Nov 17, 2015

روشن کاغذ -- Roshan Kaghaz


پرانے وقتوں میں لوگ خط وغیرہ  سنبھال کر رکھتے تھے. کبھی صندوقوں میں تو کبھی تکیے کے اندر، کتابوں کے بیچ یا پھر تہہ لگے کپڑوں کے درمیان سینت سینت کر.

 ایسی تحریروں کا گمنامی میں رہنا ہی ان کے مالکان کے لئے عافیت تھا. ہر کاغذ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا. کچھ کاغذات کے جملہ حقوق محفوظ ہوتے ہیں. یہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو اکیلے میں پڑھو تو بنا بات رلا دیں یا بے وجہ ہنسا دیں.

 صرف جائیدادیں نسل در نسل نہیں ہوتی، یہ خطوط بھی ہوتے ہیں. خطوط جن کی ملکیت میں حوالے کر دئے جاتے ہیں وہ یا تو سمجھتے نہیں ہیں یا سمجھ کر ضایع کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں.

میرے پاس بھی ہماری ایسی کچھ تحریریں ہیں !

ہزاروں، سینکڑوں تو نہیں لیکن اتنی ہیں جنہیں کوئی انگلیوں پر نہیں گن سکتا.  

خیر گنّنا کیسا؟ کوئی کمائی تھوڑی نا ہے.
بس کاغذ پر روشن وقت ہے.

آٹھ سال کا وقت!
 کچھ  خط جو میرے ذھن میں ہی لکھے رہ گئے اور کچھ جو تم تک پہنچ گئے. اکیسویں صدی کہ لوگ ہیں ہم تو ہمارے الفاظ بھی جدید کاغذوں پر محفوظ ہیں.
 عرصہ ہوا تھا قلم اٹھا کر کاغذ کو روشن کئے مگر یاد ہے نا ایک لکھا تھا تم کو چند سال پہلے؟

شاید نہ یاد ہو.
میں یاد نہیں تو میرا خط کیسے؟

یہ الفاظ بھی نا ....... وقت پرتو دھوکہ دے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد اس دھوکے کی سزا کاٹتے ہیں. میں، تم، اور وقت تو گزر گئے یہ لیکن وہیں کے وہیں ثبت ہو کر رہ گئے. انہیں ابھی بھی شبہہ سا ہے یا تم پلٹو گے یا وقت.

لیکن یہ کیسے ممکن ہو کیوںکہ کچھ تحریروں کو صرف پڑھنا تھا، ان پر ایمان نہیں لانا تھا.

کتنی بار سوچا یہ سارے خطوط اور انکی نشانیاں مٹا دوں. عجیب بے جان سا بوجھ ہے لیکن ہر بار کوئی اچھی یاد سوچ کر بہانہ بنا کر رکھ لیا کہ یوں مسکرانے کی کوئی وجہ تو باقی ہے.

میں اکثر وہ خطوط کھول کر پڑھنے لگتی ہوں اور اس وقت سے گزرتی ہوں. آج بھی ایک خط کھول لیا اور بےدھیانی میں تمہارےبنے خواب پڑھنے لگی.

اب کئی روز تک نیند ان کاغذوں میں جاگتی رہے گی.




بانو سازی 
نومبر ١٧، ٢٠١٥
رات ١٢:٤٣