Nov 17, 2015

روشن کاغذ -- Roshan Kaghaz


پرانے وقتوں میں لوگ خط وغیرہ  سنبھال کر رکھتے تھے. کبھی صندوقوں میں تو کبھی تکیے کے اندر، کتابوں کے بیچ یا پھر تہہ لگے کپڑوں کے درمیان سینت سینت کر.

 ایسی تحریروں کا گمنامی میں رہنا ہی ان کے مالکان کے لئے عافیت تھا. ہر کاغذ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا. کچھ کاغذات کے جملہ حقوق محفوظ ہوتے ہیں. یہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو اکیلے میں پڑھو تو بنا بات رلا دیں یا بے وجہ ہنسا دیں.

 صرف جائیدادیں نسل در نسل نہیں ہوتی، یہ خطوط بھی ہوتے ہیں. خطوط جن کی ملکیت میں حوالے کر دئے جاتے ہیں وہ یا تو سمجھتے نہیں ہیں یا سمجھ کر ضایع کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں.

میرے پاس بھی ہماری ایسی کچھ تحریریں ہیں !

ہزاروں، سینکڑوں تو نہیں لیکن اتنی ہیں جنہیں کوئی انگلیوں پر نہیں گن سکتا.  

خیر گنّنا کیسا؟ کوئی کمائی تھوڑی نا ہے.
بس کاغذ پر روشن وقت ہے.

آٹھ سال کا وقت!
 کچھ  خط جو میرے ذھن میں ہی لکھے رہ گئے اور کچھ جو تم تک پہنچ گئے. اکیسویں صدی کہ لوگ ہیں ہم تو ہمارے الفاظ بھی جدید کاغذوں پر محفوظ ہیں.
 عرصہ ہوا تھا قلم اٹھا کر کاغذ کو روشن کئے مگر یاد ہے نا ایک لکھا تھا تم کو چند سال پہلے؟

شاید نہ یاد ہو.
میں یاد نہیں تو میرا خط کیسے؟

یہ الفاظ بھی نا ....... وقت پرتو دھوکہ دے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد اس دھوکے کی سزا کاٹتے ہیں. میں، تم، اور وقت تو گزر گئے یہ لیکن وہیں کے وہیں ثبت ہو کر رہ گئے. انہیں ابھی بھی شبہہ سا ہے یا تم پلٹو گے یا وقت.

لیکن یہ کیسے ممکن ہو کیوںکہ کچھ تحریروں کو صرف پڑھنا تھا، ان پر ایمان نہیں لانا تھا.

کتنی بار سوچا یہ سارے خطوط اور انکی نشانیاں مٹا دوں. عجیب بے جان سا بوجھ ہے لیکن ہر بار کوئی اچھی یاد سوچ کر بہانہ بنا کر رکھ لیا کہ یوں مسکرانے کی کوئی وجہ تو باقی ہے.

میں اکثر وہ خطوط کھول کر پڑھنے لگتی ہوں اور اس وقت سے گزرتی ہوں. آج بھی ایک خط کھول لیا اور بےدھیانی میں تمہارےبنے خواب پڑھنے لگی.

اب کئی روز تک نیند ان کاغذوں میں جاگتی رہے گی.




بانو سازی 
نومبر ١٧، ٢٠١٥
رات ١٢:٤٣

Oct 3, 2015

ٹوٹ پھوٹ


١)
"تم" نے ہم پر امید کے دَر کیا بَند کئے ہم دَر و دیوار سے بھی اُلجھنے لگ گئے


٢)
اُن سے خفا ہو کر اُنہی پہ مرتے ہیں عِشق والے کب انصاف کرتے ہیں


٣)
وصل کی امید میں ہجر سے دل لگایا روح کی پرواز پر انتظار کا پہرا بٹھایا


-- بانوسازی

Sep 14, 2015

"تم"


"کتنے ہی کاغذ سیاہ کردوں، ہر لفظ تم پر لکھ دوں، کہانیاں کہہ دوں، لیکن تمہاری حقیقت سے محروم رہے گی یہ زندگی......افسانوی زندگی" #بانوسازی

Jul 30, 2015

منکر -- Munkir


تم اپنے آپ میں
ایک کہکشاں ہو
جس میں میرے نام کا
سِتارہ ہی نہیں


اُن روشن آنکھوں میں
میرے خیال کی
چمک ہی نہیں،
نَبض کی روانی میں
کسی یاد کا
گُزر بھی نہیں.


میرے ہونے کا
ذکر ہی نہیں
تم میں کھونے کا
اب ڈر بھی نہیں.



بانو سازی 
٣٠ جولائی  ، ٢٠١٥
رات ١:٠٠


Tum apnay aap main
Ek kehkashan ho
Jis main mere naam ka
Sitara hi nahin

Unn roshan ankhon main
Mere khayal ki
Chamak hi nahin,
Nabz ki rawani main
Kisi yaad ka
Guzar bhi nahi.

Mere hone ka
Zikr hi nahin
Tum main khonay ka
Ab darr bhi nahi.


Bano.
July 30th, 2015
01:00 am






Jul 16, 2015

"داسی"


خدا کی خدائی میں تمہیں "خدا" بنا دیا
ہماری سجدہ ریزی نے ہمیں کافر بنا دیا


تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے بُت تَراش کر 
مسجد میں رکھ چلے،مندر میں سجادیا


قیامت کا کہتے ہیں کوئی وقت مُقَّرر ہے
روزہوتا ہے حَشربَپا،سہنے کا عادی بنادیا


کاتبِ تقدیر سے مانگا،تو ہَنس کرصدا آئی
دینِ عشق میں یاد نہیں کسے "خدا" بنادیا 






بانو سازی 
١٦ جولائی  ، ٢٠١٥
رات ١١؛٣٣


Khuda ki khuda'i main tumhein "khuda" bana dia
Humari sajda-rezi nay humein kaafir bana dia

Tumhein khabar nahin ke tumhare bu't taraash kar
Masjid main rakh chalay, mandir main saja dia

Qayamat ka kehte hain koi waqt muqarrar hai
Roz hota hai hashr bapa, sehne ka aadi bana dia

Katib-e-Taqdir say manga, tau hans kar sad'aa ayi
Deen-e-Ishq main yaad nahi kisey "khuda" bana dia




Bano.
July 16th, 2015
11:33 pm


Jun 8, 2015

شیعہ کہانی



یہ میری اپنی اور میرے آس پاس والوں کی کہانی ہے  جو قسمت سے یا مرضی سے شیعان علی کے دائرے میں ہیں.

ہم نے آزادی کی جنگ کے قصّے سن رکھے ہیں کیسے بلوائیوں نے گھر اجاڑے ، عزتیں اتاریں، اور فلانہ ڈھمکانا ا سب سنا پڑھا لیکن کہیں فرقے کا ذکر نہیں سنا. الٹا میرے بڑے جنہوں نے ایک چھوڑ دو ہجرتیں دیکھیں اور ساتھ جانے کیا کیا دیکھا جس کا ذکر وہ کبھی خشک آنکھوں سے نہیں کرتے، کہتے ہیں شیعہ سنی فسادات ہند اور بنگال کا کبھی مسلۂ نہیں رہا. 
ہندو مجلس سنتے تھے اور حسین کے نام کی نیاز، سکینہ کے نام کی سبیل، اورعبّاس کو باب الحوائج مانتے تھے / ہیں. انسانی اور مذہبی ہم آہنگی بنیاد تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ہجرتوں کی قصّہ گوئی بن کر رہ گئی بس. 

میں خود سے شروع کروں تو میری پہلی یاداشت تب کی ہے جب چوتھی جماعت میں تھی. سکول کے بعد وین کے انتظار میں تھی جب میں نے دیکھا کہ میری ہم جماعت اپنی خالی پانی کی بوتل لئے کھڑی ہے اور ادھر ادھر پانی کے  لئے کسی کو ڈھونڈ رہی ہے. 
میری پرورش میں ایک جملہ بہت شامل رہا وہ تھا "پانی پر کبھی انکار نہیں کرتے چاہے کچھ ہو، تم کوئی یزید تھوڑی ہو."   

تو بس اسی جملے کی بنیاد پر بانو صاحبہ ڈیڑھ ہوشیار بنتے ہوئے اس بچی کو پانی دینے لگیں اپنی بوتل سے لیکن سامنے سے عجیب بات سننے کو ملی. اس نے کہا "تم شیعہ ہو پانی میں تھوکتی ہوگی میں نہیں پیوں گی." میں ہاتھ میں بوتل کا گلاس لئے حیران و پریشان رہ گئی اور خود وہ پانی پی گئی. 

چوتھی کلاس کی بچی کو کیا عقل فرقے کی نہ کبھی ہمیں فرقہ واریت سکھائی گئی سو گھرپہنچتے ہی اماں کے آگے اپنا مرثیہ لے کر بیٹھ گئی کہ شیعہ کیا ہے؟ میرے پانی میں کون تھوکتا ہے؟ اور ثانیہ کی بچی نے ایسا کیوں کہا؟ بہرحال اماں نے کچھ مجھے سمجھایا اور کچھ میری استانی کو کہ بچے سکول میں کیا گفتگو اور رویہ رکھتے ہیں. 

پانی کے تھوک، حلیم میں بچوں کے خون سے لے کر اور بہت ساری بیہودہ اور بے بنیاد فرقوی شک و شبہات لے کروقت گزارا بڑے ہوگئے لیکن پھر بھی میں نے اور مجھ جیسے کئی شیعوں نے خوف کی چادر کبھی نہیں لپیٹی.

تکفیری اور دیوبندی جیسے نام کانوں میں شاد و نادر ہی پڑھتے تھے لیکن اکیسویں صدی خود تو آیئ ساتھ اپنے بہت جوڑ توڑ لائی.  

٢٢ فروری ٢٠٠٣  کو کراچی میں لشکر جھنگوی  نے امام بارگاہ مہدی میں دوران نماز گھس کر ٩ شیعہ کو شہید کردیا تھا. سننے میں کتنی معمولی تعداد لگتی ہے نہ؟ 
سنۂ ٢٠٠٤ میں کل ملا کر ایک سو انتیس شیعہ شہید ہوئے اور چار سو  زخمی. 
اس سال کے دو بڑے دھماکے لیاقت بازار کوئٹہ اور حیدری مسجد کراچی کے تھے؛ لیکن عام شیعہ پھر بھی چوکنا نہ ہوا کہ آنے والا وقت ہر گھر سے جنازہ اٹھواے گا اور ہماری نسل کشی ہوگی. ہم یتیم مسکین نہیں ہونگے بلکہ ہونگے ہی نہیں.

میں ہر سال اپنے بھائی  کو عاشور کے جلوس میں بعد فجر چھوڑ کر آتی ہوں کیوںکہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے گاڑی نہیں لے جاتا. سنۂ ٢٠٠٩، اٹھائیس دسمبر کو میرے خاندان کا ہر مرد اور بچہ اس دھماکے کا گواہ ہے جو پچاس سے زائد شیعوں کو شہید اور سینکڑوں گھروں کو سوگوار کر گیا. چھوٹے چھوٹے بچے لاشوں کو پھلانگتے ہوئے وہاں سے نکلے اوراگلے روز نماز جنازہ پڑھنے گئے. 

میں نے ایک بار پھر اپنے بھائی کو اسی سال اربعین پر جاتے دیکھا. 

وہ دن اور آج کا دن ہے میں ہر روز اس کا چہرہ ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے آخری بار ہو کیوںکہ وہ ایک شیعہ ہے اور کبھی بھی ٹارگٹ ہو سکتا ہے.  

اور یہ صرف میرا وطیرہ نہیں ہر اس گھر کا ہے جو شیعان علی سے تعلق رکھتا ہے. لوگ کہتے ہیں محرم میں کالا مت پہنوکہ نشاندہی ہوگی لیکن ہم اتنی ہی ضد سے پہنتے ہیں،  انگلیوں میں چھلا ڈال کر رکھتے ہیں جو ہماری مائیں نظر دلاتی ہیں.

یہ نسل کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت ہے جس کی شروعات کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہوئی. 

پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں ١٣،٠٠٠ سے زائد ہزارہ شیعہ کا قتل عام ہوا اور ١٥،٠٠٠ سے زائد زخمی ہوئے. 

اور پھر لوگ کہتے ہیں شیعہ مت کہو، کہو پاکستانی مرا ہے؟

پچھلے سات سے آٹھ سالوں میں ہم شیعوں نے اتنے  جنازے اٹھاۓ اپنے جوانوں، بوڑھوں، اور بچوں کے، کہ اب تعداد بھی یاد نہیں رہی ہے.
تکفیری سوچ نے لمحوں میں ہماری جواں سال عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، اور ہماری دو دو تین تین نسلوں کوشہادت کے رتبے پر پہنچا دیا.......لیکن سلام ہے پاکستانی قوم پر جس کی اکثریت نے ہمارے لئے نہ آنسو بہاے، نہ گلے پھاڑ پھاڑ کر بین کیا. 

کیوں کہ ہم شیعہ ہیں، کشمیری یا برما کے مسلمان نہیں!

پاکستان کا آزاد میڈیا بھی لفظ "شیعہ" کا استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے. DAWN News، Express Tribune  جیسے بڑے بڑے اخبارات بھی کھل کر یہ نہیں بتاتے کہ ہزارہ کو کس بنیاد پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے؟ کوئی ذاتی یا کاروباری دشمنی نہیں ہے، یہ فرقہ واریت ہے تو پھر کیوں نہیں بولتے ہو؟

کیا "یا علی مدد" کہنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہر کا شہر ہمارا خون ہاتھ پر لگاے پھرتا ہے؟

شیعوں کا ناحق خون بہانے والے  تکفیریوں جان لو کہ جس جنّت کہ پیچھے تم اپنی جان گنواتے ہو، اس کے سردار "حسن و حسین" ہیں، اور لبّیک یاحسین کہنے والے ہم شیعہ! 









May 14, 2015

Blasphemy---کفر


کسی روز جو تو سنے،

تو تجھ کو سناؤں،
ہر وہ لفظ
جو کہا نہیں
سارے خیال جو 
 سچ ہوئے نہیں.

کتنے خواب
جو 
حقیقت کبھی سہی.

وہ ملاقاتیں 
جو تجھ سے 
ملیں نہیں.

بیاں کر کے
 بتاؤں، 
وہ احساس جو 
تپش میں 
بدلا نہیں.

اس لمس کی 
مہک،
جو تیری اترن 
سے 
بھینچی تھی. 

مانگوں، 
وہ وقت جو 
ہر بشر کا ہے 
اک میرا نہیں.

مدعا یہ کہ، 
حراست میں ہوں 
اور تو 
قیدی مانتا ہی نہیں.

عبادتوں کا مقصد
دھڑکن کا کلمہ
تم ہوئے 
اب میرے 
سجدے "اس" کے 
نہیں!




بانو سازی 
١٤ مئی ، ٢٠١٥
رات ١:٢٢





May 4, 2015

وابستگی


زمانہ آ ہی گیا کہ تمہاری خبر بھی نہیں اس نے کہا، ہم رابطے میں نہیں.
میں نے سچ سن لیا کہ اب وابستگی ہی نہیں!

بانوسازی 
مئی ٤، ٢٠١٥



Zamana aa hi gaya key,
Tumhari khabar bhi nahi.
Us ney kaha,
Hum raabtay main nahi!

Maine sach sun liya,
Keh

Ab wabas'tagi hi nahin!



Bano B.
May 4th, 2015

Apr 24, 2015

Break - Up


چلو پھر سے محبّت کرتے ہیں 
تھوڑا سا وقت گنواتے ہیں. 
پھر دنیا کو جلاتے ہیں،
مرتے اور مٹ جاتے ہیں.

پھر سے پیمان باندھتے ہیں 
ایک دوسرے میں کھو جاتے ہیں 

چلو پھر سے ساتھ چلتے ہیں 
قدموں پر ساۓ ڈھونڈتے ہیں.

چلو پھر سے محبّت کرتے ہیں 
اور 
پھر سے جدا ہوجاتے ہیں.


Chalo phir se muhabbat karte hain,
Thor'ra sa waqt ganwate hain.
Phir dunya ko jalate hain,
Martay aur mit jatay hain.

Phir se peimaan bandhte hain,
Ek dusre main kho jatay hain.

Chalo phir se saath chalte hain,
Qadmon per saaye dhond'te hain

Chalo phir se muhabbat karte hain,
Aur,
Phir se judaa hojate hain.





Bano B..
February 21, 2011
3:30 p.m.

Apr 20, 2015

انارکلی


"انارکلی" سے میرا پہلا تعارف کچھ ایسے ہوا کہ میری اماں جی کی دو ہی پسندیدہ فلمیں ہیں، اک پاکیزہ اور دوسری مغل اعظم. اب چونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن کے کافی حصّے تک میں نے بچکانہ فلمیں ہی دیکھی اس لئے بات کافی عرصے تک تعارف سے آگے نہ بڑھی. 

یوں میں نے کئ سال بنا جانے گزار دیے کہ یہ انارکلی کس کے دل کی کلی تھی اور کھلی بھی تھی یا بن کھلے مرجھا گی تھی .

پھر ایک دن میں اپنے نانا کے گھر پر کتابیں چھان رہی تھی جب ان کے شیلف سے  امتیاز علی تاج کا ڈرامہ "انارکلی" میرے ہاتھ لگ گیا. تب میری عمر تیرہ سال تھی لیکن اردو کا شغف کچھ گھٹی میں ہے سو اپنی بہن کے ساتھ جامن توڑنے کے بجائے میں کتاب لے کر بیٹھ گئی  اور پورا ڈرامہ ایسے پڑھ ڈالا جیسے اگلے دن سکول میں امتحان ہو. 

ہم جس انارکلی کو جانتے ہیں وہ اصل تھی یا تخیل یہ تو شاید میں آپ نہ جان پایئں لیکن اتنا ضرور ہے کے زمانہ کوئی بھی ہو، عشق پر پہرے سدا رہے اور رہیں گے. 

مجھے انارکلی کا خیال کیوںکر آیا؟

جب ایک اتوار صبح ٩ بجے، سلمان رشید، پاکستان کے مشہور سفری نامہ نگار، اپنے ساتھ انارکلی بازار ناشتے کے لئے لے گئے. مقصد تو آٹے کی پوریاں کھانا تھا لیکن سلمان کے ہوتے ہوئے تاریخ پر گفتگو نہ ہو، ناممکن.

میں نے ہمیشہ ہی لاہور کے بارے میں ایک بات کہی ہے کہ "لاہور کا حسن اس کی لال اینٹوں میں ہے." ایک دوست نے کہا اگر یہ اینٹیں کسی اور شہر میں رکھ دیں تو؟ میں نے جواب دیا، وہ بات نہیں کیوںکہ ہر شہر کی اپنی داستان ہے." 

اس روز بھی جب ہم  ناشتہ کر کے اٹھے تو سلمان نے کہا آؤ کچھ پرانا حصّہ دکھاتا ہوں اور تب ہم اس محرابی دروازے کی طرف بڑھے. 


Photo Courtesy: Bano Bee
 Location: Anarkali Bazar, Lahore

یہ داخلی محراب شاید ایک صدی یا اس سے بھی پرانا  ہو لیکن اس کی ہر اینٹ سورج کی تازہ روشنی میں آپ کو نئی پرانی ہر کہانی سناۓ گی. 

کتنی ہی انارکلیاں اپنے سلیم سے اس روشن اندھیرے میں ملی ہونگی جہاں ان پر زمانے کی نظر کچھ دیر سے پڑے گی. چوڑیوں کی کھنک دھیمی پڑ گئی ہوگی، آنچل سر سے سرکے ہونگے، لفظوں کی جگہ پلکوں کے اشارے سے جذبات بیان ہوئے ہونگے. 
اس راہ گزر نے کئی خط گرتے دیکھے ہونگے اور انکو اٹھانے والوں کی گواہ بھی یہی دیواریں ہونگی. ہاتھوں کو تھامتے اور ساتھ ہی ان کو الگ ہوتے دیکھا ہوگا. پائل سی کھنکتی ہنسی اور گالوں سے گرتے ہوئے خاموش آنسو بھی اسی دیوار نے پی لئے تھے. 

داستانیں سناتی یہ دیواریں، رکے ہوئے  راستے، بھٹی سے نکلی اینٹیں، مجھے بتاتی ہیں کہ اکبر نے تو بس ایک انارکلی کو ہم میں چنوایا تھا........ لیکن ہم تو زمانے سے کتنی انارکلیوں کو خود میں چنواتےآۓ  ہیں. 




بانو سازی 
٢٠ اپریل، ٢٠١٥
رات ١٢:٢٠


     

Apr 7, 2015

نسل



میں بہت سکون سے اپنی ٹھنڈی چائے آہستہ آہستہ پی رہی تھی جب اس نئے کہا کہ میرا اک بیٹا ہے اور میری بِیوِی دوسری بار امید سے ہے . عمومی  طور پر میں 
لوگوں کی ذاتیات سے ذرا فاصلہ رکھتی ہوں لیکن ہم دونوں اجنبی ہیں اور وقت گزار رہے تھے . 

اجنبی ہونے کا فائدہ یہ ہے کے دو لوگ آپس میں بنا کسی فائدے نقصان کے اک دوسرے سے وہ بھی کہہ دیتے ہیں جو خود سے بھی نہیں کہتے .
پِھر اس نے چند جملوں میں اپنی زندگی بیان کرنے کی کوشش کی کہ کیسے والدین کی مرضی کے آگے اسکو سر جھکنا پڑا. اسکا رشتہ کاغذی ہے لیکن دنیا کو دکھانے کے لئے "دو بچے خوشحال گھرانہ" بھی ہے.

پھر اس کے جانے کا وقت آگیا. 
وہ تو چلا گیا لیکن میں نے اک کپ چائے کا اور منگوایا  اور اس کے ٹھنڈے ہونے تک سوچتی رہی، "کیا یہ ٹھیک ہے؟"

میں نے بہت عرصے تک اپنی چھوٹی بہن کو یہ کہہ کر رلایا ستایا کے امی ابو اسکو کے کچرے کے ڈبے سے لائے ہیں کیوں کے وہ وہاں اکیلی رو رہی تھی . جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہہ نسل آدَم کی افزائش کیسے ہوتی ہے اور اس کے کئی سال بعد اس سے جڑے بہت سارے سوال پیدا ہوئے . ان تمام سوالوں میں پہلا سوال یہ تھا کے کیا بنا محبت کے آپ کسی کے بچے کی ماں یا باپ بن سکتے ہیں ؟ 

اِس سوال کے جواب میں مجھے شاید صرف مجبوریاں اور مجبور رشتے ملیں!

آپ خود یا آپ کے آس پاس ایسے رشتوں کی بہتات ہوگی جہاں اولاد محبّت کا نہیں بلکہ باپ کی تھکن اور ماں کی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہے. 

بر صغیر اک ایسا معاشرہ  ہے جہاں لڑکا لڑکی کا شادی سے پہلے ملنا کچھ معیوب  سی بات سمجھی جاتی ہے یا  یوں کہہ لیا  جائے کہہ ان کا ملنا اب تک تسلیم نہیں کیا گیا . والدین اِس خوش فہمی میں رہتے ہیں کے انکی اولاد اگر گھر سے باہر نکلے گی تو کسی انسانی کشش کا شکار نہیں ہوگی . 

انہی روایت پر چلتے ہوئے ہم تمام عمر اپنی لڑکیوں کو سکھاتے ہیں کےاجنبیوں سے، نامحرم سے فاصلہ رکھو لیکن پِھر اسی لڑکی کو اچانک سے نکاح پڑھوا کر اک اجنبی کے ساتھ راتیں گزارنے بھیج دیتے ہیں. کچھ تو ایسے بھی رشتے ہوتے ہیں کہ ساری عمر جس کو بھیا پکارا اسکو خاندان والوں  نے ملکر بھیا سے سیّاں کا درجہ دے ڈالا. 
  
لڑکوں کو بھی انکے والدین یہی کچھ سکھاتے ہیں کے تمہاری بِیوِی تمہیں نسل دے گی اور ہمارا نام آگے بڑھاے گی . اسی لیے ہمارے مرد فیصلوں کے کچے واقع ہوئے ہیں کیوں کے ان میں خوف ہوتا ہے اگر یہ اچھی ماں نا بنی  وغیرہ وغیرہ.
کوئی شادی اگر ہچکولے کھارہی ہو تو پہلا مشورہ "بس اولاد کرلو" کا دیا جائے گا جیسے پہلی جنگ عظیم سے لے کر داعیش تک ہر مسلۓ کا حل بچہ پیدا کرنا ہو. 

غرض اک مکمل اور بھرپور رشتے کا محور جسمانی ضروریات کو ٹھرا دیا جاتا ہے!

تو آپ شادی تک تو پہنچ گئے ؟
 لیکن نہیں . میں چاہتی ہوں آپ ذرا پیچھے جا ئیں اور دوبارہ سے سوچیں لیکن مختلف . 

ہم سب جانتے ہیں کے جب بچہ اپنی ماں کے بطن میں ہوتا ہے تو اسکو سب سنائی اور محسوس ہوتا ہے اور وہ بہت کچھ خود میں جذب کرتا ہے . اب آپ ہی بتائیں جو پودا محبت کے نہیں بلکہ مجبوری سے بویا گیا ہو اور پِھر اسکو سینچا  بھی انہی اطوار پر جائے ، تو کیا وہ بنیادی طور پر مکمل ہو گا ؟ 

والدین بچوں کو شروع سے ہی ایسی تربیت  دیتے ہیں جس میں ان کو سوال پوچھنے، انکار کرنے،یا پھر منطق ڈھونڈنے کی اجازت نہیں  ہوتی. اگر اتفاق سے کوئی ایسی جرّت کرلے تو اسکو کہہ  دیتے ہیں "زبان درازی مت کرو" کیوںکہ ماں باپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. دوسرے وہ بچے کہ اندر سے یہ للکار اور بغاوت ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کے بتاۓ  ہوئے راستے پر چلے اور ان کے دکھاۓ  ہوئے خواب دیکھے . 

 پاکستان کا ہر بچہ ڈاکٹر، انجنیئر یا پھر پائلٹ وغیرہ بننے کے خواب دیکھتا ہے. اس کی سوچ پر اسکی تربیت اتنی حاوی ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس دائرے سے باہر نہیں آ  پاتا جس میں وہ شاید بہترین پینٹر، ڈیزائنر، یا پھر کچھ اور بن سکتا ہو. 

یہی وجہ ہے کہ ہم گھسی پٹی تربیت کرتے ہیں.

بالکل اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں بھی خود ہی خود سوچ لیتے ہیں جس میں اول نمبر پر ماموں اور خالہ کے بچے ہوتے ہیں. کبھی کبھار چچا پھوپھی بھی کسی کھاتے میں آجاتے ہیں. 


ہمارے معاشرے کی یہ روش ہی نہیں کہ اپنی ہی نسل کو سمجھیں، پہچانیں، اور فیصلوں کو جذباتی مجبوری میں انکو قربان نہ کردیں.

بنیادی طور پر تو ہمیں اپنے مستقبل کی تربیت خود سے بہتر کرنی چاہئے لیکن نہیں ہم اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنے ہی نطفے سے لیتے ہیں.

یہی وجہ ہے کے جو ہمیں ہمارے والدین سکھاتے ہیں ہم بس اسی کو کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں اپنی اولاد کی تربیت پر . اب تو نسلیں گزر گئی ہیں اِس خطے میں ایسے ہی مجبوریوں میں گھری لیکن کیا آپکا میرا فرض نہیں کہہ ہم روایت سے باہر نکل کر سوچیں ؟ سہی اور غلط کی پہچان کرائیں ؟  آنے والی نسل کو یہ نہ سکھایں کہ کیا سوچنا ہے بلکہ اسکی سوچ پر سے پہرے اٹھایں . 


 ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو وہ سب دینا چاہئے جو ہمیں نہیں مل سکا.......جیسے ذہن کی آزادی، سوچ کی پروان، اور سب سے بڑھ کر فیصلوں کی خود مختاری. 






بانوسازی  

٧ اپریل، ٢٠١٥


Mar 24, 2015

Raqeeb -رقیب


نیند کی تار پر 
خواب پڑے ہیں،
وقت کی دھوپ
یونہی پڑتی رہے گی. 

رات کی اوس میں 
جب بھیگے بھیگے،
ساری شب 
نیند جاگتی رہے گی. 

جہاں پر دو سائے 
سہارے بنتے ہیں،
میری نیند اس بیچ 
پڑی رہے گی.

تم کروٹ کروٹ
بدلو گے،
میری آنکھوں میں
نیند جاگتی رہے گی!



بانو سازی 
اگست ٨، ٢٠١١
رات ١:٣٨

Neend ki taar per,
khwaab parr'ay hain,
Waqt ki dhoop 
yun'hi parti rahe gi,

Raat ki ows main 
jab bheege bheege ,
Saari shab 
neend jaagti rahe gi.

Jahan per do saa'ye
sahare bante hain,
Meri neend us beech 
pa'ri rahe gi.

Tum karwat karwat 
badlo gay,
Meri aankhon main
neend jaagti rahe gi


by Bano B.
August 8th, 2011
1:38 am



Mar 19, 2015

Mar 17, 2015

مصائب --- Masai'ib

   
کچھ پرانے خط 
لکھے وعدے 
وعدوں میں خواب 
خوابوں میں تم
تم سے ہم 
ہم سے میں
 مکمّل الفاظ 
ادھورے جملے

مٹی کا گھر
وقت کا طوفان 
زمانے کا قہر 
زبانوں کا زہر 
لمحوں کی رفاقت
 حیاتی جدائی

دلوں کا صیغہ  
عدّت تا  قیامت.

  

بانو سازی 
مارچ ١٧، ٢٠١٥
شام ٦:٢٧


Kuch puranay kha'tt
Likhay waaday
Waad'on main khwa'ab
Khwaab'on main tum
Tum say hum
Hum say main
Mukammal alfaaz
Adhooray jumlay

Mit'ti ka ghar
Waqt ka toofan
Zamane ka qehar
Zubano ka zehar
Lam'hon ki rafaqat

Hayati judai

Dil'on ka seegha
Idda'at ta-qayamat.


by Bano B.
March 17th, 2015
6:27pm


Mar 16, 2015

جنگ و جدل اور تم


جلتے ہوئے شہر، مرتے ہوئے لوگ اور تمہاری آمد!

یوں لگا جیسے اچانک سے دنیا نے خود کو روکا اور ہر چیز کو اپنی جگہ پر کردیا ہو. فرشتوں نے ذرا فرصت نکالی اور صفائی کی جھاڑو پھیر دی ہو. سننے میں ناممکن لگتا ہے نا ؟

لیکن نہیں!

تم میرا معجزہ ہو. یہ کوئی بھی نہیں بلکہ تم خود بھی نہیں سمجھ سکتے کہ تمہاری آنکھوں کی چمک سے میرا آسمان زمین پر اتر کر جگمگانے لگتا ہے. میری مسکراہٹ بنا میری اجازت کے  ہنسی اور ققہوں میں بدل جاتی ہے.  جانتے ہو بہت دیر تمہاری طرف دیکھ بھی نہیں سکتی......آتش گیر مادہ ہو تم!

میں جب جب تمہارے برابر میں چلتی ہوں تو سوچتی ہوں آخر دنیا میں اتنا ظلم کیوں؟ خون خرابہ کیوں؟ سب لوگ اپنا اپنا معجزہ کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے؟

پھر سوچتی ہوں خدا تمہارے بعد شاید اتنا مہرباں ہوا ہی نہ ہو.

یہ جو گہری بھوری آنکھیں ہیں نا ......قسم لے لو بنا پلک جھپکے اک عمر گزار دوں.
چوکور سے چہرے پر باریک ہونٹ جب کچھ کہنے کہ لئے کھلتے ہیں تو لگتا ہے کسی نے بِاب فردوس کھول دیا ہو.

میرا قوی یقین ہے تم نے بھی خود کو کبھی آئینے میں یوں نہ دیکھا ہوگا جتنا میں نے تم کوبہانوں بہانوں سے دیکھا. میری دھڑکن حلق میں آجاتی ہے جب تمہاری نظر مجھ پرہوتی ہے.  

دل میں کوئی محبّت نہیں تمہارے لئے کیوںکہ عمومی طور پر اس جذبے میں امیدیں، وعدے، صدمے، اور افسوس ہوتا ہے. تم جنوں بھی نہیں کیوںکہ ہمارے مابین کوئی عشقیہ معاہدہ بھی نہیں. 

اتنے سالوں میں مجھے اس جذبے کہ لئے نام نہیں ملا لیکن یہ طے ہے کہ محبّت سے بڑھ کر اور عشق سے کچھ کم  جو بھی ہو...تم ہو.....لیکن تمہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے. 


Mar 15, 2015

انقلاب نہیں تہذیب

ہم طالبان کو ایک جماعت کے طور پر جانتے ہیں جب کہ سچ تو یہ ہے کے طالبان ایک سوچ ہے جو بہت تیزی سے پاکستان میں سرائیت کر چکی ہے.  ضروری نہیں  کے یہ سوچ آپکو  بھر داڑھی اور اونچی شلوار کے ساتھ ملے. بس کسی  شخص کی زبان کھلنے کی دیر ہے اور پیٹ کی داڑھی منہ سے باہر لٹکنے لگتی ہے.

بر صغیر کے اس خطّے میں اسلام تب اتنا نہیں پھیلا تھا جب جناب محمّد بن قاسم باب السلام سے داخل ہوئے تھے، جتنا ٩/١١ کے واقعے کے بعد پھیلا ہے. کچھ دنوں میں آپ پتھر اٹھایں گے اور کیڑا کہے گا وہ بھی مذہبی ٹھیکیدار ہے. شاہد آفریدی جیسا مایہ ناز بین الاقوامی شہرت کا کھلاڑی ہو یا اوریا مقبول جان جیسے جان کے دشمن ان سب کا اسلام عورت پر نازل اور حاصل ہے.

پاکستانی فطرتاً ایک ایسی قوم ہے جس نے دنیا بھر ک مسلمانوں کا ٹھیکہ  لے رکھا ہے. سعودی عرب نے کبھی یہ باپ جیسی شفقت برما، کشمیر، بوسنیا، یا فلسطین کے مسلمانوں کے لئے نہیں دکھائی، لیکن ہماری سڑکوں اور شاہراوں پر آپکو ہندوستان اور اسرائیل کے جھنڈے جلتے نظرآیں گے اور ساتھ ہی روتی چیختی عورتوں کی تصاویر تاکہ زیادہ سے زیادہ چندہ جمع ہوسکے.

اس وقت کسی مسلمان مرد کو ان عورتوں کی نامحرم ہونے پر اور حرمت پر خیال نہیں آتا. اسلام خریدنا ہو یا بیچنا ہو، تولہ ہمیشہ عورت ک باٹ پر جاتا ہے.

میرا ذاتی اختلاف مردوں سے نہیں ہے، کیوں کہ ماشاللہ سے فرحت ہاشمی نے زنانی طالبان کوبڑا فروغ دیا ہے. پڑھی لکھی، کماؤ پوت خواتین بھی اسی طالبانی .
سوچ سے حاملہ ہیں 

شاہد آفریدی نے اپنی  پہاڑی سوچ اور شکاری دماغ کا بھرپور استمعال کرتے ہوئے
 کہا کہ عورتوں کو کچن تک ہی رہنا چاہیے.  تب سے مجھے اسکی چار بیٹیوں پر ترس اتا ہے جنکا مستقبل اب صرف چولہے کی آگ تک روشن ہوگا.  

میری اس بات پر میری ایک جان پہچان کی خاتون نے بہت اعتراض کیا.
بذات خود وہ  خاتون برطانیہ سے پڑھ کر آیی  ہیں اور آج کل پسند کی شادی کی جدوجہد کر رہی ہیں ہیں، فرمانے لگی کہ شاہد آفریدی کی بات کو غلط رنگ دیا جارہا ہے اور یہ اسلام کہ عین مطابق ہے.جب میں نے انھے حضرت خدیجہ کی تجارت یاد دلایی تو لمبی خاموشی چھا گیئ .

 روزانہ کے حساب سے سینکڑوں مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوا پڑھ لکھ جانے سے آپ کا ذھن نہیں کھل جاتا. عزت کردار اور عمل سے نہیں بلکے حلیے سے بنایی جاتی ہے. کوئی خاتون جو بنا دوپٹتے یا جینز میں ہونگی.


زیادہ دن پرانی بات نہیں ہے جب سوشل میڈیا پر ایک تصویر بڑے زور و شور سے چلی اور وہ تھی رحام خان اور وینا ملک کی جس میں دونوں خواتین  اسلامی لحاظ سے  باپردہ اور باحیا نظر آرہی تھیں. 
یہ وہی دو عورتیں ہیں جو ماضی میں اپنے پروفیشن کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح خبروں کی زینت بنی رہی ہیں. 

عمران خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے رحام خان بی بی سی چینل پر موسم کا حال سناتی تھیں اور جیسے تمام اور خواتین مغربی لباس پہنتی تھیں ویسے ہی وہ بھی رہتی تھیں. جرنلزم میں ڈگری رکھنے والی، تین بچوں کی ماں، اور پچھلے دو سال سے پاکستانی براڈکاسٹ جرنلسٹ ہونے کے باوجود رحام نے اپنا حلیہ کیوں بدلہ؟ رحام نے ایسا اپنی دوسری شادی کے بعد ہی کیوں  کیا؟ کیا ان سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں حلیے کو لے کر؟ یا پھر ان کو لگا کے سر ڈھانک کر وہ پاکستانی معاشرے کا زیادہ عزت دار حصّہ بنیں گی؟

وینا ملک کسی تعرف کی محتاج نہیں.
بگ باس جیسے مشہور زمانہ پروگرام میں حصّہ لینے سے لے کر برہنہ تصاویر تک وینا نے کسی نہ کسی طرح خود کو خبروں کی زینت بنا کر رکھا ہے.  آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں محمّد آصف کو بھول گی ہوں یا مولانا طارق جمیل کے حوالے یاد نہیں لیکن وہ میری بات کا مقصد نہیں. حیرانی مجھے تب ہوئی جب میں نے وینا کو عبایا میں لپٹا دیکھا. 

آخر یہ اچانک بدلاؤ کیوں وہ بھی شادی کے بعد؟ کیا ان دونوں عورتوں کی اپنی کوئی شناخت نہیں تھی اس سے پہلے؟

اس سوال کے بعد میں نے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی تو جواب میرے سامنے تھا.

ہم ایک ایسا  معاشرہ ہیں جہاں کردار سے زیادہ دکھاوے کی قدر و قیمت ہے. ہم نے مذہب کو اور اس کے احکام کو گنگا کا پانی سمجھ لیا ہے.
میرے اس اعتراض پر کافی زبانی لبرل اور سیکولر لوگوں کا کہنا ہے کہ خدا نے ان عورتوں کو ہدایت دی ہے اور آپ بےپردگی کا دفاع نہ کریں.

با پردہ، بے پردہ، یا برہنہ......یہ سب مقصد ہی نہیں.
بات یہ ہے کہ ایک کامیاب، پڑھی لکھی، دنیا کو پرکھنے اور جانچنے والی عورت کو پاکستانی معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کیلئے اپنی شناخت کیوں چھوڑنی پڑی ؟ 
رحام خان کیا ان عام لڑکیوں، عورتوں کی طرح نہیں رہ سکتی تھی جو انقلابی دھرنے میں شرکت کے لئے آتی تھیں؟
کیا رحام ڈان نیوز کا شو ویسے ہی کریں گی جیسے پہلے کرتی تھیں؟

کیا وینا ملک عام حلیے میں رہ کر خود کو اچھی بیوی اور ماں ثابت نہیں کرسکتی؟

جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟
کیوںکہ میں اور آپ قاضی شہر بن گئے ہیں. اب ہم بتایئں گے کہ ان عورتوں کو اپنا آپ بےداغ ثابت کرنا پڑے گا اور اسکا پہلا قدم ہے سر ڈھانکنا.

شادی سے پہلے عمران خان یا اسد بشیر خان اپنی اہلیاؤں کو نہیں جانتے تھے؟ کیا انہوں نے ان عورتوں کو اس لئے پسند کیا تھا کیوںکہ وہ سر ڈھانکتی تھیں یا خود کو چادر میں لپٹتی تھیں؟
یقینن نہیں!
اہیمیت ان خواتین کی پہچان کی ہے، ان کے ذہنی خدوخال کی ہے. 

پاکستانی مسلمانہ مردانہ سوچ وہیں کپڑے اتار کر کھڑی ہوجاتی ہے جب وہ چہرے کی جگہ آپ کی ہر اٹھان دیکھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں. لیکن قصور تو عورت کا ہے جو بنا دوپٹتے یا جینز میں آپ کی مردانگی جگانے آگئیں 
ایسے موقعے پر پیٹ میں داڑھی رکھنے والے حضرات آپ کے باپ، بھائی ، شوہر کی غیرت کو للکارنے سے بھی باز نہیں آیں گے.

پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت ہونا روز کی نوکری ہے. آپکو روز یاد دلایا جائے گا کہ عورت ہونا کتنا غیر محفوظ اور نامکمل ہے جب تک آپ کے پاس پردے اور محرم جیسا محافظ نہیں.

اس ملک کو انقلاب کی نہیں تہذیب کی ضرورت زیادہ ہے. 

اگر ہم واقعی ایک ترّقی پسند ملک اور معاشرہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ان لبادوں سے باہر نکلنا ہوگا اور ہر انسان کو چاہے مرد ہو یا عورت اسکو عمل کی قید سے آزاد کرا کر اسکی شناخت لوٹانی ہوگی.






Mar 3, 2015

Never Ending Song of YOU - II


Ever got belly butterflies?
I do.

The ones that flutter right through my chest and make the blood rush through my cheeks. This fluttering is hard to hide because the glint in my eyes hint on the thousand stories that we have written together

I am not beautiful. 
It's your thought that does the magic.

I forget to blink when you open your symmetrical mouth to speak, and the curve that they call smile is actually a crescent on my heart.

When sun sets itself on your hands, they shine like fields of gold entangled in my fingers. I have spent hours watching you in your sleep with a gap between your lips. Those hours are so well spent that even sunshine takes time to reach us and wake you up.

I can spend my whole day in the scent that you left behind. That’s what makes me do waltz even when you aren't present because you are never gone.

Your ruffled hair set my heart on fire and everything else straight.

You are my all-time season of spring.

You are my never ending song of eternity.



by Bano B.
March 3rd, 2015
5:10 pm

Never Ending Song of You - I  can be read here