کے خود کو بھی اِس سچائی کا علم ہوتا ہے کے کیلنڈر کی تاریخ کے علاوہ کچھ نہیں بدلنا  . 
 زندگی کے لیے صرف حالات و واقعات نئے ہوتے ہیں ، جن کا تاریخ سے کوئی لین  دین نہیں ہے .
 
ایسی ہی کئی زندگیاں ہم نے ٢٠١٦ میں پاکستان کے قبرستانوں  کے حوالے کردی . 
ISPR کے مطابق ٢٠١٦  میں دہشت گردی کے واقعات میں بہتر فیصد کمی آئی ہے ، جس میں آپْریشَن ضرب ازب کا مرکزی کردار رہا . دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کونفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈز کے مطابق یہ نمبر صرف تیس فیصد  ہے .

 اب یہ تو خدا جانے کس کیریاضی کمزور ہے . 

 حکومت اور حفاظتی ادارے یقیناً  دن رات کام کر رہے ہیں لیکن کیا پوری نیک نیتی سے کر رہے ہیں ؟ ہم نے شاید دہشت گردی کے واقعات  میں تو 72% کمی دیکھ لی ، لیکن جوواقعات  ٢٠١٦ میں پاکستان میں ہوئے اس کے نقصان کی نوعیت اتنی شدید ہے کہ اس 
 کا ازالہ ممکن نہیں . 

١٣ جنوری کو کوئٹہ کے اک گنجان آباد  علاقے میں پولیو ویکسینیشن سینٹر پر حملہ ہوا جس میں شہید ہونے والی اکثریت پولیس والوں کی تھی . یہ پولیس کی وردی پہنے وہ محافظ تھے جو کوئٹہ جیسے شہر میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر تعینات تھے . افسوس ، ہمارے محافظوں کی کوئی حفاظت نہ  کر سکا اور ایک ہی  جھٹکے میں صرف ١٢ پولیس والے شہید نہیں بلکہ ١٢ خاندان اجڑ گئے .

آرمی پبلک اسکول  کے حادثے کا زخم ابھی صرف ١٣ ماہ پرانا ہی تھا ، جب چارسدہ  میں  باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا . پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑ گئی خدانخواستہ  ہم دوبارہ APS  نہ دیکھیں . 

عام خیال ہے كے پنجاب میں دہشت گردی کا تناسب کم ہے ، لیکن یہ بس خیال ہی ہے . ٢٧ مارچ کو لاہور میں  ایک خودکش بمبار ٧٦ لوگوں پر بھاری پڑ گیا. . اس شام گلشن پارْک میں ان گنت  والدین کا گلشن ، گلشن پارْک میں اجڑ گیا . فاطمہ تو حسین کو اک بار روئی تھیں ، میرے ملک میں تو روز کتنی فاطمہ اپنے حسین کو روتی ہیں.
 
بلوچستان كے بارے میں حسرت ہی رہی کے کچھ اچھی خبر آئے اور٢٠١٦ تو شاید 
اِس صوبے کے لیے بدترین سالوں میں سے ایک تھا  . کوئٹہ میں ٨ اگست کو سول اسپتال میں ہونے والے دھماکے نے دس بیس یا تیس نہیں ، بلکہ ستّر سے زائد وکلا کو ایک دھماکے کی نظر کردیا ہے. صوبے میں انصاف کی کمی تو پہلے ہی تھی ، اب انصاف کے لیے لڑنے والے بھی نہ رہے.

دہشت گردی میں ہونے والے حملوں کی عمومی  طور پر ذمہ داری تحریک طالبان یا اس سے   جڑی جماعتیں  لیتی ہیں. تب ہم جیسے عام انسان سوچتے ہیں کہ ضرب ازب کی ضرب طالبان کو زیادہ لگی ہے یا ہمیں؟ 

 سوال پیدا ہوتا ہے ، کیا ساری  ذمہ داری اک آپْریشَن کی ہے ؟ نیشنل ایکشن پلان کا کیا کردار رہا ؟

 کافی بدکردار رہا! 

طالبان اورتکفیریت  اک سوچ ہے اور اِس سوچ کو حکومت اوراداروں  نے معصوموں کے خون سے سینچا ہے . پچھلے کئی سالوں  سے پاکستان  میں بار بار  یہ آواز اُٹھائی جاتی ہے کے اک سسٹم کے تحت شعیہ فرقے پر حملے ہوتے ہیں اور جو آواز اٹھائے اسکی آواز بھی دبا جاتی ہے . 

٧ مئی ٢٠١٦ کو خرم ذكی کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کردی گئی . خرم اک جانے مانے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی تھے . قصور صرف اتنا تھا کے آپ طالبان اور ان کے  سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کے خلاف سرگرم تھے اورشیعوں  کے خون کا حساب مانگتے تھے.

 خرم ذكی تو پِھر آواز اٹھاتے تھے ، لیکن اِس پاك سر زمین پر تو قوالی کی آواز بھی نہیں برداشت ہوتی . یہی وجہ تھی جو دنیا بھر میں سنے جانے والے امجد صابری کو "لشکر جھنگوی" نےدن دہاڑے قتل کر دیا اور ہماری پولیس کافی عرصے تک اک پارٹی سےدوسری  پارٹی کوقاتل ٹھہراتی  رہی . 

جب کچھ نہیں بنتا تو طالبان مزاروں اور درگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور اِس بار  بلوچستان کے پہاڑوں  پر چھپے شاہ نورانی کے چاہنے والوں کے خون سے مزار کو دھو دیا . 
ان سب واقعات کا نتیجہ ؟ 

اکتوبر کے آخری عشرے میں اک شام اسلام آباد کا علاقہ  آبپارہ،  کالعدم جماعت ASWJ کا شعیہ کافر شعیہ کافر کے نعروں سے گونج اٹھا .
 
وفاقی درالحکومت  میں تو حکومت اور حفاظتی اداروںکی تو چلی نہیں ، تو باقی ملک کا تو اللہ ہی حافظ ہے .
 
یہ تھا میرے ملک کا ٢٠١٦ . 

اگر٢٠١٧ میں کچھ مختلف ہوا  ، بہتر ہوا  تو پِھر ٢٠١٨ کی مبارکباد ضرور ادھار رہی.