Showing posts with label onscreen. Show all posts
Showing posts with label onscreen. Show all posts

Jun 30, 2019

Ayushman's Article 15 is an eye-opener

Originally published here Masala


Ayushman Khurana and Anubhav Sinha have teamed up to show us the other side of not-so-incredible India. It is not the first time that Ayushman has picked a controversial movie, and he never fails to impress us with his impeccable acting skills. Article 15 is a true teamwork of some brilliant talent out of Bollywood. Be it Sayani Gupta as Gaura, or Kumud Mishra as Jatav. Anubhav Sinha has ensured throughout the film that each and every character is performed with an unmistakable excellence. This is not the first time, Bollywood has come up with caste-based movie, yet the timing is crucial as India has recently gotten over its election.
The film begins with a song Kahab Toh carrying strong lyrics between economic class difference, while an important event takes place in background. This song sets the tone of sentiments of lower class of India called Dalits but the relevance can be universal.
Ayushman Khurana is shown as an IPS officer appointed in a far-flung country side of India. His initial reactions to the poverty and practiced influence are pure and naïve as compared to other policemen shown in his area. Ayushman’s character has shown a subtle privilege which strengthen his character to take decisions and challenge the complicated caste system.
It is very interesting to note that an urban high-class IPS officer is shown to be unaware of the caste system of India, because his place & privilege never had these. Article 15 is full of small but significant anecdotes which keep the audience involved and reflect on their surroundings. There is one situation where a policeman was unable to understand instructions in basic English, shows the kind of induction Indian police has at several levels. The abuse of economic and caste power can surprise you in this film. Anubhav Sinha has delicately directed this challenging subject with utmost care. The teamwork shows where you will see some of the most gruesome scenes shot to perfection.
Article 15 has many folds to it, but the character of Nishad, performed by Zeeshan Ayub, will give you food for thought. Nishad is a man who was young and hopeful but then life happened. His character is almost every other man who is in league of separatist/nationalist, but free of hunger for power. Zeeshan Ayub’s screen time is less but he has left his mark. They say, civilization is what sets a human apart from an animal.  Watch Article 15 to know, they were wrong!

Jun 27, 2019

‘کبیر سنگھ’ میں وہ سب کچھ ہے جو محبت میں نہیں ہونا چاہیے

Originally published here HumSub

اگر میں ١٩ سال کی ہوتی تو "کبیر سنگھ" میرا خواب ہوتا !
خوش قسمتی سے اب میں کافی زیادہ عاقل و بالغ ہو چکی ہوں.

"کبیر سنگھ" اپنی تمام تر رجعت پسندی کے باوجود ایک ایسی فلم ہے جو آج بھی کئی لوگوں کو پسند آئے گی. یہ ایسی فلم ہے جس میں شدّت، محبّت پر غالب ہے. 
بر صغیر میں عشق، محبّت، جنوں تب تک مکمّل نہیں سمجھے جاتے جب تک ان میں پاگل پین کا عنصر شامل نہ ہو.



فلم "کبیر سنگھ" میں محبّت اندھی ہی نہیں، بلکہ اچھی خاصی گونگی بھی ہے. محبّت کا نام ہے پریتی سکا اور فلم کے زیادہ تر حصّے میں انہوں نے منہ کو مسکراہٹ کا تالا ڈالا ہوا ہے. ایسی کچی عمر کی دوشیزائیں آپ کو آسانی سے کالج/یونیورسٹی میں مل جائیں گی.

ایسے ہی تھوڑی "کبیر سنگھ" باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے!

فلم میں ویسے تو بہت کچھ غلط ہے لیکن جو سب سے غلط ہے وہ ہے محبّت کو ملکیت سمجھنا.

ہندوستان پاکستان میں لڑکی کو ویسے ہی "چیز" سمجھتے ہیں، سونے پر سہاگہ اسکو "کبیر سنگھ" جیسا مالک چاہیے. 

میرا آپ کو مشورہ ہے، وہ بھی بلکل مفت، کہ آپ کو ذرا سا بھی شک ہوآپ کا بوائے فرینڈ کبیر سنگھ جیسی شخصیت کا حامل ہے تو جان اور عزت دونوں بچا کر بھاگ جایئں. ایسے مرد آپ کی شخصیت کو کبھی بھی تجربہ کرنے کا موقع نہیں دیںگے، اور آپ کو انسان کی جگہ موم سمجھ کر سانچے میں ڈھال دیںگے. 

"کبیر سنگھ" نے ١٨/١٩ سال کی لڑکی کو پہلے دن سے ہی اپنے نام لکھوا لیا جیسے لڑکی نہیں، ابّا جی کی زمین ہو. 
کیا لڑکی سے پوچھا؟ لڑکی کی مرضی جانی؟ 

بہنوں، اس کو کہتے ہیں "consent" جو انتہائی ضروری ہے چاہے محبّت اندھی گونگی بھری سب ہو. اس کچی عمر میں "کبیر سنگھ" جیسا مرد جنّت کا دروازہ لگتا ہے جب کہ ہے وہ عمر بھر کا قفل.
کس سے دوستی کرنی چاہیے، کس سے نہیں، چنری کیسے اوڑھنی ہے، کیسے نہیں، یہ سب کسی بھی لڑکی کو اپنی مرضی سے منتخب کرنا چاہیے نا کہ کوئی "کبیر سنگھ" آپ کو بتاۓ.

بیچ سڑک، لوگوں کے سامنے اپنی محبّت کو تھپڑ مارنا، اس پر چیخنا چلانا کوئی عشق جنوں نہیں ہے. یہ سماجی بےعزتی، اور ذاتی ضرب ہے. یہ بات لڑکا اور لڑکی دونوں پر لاگو ہوتی ہے. محبّت کی آڑ میں آپ غصے کی غلاظت نہیں پھیلا سکتے. 

"کبیر سنگھ" صرف لڑکیوں نہیں، بلکہ لڑکوں کہ لئے بھی ایک سبق آزمودہ فلم ہے. ایک سین میں ہیرو کا دوست اسکو کہتا ہے "لڑکے روتے ہیں کیا؟" کیوںکہ یہ تو حدیث اور شاستروں  میں آیا ہے کہ لڑکے نہیں روتے ہیں. 
اب کیوںکہ ہم اکیسویں صدی کے باسی ہیں تو میں بتاتی چلوں کہ مرد اگر ہنس سکتے ہیں تو رو بھی سکتے ہیں. آپ کے tear glands اچھے خاصے ایکٹو ہیں اور ان کا آپ کی مردانہ صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں ہے. 

سب سے زیادہ جس منظر نے مجھے حیران کیا وہ یہ کہ، "کبیر سنگھ" کو فیملی پلاننگ اور برتھ کنٹرول جیسی چیز کا خاص اندازہ نہیں تھا. وہ اپنے بھائی کو تقریباً تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پلاننگ کیا ہوتی ہے؟ یہ تو بس جذبات ہیں. 

برائے مہربانی، ہند و پاک کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال کریں اور بچے کو محبّت کی نشانی سمجھنے سے گریز کریں. 

فلم کی موسیقی بہترین ہے اور میرے کانوں میں ابھی بھی بج رہی ہے. میوزک اور فلم ڈائریکٹر نے شدّت کا رنگ فلم کی موسیقی میں بھی ڈالا ہے. شاہد کپور سے بہتر کوئی اور یہ کردار نہ کر پاتا. کئی مناظر میں آپ کو "حیدر" فلم یاد آئے گی. 
کیارہ اڈوانی کی معصومیت اور نو عمری ان کے کردارمیں گھل مل گئی تھی.  

"کبیر سنگھ" اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود ایک دیکھنے قابل فلم ہے. یہ فلم آپ کوہر وہ چیز سکھائے گی جو محبّت میں نہیں ہونی چاہیے. 








Apr 15, 2017

فلم ’بیگم جان‘ میں بٹوارے کی بے لاگ منظرنگاری

Originally published here HumSub

بیگم جان نے سنیما سکرین پر داخل ہونے سے پہلے ہی فلم شائقین کو اپنے کردار اور باتوں سے چونکا رکھا تھا اور ہر زبان پر بس ودیا بالن "بیگم" کا ہی چرچا تھا. میں نے ایک ہفتہ قبل ہی اس فلم کا ٹکٹ بک کرا لیا تھا اس یقین سے کہ مہیش بھٹ اور ودیا بالن نا امید نہیں کریں گے.


بیگم جان، دراصل بنگالی فلم "راج کہنی" کو لے کر ہندی میں بنائی گئی فلم ہے جو کہیں نہ کہیں حقیقت پر مبنی ہے. بیگم جان کا کردار اور کہانی لکھنے کی ہمّت شریجیت مکھرجی نے کی ہے جب کہ بےباک ڈائلاگ  کوثر منیرکے ہیں.  

فلم کی شروعات ہی میں فلم کو سعادت حسن منٹو ار عصمت چغتائی کے نام کردیا جاتا ہے اور یوں دیکھنے والے شائقین کی امید اور بڑھ جاتی ہے. یہ برصغیرکہ وہ دو لکھاری ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد کسی انسان کو تقسیم ہند کی تاریخ پر خوشی یا فخر نہیں ہو سکتا بلکہ انسانیت پر شرمندگی اور ملال ہونے لگتا ہے.

یوں تو فلم تقسیم ہند کے پس منظر پر مبنی ہے لیکن اس کے لئے موجودہ منظر میں دہلی میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی ایک جھلک دکھلائی جاتی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو بتلایا جا سکے وقت بدلا لیکن حالات نہیں. 

کوثر منیر نے انتہائی باریکی اور نزاکت سے ١٩٤٧ کی تقسیم کو سکرین پر لکھا ہے کہ کیسے ایک اہم لیکن "احمقانہ" لکیر نے لاکھوں انسانوں کو بے گھر اور بے عزت کیا. تقسیم کی یہ لکیر بیگم جان کے کوٹھے کے بیچ سے گزرتی ہے جس کے باعث انہیں وہاں سے جگہ خالی کرنے کو کہا جاتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے. 

ودیا بالن اس فلم کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جوشکرگڑھ اور دورانگلہ تحصیل کے بیچو بیچ ایک کوٹھی کو کوٹھے میں تبدیل کرچکی ہے اور "بیگم جان" کے نام سے جانی جاتی ہیں. بیگم کے پاس کوئی ٧-٨ لڑکیاں کام کرنے والی ہیں جن کی کہانی کو فلم کے مختلف حصّوں میں دکھایا جاتا ہے. بیگم جان بذات خود کم عمری کی بیوگی گزار چکی ہوتی ہیں جنہیں بنارس سے لکھنؤ تک کے کئی کوٹھوں کا سفر کرنے کے بعد "بیگم جان" کا رتبہ ملتا ہے. فلم بنانے اور لکھنے والوں کا کمال ہے کہ انہوں نے آزادی کے پس منظر میں انسانی فطرت کے پیچیدہ ترین رشتوں اور خواہشوں کو خوبصورتی سے دیکھنے والوں تک پہنچایا ہے.

جب سر ریڈکلف لکیر کھینچ دیتے ہیں تو مسلم لیگ اور کانگریس کی جانب سے دو سرکاری افسران ملتے ہیں جو درحقیقت بچپن کے دوست ہوتے ہیں لیکن آزادی کے  بعد دشمن ہونے پر مجبور. اشیش ودھیارتی جنہوں نے کانگریس کی جانب سے ہندو افسر ہونے کا کردار نبھایا ہے، وہ مسلمان افسر(دوست) کو بتلاتے ہیں کہ اس آزادی کو قبول کرنے کا آسان طریقہ نفرت ہے.  اس فلم کے ان دو کرداروں نے بتایا کہ نفرت کا بیج ہی اصل بٹوارہ پیدا کریگا لیکن اس نفرت کی قیمت انہوں نے بھی دی --- خاندان کی صورت، عزت کی صورت، اور سب سے بڑھ کر ضمیر کی!

بیگم جان کا کوٹھا کسی بھی عام کوٹھے کا نقشہ کھینچتا ہے جہاں نہ کوئی ذات پات، نہ دھرم ایمان، لیکن احساس ہے تکلیف ہے جس کی دیکھ بھال بیگم جان کرتی ہیں. ودیا بالن کی اداکاری پر ویسے بھی کسی کو شک نہیں لیکن یہ کردارشاید ان سے بہتر کوئی بھی نہ نبھاتا. کوثر منیر کے ڈائلاگ سے مکمّل انصاف صرف ودیا کرسکتی تھیں. لفظوں کی بیباکی اور درد ودیا کی اداکاری سے امر ہوگے. 

فلم میں ویسے تو کئی بہترین لمحات ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے وہ کہانیاں پسند ہیں جو انتہائی خوبصورتی سے بیچ بیچ میں "اماں" کوٹھے پر رہنے والی دس سالہ "لاڈلی" کو سناتی ہیں. یہ کہانیاں جھانسی کی رانی سے لے کر مہارانی پدماواتی پر مشتمل ہیں اور اماں ان کہانیوں کو سبق کے طور پر سناتی ہیں. ہند و پاک وہ خطہ ہیں جہاں آج بھی لڑکی کو کمزور/نازک/ابتر سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ کہانیاں بیگم جان کے کردار میں عجیب سی جان ڈالتی ہیں. 

کوٹھے اور طوائف پر تو بہت فلمیں بنی ہے لیکن "بیگم جان" کی خاص بات ہے وقت کی یاد دہانی!

جس طور طریقے سے بیگم جان کی کوٹھی خالی کرائی جارہی تھی وہ طریقے آج بھی زندہ ہیں، بس آلہ واردات ترقی یافتہ ہیں. عصمت دری کا خوف تب بھی تھا اب بھی ہے. راجہ مہاراجہ چلے گئے، زمیندار اور انکی سرکار نے جگہ لے لی.

ہندوستان اور پاکستان نے ١٩٤٧ کی تقسیم دیکھی، بلوے دیکھے، عزتیں کنوئیں میں کودتی دیکھیں اور یہی سب پھر ١٩٧١ میں دیکھا، لیکن آج بھی سرحد کے دونوں  پار نفرت کا وہ بیج جو جان بوجھ کرتقسیم کے وقت بویا گیا تھا، جنگ اور لاشوں کی صورت فصل کاٹ رہا ہے.

تاریخ کا اصل اور بدصورت پہلو تو منٹو کی کہانیوں میں ہے، امرتا کے پنجارمیں ہے، یا پھر چغتائی کی لحاف میں چھپا ہے.

ہمیں آنے والی نسلوں کو اس تاریخ سے روشناس کرانا ہوگا، ان کے ذہنوں کو ذات کی غلامی سے آزادی دلانی ہوگی تاکہ ہم میں اپنی تاریخ سے نظر ملا کر بات کرنے کی ہمّت ہو اور غلطیاں نہ دوہرانے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو. 

Sep 24, 2009

Wanted JUTT

As usual on Eid, my brother was zapping through the channels, when he finally stopped at a new movie WANTED. We both were excited and astonished because this movie is already screening at cinemas and till its running there, no cable operator can show it.


But it was EID after all.

Anyways, we started watching the Salman Khan(SK) and his unbeatable action. SK has come to the big screen after some gap but with all the preparations to take the audience with storm.The Tamil direction was very visible with the pistol dancing from one hand to other hand. I was awe struck during an action sequence where he managed to kick out 12 gangster all by himself. And during all this, he had not received a single scratch or a blood streak on his body. I thought thats enough for a middle aged man. The make-up artist was an inexpert to put enough amount of base on his face, because the wrinkles and drunken-eye-patches were visible.

If closely noticed, SK's bald patch was shown too in few romantic scenes. I suppose editor was tired of hiding it at many places already.

Through out the film, I felt like watching a human who has found immortality. I mean not in a single action scene, Salman Khan got injured. Kudos to the director and hero, who managed to kill a leading gangster and his gang in a cleanest manner. During all this, all he lost was his shirt from Khakee Vardee (Police Uniform).
Later, I realized that why the hell do we make fun of our very own Sultan Rahi and his Jutt roles?
What was his fault? I think he did exactly the same, decades ago what Bollywood action heroes are doing now.

In fact, Bollywood learn all these tactics from THE MATRIX, where as our Mr.Rahi did it without any prior inspirations.

If you see there is not much difference in Salman Khan and Sultan Rahi.
Even their first names have same initial and equal number of alphabets.

We Pakistanis should be proud of having Sultan Rahi for doing films with immortal acts then. At least they were his own and no Matrix was there to be inspired by.

I hereby, announce Salman Khan as a Wanted Jutt of Bollywood Cinema.