Dec 28, 2016

دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی

سردیوں کی شام ویسے بھی مہرکو بےحد پسند تھی. ایسی ہی سردی کی کوئی شام تھی جب "اس" کی  ماں نے مہر کے نام پر سرد مہری دکھائی تھی اور وہ چنگاریوں کو راکھ میں تبدیل کر کے وہاں سے اٹھ گیا تھا.

خشک، سرد ہوا جب مہر کے چہرے کو چھوتیں تو اسکو یقین ہوجاتا کہ وجود میں تو گرمی باقی ہے لیکن احساس ٹھنڈے پڑ چکے ہیں. سرمئی شام آہستہ آہستہ تمام روشنی کو اپنی لپیٹ میں لئے رات کی طرف بڑھ رہی تھی اورمہر یادوں کے غار میں جہاں سے واپسی کا راستہ وہ ہمیشہ بھول جاتی تھی. 

برابر میں بیٹھی سادیہ نے پھیکی سی مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا اورسمجھ گئی مہرکو راستہ دکھانے کا وقت آگیا ہے. سادیہ نے آواز اونچی کر کے اس کا دھیان اپنی طرف کیا اور کہا،

 "میرا خیال ہے میں اس کو بھول چکی ہوں."

مہر نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور کہا، "بھول چکی ہوتی تو یوں یاد نہ ہوتا"

"کیا مطلب؟"

"محبّت ایک دائرہ ہے. تم دائرے سے کبھی نہیں نکل سکتی بس دوسرے سرے پر آکر اس مغالطے میں مت رہو کہ بھول گئی ہو."

"ہو سکتا ہو میں نے دائرہ توڑ  دیا ہو؟"

"محبّت نامکمّل ہو تو پہلے درد دیتی ہے، پھر صبر بن کر ذات بن جاتی ہے. وہ دائرہ تمہاری ذات ہے جس کے ساتھ رہنا سیکھ لیتے ہیں."

"پھر تم صبرکیوں نہیں کرلیتی مہر؟"

"میرا درد جو ختم نہیں ہوتا."







بانوسازی
دسمبر ٢٨، ٢٠١٦
رات ١:١٥

Oct 7, 2016

جنگ سے نفرت، جہالت اور تباہی پھیلتی ہے

Originally published here HumSub

جب میں  پیدا ہوئی تب ہی ابّا جی نے سوچ لیا تھا یہ والی بچی تو بس ڈاکٹر بن گی اور تقریباً تیرا سال اس  امید اور خواب  میں گزارے کے یہ پیاری بچی انکی بات مانے گی ،لیکن  خدا نے اور زندگی نے مجھے ایک بار نہیں بلکہ  دو بار بغاوت کا موقع دیا . سکول میں تو جان جاتی تھےکے مینڈک کو ہاتھ لگانا ہوگا لیکن جب کالج میں آئی  تو بورڈ کے فارم میں بائیولوجی بھرنے سے پہلے ہسپتال کا کوئی چکّر لگ گیا.

ہلکا سا بخار چڑھا تھا توگھر کے قریبی  ہسپتال کی OPD میں بیٹھی تھی جب میں نے ایک ماں کو رکشے سے اترتے دیکھا اور اسکی گود میں بمشکل ڈھائی یا تین سال کا بچا ہوگا جس کا سر پھٹ گیا تھا. بچے کو تو ہسپتال کا عملہ تیزی سے اندر لے گیا لیکن اسکی ماں کی حالت مجھے آج بھی یاد ہے. تب ہی مجھے احساس ہوگیا کے اگر میں ڈاکٹر بنی تو سواۓ رونے کے کسی اور چیز کی اسپیشلسٹ نہیں بن سکتی.

اس ماں کا بیٹا تو ٹانکے لگوا کر پھر سے اپنی ماں کی گود میں چڑھ گیا ہوگا. اگلے کئی دنوں تک ماں باپ سے نخرے بھی اٹھوائیں ہونگے. کبھی ان بچوں کا سوچیں جو خود یا ان کے والدین  کا سوچیں جو  بمباری، شیلنگ، اور فائرنگ کا شکار ہوتے ہیں. 

انسان اپنی کی غلطی کی بھی چوٹ کھائے تو غصّہ اور تکلیف ہوتی ہے، پھر یہ تو مسلط جنگیں ہیں جو آنے والی نسلوں کو یتیم، جوان کو بیوہ، اور بوڑھوں کا سہارا چھین لیتی ہیں.

جب کبھی میڈیا پر شام میں ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجے میں زخمی اور ہلاک بچوں کی خبر یا ویڈیو چلتی ہے تو میرا فیس بک، اور ٹویٹر ہمدردیوں سے بھر جاتا ہے. الان کردی، عمر دقنیش، اور کئی شامی بچوں پر ہماری قوم کا کلیجہ کٹ جاتا ہے، آنسوؤں کے سمندر بہ جاتے ہیں، اپنی اولاد کی سلامتی کے لئے دعائیں ہوتی ہیں.
 یہ تمام جذبات اس وقت نیند کی گولی کھا لیتے ہیں جب  کشمیر کے LOC پر حملہ یا فائرنگ کا واقعہ پیش آتا ہے قوم کا بس نہیں چلتا اپنے کمپیوٹر کی سکرین سے ہی ایک عدد  نیوکلیئر بم ہندوستان کو دیں ماریں اور کچھ ایسے ہی  جذبات پڑوسی ملک بھی ہمیں دکھاتا ہے.

"جنگ" 
یہ تین حروف آپ کی تین نسلیں تباہ کرنے کی حیثیت رکھتا ہے. آپ کا گزرا ہوا کل، آنے والا کل، اور ان کا رکھوالا آج....... سب جنگ کی نظر!

سوشل میڈیا اور میڈیا  کا المیہ ایک یہ بھی ہے کہ، اس پر موجود نسل نے جنگ کا ج بھی نہیں دیکھا اور جنہوں نے جھلک دیکھی یا سنی ہے وہ اس کے نقصانات سے مستفید نہ ہو سکے. 

بدقسمتی سے میرے ماں باپ نے ٧١' کی جنگ دیکھی بھی اور سہی بھی، بدقسمتی اس لئے کیوںکہ ان کے پاس شہادت، قومیت سے جڑی کوئی کہانیاں نہیں ہیں، ہاں سبق ضرور ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ میری تربیت میں انسانیت کو ہر چیز پر فوقیت ہے. 

اور پھر کیوں نہ ہو؟
١٤٠٠ سال پہلے امام وقت نے بھی کربلا میں قدم جنگ کی نیت سے نہیں رکھا تھا بلکہ آخری وقت تک صلح اور گفتگو کی روش اپنائی تھی. تاریخ گواہ ہے جنگوں سے کسی عام  آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا سواۓ اس کے کہ اسکو لاشیں اٹھانی پڑیں، گھر بار چھوڑنا پڑا، فاقہ کاٹنا پڑا.

لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف وہ لوگ بستے ہیں جنہوں نے آپس میں شادیاں کر رکھی ہیں، یادیں، نسلیں جوڑ رکھی ہیں. کبھی ان سے پوچھیں کیا وہ جنگ کے خواہشمند ہونگے؟ اس ماں سے پوچھیں جس کا بیٹا فوج کی وردی پر سرحد پر محافظ بنا کھڑا ہے. وہ روز اسکی لمبی عمر کی دعا کرتی  ہوگی، اس کا صحرا سجانے سے لے کر اس کے بچوں کو گود میں کھلانے کا سوچتی ہوگی.

میں تو یہ بھی نہیں مانتی کہ کوئی فوجی جو انسان پہلے ہے، شوق شہادت رکھتا ہوگا. زندگی کے ارمان اس کو بھی پیارے ہونگے، گھر پر کئی انتظار ہونگے.

خدارہ! اس دنیا میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ امن و محبت کی ہے، آپ اس کو بلکل ہی نا  پید نہ کردیں. نفرت کا بیج زمین بنجر کرتا ہے اور میں آپ اسی زمین کا باسی ہیں. 

قوم پرستی اچھی بات ہے لیکن انسانیت کی قیمت پر اسکا پرچار کرنا یقینن عقلمندی نہیں ہے. 






Jul 27, 2016

کشمیر کو رونے والو، اپنا گریباں جھانک کر دیکھو

Originally published here HumSub

آزادی بڑی شہہ ہے!
 بچہ پیدا ہونے کو ہو تو ماں کے رحم سے آزادی، وجود میں آے تو گود سے آزادی، چلنا سیکھے تو ہاتھ چھڑا کر بھاگنے کی آزادی اور یوں اسے قدم قدم پر چھوٹی چھوٹی آزادیوں کی راہ دکھتی ہے. یہی وہ راہ ہوتی ہے جو اسکے ذہن میں بغاوت کے بھی بیج بوتی ہے لیکن ان بیجوں تب تک وہ نہیں سینچتا جب تک اسکی آزادی کو روندا نہ جاۓ.

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب صحیح اور غلط کے فیصلے کنارے لگا دیے جاتے ہیں.

٨ جولائی ٢٠١٦ کو کشمیر کی حزب المجاہدین کے ٢٢ سالہ کمانڈر برہان ونی بھارتی فوج سے تصادم میں ہلاک کردئے گئے. 



کیا آپ کو حزب المجاہدین کے تعارف کی ضرورت ہے؟
نہیں!

کیا آپ کو برہان ونی کے متعلق جاننے کی ضرورت ہے؟
نہیں!

پھر بھی ایک سرسری سا بنیادی، بلکہ یوں کہئے یاد دہانی کے لئے کچھ حقائق بیان کرتی ہوں.

حزب المجاہدین کشمیر کے حقوق کے لئے ١٩٨٩ میں وجود میں آئی اور موجودہ وقت میں ہندوستان، امریکا، اور یورپین یونین کی جانب سے دہشتگرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے. یہ تنظیم بنیادی طور پر پاکستان کی حامی ہے اور پاکستان بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے. برہان ونی ٢٠١١ میں، نوجوانوں اور سوشل میڈیا میں مشہوری کے بعد باقائدہ طور پر حزب میں شامل ہوئے تھے. اس شمولیت سے پہلے کا ایک سال وہ تربیت میں گزار چکے تھے.

برہان ونی کے والد کا کہنا ہے کہ، برہان کے بڑے بھائی کو ٢٠١٥ میں بھارتی فوج نے تشدد سے ماردیا تھا کیوںکہ وہ برہان ونی کے بھائی تھے. دوسری طرف بھرتی فوج کا بیان ہے کہ، ان کے بھائی خالد بھی مجاہد تھے. کون سچا کون جھوٹا یہ میں اور آپ آزادی کی جنگ میں کبھی نہیں جان سکتے.......کیوںکہ شیطانوں کی نظر میں شیطان بھی ایک فرشتہ ہے.

نابالغ عمر، کچا ذہن، اور کشمیری جدوجہد. کیا کوئی پاکستانی برہان ونی کو قصوروارٹھہرائے گا؟ 

یقینن نہیں!

آخر پھر یہی پاکستان تب کیوں نہیں چیختا چلاتا، اورخون کے آنسو نہیں روتا جب عقیدے کی بنیاد پر سینکڑوں ہزارہ شیعہ ماردیے جاتے ہیں؟ تب کیوں نہیں دن منایا جاتا جب بلوچستان میں بےحساب مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں؟ اس وقت انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہوتی جب کراچی میں زبان اور سیاسی بنیاد پرلوگوں کا ماوراۓ عدالت قتل کیا جاتا ہے؟

کیا میرے ملک کے لوگوں کا خون اتنا سستا ہے؟

کیا ہمیں اپنے حقوق کی جنگ کے لئے کشمیر جانا پڑیگا تب پاکستانی قوم کہےگی مت مارو عقیدے پر، مت پھینکو لاشیں جوانوں کی، مت گھسیٹو ان کی عورتوں کو سڑکوں پر.....کون جواب دیگا؟

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق ملک میں انسانی حقوق کی بتدریج پامالی ہورہی ہے لیکن یہ بات صرف انکو سنائی دیتی ہے جو اسکا شکار ہیں. 

سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے مطابق کشمیر میں لڑنے والے آزادی کے مجاہدین ہیں لیکن بلوچستان میں لڑنے والے باغی اور دہشتگرد. یہ ہے میرے ملک کا توازن؟ یہ ہے میرے ملک کا انصاف؟

سنہ ١٩٩٢ میں کراچی میں ہونے والا آپریشن کلین اپ جوسرکاری طور پر تقریباً ٢ سال تک جاری رہا، جس میں حکومتی بیان کے مطابق کوئی تیرہ-چودہ سو لوگ ہلاک ہوئے تھے لیکن حکومت نے ان لوگوں کی تعداد نہیں بتائی جو آج بھی لاپتہ ہیں. سپریم کورٹ پاکستان میں آج بھی متحدہ قومی موومنٹ کے لاپتہ افراد کے کیسز دائر ہیں اور خاندانوں کو امید ہے کہ کبھی تو کوئی تو پلٹے گا. 

انیس سال گزر گئے لیکن ان کیسز کی فائل کورٹ میں ٹھہر گئی ہیں.

کراچی شہر میں ایک بارپھر پچھلے ٣ سال سے آپریشن جاری ہے جس میں سندھ رینجرز کے اختیارات میں تو مسلسل توسیح ہورہی ہے لیکن ان کے عمل پر کوئی سوال نہیں ہورہا ہے. ٢٠١٤ میں جب ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے سندھ رینجرز سے ملاقات اور میٹنگز کی کوشش کی تو مایوسی کا سامنا ہوا. ٢٠١٥ کے آخر میں بھی کمیشن نے  ماوراۓ عدالت قتل پر سوالات اٹھاے جن پر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا.

مئی ٢٠١٦ میں متحدہ کے کارکن آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں تشدد سے ہلاکت ہوگئی. جسم پر لگے تشدد کے نشان ایسے تھے شیطان نے بھی شرم سے سر جھکا لیا تھا. آرمی چیف نے تحقیقات کا حکم دیا اور آفتاب کے ساتھ سوالات بھی دفن ہوگئے.

کیا پاکستان کے مظلوم طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ امید رکھیں کے جتنی آواز اور للکار ہمارے وزیراعظم اور  فوج کے  سربراہ کی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اٹھی تھے، اتنی ہی ملک کہ اندر مچے انتشار اور ظلم پر اٹھے گی؟

کیا ہماری قوم کو جتنا غم کشمیری ماؤں کا ہے، اتنا ہی پاکستانی ماؤں کا ہوگا؟

شاید نہیں......کیوںکہ مرنے والے کشمیری نہیں تھے!






Jun 23, 2016

قسمت میں مری … چین سے جینا لکھ دے

Originally published here HumSub

مشہور زمانہ قوال امجد صابری کو آج شہر کراچی میں چند نامعلوم افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں ان کی قسمت میں جینا تو نہیں البتہ مرنا لکھا گیا۔


شروع کے چند گھنٹے تو قاتل ہمیشہ ہی نامعلوم رہتے ہیں کیوںکہ کے کراچی کی روایت ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیوں اور کس نے مارا ہے۔ امجد صابری کی بھی موت کے کچھ دیر بعد ہی طالبان کے کمانڈر قاری سیف الله محسود نے ذمےداری قبول کرلی۔
کیا اس کے بعد بھی آپ کو کوئی وجہ چاہیے کہ دن دیہاڑے شہر قائد میں ایک قوال کو کیوں ماردیا؟ نہ سیاسی وابستگی نہ کسی فرقے سے تعلق۔۔۔۔ لیکن ایک تعلق تھا اور وہ تھا اہل بیت  سے محبت۔۔۔۔
سنہ 2014 میں امجد صابری نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر مارننگ شو میں ایک قوالی گائی تھی اور مذہب کے ٹھیکداروں کو یہ اتنا ناگوار گزرا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس دائر ہوگیا اور امجد صابری اور قوالی لکھنے والے دونوں افراد پر توہین رسالت کا نوٹس جاری ہوا۔
سندھ اور پنجاب وہ صوبے ہیں جہاں اسلام کی پہنچ صوفیوں کے ذریعے ہوئی اور آج بھی سال میں کئی عرس ہوتے ہین اور دھمال پڑتی ہے۔ یہ صرف عقیدت ہے، خدا کو چاہنے کی اپنی لگن اور روایت ہے۔ اس چاہت اور روایت کو اب جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
مزاروں پر، امام بارگاہوں پر، مسجدوں پر دھماکے ہوتے ہیں اور دہشت گرد یہ جوز دیتے ہیں کہ مرنے والے کافر تھے۔ ان دہشت گردوں کے تو خون منہ کو لگا ہے لیکن ایک اور بھی دہشت گرد ہیں جو میرے آپ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پربھی کئی بےگناہوں کا، عظیم ہستیوں کا خون لگا ہے۔
انہیں کہتے ہیں اپولوجسٹ یا حمایتی !
اگر مگر، ادھر ادھر، فلانا ڈھماکا تمام طرح کی دلیل لے کر میدان میں اترتے ہیں اور جہالت کے ہجوم میں خود کو نیوٹرل ثابت کر کے دہشت گردی کی حمایت کر دیں گے۔ اگر آپ کو بس سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیں، احمدی ہونے پر جلا دیں، سیاسی وابستگی پر ماروائے عدالت قتل کردیں تو بھی یہ خاموشی اختیار کرلیں گے اور کہیں گے کہ ہم سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ انسان کی تخلیقی سوچ میں وابستگی لازم ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلم اور مظلوم میں غیر جانبداری کا راستہ چن لے۔
حمایتی یا نیوٹرل لوگ ایسی دلیلیں اور تاویلیں دیں گے جیسے دہشت گرد اپنی بندوقیں صاف کر رہے تھے اور مقتول سامنے آ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں زبان رکھنے والے گونگے ہوگئے ہیں اور طالبانی سوچ نے اپنے دہانے کھول لئے ہیں۔
امجد صابری قوال جیسی ہی ہستیاں تھیں جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اسلام کا بھی نرم گوشہ دنیا کو دکھایا اور بتلایا کہ مذہب میں عقیدت ہی میں عظمت ہے۔
بدلے میں کیا ملا؟
 پینتالیس سال کی عمر میں 5 گولیاں !
پاکستان جیسے ملک میں حکومت سے لے کر عام آدمی تک یہ اخلاقی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم پر بولے ورنہ یہ وہ آگ ہے جس کے شعلے آپ کے دروازے ہی پر دہک رہے ہیں اور مستقبل میں آپ کا دروازہ جلنے کا امکان بھی موجود ہے۔

Jun 18, 2016

رمضان کا شیطان

Originally published here HumSub

عام خیال میں رمضان کا تعلق صرف پیٹ کی بھوک اور حلق کی پیاس سے ہے. یہی وجہ ہے کے جب رمضان آتا ہے تو اشیا کی قیمتیں اور خریداروں کا رونا، دونوں ہی آسمانوں کو چھو رہا ہوتا ہے. غریب اپنا پسینہ بیچ کر رحمتیں خریدتا ہے تو امیر اصراف کر کے دین سے انصاف کرتا ہے.

کیا پکوڑے، چاٹ، روح افزا کے آگے بھی روزہ ہے؟

اصل میں روزہ ان سب سے بھی پہلے ہے. بچپن میں دینیات کی کتاب میں پڑھا تھا کہ روزہ انسان کے جسم اور نفس دونوں کا ہوتا ہے لیکن آج کل تو نفس ایسے غائب ہے جیسےڈائناسورکی نسل کے ساتھ ہی اسکی بھی تدفین ہوگئی تھی.

دنیا بھر کی مشہور ہستیوں کی جانب سے رمضان کے مقدّس مہینے پرمسلمانوں کے نام پیغامات آتے ہیں جن میں اسلام کی بنیادی باتوں کا ذکر ہوتا ہے جیسے صبر، تقویٰ، فلاحی خدمات وغیرہ وغیرہ.

پاکستان میں شروعات ہوتی ہیں قتل سے، مار دھاڑ سے، اور دھمکیوں سے.

 ٧ جون کو پہلا روزہ انتہائی جوش و خروش سے رکھا گیا اور ٹھیک اس کے اگلے دن لاہور میں دن دہاڑے ایک ماں نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کوپیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا. اس انسانیت سوز واقعے کی وجہ نئی نہیں ہے. ہمیشہ کی طرح پسند کی شادی اور غیرت کے نام پر قتل.

قاتل بھی وہ ماں جس کو پشیمانی بھی نہیں اور ندامت نام کی چڑیا وہ جانتی نہیں.

ماں کو اور بھائی کو پولیس نے حراست میں لے لیا، چند روز بعد مولویوں نے فتویٰ بھی دے دیا کے غیرت کے نام پر قتل غیر اسلامی ہے. حالانکہ کوئی ان مسلمانوں سے پوچھے کہ تمھیں انسانیت کے اصولوں کے لئے بھی فتویٰ چاہیے؟ ہم اپنے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی نچلے درجے پر کھینچ لاۓ ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ اسلام ضابطہ حیات ہے. یہ کونسا ضابطہ ہے کہ جس میں حیات ہی نہیں رہتی؟

صبر و استقلال کا یہ عالم ہے کہ اندرون سندھ میں ایک انتہائی ضعیف انسان شام چھ کے قریب خیرات میں ملی بریانی کھا رہا تھا تو اسکو پولیس والوں نے لہولہان کردیا. قصور؟ افطار میں گھنٹہ باقی تھا اور وہ بوڑھا شخص ہندو تھا. 
کوئی پوچھے ان دو نیک مسلمان پولیس والوں سےکہ کس حدیث کی روشنی میں انہوں نے ایک غریب لاچار بوڑھے شخص کو رمضان کی پاداش میں بری طرح سے مارا پیٹا تھا؟ اگر آپ میں بھوک کی برداشت نہیں ہے تو روزہ رکھ کر خدا اور اسکی  خدائی پر احسان نہ کریں.

مغرب میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں انہیں تو پھر چاہئے ہر دوسرے  انگریز یا ہندو کی دھلائی کریں اور کہہ دیں میرا روزہ ہے.

آخر ہم رویوں کی انتہا پر کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ ہمارے اندر سے رواداری، انکساری، اور سب سے بڑھ کر اختلافات کو قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے.  

آج جب ہم نے ١٢ روزے مکمّل کرلئے ہونگے تب گجرانوالہ میں ایک سات ماہ کی حاملہ عورت کو اس کے  گھروالوں نے قتل کردیا ہے کیوںکہ اس نے آج سے ٣ سال پہلے پسند کی شادی کی تھی. اس مقتولہ کا پہلا بچہ، اسکا شوہر کس کے پاس فریاد لے کر جاۓ گا کہ اس مقدّس مہینے کا بھی مان نہ رکھا اور دو جانوں کو صفہ ہستی سے مٹا دیا.

بھول گئے ہیں پاکستان کے مسلمان کہ خاتم النبین نے بھی بی بی خدیجہ سے پسند کی شادی تھی. 

ویسے تو مجھے اپنی قوم پر یقین ہے کہ وہ رمضان ک چاند پر لگا گرہن ہے لیکن پھر بھی ایک امید جاگتی ہے کہ شاید ہم کبھی سمجھ پائیں کہ روزہ نفس کا ہے آپ کے معدے کا نہیں. جنگ خود سے ہے کسی شیطان سے نہیں. 

یہ قصّے کہانیاں ہیں کہ شیطان ٣٠ دن قید ہوجاتا ہے. یہ تو خدا کو اپنے بندوں سے امید تھی کہ وہ اپنے اندر کا شیطان قید کر لینگے پر ہائے رے افسوس!


May 28, 2016

قیامت-- Qayam'at



اک روز میری حیات میں ایسا ہے
جب ایمان بھی تیرے حوالے کیا 
سرکار کے سب کچھ نام کیا

میں ان راستوں سے اب گزروں تو  
 دھوپ کی چمک چلّاتی  ہے 
تیرا ہمسفر کہاں ہے؟

درخت جھک کر ٹٹولتے ہیں، 
میرا سایا نہیں ملتا.....
ہوا ٹھہر کر پوچھتی ہے،
آج تیرا سائبان نہیں دیکھتا؟

اس اک روز کے جب 
تیرے سینے پر سانس جا ٹھہری تھی 
گردن کے خم پر زندگی کی حرارت تھی
تب میری آنکھوں پر
تیرے ہونٹوں نے مہر لگا دی  تھی 

اس روز کا سورج ٹھنڈا تھا
پھر بھی قیامت جاری تھی!


بانوسازی
٢٣ جنوری، ٢٠١٠

May 21, 2016

جلن


تم میں ایسا کچھ بھی نہیں جو اُس کو عام ذندگی میں پسند ہو. پھر بھی تم اُس کی سب سے خاص پسند ہو.

دِل و جان سے پسند ہو!

تمہاری طبیعت اُس کے مُخالِف ہے پھر بھی وہ صرف تمہاری سِمت ہی دوڑتا ہے.
سارے رشتے پار لگا کر تمہارے لئے رُکتا ہے.

مجھ میں ویسا کچھ بھی نہیں جو تُم میں ہے. نہ وہ کھلکھلاہٹ، نہ وہ کَھنَک، نہ مَچلتی دِل لگی، نہ وہ شوخ بے باکی، نہ وہ چمکتی نظر، نہ ہی زمانے کی سمجھ.

پھر بھی اُس کی سانس لمحے کو رک سی جاتی ہے. میری گَردن کے خَم پر مُڑ جاتی ہے!





بانوسازی
مئی ۲۰، ۲۰۱۶
رات ۱۱: ۱۰

Apr 12, 2016

صفائی -- Safa'yi


اس نے چونک کر آنکھیں کھولی اور اپنے سرہانے پر رکھی ہوئی گھڑی دیکھی تو یہی کوئی رات کہ ساڑھے تین بج رہے تھے. یوں لگا جیسے نیند کو اچانک سے کوئی کام یاد آگیا ہو اوروہ اسے اکیلا چھوڑکر چلی گئی ہو.
ایسا نہیں کہ یہ پہلی بار ہوا تھا لیکن اب اکثر ہونے لگا تھا وہ یونہی آنکھیں کھول کر ادھر ادھر تکتی جیسے دن چڑھا ہوا ہو اور اسے کوئی کام نہ مل رہا ہو کرنے کو.

کھڑکی سے جو روشنی چھن چھن کر اندر آرہی تھے، اس میں غور سے آس پاس دیکھا تو اس کو اپنی بکھری ہوئی سوچیں نظر آیئں. 

خود پر پڑی چادر کو سرکا کر پرے کرتی ہے اور دھیان سے پیر نیچے رکھتی ہے، کیا معلوم کوئی سوچ نیچے آ کر دب نہ جائے. اس نے اب تک  کتنی ہی سوچوں کو سمجھنے سے پہلے ہی دبا ڈالا تھا بنا جانے ہوئے کہ یہ دبی ہوئی سوچیں کرچیاں بن جاتی ہیں اور انسان کہ دماغ کی شریانوں کو پھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں.


وہ دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ عجیب بات ہے یہ جو ڈھیر ساری سوچیں بکھری پڑی ہیں اسکو دن میں کیوں نہیں نظر آتیں؟ وہ تو ہر شہ قرینے سے سجا کر رکھنے کی عادی ہے. جو شہ جہاں رکھ دی جاتی ہے وہیں سے ملتی ہے اور یہ سوچیں دیکھو............عجیب الجھی الجھی پڑی ہیں ہر کونے میں.

اسکے گھر میں تو کبھی مٹی کے جالے نہیں لگے تو یہ سوچیں کیسے جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں؟


سلجھے ہوئے مکان میں اتنی الجھنیں؟
اس نے سوچا چلو جب تک نیند اپنے کام نپٹا کر آتی ہے میں بھی تھوڑی صفائی کرلوں.


وہ برآمدے میں کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھی، وہاں کونے میں ایک سوچ سمٹی ہوئی تھی جیسے کسی کا خوف ہو. یہ اس کے بچپن سے وابستہ تھی  جب اسکو زیادہ بولنے کی اجازت نہیں تھی کیوںکہ "لڑکیاں زیادہ نہیں بولتی". 
یہ وہ سوچ تھی جس نے ڈر کے مارے خود کو گونگا کرلیا تھا.
ذرا آگے بڑھی تو کتابوں پر اسکی جوانی کی سوچوں کا اجتماع تھا جنہوں نے اسے بغاوت کا مطلب سمجھایا تھا. کئی بار اس نے جب ان سوچوں کو الفاظ دینے کی کوشش کی تو یہی  سننے کو ملا، "جب بولنا الٹا ہی بولنا". جس کو زمانے نے الٹا جانا وہ تو بس منطق کی تلاش تھی.


 اسی تلاش میں اس نے کتنی ہی سوچوں کو اپنے ذھن کے میدان میں کھلا چھوڑ دیا تھا.

کسی  تھکے ہارے مزدور کی طرح اس کے شانے اور نظریں نیچے جھک گئی اور وہ کمرے میں رکھے ہوئے صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی. اب جو چاروں طرف نظریں دوڑآیں  تو ہر کونے کھدرے میں سوچوں کا انبار نظر آیا. 


اسکی پلکیں بھاری ہونے لگیں تو وہیں دراز ہوگئی اور خود کو یہ کہہ کر تسّلی دے دی، یہ "صفائی" پھر کبھی سہی! 




بانو سازی 
اپریل ١١، ٢٠١٦
رات ١١:٢٩


Mar 6, 2016

عورت۔۔۔ شارع عام نہیں ہے

Originally published here HumSub



برصغیر میں ویسے تو عورت نے انفرادی طور پر بڑی ترقی کرلی ہے لیکن افسوس بنیادی طور پر وہ اب بھی اپنے دفاع میں لڑ رہی ہے۔ اب پڑھنے والے کہیں گے بی بی صاف صاف کہو بلکہ فرق بیان کرو۔
تو جناب مدعا کچھ یوں ہے کہ آپ نے عورت کے وجود کو وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جگہ دے دی۔ بصورت ماں، بہن، بیٹی، بہو، بیوی، وغیرہ وغیرہ لیکن بنیادی طور پر اس کو صرف عورت بلکہ انسان کا درجہ دینے سے قاصر رہے اور اس کو اپنی ضروریات کے دائرے میں باندھ کر رکھا۔ کسی کے لئے وہ بچے پیدا کرتی رہے، تو کہیں چولھا چکّی میں الجھی رہے۔ غرض اس کی بنیادی لگن کو اس کے وجود سے الگ کردو۔
معاشرہ پڑھ لکھ گیا ہے کچھ سمجھ بوجھ بھی آگئی ہے اس لئے اکثر اوقات ہم سن لیتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں، بہنوں،بیویوں کو ان کے بنیادی حقوق سے آگاہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حقوق بھی پورے کر رہے ہیں۔ مگر یہ لوگ معاشرے کا شاید سواں حصّہ ہوں گے اور ان کو معاشرے کی اکثریت نہیں مانتی بلکہ وقتاً فوقتاً غیرت کی گھٹی پلانے کی کوشش کرتی ہے۔
"لڑکی کو باہر پڑھنے بھیج دیا؟ ارے مت ماری گی ہے کیا؟"
”اے اتنا پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے۔ آخر کو تو گھر ہی سنبھالنا ہے نا۔"
"لڑکی اتنی دیر سے دفتر سے آتی ہے؟ دیکھ لینا دفتر کے نام پر کوئی اور کام نہ ہورہا ہو."

\"تمہارا تو اپنی بیوی پر کوئی زور ہی نہیں چلتا۔ ذرا لگام ڈال کر رکھو میاں۔\”
اب کوئی زمانے سے پوچھے بیوی ہے یا گھوڑا؟ یا صحیفوں میں لکھا ہے کہ گھر سنبھالنا صرف اور صرف زنانہ ذمےداری ہے؟
ہمارے معاشرے میں ماشااللہ لڑکیوں کی تربیت پر اتنا دھیان رکھا جاتا ہے کہ لڑکوں کی تربیت کرنا والدین بھول جاتے ہیں۔ جب کہ اصل مدعا تو یہ ہے کہ مرد حضرات کو بھی تعلیم و تربیت دونوں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کے آپ لڑکی کو یہ سکھائیں کہ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھو، پہلے لڑکے کو سکھائیں کہ بیٹا دوپٹہ ہو یا نہ ہو تم اپنی نظر اوپر یا نیچے ہی رکھنا۔۔۔۔۔۔۔کہیں بیچ میں نہ بھٹکا دینا۔
آپ میں سے کتنے ماں باپ ہوں گے جنہوں نے کہا ہوگا کہ چہرہ گردن کے اوپر ہے، نیچے نہیں ؟ کوئی بھی نہیں ہوگا ایسا کیوںکہ یہ تو خطّے کی روایت ہے کہ عورت ہی غلط ہے، فتنہ ہے، فساد ہے، شیطان کی نانی ہے۔۔۔۔۔نانا کہہ دیتے لیکن نہیں محاورے میں بھی نہ بخشا۔
مسئلہ پھر وہیں کا وہیں! عورت، عورت تو ہے مگر ساتھ میں انسان بھی ہے۔ کوئی بے جان چیز نہیں جو بس ضرورت ہو اور آپ کی محکوم بھی۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں ایک جملہ سنا تھا جو کچھ یوں تھا، \”مرد اگر 100 عورتوں کے ساتھ بھی سوجائے تو فرق نہیں۔\”
یہ ہے ہماری تربیت جو لڑکوں کو سکھاتی ہے کہ عورت صرف ساتھ سونے کی شے ہے، اور یہ کہ تم پر ہر گناہ معاف ہے کیوںکہ تم مرد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکی یا عورت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے، حق کے لئے کھڑی ہو، یا اپنے بنیادی فیصلے خود لینا چاہے تو اس کو تہمتوں سے نوازا جاتا ہے۔
"باغی ہے."
"ہاتھ سے نکل گئی۔"
اس کے علاوہ جو کہا جاتا ہے اسے کیا لکھنا۔ طلاق ہوتی ہے تو کہتے ہیں لڑکی کا قصور ہوگا، لڑکی خلع لے تو بھی اس کا جواز اس کے سر ڈال دیں گے۔ ریپ ہوگا تو بھی لڑکی میں ہی کھوٹ ہوگا جی۔۔۔۔۔کپڑے ایسے ہوں گے، لائن دی ہوگی، کردار ہی خراب تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ویشیا کا ریپ ہوجائے تو وہ ریپ کے کھاتے میں ہی نہیں آتا، پولیس کچہری تو دور کی بات ہے۔ کیوںکہ وہ تو ویشیا تھی، جسم بیچتی تھی تو وہ انکار کیسے کرسکتی ہے۔ مرد کا انکار، انکار ہے لیکن عورت کا انکار اس کا نخرہ ہے یا مرد کی توہین۔
یہی وجہ ہے کے جب کوئی لڑکی گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اس کو جواز، جواب، اور جدوجہد سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے کی خصلت یہ ہے کہ آپ کی بہن، بیٹی، بیوی، ماں اگر گھر سے باہر نکلی ہے تو بس اب وہ \”دستیاب\” ہے کیوںکہ یہ وہی قوم ہے جو اپنی عورتوں کو ایسے لپیٹ کر رکھتے ہیں جیسے دکاندار شیشے کا برتن اخبار میں لپیٹ میں رکھتا ہے۔
اس دور کے مرد اور عورت یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عورت اگر مضبوط ہوگی، پڑھی لکھی ہوگی، تو ایک نسل کا مجموعی فائدہ ہو گا۔ آپ کو مغالطہ ہے کہ دروازے سے باہر قدم رکھنے والی ہر بچی، لڑکی اور عورت بس آپ کے دروازے میں داخل ہونے لئے نکلی ہے۔
نہیں صاحب! وہ اپنا مقام بنانے نکلی ہے، اپنا وجود ڈھونڈنے نکلی ہے۔ وہ چیز نہیں ہے جس کی آپ نے قیمت لگا دی اور کبھی تو بنا قیمت کے ہی بروئے استعمال لے آئے۔
وجود زن سے کائنات میں بھرنے والے رنگ کو تو سمجھ گئے ہوں گے آپ شاید، لیکن وجود کو نہیں سمجھ سکے۔

Jan 27, 2016

شرمندہ


کتنی بار سوچا
ایک افسانہ لکھوں 
تمہاری بےوفائی کا 
اپنے انتظار کا،

کھوکھلے وعدوں کا
پختہ یقین کا 

زندہ خوابوں کا 
مردہ ارادوں کا 

بےنام مجبوری کا 
بانجھ امیدوں کا 

پھر،
یہ سوچ کر قلم 
رکھ دیا 

کیا انجام لکھوں 
وقت کے آگے 
......محبّت کے شرمندہ ہونے کا ! 





بانو سازی 
جنوری ٢٣، ٢٠١٦

Jan 16, 2016

تمہاری تہذیب



"مجھے یہ فائلز بھیج دینا اور ہاں ان تمام سوالوں پر بھی کام کرلینا جو آج پوچھے گئے ہیں. میں اگلے دو تین دن تک شاید موجود نہ ہوں."

یہ تمام ہدایات تہذیب نے اپنی ٹیم کو دیں اور اپنا فون اٹھا کر دیکھنے لگی. اسی دوران میں اسکا فون بج اٹھا اور وہی کال تھی جسکا اسکو انتظار تھا. تہذیب اپنی جگہ سے اٹھی ، ٹیم کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور خود آکر کھڑکی پر کھڑی ہو گئی. 

فون کی دوسری جانب اسکا بھائی تھا.

بارہ گھنٹے یا شاید اس سے کچھ کم ہی وقت گزرا ہوگا جب تہذیب کو خبر کی گئی تھی کہ "وہ" نہیں رہا.

تب سے لے کر اب تک جانے تہذیب کیسے رہ گئی تھی؟ یہ سوال اس نے خود سے پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا کیوں کہ وہ یقین اور بے یقینی کے بیچ اپنے قدم جما رہی تھی. اس خبر کے ساتھ پیغام بھی تھا کہ ممکن ہو تو پہنچ جائیے، ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ سامان بھی موجود بھی ہے. 

ہمیشہ کی طرح آج اس نے فون اٹھا کر بھی کو سلام نہیں کیا بلکے سیدھا سوال.

"ٹکٹ ہوگئی ؟"

"ہاں! لیکن وہ....."

"کیا؟"

"تم اکیلے ؟"

"مجھے کمزور سمجھتے ہو؟"

"نہیں تو. لیکن شاید کوئی ساتھ چلے تو بہتر ہوگا"

"اس نے اکیلے مرنے کی ہمّت کرلی تھی تو اب میں بھی جینے کی ہمّت کرلوں گی."

"تمہارا جانا ضروری نہیں."


"بہت ضروری ہے. دفنانا جو ہے........اس کو اور خود کو اس کے ساتھ!"


لائن کٹ گئی.

کھڑکی سے باہر دن کا سورج ڈھل رہا تھا لیکن اس کے درد کا چاند چڑھ چکا تھا.





بانو سازی 
جنوری ١٦، ٢٠١٦
رات ٢:٣٤

ٹکڑوں میں باتیں


گزر رہی ہے تو گزار رہے ہیں بَحقِّ محبت بکھرتے جارہے ہیں

--------------

جوش گم گیا، ہوش کھو گئے اے دل نامراد،اب کدھر چل دئیے

---------------

مصروف کرلیا ذات کو زندگی میں تم کو بھولنے کی بھی فرصت نہیں حال احوال کی کوئی امید نہ رکھنا اس سفر میں ٹھہرنےکا جواز نہیں



#بانوسازی