Sep 30, 2019

چاۓ کا کپ اور صبین محمود


گزرے ہوئے اتوار کی صبح، میں جلدی جلدی تیار ہوئی اور اپنی دوست کے ساتھ کراچی شہر کے کیپری سنیما پہنچی. وہاں  جرمن گوئتھے انسٹیٹیوٹ کی جانب سے صبین محمود پربنی ڈوکمنٹری فلم  دکھائی جارہی تھی.

ڈوکمنٹری کے اختتام پرمیں اور میری دوست خاموشی سے ہجوم سے الگ ہو کر باہر آگئے.ایک طرف خوشی اس بات کی تھی کہ صبین کو یاد کرنے والے ہیں دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور ان میں سے ایک ہیں اس  ڈوکمنٹری فلم  کی ڈائریکٹر شوکوفی کامیز. دوسری جانب دل میں ایک سوال آیا کاش کسی ہم وطن نے صبین محمود کو یہ نذرانہ پیش کیا ہوتا.     

 صبین محمود کا جب ٢٤ اپریل، ٢٠١٥ میں قتل ہوا تھا تو ملک کا ہر ذی شعور انسان سوالیہ نشان بنا ہوا تھا. یہ سوال اس ڈوکمنٹری کی اسکریننگ کے بعد ایک بار پھر تازہ ہوگیا. 

سنہ ٢٠١٥ میں سائبر کرائم بل پاس ہونے کے بعد کئی ایسے موضوعات ایسے تھے جن کے بارے میں گفتگو کرنے سے بڑے بڑے اداروں نے بھی معذرت کرلی تھی. ان میں سے ایک موضوع تھا "بلوچستان".

صبین کا قتل اس سیمینار سے واپسی پر ہوا جس کا موضوع "unsilencing balochistan" تھا. یہ سیمینار کوئی ہفتہ بھر پہلے، پاکستان کی ایک پائے کی یونیورسٹی نے کرنے سے انکار کردیا تھا، لیکن صبین محمود نے اپنے کیفے T2F میں اس کو آواز دی. 

افسوس، اس سیمینار کے فوراً بعد ہی صبین محمود ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئیں.

کراچی نے ٹارگٹ کلنگ کے نام پر کئی گوہر نایاب کھوۓ ہیں. پروین رحمان، علی رضا عابدی،امجد علی صابری، خرّم زکی، اور صبین محمود ان میں سے چند ایک نام ہیں. یہ تمام نام دن دہاڑے، کراچی میں سچ بولنے یا اس کی پیروی کرنے کے جرم میں قتل ہوئے. غور کیا جاۓ تو ان تمام لوگوں میں ایک بات مشترکہ تھی اور وہ تھی "بے خوفی"!

 سنیما کی دوسری جانب ایک چائے کا ہوٹل تھا لیکن اس تک جانے کے لئے ہمیں انتہائی ٹوٹی پھوٹی سڑک پار کرنی پڑی، گٹر اور بارش کے پانی کو پھلانگ کر ہوٹل تک جانا ہوا.





ہم نے دو چائے منگوائی اور کھنڈر سے بدتر سڑک دیکھنے لگ گئے. میں اور میری دوست دونوں ہی ملک سے باہر ایک عرصہ گزار چکے ہیں لیکن اس وقت ڈھابے پر بیٹھے ہم نے یہی سوچا کہ اپنا شہر پھر اپنا ہوتا ہے. ہم اس کو اس کی تمام تر کمی اور کم ظرفی کے باوجود اپنا مانتے ہیں. 

جانے کہ ایک گھونٹ میں ہی یہ بات صاف دکھنے لگی کے خوف سے بھاگ کر جینا بھی کوئی جینا ہے.صبین محمود اپنے اطراف کے خطروں سے واقف تھیں لیکن نہ ہی اپنے لئے محافظ رکھے، نہ  پھونک پھونک کر قدم اٹھایا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کوچ کیا. 

یہ وہ لوگ تھے جو اپنے شہر کو اپنا گھر سمجھتے تھے، اپنے ملک کو اپنا محافظ مانتے تھے. صبین کو قتل کرنے والے اس بات سے ناواقف تھے کہ جسم چھلنی کر سکتے ہیں لیکن خیال نہیں!

صبین کی سوچ آج بھی ان کی والدہ اور دوستوں کے زریعے PeaceNiche اور T2F کی صورت میں زندہ ہے. امید ہے کہ کبھی نہ کبھی تو میرے لوگ آزادی کو آزاد کریں گے، اور برابری کے حقوق کا آغاز کریں گے.



کب نظر میں  آئے  گی  بے داغ  سبزے  کی  بہار
خون کے دھبّے دھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد  
                                                                              (فیض)


Sep 7, 2019

شیعہ سکاؤٹس - گمنام سپاہی

Originally published here NayaDaur Urdu



میں کراچی کے ایک مرکزی امام بارگاہ میں پچھلے ١٥ سال سے مسلسل مجلس سننے جاتی ہوں. کل جب لاؤڈ سپیکر خراب ہوگیا میری سڑک کی طرف والا تو میں نے ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو روکا اور پوچھا، "بیٹا سپیکر تو کھلوا دو." 
اس بچے نے بڑی عاجزی سے مجھے کہا "آنٹی، بارش کی وجہ سے تار خراب ہیں. ہم کام کر رہے ہیں. آپ سے معذرت."

یہ بچہ ایک "سکاؤٹ" تھا!
تمیز، تہذیب، صبر، عاجزی، اور نظم و ضبط کی بہترین مثال اگر دیکھنی ہو تو پاکستان سکاؤٹس کے شیعہ رضاکاروں کو دیکھئے. 

 پاکستان میں پورے ملک سے اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ سے اوپر رجسٹرڈ سکاؤٹس ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں. 

 شیعہ سکاؤٹ بالخصوص محرم اور صفر کے مہینے میں متحرک ہوجاتے ہیں اور جذبہ حسینی کی خاطر رضاکارانہ طور پر مجلس جلوس میں انے والے عزاداروں کی خدمات میں کوشاں ہوتے ہیں.  

٩/١١ کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں وہ الگ، لیکن جو نقصان اور خطرہ پاکستان کی شیعہ برادری نے مول لیا وہ الگ.

سب سے زیادہ آسان اور کھلا ہدف محرم کے جلوس اور مجالس ہوتی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں حضرت امام حسینؑ کے ماننے اور چاہنے والے جمع ہوتے ہیں. ایسی جگہوں کو محفوظ بنانا یقینن ایک انتہائی مشکل کام ہے جو اکیلے پاکستان کے حفاظتی ادارے جیسے آرمی، رینجرز، اور پولیس نہیں کر سکتی. 

ایسے وقت میں شیعہ سکاؤٹس - رضاکار عوام اور اداروں کے بیچ میں رابطے کی صورت اختیار کرتے ہیں. کوئٹہ ہو یا کراچی، گلگت ہو یا پاراچنار، یہ رضاکار اپنی جان ہتھیلی پر لئے، تمام خطرات سے اگاہ ہوتے ہوئے بھی عزادار حسینی کی حفاظت کو اولین فرض سمجھتے ہی.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سکاؤٹس کی حفاظت کے لئے بھی کوئی اقدامات ہیں؟

سرور حسین (سردار) صاحب ١٩٧٧ سے پاکستان سکاؤٹس کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس وقت سندھ سکاؤٹس کے محرم کوارڈینیٹر اور کراچی اوپن ڈسٹرکٹ کے رجسٹرار  بھی ہیں. سردار صاحب کا ماننا ہے کہ سکاؤٹس ایک رضاکارانہ خدمت ضرور ہے لیکن اچھا ہوگا اگر مختلف سکاؤٹس انجمن گروپ کی صورت میں لائف انشورنس یا میڈیکل انشورنس جیسی سہولیات کا سوچیں.

سردار صاحب کے مطابق محرم سے پہلے سندھ رینجرز، اور سندھ پولیس سکاؤٹس کو ممکنہ ٹریننگ دیتی ہے جس میں بم ڈسپوزل، دہشت گردی کا حملے کی روک تھام اور چیکنگ وغیرہ شامل ہوتی ہے. 

کراچی کے مرکزی جلوسوں میں حملے میں شدید جانی نقصان اٹھایا ہے. اس میں کئی سکاؤٹس کے جوان بھی تھے جو ماتمین کی حفاظت کرتے ہوۓ شہید ہوگئے. 

زین، ٢٩ سال کے ہیں، ٢ بیٹیوں کے باپ، اور کراچی میں ایک جانے مانے امام بارگاہ میں ١٢ سال سے سکاؤٹ کی خدمات انجام دیتے ہیں. زین کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر سکاؤٹس اور ان سے منسلک انجمن کو چندے کی صورت میں عزادار بھی مدد کریں. اس سے حفاظتی اقدام لینے میں آسانی ہوگی. 

زین کہتے ہیں، جو پیسہ چندے کی صورت جمع ہوگا وہ سکاؤٹس کی ٹریننگ اور حفاظتی اقدام پر استعمال ہوگا، کیوںکہ جان سب کی قیمتی ہے.  

دوسری جانب سید عظیم ہیں جو ٥ سال کی عمر سے العباس سکاؤٹس کراچی، سے منسلک ہیں. عظیم کا ماننا ہے کہ انہوں نے پچھلے ١٥ سالوں میں سکاؤٹس کو اپنی مدد آپ ک تحت بہتر ہوتے دیکھا ہے. امام بارگاہوں میں بہتر سیکورٹی آلات نصب کرنا، حفاظتی اداروں کے ساتھ مل کر نت نئی حفاظتی طریقے کار کا اقدام کرنا. یہ سب سکاؤٹس اب اور زیادہ دھیان اور جذبے سے کرتی ہے کیوںکہ عزادار حسینی کا ان پر اندھا اعتماد ہے.

پاکستان شیعہ سکاؤٹس آپ کو بلا کسی غرض کے کام کرتے نظر آئیں گے. چاہے وہ کراچی کی تیز بارش ہو، یا گلگت کی برفباری. شیعہ سکاؤٹس کی تربیتی اقدار باقی تمام سکاؤٹس سے قدرے مختلف ہیں. 

انہیں معلوم ہوتا ہے کے یہ جلوس کے سامنے چلتے ہوئے جایئں گے لیکن شاید واپس نہ آئیں. ہو سکتا ہے حفاظتی چیکنگ کرتے ہوئے کوئی خودکش ان سے لپٹ جائے اور ان کا جنازہ بھی سلامت گھر نہ پہنچے.

کیا ان سب باتوں کے باوجود، کبھی کسی گھر والے یا پیاروں نے ان کو روکا خدمات حسینی سے؟

فروا کے والد صاحب کراچی کی مختلف سکاؤٹ انجمن کے ساتھ منسلک رہے اور کراچی میں ہونے والے دھماکوں اور تباہی کے عینی شاہد تھے. فروا کہتی ہیں، شہادت ہماری عقیدت کا بنیادی حصہ ہے. ہم کسی کو اس سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی اس کام کے لئے اپ کبھی کسی سکاؤٹ کو پیچھے ہٹتا دیکھیں گے. ہر دہشت گردی کے حملے کے بعد، شیعہ برادری اور زور و شور سے آگے آتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم کفن پہن کر گھر سے نکلتے ہیں. 

"گھر والے بس گاہے بگاہے فون کرتے ہیں اور محفوظ رہنے کا کہتے ہیں." 
عظیم جو کراچی میں تو سکاؤٹس کی خدمات انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ میں عراق میں بھی عاشورہ اور اربعین کے رضاکار ہیں. ان کا ماننا ہے کہ آپ کسی کو اس نیک عمل سے روک نہیں سکتے. 

دوران مجلس آپ کا کبھی بھی اتفاق ہو تو آپ سکاؤٹ سے پوچھیں کہ وہ کب سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور کیوں؟

عمومی طور پر یہ بچپن سے ہی سکاؤٹ میں آجاتے ہیں اور "حسینؑ کی خدمت" کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں. جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، سکاؤٹس کے جوان اور بوڑھے اپنی روز مرہ کی زندگی کو محرم کیلنڈر کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں. 

جو سٹوڈنٹس ہوتے ہیں وہ تعلیمی مصروفیت  ختم کرتے ہی امام بارگاہ اور انجمن کا رخ کرتے ہیں. دفتر جانے والے یا تو جلدی چھٹی لیتے ہیں یا پھر پہلے عشرے میں مکمل چھٹیاں. زین، اپنے دفتر کی چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں تاکہ محرم میں کام آسکیں. 

سکاؤٹس، ایام حسینی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنا رضاکارانہ فرض یاد رکھتے ہیں. ان کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت ہوتا ہے جو مسلک، مذہب ہر چیز سےبالاتر ہے. 
عظیم بتاتے ہیں کہ محرم کے شروع ١٠  دن،سکاؤٹس آرام بھول جاتی ہے. یہ مسلسل مجلس کے ایک کونسے سے دوسرے کونے تک خدمات میں مصروف رہتے ہیں. گاڑیاں پارکنگ میں لگوانے سے لے کر چیکنگ تک ہر چھوٹا بڑا حفاظتی اقدام ان کے سر ہوتا ہے، جس کی اجرت کوئی نہیں لیکن لطف بہت. 

پاکستان سکاؤٹس- بالخصوص محرم میں آپ کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں. ان کے لئے نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی، نہ ہندو، نہ عیسائی. ان کے لئے سب انسان ہیں جن کی خدمت ایام حسینی میں سکاؤٹس خود پر فرض سمجھتی ہیں.

وقت بدل رہا ہے، ملکی حالات بدل رہے ہیں، اور اس میں یہی امید کی جا سکتی ہے کے شیعہ نگران اور انجمنیں سکاؤٹس کی ذاتی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بہتر اقدام لیں گی.

بحثیت قوم، سکاؤٹس کے ساتھ تعاون کریں، عزت کریں، اوران کا کام آسان بنائیں!

Sep 1, 2019

تاریخ عزاداری

Originally published here HumSub


یوں تڑپتے ہیں محرم کے لئے اہل عزا
حبس میں جیسے کوئی تڑپے ہوا کے واسطے
                                               (ماخوز) 

لغوی بیانیے کے مطابق لفظ عزاداری فارسی کا ہے جس کے معنی سوگواری یا غم منانے کے ہیں. عام طور پر آپ سنیں گے کہ مجلس، ماتم، اور عزاداری جیسی روایت نئی نویلی ہیں اور ان کا تاریخ سے یا  مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے.

سچ تو یہ ہے کہ، اسلام کا سیاسی رخ بدلنے اور بنانے میں سب سے بڑا واقعہ، واقعہ کربلا ہے. یہ وہ سانحہ ہے جس نے صحیح اور غلط، حق و باطل، سیاہ و سفید، ظالم و ملزوم، اور ایسی تمام تفریق کو میدان کربلا کے پلڑے میں کھڑا کردیا. یوں تا قیامت، بنی آدم کے لئے اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوگئی. 

بعد از کربلا، تقریباً ایک سال کے بعد جب اسیران شام کی رہائی ہونے جارہی تھی، تب یزید نے حضرت زینبؑ سے پوچھا اگر بی بی کی وقت رخصت کوئی خواھش ہو. بی بی زینب نے فرمایا کہ جنگ کے بعد انہیں اپنے پیاروں کی بے درد شہادت پر رونے اور گریہ و زاری کا موقع نہیں ملا. 

یوں زینبؑ بنت علیؑ نے تاریخ میں پہلی عزاداری براۓ کربلا کی بنیاد رکھی!

١٠ محرم، روز عاشور جب امام حسینؑ نے "ھل من الناصر؟" کی صدا لگائی تھی توکوئی نہیں آیا تھا اور امام نے اپنے خاندان، صحابہ، اور ناصرین کے ساتھ یہ جنگ اکیلے لڑی. 

اس روز کے بعد، مسلمان بلخصوص شیعہ مسلمان عزاداری حسین کا اہتمام کرتے ہیں اور زمانے میں ہونے والی ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف یک آواز ہوتے ہیں. ساتھ ہی ساتھ محرم کا پہلا عشرہ اور اس میں ہونے والی مجالس، کائنات کے لئے یاد دہانی ہیں کہ واقعہ کربلا کیا تھا، کیوں تھا،اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا. 

یتزاک نکاش، شیعہ تاریخ کے ماہرین میں سے ہیں اور انکی ریسرچ کے مطابق بی بی زینبؑ کے بعد بھی عزاداری حسین کا سلسلہ جاری تھا. خلافت امّید کے دوران عزاداری کا رواج خاموش اور ایک طرح سے تقیے کی نظر تھا. تمام مجالس و گریہ امام یا ان کے شعیوں کے گھر منعقد ہوتی تھیں. عباسی خلافت کے دوران یہ مجالس کچھ عرصہ کھلے عام ہوئیں.

لفظ عزا الحسین  کا تریقتاً استعمال پہلی بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے دور میں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے جد کو رونے والی مجلس کی میں تائید کرتا ہوں. 

پیٹر چیلکووسکی نیو یارک جامعہ سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ و حالات پر عبور رکھتے ہیں. انہوں نے اپنے ایک ریسرچ جرنل میں بیان کیا ہے کہ عزاداری کا پہلا سرکاری درجے کا واقعہ چوتھی صدی میں، سلطان معیز الدین دولہ کے دور میں پیش آیا تھا. تب بازار و دفاتر بینڈ ہوتے تھے اور روز عاشور عزاداری بپا ہوتی تھی.

دوسری طرف جے.کلمرڈ نے اپنے مذہبی مقالے میں لکھا ہے کہ ایران میں عزاداری اور ماتم کی روایت بارہویں صدی میں زور پکڑ گئی، اور سفوید خلافت کے دوران اسکو بھی سرکاری درجے پر لایا گیا.  

تیمور لنگ کا دور آیا اور عزاداری کا دائرہ جغرافیہ فارس اور عراق سے نکل کر سمرقند، بخارہ، اور آگے تک آگیا. ہم یہاں صرف تاریخ عزاداری کا بیان کر رہے ہیں تو ان ادوار اور بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی رجحانیت کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا. 

برصغیر میں یوں تو حوالہ ہے کہ سندھ میں جب عرب بسنا شروع ہوئے تو عزاداری کا اہتمام ہوا، مگر اس عزاداری کی صحیح ساعت لکھنؤ سے ہوئی جہاں آج بھی سب سے بڑا مرکزی جلوس روز عاشور نکلتا ہے. مرثیہ کی روایت یوں تو امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے ہے لیکن اردو میں مرثیے کو روح بخشنے کا سہرا لکھنؤ کے سر جاتا ہے.

اٹھارویں صدی نے لکھنؤ کو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیہ لکھنے والوں سے نوازا جیسے میر انیس، مرزا دبیر، اورعلی حیدر طباطبائ وغیرہ. 
لکھنؤ کی عزاداری نے برصغیر میں امام حسین کے غم کو آگے بڑھایا اور تبلیغ کی صورت پھیلا دیا. 

١٩٣٠میں مولانا سبط حسن وہ پہلے مولانا تھے جنہوں نے لکھنؤ میں عزاداری کو لیکچر کی شکل دی جو آج تک تمام مجالس میں دوہرائی جاتی ہے. مولانا کے اس طریقت میں پہلے سلام، پھر مرثیہ، پھر ذاکر کا بیان جو فضائل اور مصائب پر مبنی ہوتا ہے، اور سب سے آخر میں نوحہ خوانی ہوتی ہے. 

عزاداری نے بیسویں صدی میں جو نیا رخ لیا اس سے شیعہ مسلمانوں کو پیغام حسینی اور مقصد حسینی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی. یہ ایک ایسی تبلیغ کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ جو چاہے آ کر بیٹھے، سنے، سوال پوچھے، سمجھے، بلا تفریق!

محرم میں ہونے والی عزاداری دراصل ایک یاد دہانی ہے ہر زی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں؛ یا حسینی یا یزیدی. ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، دشمن بہت دوست کوئی کوئی ہوگا.


انسان  کو   بیدار  تو  ہو   لینے   دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں 'حسین'