Showing posts with label Karachi. Show all posts
Showing posts with label Karachi. Show all posts

Aug 31, 2019

بارش، بجلی، اور غریب

Originally published here HumSub

پچھلے کچھ سالوں میں موسم کی تبدیلی کے باعث، کراچی میں بارش کا آنا جانا بس اتنا ہی تھا، جتنا ہمارے وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں ہے. 
دوسرے صوبے کے یار دوست کہتے تھے، تم کراچی والوں کے ہاں بارش نہیں مذاق ہوتا ہے. لاہور کی ایک مشہور ماڈل نے بھی سال رواں کی لاہوری بارش کے بعد ہمیں کہا کہ کراچی میں اتنی بارش نہیں ہوتی جتنی ہم اپنی سبزی پر چھڑکاؤ کرلیتے ہیں. 

قدرت کو یہ مزاق پسند نہ آیا!

موجودہ ہفتے میں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال نے آپس میں ہی صلح مشورہ کر کے کراچی شہر کو ٥٠ملی میٹر سے اوپر کی بارش دے ڈالی. 

ہماری والدہ ماجدہ کو آدھا بنگالی ہونے کی وجہ سے قدرت کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کرخدا سے دعا مانگی کہ دل کھول کر بادل برسیں.
خدا نے میری ماں کی اور کوئی دعا  سنی ہو یا نہ سنی ہو، یہ والی لمحوں میں قبول کرلی.

شروع شروع میں تو دھلے دھلے درخت، سرمئی چادر لپیٹے آسمان بلکل اسلام آباد کا سا سماں پیش کر رہا تھا. ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارا کراچی ہے!
ہمیں یقین دلانے کی ذمہ داری ذاتی طور پر کے-الیکٹرک نے لے لی اور ہم جو پنکھے کے نیچے آرام فرما تھے، بجلی والوں کو ان کے گھر والوں کی یاد دلاتے ہوئے اٹھ بیٹھے. 

صبح کے ١٠ بجے تک یہ طے ہو چکا تھا کے آج برتن دھونے سے لے کر کھانا پکانے تک تمام کام گھر والوں کو ہی کرنے پڑیں گے. 
اماں حضور کو اپنی دعا کے غلط اثرات بجلی اور گھریلو مدد کی صورت میں دکھنا شروع ہوگئے تھے. چار و ناچار انہوں نے تمام کام منصفانہ طریقے سے بانٹ کر بجلی بحال ہونے کا انتظار شروع کردیا. 

کے-الیکٹرک نے صدیوں پرانی مہارت دکھاتے ہوئے اپنی ہیلپ لائن بند کردی اور صارفین پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سوچ لیں بجلی کب اپنا منہ دکھاے گی. خدا جھوٹ نہ بلائے، کمبخت منہ موڑ کر ہی بیٹھی رہی. قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ہمارا جنریٹر خراب تھا اور دماغ بھی کیوںکہ کسی کو بنوانے کا خیال نہیں تھا. 
بہرحال ہم نے کچھ نہ کچھ انتظام کر کہ دن اور رات کاٹ لئے.

مولا کا کرم کہہ لیں کہ ہم اس طبقے سے ہیں جہاں تو نہ گھر کے اندر باڑھ آئی نہ چھت گری، اور نہ ہی کوئی بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا. 

اب تک کی خبروں کے مطابق، طوفانی بارشوں کے باعث کراچی میں ١٤ اموات ہو چکی ہیں، جس میں ٦ بچے بھی شامل ہیں. بچوں کو کیا خبر کے ایسی طوفانی بارش غربت کا مذاق اڑانے آتی ہے، اور ساتھ انھیں بھی لے اڑتی ہے. 

روز کی دیہاڑی والے گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں. کچی آبادی والے اپنے تمام برتن ٹپکتی ہوئی چھتوں سے لگا دیتے ہیں. بیمار کی چارپائی کے پاس کوئی گھر والا پنکھا جھلتا ہے اور باقی کے گھر والے بارش سے بنتی لہروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں لیکن پھر روکتے ہیں.

لیکن ان سب سے بھی جو بدتر ہیں، وہ ہیں بے گھر خاندان!

چند ہفتے پہلے ہی تقریباً ہزاروں کے قریب خاندان کوسپریم کورٹ کے احکام پر  بے-گھر کیا گیا تاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا علاقہ خالی ہو سکے. کورٹ کے مطابق گھروں کو ١٥ دن میں مسمار کردیا جائے جب کہ ان کی متبادل رہائش کا انتظام ایک سال میں کیا جائے. کوئی اداروں سے پوچھے یہ خاندان ایک سال تک ہوا میں معلق رہیں گے یا آپ اپنے دروازے ان پر کھول دیںگے؟ 

میرے شہر کی معیشت اور بلدیاتی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم بارش کی دعا مانگیں. ہمیں ابر کے برسنے سے زیادہ اس کے لئے ترسنے میں فائدہ ہے. سورج ظالم تو ہے لیکن عزت ڈھانک کر رکھتا ہے. کھلے آسمان تلے بھیگنے کا یا کرنٹ سے مرنے کا خوف بھی نہیں رہتا. روز کی کمائی گھر آجاتی ہے اور بچے بھی گلی میں کھل کود کر واپس لوٹ جاتے ہیں. 

خدا کی رحمت، غریب کے لئے زحمت ہی ہوتی ہے اور یہ بات مجھ یا آپ جیسے بھرے پیٹ اور پکّی چھت والوں کے سمجھ میں نہیں آئے گی!
    

Dec 26, 2018

علی رضا عابدی: زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے

Originally published here HumSub

زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے 
سر قلم کروا کر آزادی دفن ہوتی ہے 

آج ٢٥ دسمبر ہے جب دنیا بھر میں حضرت عیسی کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے، جنہیں آج سے سینکڑوں صدیوں پہلے رومن سلطنت نے صلیب پر گاڑھ کر قتل کردیا تھا. وجہ؟ خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کا پرچار تھا. سرکار نے بہت روکنا چاہا لیکن آپ ابن آدم، پیغمبر دین، آپ نے تبلیغ جاری رکھی جو بعد از حضرت عیسی، عیسایت مذہب میں تبدیل ہوئی. 

ایک بات تو اٹل ہے شب و روز کی طرح کے سچائی کے پیغام کی قیمت عمومی طور پر جان دے کر ہی ادا ہوتی ہے، اور صدی بھلے پہلی ہو یا اکیسویں، سرکار کا وقار بلند رہتا ہے، خون سے تر رہتا ہے.

علی رضا عابدی،عمر ٤٦ سال،سابق ممبر نیشنل اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ ، شہر کراچی میں اپنے گھر کے سامنے سر اور گردن پر گولی لگنے سے جابحق!
آپ چاہیں تو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی طرح انہیں شہید کہہ سکتے ہیں، لیکن صرف اتنا بتا دیجیے گا کہ کیا آپ اپنے گھر سے شہید ہونے کے لئے نکلتے  ہیں؟
اگر نہیں تو قتل اور شہادت میں فرق جان کر جیو.

کراچی میں رہنے والے تقریباً ہر انسان کو معلوم تھا کہ علی رضا عابدی کون ہیں. کوئی ان کو علی بھائی کہتا تو کوئی عابدی بھائی اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ رشتےدار تھے، بلکہ اس لئے کہ جی دار تھے. ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد، علی بھائی نے باقی تمام کارکنوں کی طرح MQM لندن کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا، بلکہ وقتاً فوقتاً متحد ہونے کی بات کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بنتے. یہ آدمی بلا خوف و خطرکراچی کے نوجوانوں کہ ساتھ بیٹھا پایا جاتا تھا جہاں عقل اور منطق دونوں مہمان ہوا کرتے تھے. کسے خبر تھی کہ اس انسان دوست آدمی کو اسی کے گھر کے آگے ٧ گولیوں سے چھلنی کردیا جاۓ گا. 

دسمبر بڑا سرد اور ظالم مہینہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں!
سقوط ڈھاکہ ہو یا بی بی صاحبہ کی شہادت، آرمی پبلک کا معصوم خون ہو یا علی رضا عابدی کا جوان قتل. یہ مہینہ اپنے مزاج کی طرح ان سب لوگوں کو ٹھنڈا کرگیا.

آپ کو لوگ علی رضا عابدی کی تعریفیں کرتے ملیں گے، جب کہ ان میں ایک بہت بڑی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ آج مرحوم قرار پاۓ. وہ برائی تھی زبان درازی کی !
علی بھائی کو خدا کا خوف تو تھا، لیکن مملکت خداداد کا خوف نہیں تھا. کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کردی، تو کبھی NAB والوں کی دھججیاں اڑا دیں. حد تو حد، نومولود حکومت پر بھی سوال اٹھا دئے. کچھ نہیں تو عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ کرلیتے تھے. کیا خبر تھی کہ زبان درازی کے بدلے میں ٧ گولیاں جسم پر میڈل کی طرح سجا دی جائیں گی اور کہا جاۓ گا جو کرو اب منکر نکیر سے زبان درازی!

آج قائد اعظم کی بھی سالگرہ ہے. وہ قائد جنہوں نے یہ ملک دیا تاکہ ہم آزاد،اور  شاد و آباد رہ سکیں. بس قائد بتانا بھول گئے کہ آزادی کے زمرے میں تمھارے خیالات اور الفاظ کی آزادی نہیں آتی، تنقید کی اجازت نہیں آتی، کیوںکہ پھر زندگی کی ضمانت نہیں رہتی. 

علی رضا عابدی، کراچی کا بیٹا، کل لحد میں اتر کر زبان درازی کی قیمت ادا کرے گا. آپ سب سے گزارش ہے اپنی زبان بندی کر کے جنازے میں شرکت کریں. شکریہ!

Jul 27, 2016

کشمیر کو رونے والو، اپنا گریباں جھانک کر دیکھو

Originally published here HumSub

آزادی بڑی شہہ ہے!
 بچہ پیدا ہونے کو ہو تو ماں کے رحم سے آزادی، وجود میں آے تو گود سے آزادی، چلنا سیکھے تو ہاتھ چھڑا کر بھاگنے کی آزادی اور یوں اسے قدم قدم پر چھوٹی چھوٹی آزادیوں کی راہ دکھتی ہے. یہی وہ راہ ہوتی ہے جو اسکے ذہن میں بغاوت کے بھی بیج بوتی ہے لیکن ان بیجوں تب تک وہ نہیں سینچتا جب تک اسکی آزادی کو روندا نہ جاۓ.

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب صحیح اور غلط کے فیصلے کنارے لگا دیے جاتے ہیں.

٨ جولائی ٢٠١٦ کو کشمیر کی حزب المجاہدین کے ٢٢ سالہ کمانڈر برہان ونی بھارتی فوج سے تصادم میں ہلاک کردئے گئے. 



کیا آپ کو حزب المجاہدین کے تعارف کی ضرورت ہے؟
نہیں!

کیا آپ کو برہان ونی کے متعلق جاننے کی ضرورت ہے؟
نہیں!

پھر بھی ایک سرسری سا بنیادی، بلکہ یوں کہئے یاد دہانی کے لئے کچھ حقائق بیان کرتی ہوں.

حزب المجاہدین کشمیر کے حقوق کے لئے ١٩٨٩ میں وجود میں آئی اور موجودہ وقت میں ہندوستان، امریکا، اور یورپین یونین کی جانب سے دہشتگرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے. یہ تنظیم بنیادی طور پر پاکستان کی حامی ہے اور پاکستان بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے. برہان ونی ٢٠١١ میں، نوجوانوں اور سوشل میڈیا میں مشہوری کے بعد باقائدہ طور پر حزب میں شامل ہوئے تھے. اس شمولیت سے پہلے کا ایک سال وہ تربیت میں گزار چکے تھے.

برہان ونی کے والد کا کہنا ہے کہ، برہان کے بڑے بھائی کو ٢٠١٥ میں بھارتی فوج نے تشدد سے ماردیا تھا کیوںکہ وہ برہان ونی کے بھائی تھے. دوسری طرف بھرتی فوج کا بیان ہے کہ، ان کے بھائی خالد بھی مجاہد تھے. کون سچا کون جھوٹا یہ میں اور آپ آزادی کی جنگ میں کبھی نہیں جان سکتے.......کیوںکہ شیطانوں کی نظر میں شیطان بھی ایک فرشتہ ہے.

نابالغ عمر، کچا ذہن، اور کشمیری جدوجہد. کیا کوئی پاکستانی برہان ونی کو قصوروارٹھہرائے گا؟ 

یقینن نہیں!

آخر پھر یہی پاکستان تب کیوں نہیں چیختا چلاتا، اورخون کے آنسو نہیں روتا جب عقیدے کی بنیاد پر سینکڑوں ہزارہ شیعہ ماردیے جاتے ہیں؟ تب کیوں نہیں دن منایا جاتا جب بلوچستان میں بےحساب مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں؟ اس وقت انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہوتی جب کراچی میں زبان اور سیاسی بنیاد پرلوگوں کا ماوراۓ عدالت قتل کیا جاتا ہے؟

کیا میرے ملک کے لوگوں کا خون اتنا سستا ہے؟

کیا ہمیں اپنے حقوق کی جنگ کے لئے کشمیر جانا پڑیگا تب پاکستانی قوم کہےگی مت مارو عقیدے پر، مت پھینکو لاشیں جوانوں کی، مت گھسیٹو ان کی عورتوں کو سڑکوں پر.....کون جواب دیگا؟

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق ملک میں انسانی حقوق کی بتدریج پامالی ہورہی ہے لیکن یہ بات صرف انکو سنائی دیتی ہے جو اسکا شکار ہیں. 

سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے مطابق کشمیر میں لڑنے والے آزادی کے مجاہدین ہیں لیکن بلوچستان میں لڑنے والے باغی اور دہشتگرد. یہ ہے میرے ملک کا توازن؟ یہ ہے میرے ملک کا انصاف؟

سنہ ١٩٩٢ میں کراچی میں ہونے والا آپریشن کلین اپ جوسرکاری طور پر تقریباً ٢ سال تک جاری رہا، جس میں حکومتی بیان کے مطابق کوئی تیرہ-چودہ سو لوگ ہلاک ہوئے تھے لیکن حکومت نے ان لوگوں کی تعداد نہیں بتائی جو آج بھی لاپتہ ہیں. سپریم کورٹ پاکستان میں آج بھی متحدہ قومی موومنٹ کے لاپتہ افراد کے کیسز دائر ہیں اور خاندانوں کو امید ہے کہ کبھی تو کوئی تو پلٹے گا. 

انیس سال گزر گئے لیکن ان کیسز کی فائل کورٹ میں ٹھہر گئی ہیں.

کراچی شہر میں ایک بارپھر پچھلے ٣ سال سے آپریشن جاری ہے جس میں سندھ رینجرز کے اختیارات میں تو مسلسل توسیح ہورہی ہے لیکن ان کے عمل پر کوئی سوال نہیں ہورہا ہے. ٢٠١٤ میں جب ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے سندھ رینجرز سے ملاقات اور میٹنگز کی کوشش کی تو مایوسی کا سامنا ہوا. ٢٠١٥ کے آخر میں بھی کمیشن نے  ماوراۓ عدالت قتل پر سوالات اٹھاے جن پر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا.

مئی ٢٠١٦ میں متحدہ کے کارکن آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں تشدد سے ہلاکت ہوگئی. جسم پر لگے تشدد کے نشان ایسے تھے شیطان نے بھی شرم سے سر جھکا لیا تھا. آرمی چیف نے تحقیقات کا حکم دیا اور آفتاب کے ساتھ سوالات بھی دفن ہوگئے.

کیا پاکستان کے مظلوم طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ امید رکھیں کے جتنی آواز اور للکار ہمارے وزیراعظم اور  فوج کے  سربراہ کی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اٹھی تھے، اتنی ہی ملک کہ اندر مچے انتشار اور ظلم پر اٹھے گی؟

کیا ہماری قوم کو جتنا غم کشمیری ماؤں کا ہے، اتنا ہی پاکستانی ماؤں کا ہوگا؟

شاید نہیں......کیوںکہ مرنے والے کشمیری نہیں تھے!






Jun 23, 2016

قسمت میں مری … چین سے جینا لکھ دے

Originally published here HumSub

مشہور زمانہ قوال امجد صابری کو آج شہر کراچی میں چند نامعلوم افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں ان کی قسمت میں جینا تو نہیں البتہ مرنا لکھا گیا۔


شروع کے چند گھنٹے تو قاتل ہمیشہ ہی نامعلوم رہتے ہیں کیوںکہ کے کراچی کی روایت ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیوں اور کس نے مارا ہے۔ امجد صابری کی بھی موت کے کچھ دیر بعد ہی طالبان کے کمانڈر قاری سیف الله محسود نے ذمےداری قبول کرلی۔
کیا اس کے بعد بھی آپ کو کوئی وجہ چاہیے کہ دن دیہاڑے شہر قائد میں ایک قوال کو کیوں ماردیا؟ نہ سیاسی وابستگی نہ کسی فرقے سے تعلق۔۔۔۔ لیکن ایک تعلق تھا اور وہ تھا اہل بیت  سے محبت۔۔۔۔
سنہ 2014 میں امجد صابری نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر مارننگ شو میں ایک قوالی گائی تھی اور مذہب کے ٹھیکداروں کو یہ اتنا ناگوار گزرا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس دائر ہوگیا اور امجد صابری اور قوالی لکھنے والے دونوں افراد پر توہین رسالت کا نوٹس جاری ہوا۔
سندھ اور پنجاب وہ صوبے ہیں جہاں اسلام کی پہنچ صوفیوں کے ذریعے ہوئی اور آج بھی سال میں کئی عرس ہوتے ہین اور دھمال پڑتی ہے۔ یہ صرف عقیدت ہے، خدا کو چاہنے کی اپنی لگن اور روایت ہے۔ اس چاہت اور روایت کو اب جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
مزاروں پر، امام بارگاہوں پر، مسجدوں پر دھماکے ہوتے ہیں اور دہشت گرد یہ جوز دیتے ہیں کہ مرنے والے کافر تھے۔ ان دہشت گردوں کے تو خون منہ کو لگا ہے لیکن ایک اور بھی دہشت گرد ہیں جو میرے آپ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پربھی کئی بےگناہوں کا، عظیم ہستیوں کا خون لگا ہے۔
انہیں کہتے ہیں اپولوجسٹ یا حمایتی !
اگر مگر، ادھر ادھر، فلانا ڈھماکا تمام طرح کی دلیل لے کر میدان میں اترتے ہیں اور جہالت کے ہجوم میں خود کو نیوٹرل ثابت کر کے دہشت گردی کی حمایت کر دیں گے۔ اگر آپ کو بس سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیں، احمدی ہونے پر جلا دیں، سیاسی وابستگی پر ماروائے عدالت قتل کردیں تو بھی یہ خاموشی اختیار کرلیں گے اور کہیں گے کہ ہم سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ انسان کی تخلیقی سوچ میں وابستگی لازم ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلم اور مظلوم میں غیر جانبداری کا راستہ چن لے۔
حمایتی یا نیوٹرل لوگ ایسی دلیلیں اور تاویلیں دیں گے جیسے دہشت گرد اپنی بندوقیں صاف کر رہے تھے اور مقتول سامنے آ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں زبان رکھنے والے گونگے ہوگئے ہیں اور طالبانی سوچ نے اپنے دہانے کھول لئے ہیں۔
امجد صابری قوال جیسی ہی ہستیاں تھیں جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اسلام کا بھی نرم گوشہ دنیا کو دکھایا اور بتلایا کہ مذہب میں عقیدت ہی میں عظمت ہے۔
بدلے میں کیا ملا؟
 پینتالیس سال کی عمر میں 5 گولیاں !
پاکستان جیسے ملک میں حکومت سے لے کر عام آدمی تک یہ اخلاقی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم پر بولے ورنہ یہ وہ آگ ہے جس کے شعلے آپ کے دروازے ہی پر دہک رہے ہیں اور مستقبل میں آپ کا دروازہ جلنے کا امکان بھی موجود ہے۔

Jun 20, 2011

Danger called Rangers

Back in 1992, I was introduced to the word Rangers with much remorse and hatred. The reason was the beginning of Operation Clean-Up. The locality where I grew up is a stronghold of Urdu speaking and that’s where it all began on the morning of June 19th, 1992.

I saw things from the eyes of an 8-year-old, who was waiting for a school bus at 6:20 am. I clearly remember shots of gunfire when my mother was helping me in getting dressed. Gunshots were not so common then and people could not comprehend the sound so we took it like any normal sound of tire burst. I and mother used to wait for my school bus with another older student. We got on our bus, waved goodbye, and took my favorite window seat. Around 5-7 minutes later my school bus entered hillside of North Nazimabad and since it was a summer morning, everyone and everything was clearly visible.

My school bus was stopped in the middle of the main road and asked to turn back as MQM was having it a first-ever public encounter with Rangers. The stoppers were some young guys who showed us a safe way to exit. Rangers were least bothered to spare a school bus. I didn’t see any one’s face then as it was covered with a red-checkered scarf but I certainly developed an emotion of gratitude. We went to our school anyways and came back home. I was full of stories for my father who was worried about the news of operation. Those guys were heroes!

I spent 4 years in the middle of operation where hundreds of boys were arrested, tortured, and killed for being Mahajir. Several were innocent, and some were guilty, but all were buried the same way. Mothers stopped their sons from attending morning prayers, sent them to other cities, or restrict their movements. Still many succumbed to Rangers with no choice.

Blackouts, days’ long strikes, shortage of food supplies, hiding in neighborhoods, were common incidences then. Living in apartments I had a better and closer look into all this. My mind is still bearing the memory of heavy boots running on the roof to chase and shoot young men, barging into houses, misbehaving with women. We never knew which night could be raid night. Next morning, every kid has a horror story to tell, especially the girl who lived next to TTC, North Nazimabad, this teacher's training center was chosen as Ranger's torture cell. My worst memory includes a man of early 20s who was going to offer Morning Prayer. He was stopped by Rangers, a little harassed, asked to turn around and run. He was shot dead within range of 3 feet probably

Everyone who has lived and experienced this operation first hand has his memory revived after Sarafarz Shah killing. Fortunately, this boy got killed under independent media. Operation Clean-Up had approx 15,000 killings which went unreported and unseen.



This is not the first time; an innocent lost his life at the hands of Rangers.

Aug 3, 2010

Sponsoring Suicide

If you have any intentions of committing suicide, let Pakistan sponsor you.

The whole country is hit by natural and un-natural disasters. First it was only Talibans and their jackets, which can blow you into pieces. In return, you family gets meager amount of compensation and that too after struggling through red tape policies.

But that’s old. The nation got used to it so much that hearing only 30-40 people died in a blast is a thankful situation. One may hear, “Chalo shukar karo buhat ziada log nahi maray” or “Abhi to dekho, hospital jakar kitne maren gay”. We Pakistanis have become immune to terrorism.

So, now if we don’t get killed in a blast, we have other sources. You may flying in a plane, anticipating the landing and guess what? You are murdered at Margalla Hills (Islamabad) leaving others never to look at the hills in a way they used to.
It’s ok if you don’t like being burned down like this. We have floods to offer as well.


Millions displaced and thousands killed by the floods in northern and southern Pakistan. There was a time when we were crying for water shortage and bad crops due to no rains. When it came, it came like cats and dogs. I prefer to call it bitchy rains.


You are also most welcome to Karachi or Quetta. Both are the hubs of ethnical clashes. There are various choices such as target killing, torched buses and cars.


If not by this, than by that but options are infinite. Choose at your ease.


Lakki Marwat Blast, January 2010

Khyber Pakhtoonkhwa Flood and Rains, July  2010

Karachi, burned down after ethnical target killing, Aug 2010

Jan 9, 2010

Men vs. Markets

-->
He is one of those people who would be enormously improved by death.”
The above has proven to be correct for Syed Muzzamil Hussain Shah, a young scout who embraced martyrdom on 28th December, 2009 in Ashur procession blast in Karachi.




-->
-->But how many of us remember him? Or do we remember any of those who got killed that day? Off the record, over 75 people got killed on that day while participating in the procession. We remember none but burned shops because that’s what being over-run on media.

Sometimes the significance of material takes over precious lives. I wonder why and who called lives precious since they are not anymore. We have better things to show and cry over, such as loss of Rs.30 billion, stolen arms, and arguing and blaming political parties.


Government of Pakistan announced Rs. 500,000 for the deceased and Rs.100,000 for injured but these funds will take time to arrive in the hand of families. With the increasing inflation, how long do we expect the families to survive on Rs.500, 000? Or in case of injured, I know many who are not capable of affording private hospitals for better treatment.
But then why should we bother? 
Those people were not supporting the national economy but just mere breadwinners of their families. We are more concerned about the commercial hub of Karachi, Bolton Market, that has been hyped so much that we have almost forgotten the actual incident i.e. bomb blast. 

Not only the Government but international Memon communities have come forward to help the businessmen. But which community will raise for people like Muzzamil, from whose house, five funerals came out at a time, including two earners of separate families? This is not all. 

With the start of New Year, when Karachi was not yet over with its grief, the blast took place in Lakki Marwat leaving 105 dead and over 100 injured. Once again compensation was announced with condemnation from political figures and country runners. I never happen to see those who died, acknowledged or their families condoled when almost genocide took place. 
Why? Because our media and other responsible were too busy with the re-building of markets in Karachi. We are ignoring the long-term effect of our ignorance. The coming generation of terrorism stricken families is keeping nothing but hatred because there is nobody to take care of their future. 

Does the government think that 0.5 million rupees are enough to take care of a family of 5 for the rest of their lives? 
No. So, shall we consider lives precious? No way!! Markets are better than men.
--> --> --> -->