Nov 28, 2019

بایئں نظرئیے کا دایاں رخ - پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن

Originally publish here NayaDaur Urdu



"بقول غالب، میری وحشت تری شہرت ہی سہی!
 تو بس ان کی جو وحشت ہے نا، وہی ہماری شہرت ہے."

ایسا کہنا  ہے، ٢٣ سالہ  وقاص عالم کا، جو پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن-کراچی PrSF کے بنیادی رکن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ٢٩ نومبر کو آنے والے "طلباء یکجہتی مارچ" کے منتظمین میں سے بھی ہیں. 




وقاص اپنی عمر میں کچے لیکن خیال کی پختگی میں ملکی سیاست کے بزرگوں کو مقابلہ دے سکتے ہیں. مرزا غالب اور کارل مارکس سے وابستگی انہیں وراثت میں ملی ہے. صاحب اکثر غالب کی شاعری فلسفے کے مختلف نظریات کی روشنی میں سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں. 

ساٹھ کی دہائی میں جب نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو کراچی شہر اور اس کے کالج اور جامعات کا ایک بہت بڑا کردار تھا.  یہی وجہ تھی کے جب یکجہتی مارچ کا اعلان ہوا تو کراچی سے طلباء و طالبات کا جھکاؤ دیکھا گیا اور لیفٹ-ونگ میں ایک تیزی کی لہر آئی.

وقاص بذات خود جامعہ کراچی سے  سیاسیات میں ماسٹرز کے آخری مراحل میں ہیں اور پچھلے ٥ سال سے لیفٹ - ونگ سے خود کو منسلک بتاتے ہیں. قومیت کے لحاظ سے وقاص کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس نسبت سے ان کو لگتا ہے کہ لیفٹ کا نظریہ ان کے حالات و واقعات کی بہتر عکاسی کرتا ہے.

"جب میں نے لیفٹ کا نظریہ پڑھنا شروع کیا تو سمجھیں سب کچھ پلٹ گیا اور مجھے لگا میں ایک خول میں رہتا ہوں.میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تب مجھے NSF کی معلومات ہوئیں اور میں نے ٢٠١٧ کے آخر تک ان کے ساتھ کام کیا."

پاکستان میں طلباء میں سیاسی تعلیم اور نظرئیے کا شدید فقدان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طلبات اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے نصابی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور اداروں کی لائبریری خالی پڑی رہ جاتی ہیں. وقاص اپنی سیاسی معلومات اور تربیت کا سہرا کتابوں کو دیتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ١٠ سال کی عمر سے وقت گزارنا شروع  کردیا تھا.

ضیاء الحق کے دور میں طلباء یونین پر پابندی لگی کیوںکہ تب اداروں اور حکومت کو طلباء کی طاقت کا اندازہ تھا جن کا مظاہرہ وہ پچھلی حکومتوں میں کر چکے تھے. بعد از پابندی، ملکی سیاست میں مختلف اتار چڑھاؤ آئے جس میں ایک تو خود ضیاء الحق کا قتل تھا. اس کے بعد بھی ملک میں تبدیلی در تبدیلی جنم لیتی رہی مگر طلباء یونین کا معاملہ کہیں دب گیا.

طلباء یونین اورسیاسی طلباء تنظیم کا ایک بنیادی فرق ہے الیکشن!
یونین میں مختلف تنظیمیں، فیڈریشن الیکشن کے زریعے منتخب کردہ نمائندگان طلباء کی آواز بنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تدریسسی اداروں اور طلباء میں مفاد ہوتا ہے. جب کے سیاسی طلباء تنظیم اپنی بنیادی تنظیم کا منشور لے کر آتی ہیں، وہ بھی بنا کسی الیکشن کے جو طاقت اور تشدد کا باعث بنتے ہیں.

طلباء یونین بھی ایک بنیادی حق ہے جس کی غیر موجودگی میں ملک بھر میں طلباء کے ساتھ ہونے والی کوئی بھی ناانصافی کسی اجتماعی چھتر کے نیچے نہیں آ سکتی ہے. واقعہ چاہے مشعال خان کے بہیمانہ قتل کا ہو یا  جامعہ بلوچستان میں طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسائی کا. یونین نہ ہونے کے باعث طلبہ و طالبات انفرادی احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں. ایسے میں طلباء یونین کی بحالی ہی وقت کی عین ضرورت ہے.

آپ کی نظر میں کسی کو بھی طلباء یونین کی بحالی کا مطالبہ کیوں کرنا چاہئے؟ اسکی بنیادی وجہ یا فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟
"اس سوال کے جواب میں وقاص کا کہنا تھا، ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں حصّہ لے، معلومات رکھے. ریاست اور قوم کا رشتہ حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہیں جس میں ریاست کے فرائض ہیں اور قوم کے حقوق ہوتے ہیں. اس رشتے کی ہم آہنگی ہی ہمیں ایک بہتر ملک دے سکتی ہے. 

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس ڈکٹیٹر شپ ہے یا پھر موروثی سیاست جس کی موجودگی میں کسی بھی متبادل قیادت کا قیام عمل میں لانا ناممکن ہے. طلباء یونین مختلف طریقے جیسے ریڈنگ سرکل، سیمینار،آرٹ کے زریعے  طلباء کی سیاسی تربیت کرتی ہے جو مستقبل میں سیاسی قیادت کی بنیاد فراہم کرتی ہے."

ملک بھر میں جو ایک عام خیال پایا جاتا ہے وہ یہ کے طلباء تدریسی اداروں میں ہنگامہ آرائی، تشدد، یا قتل و غارت کی وجہ بنے ہیں. پابندی لگنے سے پہلے طلباء ایک مٹھی تھے لیکن جب بکھرے تو کچھ کنارہ کش ہوگئے اور کچھ نے سیاسی طلباء تنظیم کا رخ کیا. سیاسی تنظیموں سے سٹوڈنٹ ونگ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے.  اس کے بر عکس طلباء یونین تمام تفریقات سے بالا تر ہے. 

ایسا نہیں ہے کے ماضی میں حکومتوں نے طلباء یونین پر بات نہیں کی، لیکن کسی نے بھی اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لڑا. ١٩٨٨ میں محترمہ بینظیر نے جب حکومت سنبھالی تو پابندی اٹھا دی لیکن ١٩٩٣ میں یہ پابندی پھر عائد  کر دی گئی. اس پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ قدامت پسند یا مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کو ہوا جن کا٨٠ اور ٩٠ کی دہائی  بےدریغ استعمال ہوا.

اسی دوران APMSO نے بھی زور پکڑا اورIJT اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالف بن گئی. یوں سلسلہ شروع ہوا  جامعہ کراچی کی  بدترین طلباء سیاست کا! 
جامعہ کے جھگڑے، قتل و غارت سیاسی بنیاد پر تھے جس سے عام طلباء کا کوئی تعلق نہیں تھا. ان وجوہات کی بناء پر طلبہ و طالبات نے سیاسی طور پر تدریسی اداروں میں کنارہ کشی اختیار کرلی.




ملک بھر میں سیاسی تنظیموں کے طلباء ونگ کا زور ٹوٹنے سے یونین کی بحالی کا معاملہ کچھ حد تک آسان ہوا ہے، خصوصی طور پر کراچی میں جہاں کالج اور جامعہ کراچی میں حالات قابو میں رکھنے کے لئے سندھ رینجرز کی اکثریت ہے. 


اس پابندی کی بحالی پر بلند و بالا آواز اٹھنے میں اتنے سال کیوں کیوں لگے؟
"وقاص کہتے ہیں کہ، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈرشن نے ٢٠٠٧ پھر متحرک ہونا شروع کیا تھا جس کی بنیادی وجہ  صدر پرویز مشرف کے آخری دور میں پیدا ہونے والا معاشی بحران تھا. بین الاقوامی سطح پر بھی یہ زوال آ چکا تھا اورتب پاکستان میں لیفٹ-ونگ کو لگا کہ یہی موقع ہے.

اس طرح سے ایک بار پھرلیفٹ کی بنیاد رکھنا شروع کی گئی، جس میں مختلف اشکال پیدا ہوتی رہیں لیکن ایک بات جو قائم کردی گئی وہ یہ کہ، لیفٹ-ونگ نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی تھی. ہم نے محاذ کھولنے کے بجائے مختلف تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور ملاقات کی کیوںکہ ہم خود کو ایک سیاسی تربیت گاہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں.

تمام لیفٹ تنظیموں نے، کارکنان نے پچھلے چند سالوں میں بہت محنت کی ہے تاکہ ایک منظّم طریقے سے ہم باقاعدہ تحریک کا آغاز کر سکیں. فیض فیسٹیول، ریڈنگ سرکل، سٹریٹ تھیٹر وغیرہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں. اس سے ہم لوگوں میں آگاہی اور شعور اجاگر کرتے ہیں."

 کراچی شہر میں وقاص اور ان کے PrSF  کے ساتھی دن و رات آنے والے طلباء یکجہتی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں. جامعہ کراچی میں مختلف جگہ پر طلباء و طالبات پر امن طریقے سے مظاہرے کی تیاری کرتے نظر آئیں گے. 

اس تمام عمل کی خوبصورتی یہ ہے کہ PrSF کراچی میں موجود ہر بڑی چھوٹی طلباء تنظیم کو دعوت عام دے رہی ہے. ضروری نہیں کے آپ اس وقت طالب علم ہی ہوں تو اس مارچ کا حصّہ بن سکتے ہیں. یہ مارچ تعلیم سے جڑے ہر مسلۓ کے لئے ہے. بڑھتی ہوئی فیس، گھٹتے ہوئے تعلیمی بجٹ، اور کالج جامعات میں ہونے والے واقعیات کی ترجمانی کرتا ہے. 





٢٩ نومبر کو ملک بھر میں ہونے والا یہ مارچ، کراچی میں بھی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہوگا. یہ مارچ انتہائی منظم طریقے سے سرانجام ہوگا، یہاں تک کے PrSF نے نعرے بازی کی ٹیم الگ تشکیل دی ہے جب کے مختلف رضاکار بھی اس میں حصّہ لے کر مارچ کو منصوبہ بندی کے تحت چلائیں گے.

ان تمام باتوں کے با وجود سوشل میڈیا پر لیفٹ-ونگ کافی تنقید کا شکار ہے کیوںکہ جن ممالک نے اس نظرئیے پر چلنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہے ہیں.  

"وقاص کہتے ہیں کہ ہر نظریہ ایک مرحلے سے گزرتا ہے. بلکل اسی طرح لیفٹ-ونگ ہے جو سرمایادار نظام کے نقاد ہیں اور رہیں گے. ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو سرمایہ ملک میں آرہا ہے اور جہاں جا رہا ہے اسے صاف شفاف طریقے سے دکھایا جائے. ہمارا مقصد ترقی تو ہے مگر حقوق کی برابری کے ساتھ ہو. 

مارکسزم کو مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فکٹریاں ہیں یا سرمایہ داری بڑھ رہی ہے. مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا فائدہ ایک مخصوص طبقے کی جیب میں چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی ہوجاتی ہے. یہ نظریہ دراصل ریاستی بہبود کی بات کرتا ہے، مساوی حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے."

جہاں تو خطّے میں کہیں ہرا رنگ اور کہیں کیسریا رنگ لہرا رہا ہے، وہیں "ایشیا سرخ ہے" کے نعرے ہوا میں بلند ہو رہے ہیں. پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی ہی تاریخ سے نابلد ہے اور لیفٹ -ونگ کوصرف لیدر جیکٹ پہنا دی ہے. تنقید نگار لیدر جیکٹ سے بلند ہوتے نعرے اور حقوق کی مانگ کو نظر انداز کر رہے ہیں.

یہی وہ لمحہ فکریہ ہے کہ PrSF عام لوگوں یا مستقبل کے طالب علموں کو لیفٹ نظرئیے سے کیسے روشناس کرائے گی اور کیا لائحه عمل ہوگا. 


PrSF انوکھے طریقے اپنا رہی ہے کیوںکہ بڑے پیمانے پر لوگ کتابیں، مضامین وغیرہ نہیں پڑھتے ہیں. اس کے لئے قریبی مستقبل میں memes کی مدد سے لوگوں میں لیفٹ اور اس سے جڑے مختلف فلسفوں کی آگاہی دی جائے گی. یہ طریقہ پڑوسی ملک میں بھی اپنایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آسانی سے بات سمجھائی جا سکے. 

اس کے ساتھ ساتھ PrSF مختلف کمیونٹیز کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہی ہے تاکہ لوگوں کے اندر سے وہ خوف نکل سکے کہ ہم کسی ایک زبان یا رنگ یا نسل کے ساتھ ہیں. طلباء سیاسی تنظیم کی وجہ سے لڑکیوں کی سیاسی شرکت بہت کم ہوگئی تھی جبکہ PrSF مخالف صنف کو بھی شانہ بشانہ لے کر چل رہی ہے. 

وقاص کا ماننا ہے، سیاست بھی ایک سائنس ہے اور تجربوں کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے. تجربوں کی شروعات ہوچکی ہے اور چند سالوں بعد جا کر ہمیں ان کا پھل دیکھنے کو ملے گا.

کیا طلباء یونین صرف سرکاری کالج اور جامعات تک محدود ہے؟

ایسا بلکل نہیں ہے!
طلباء یونین کا تعلق ہر طالب علم اور ان سے جڑے مسائل سے ہوگا. یہی وجہ ہے کہ وقاص اوران کے ساتھ IBA, Habib University جیسی پرائیویٹ درسگاہوں میں بھی گئے ہیں اور طلباء کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے. طلباء کے مسائل صرف سرکاری کالج یا جامعات تک محدود نہیں ہیں. پرائیویٹ اداروں میں سنوائی کا کوئی خاص عمل نہیں ہے. 



بدقسمتی سے، نصاب کی کتابوں میں یا سیاسی تنظیمیں خود بھی لیفٹ - ونگ کی خدمات کو، کامیابیوں کو نہیں سراھتی ہیں. کوئی ذکر نہیں کرتا ہے کہ  پاکستان میں طلباء سیاست کتنی پرزور رہ چکی ہے اور ملکی سیاست میں ایک اہم کردار رکھتی تھی. یہی کردار پھر سے آواز اٹھا رہی ہیں، ظلم کے خلاف، جبر کے خلاف، اس امید سے ملک کے ہر کونے میں ان کی آواز کو سنا اور سمجھا جاۓ گا.


Nov 26, 2019

انقلاب بذریعہ کتاب

Originally published here NayaDaur Urdu


حالیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں ٧٥% طالبات اپنے نصاب کے باہر کی کوئی کتاب نہیں پڑھتے ہیں. یہ کتابیں بھی صرف اس مقصد سے پڑھی جاتی ہیں کہ امتحانات میں پاس ہو سکیں. 

بلاشبہ، کتاب بہترین دوست تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انسانی بنیاد کا لازمی جز ہے. 

٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلبہ یکجہتی مارچ" میں  پاکستان بھرسے کئی موجودہ اور سابقہ طالب علم حصّہ لیں گے. سوال یہ ہے کیا یہ طلبہ و طالبات اچانک سے باشعور ہوگئے ہیں؟ کیا ان طلبہ کو یونین کے نظریات اور فرق کا علم ہے؟  

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سوشل میڈیا پرہر لکھی پوسٹ کو قرآن کی آیت سمجھ لیا جاتا ہے، یا کسی بھی نام سے منسوب کردیا جاتا ہے، وہیں ایک عدد طلبہ تنظیم "پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن" (PrSF)  ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں ادبی نشست کا اہتمام کرتی ہے.

ایسی نشستوں کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات میں مختلف نظریات، تحریک، فلسفہ، اور اس سے منسلک غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا کیا جائے. تعلیمی دورانیے میں غیر نصابی پڑھائی سے نہ صرف ذات اور ذہن کی نشونما ہوتی ہے بلکہ سماجی تخلیق کاری میں مدد ملتی ہے.  

رواں سال شہر قائد، کراچی میں بھی ایسی نشستوں کا آغاز فرئیر ہال اورجامعہ کراچی سے ہوا اور حرف عام میں "Reading Circle" کا نام دیا گیا. مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور نوکری پیشہ افراد تک اس نشست کے بارے میں سوشل میڈیا اور منہ زبانی چرچا کیا گیا.

 جامعہ کراچی کےشعبہ لٹریچرسے پڑھ کرنکلنے والی طالبہ عائشہ کا کہنا ہے، "ہمیں لوگوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر باشعور بنانا ہے جس کے لئے کتابوں کا پڑھنا اور مختلف نظریات کو سمجھنا بہت ضروری ہے."

عائشہ PrSF، اور WDF کی کارکن ہیں اور ان ادبی نشستوں کا ہفتہ وار اہتمام کرتی ہیں. ان نشستوں میں عمومی طور پر سیاست، ریاست، اور ان سے جڑے نظریات و فلسفے پر گفتگو ہوتی ہے. طلبہ و طالبات ہر ہفتے کسی کتاب یا موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اور اس پر تفصیل سے تبادلہ خیال کرتے ہیں.

جہاں ایک طرف جامعہ کراچی سیاسی طلبہ تنظیمیں کی غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بدنام ہے، وہیں دوسری طرف PrSF جیسی فیڈرشن ہے نظریاتی روشنائی کی بنیاد پر طلبہ کو ان کے بنیادی حقوق کی آگاہی دینے کا کام سر انجام دے رہی ہے.

ان ادبی و نظریاتی نشستوں کا فائدہ آنے والے مارچ میں دیکھنے کو ملے گا جہاں عائشہ اور ان جیسے کئی طلبہ و طالبات یونین کی بحالی کے لئے مارچ کریں گے. 

عام ذہن میں طلباء یونین اور سیاسی طلباء تنظیموں کو لے کر کافی غلط فہمی ہے. عائشہ کا کہنا ہے اس فرق کو سمجھنے اور قبول کرنے میں PrSF Reading Circles نے بہت مدد کی ہے. سیاسی تنظیموں نے طلباء کے بنیادی حقوق اور انکی بہتری کی طرف کام کرنے کے بجائے تشدد اور ہنگاموں کا ذریعہ اپنایا تھا جس کے باعث طلباء کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے.

یونین کا نظریہ قدرے مختلف ہے اور کیوںکہ ٣ دہائیوں کے بعد اس کی گونج سنائی دے رہی ہے تو مختلف جامعات میں اس کو لے کر ایک ہلچل ہے.

اپنے طالب علمی کے دور میں یونین نہ ہونے کے باعث عائشہ نے خود بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کے وہ طلباء یکجہتی مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہی ہیں. وہ نہیں چاہتیں کہ جو مسائل ان کو درپیش آئے وہ مستقبل کے طلباء کو بھی آئیں.

تعلیمی و ادبی سرگرمیاں، تھیٹر، کلچر، آرٹس، یہ وہ چند چیزیں ہیں جو طلباء یونین کو طلباء تنظیموں سے جدا کرتی ہیں.

عائشہ کا ماننا ہے کہ حقوق کی مانگ اور بحالی کے لئے ضروری نہیں کہ تشدد اور ہتھیار کا سہارا لیا جائے. اب چونکہ سیاسی تنظیموں کا زور ٹوٹ رہا ہے، حقوق کا شعور اجاگر ہو رہا ہے، ملک میں مختلف تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں تو شاید وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جہاں طلباء یونین کی بحالی کا معاملہ اٹھایا جائے.

دنیا بھر میں اس وقت مختلف قسم کے مارچ اور مظاہرے جاری ہیں اور اسی بیچ پاکستان بھی اپنا زور(بایاں) بازو دکھائے گا اور اس کی شروعات ٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلباء یکجہتی مارچ" سے ہوگی.

ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یاروں
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
(حبیب جالب)








Nov 24, 2019

جان کی قیمت ، پچاس روپے

Originally published here NayaDaur Urdu


پچھلے کچھ ہفتوں سے میرے گھر کے باہر رینجرز سنیپ چیکنگ کے لئے کھڑی ہوتی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ چاق و چوبند اور ایسے خود کو تعینات کرتی ہے کے مجرم کو وہ آسانی سے نہیں دیکھتے ہیں. مگرسوال یہ اٹھتا ہے آخر شہر میں ایسی کیا وباء پھیل گئی ہے جو ایک کامیاب آپریشن ناکامی کی جانب ہے. آخر کو ہم کراچی جیسے بڑے شہر میں، ہر گلی ہر کونے میں تو سندھ رینجرز کی خدمات نہیں لے سکتے ہیں.

سندھ رینجرز کے کراچی آپریشن کو لے کرعام عوام اور سیاستدانوں میں ملے جلے تاثرات تھے. جہاں ایک طرف واہ واہ تھی، تو دوسری طرف تنقید کی تھو تھو بھی تھی. کچھ نے کہا یہ ایک طرفہ ہے، تو کچھ نے کہا ڈرامہ ہے. حقیقت بہرحال یہی رہی کہ معینہ مدّت کے لئے شہر کے حالات درست ہوگئے. رینجرز اور عوام دونوں ہی اس بات سے انجان تھے یا شاید ابھی بھی ہیں کہ ہر جرم ملٹری آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتا ہے. 

کچھ جرائم کی جڑ مجرم سے نہیں، بلکہ مجرم کے حالات سے جڑی ہوتی ہے، جن کا حل نہ ہمارے پاس ہے نہ کراچی کی سڑکوں پر کھڑی رینجرز کے پاس!

اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج سے ٢ روز قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والا میجر لاریب گل کا قتل. میجر لاریب کو مبینہ طور پر موبائل چھیننے کی واردات میں G 9 کے علاقے میں، مزاحمت کے دوران مار دیا گیا.
کچھ ہی گھنٹوں بعد، شہر قائد، کراچی سے خبر آئی کہ فرسٹ کلاس کرکٹر خلیل الرحمن کو بھی چھینا جھپٹی کی واردات میں قتل کردیا گیا.

یوں دو ہنستے بستے خاندانوں نے اپنے جوان سالہ بیٹوں کی لاشیں دیکھیں!

 بوڑھے والدین نے بیٹے کی یونیفارم پر میڈل سوچے ہونگے، فوج میں ترقی سوچی ہوگی، یا شہادت کا رتبہ سوچا ہوگا. یہ لیکن کبھی نہیں سوچا ہوگا، نہ شاید لاریب نے خود سوچا ہوگا کہ وہ آرمی کمانڈو ہونے کے باوجود سڑک کنارے ایک ٥٠ روپے کی گولی کا نشانہ بن جاۓ گا.

خلیل الرحمن جیسا فرسٹ کلاس، ابھرتا ہوا قابل کرکٹر بھی وقت سے پہلے زندگی سے آوٹ ہوگیا کیوںکہ کسی کو اسکی جان سے زیادہ اسکا مال پیارا تھا. کیا خلیل کے پیاروں نے سوچا ہوگا کہ وہ کندھوں پر اٹھا کر اسکی جیت کا جشن منانے کے بجائے اسکا جنازہ کندھوں پر اٹھائیں گے؟ 
یقیناً نہیں!

اسلام آباد صرف دارلخلافہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے خوبصورت اور محفوظ ترین شہروں میں سے ہے. ان سب کے بواجوڈم محفوظ ترین شہر میں ہی محافظ کا قتل ہوگیا. کراچی، جہاں ہر جگہ سندھ رینجرز اپنا بوریا بستر لگا کر رکھتی ہے، وہاں بھی شہریوں کا قتل، لوٹ مار کی وارداتوں کا بازار گرم ہے.......کیوںکہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں!

کسی بھی جیتے جاگتے انسان کا بے وجہ قتل کر دینا، اپنی جان بھی داؤ پر لگانا،کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے. قتل واردات کی بنیاد پر ہو یا ٹارگٹ کی، ہر قتل کی قیمت ہے. 

پچھلے ٢ ماہ میں، ملک میں مہنگائی کی شرح ١١% ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ IMF کے مطابق یہ شرح ١٣% تک جا سکتی ہے. ہم جب ان اعداد و شمار کو اور گہرائی میں دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے شہری علاقہ جات میں  کھانے پینے کی اشیاء سالانہ بنیاد پر ~14% ، ماہانہ بنیاد پر ڈیڑھ فیصد پر بڑھ رہی ہیں. 
دیہی علاقوں کی مہنگائی کی شرح سالانہ طور پر ~١٥% اور ماہانہ بنیاد پر ڈھائی فیصد بڑھ رہی ہے.

بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی!

ملک میں ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں، جن کی قیمت عام دنوں سے تقریباً پینتیس % مہنگی ہے. انڈے، دال، آٹا، اور ایسی کئی بنیادی کھانے پینے کی اشیاء پر مہنگائی کا مہاراجہ چین کی بانسری بجا رہا ہے. 

جس ملک میں اوسط تنخواہ سترہ ہزار، اور خاندان چھ سے سات افراد پر مشتمل ہو، اور نوکری کے مواقع نہ ہونے کا برابر ہوں، وہاں سڑک پر ہونے والے جرائم کی شرح بڑھنا یقینی بات ہے. ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان کے مطابق، حکومت کی جانب سے شائع کردہ بیروزگاری کی ~پانچ % شرح غلط ہے جو کہ صحیح معنوں میں تقریباً ١٥% بنتی ہے.

آج صبح کی خبروں کے مطابق ملک میں بڑے پیمانے پرلگے کارخانوں نے ~چھ فیصد پیداوار کے نقصان کی رپورٹ فراہم کی ہے جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت اور بڑھے گی.  اس کے باعث، پاکستان میں بڑے سرمایہ داروں کا ملکی پیداوار میں حصّہ اب صرف ١٠% رہ گیا ہے، جو کہ پچھلے انیس سالوں میں سب سے کم ہے.

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے ملک اس مشکل دور سے نکل جاۓ گا، انہیں قوم کے جذبے اور ساتھ کی ضرورت ہے.

خان صاحب، خدا آپ کا چولہا گرم رکھے، پیٹ میں دال روٹی رہے تو حب الوطنی کی باتیں اچھی لگتی ہیں. جب گھر میں بیمار مہنگی دوا نہ ملنے کے باعث مرجاۓ، بچہ فیس نہ دینے کی وجہ سے گھر میں بیٹھ جاۓ، نومولود ویکسین نہ ملنے پر مر جاۓ، اور ساتھ میں بجلی پانی گیس کے بل جیب میں پڑے پڑے گل جایئں، تو ملک محبوبہ نہیں لگتا ہے. 

آپ کتنی ہی رینجرز تعینات کردیں، پولیس کو عام شہری کو مارنے کی آزادی دے دیں،جب تک مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی، جان سستی ہوتی رہے گی کیوںکہ ...........ٹماٹر 80 روپے پاؤ ہے، اور ایک گولی 50 روپے !








  

Nov 14, 2019

ہجرت کا درد

Originally published here NayaDaur Urdu

اماں کوئی سترہ سال کی ہونگی جب وہ ایک دن سکول سے گھر واپس آئیں اور میری نانی نے ان کو بتایا کے ان کی منگنی ہوگئی ہے. اتفاقاً، ابّا کے چچا اور میرے نانا دوست تھے اور انہوں نے سوچا کیوں نہ اس عظیم دوستی کو ایک ارینج رشتے داری میں تبدیل کردیا جائے. میرے ابّا تب کوئی پچیس سال کے تھے اور ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے. گھر بار ہندوستان میں، لیکن نوکری کا جنجال بنگال میں تھا. 

الله الله خیر سلا، مارچ '٧١ میں اماں نے ابّا کے نام کی انگوٹھی پہن لی، اور حالات کو کروٹ لیتے دیکھنے لگی. 

یہی وہ مہینہ بھی تھا جب پاکستانی افواج نے ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا تھا اورشیخ مجیب ارحمن کو گرفتار بھی اسی دوران کیا گیا تھا. آج بھی سقوط ڈھاکہ کی تاریخ اور بنگلادیش کی آزادی کی تاریخ مختلف ہے.

حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے نانا نانی نے اماں ابّا کی شادی عجلت میں اسی سال اگست میں کردی. ماں باپ کو لگا لڑکی اپنے گھر کی ہوگی تو عزت کم خطرے میں رہے گی. مگر یہ خام خیالی تھی !

مارچ کی آزادی سے سقوط ڈھاکہ تک، مشرقی پاکستان میں ایک عجیب تلاطم تھا. قتل و غارت اور جنگی حالات روز مرہ کا معمول تھے. عورتوں، بچیوں کا گھر سے نکلنا تقریباً بند تھا. چند عقلمند لوگ تھے اور حیثیت بھی رکھتے تھے، انہوں نے سقوط کا انتظار نہ کیا بلکہ بذریعہ نیپال، لندن چلے گئے. پھر وہاں سے کراچی کوچ کیا.

جنہوں نے اچھے وقت کی امید اور انتظار کیا، وہ جنگی قیدی بن گئے جیسے میرے اماں ابّا اور ڈھیروں دوست، رشتےدار، پڑوسی وغیرہ.  

قیدی بننا تو بعد کا ظلم تھا، میری اماں اس سے پہلے ایک اور ظلم سہہ رہی تھیں لیکن شور کرنے یا ماتم منانے کا وقت نہ ملا. میری نانی  انھیں شب و روز کے ہنگاموں میں ایک روز اپنے ٨ سالہ بھانجے کے ساتھ پڑوس میں جانے کو نکلی اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں. میرے نانا کئی سال وہیں گزرے، آبائی لوگوں کی مدد سے بہت ڈھونڈا مگر سب بے-سود!

آج بھی میری اماں اکثر مجھے کہتی ہیں کہ تمہاری نانی میرے خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ کیا معلوم وہ زندہ ہوں؟ کیا وہ مجھ سے ناراض ہیں؟
حد تو حد ہم نے آیت اللہ سے بھی پوچھوا لیا کہ نانی خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ وہ بھی جواب دینے سے قاصر رہے.

ہم آج بھی فاتحہ درور کرتے ہیں مگرمیری ماں نے اپنی ماں کا چہرہ دیکھے بغیر انہیں مردہ تصور کرلیا ہے اور اسکا درد انھیں آج بھی ہے. جنگ بنجر کردیتی ہے.....اس زمین کو بھی جہاں اسکا خون بہا اور ان کا بھی جو کبھی اس زمین کے باسی تھے.

راتوں رات گھر گلیاں چوبارہ سب چھوڑا. قیدی بننے سے پہلے اتنی بھی مہلت نہیں ملی کے اپنے بچپن، لڑکپن، اور جوانی کو الوداع کہتے یہ لوگ! 

اماں ابّا کو لگا چلو جب سب ٹھیک ہوجاۓ گا تو گھر واپس آجاییں گے. ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اب جو گئے تو اجنبی ہوگئے. نئے نویلے دولہا دلہن نے فوجی ٹرک میں اپنی ہجرت کا آغاز کیا. لوگوں کے پاس ان کے والدین کی نشانیاں ہوتی ہیں جیسے شادی کا جوڑا، کوئی پشتینی زیور، یا کوئی بھی اور ایسی چیز جو نسل دار نسل یاد کے طور پر منتقل ہوتی ہے.

مجھے میری اماں سے بس قصّے اور یادیں ملی. وہ سب کچھ جو انہوں نے ہمارے بڑے ہونے پر ہمیں بتائی.

میرے ابّا تو بمشکل ہی بات کرتے ہیں ان ٢٢ مہینوں کے بارے میں جو انہوں نے قید میں گزارے، یا وہ وقت جو انہیں کیمپ تک پہنچنے میں لگا، یا پھر وہ سب کچھ جو انہوں نے ڈھاکہ چھوڑتے وقت دیکھا. بزرگ کہتے ہیں، ہم نے جوان بچیوں کو کنویں میں کودتے دیکھا، نالیوں سے خون بہتا دیکھا، اور تو اور سقوط میں الجھے انسانوں کو بچھڑتے اجڑتے دیکھا.

'٧١ دسمبر کو جو شہر چھوڑا تو پھر کبھی واپس نہیں گئے!

میں نے اکثر خود کو رکھ کر سوچا کے کوئی مجھ سے میرا کراچی چھین لے، یا مجھے کہے اب یہ تمہارا گھر نہیں تو مجھے یقین ہے کہ میرا دل بند ہوجاۓ گا. جس شہر نے میرا وجود، میری شخصیت سینچی، وہ دھڑکن کا ایک حصّہ ہوتا ہے. میں کہیں بھی گئی، اس امید سے گئی کہ گھر تو کراچی ہے. 

ایک میں ہوں جو سوچ بھی نہیں سکتی اور ایک مہاجرین ہیں جن کے پاس واپسی کا راستہ ہی نہیں. جن کی یادوں پر خون کے دھبّے اور چیخوں کا دھمال ہے.

 چند روز پہلے جب کرتارپور بارڈر کی تقریب دیکھی، اور اس سے جڑی خبریں جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنے بارڈر پار آئے ہیں، تو میں نے مجبوراً سوچا کہ اماں سے پوچھوں اگر وہ ڈھاکہ چلنا چاہیں گی؟

اماں نے کہا، "بیٹا، اس بڑھاپے میں اتنی ہمّت نہیں کہ اس یاد سے پھر گزریں."

میری اماں کا آبائی گھر اب ایک بڑے شاپنگ مال میں تبدیل ہوگیا ہے. آس پاس کی گلیاں، علاقے، محلے، سب بدل گیا ہے. کچھ نہیں بدلہ تو میرے والدین کے اندر ہجرت کا درد!