سردیوں کی شام ویسے بھی مہرکو بےحد پسند تھی. ایسی ہی سردی کی کوئی شام تھی جب "اس" کی ماں نے مہر کے نام پر سرد مہری دکھائی تھی اور وہ چنگاریوں کو راکھ میں تبدیل کر کے وہاں سے اٹھ گیا تھا.
خشک، سرد ہوا جب مہر کے چہرے کو چھوتیں تو اسکو یقین ہوجاتا کہ وجود میں تو گرمی باقی ہے لیکن احساس ٹھنڈے پڑ چکے ہیں. سرمئی شام آہستہ آہستہ تمام روشنی کو اپنی لپیٹ میں لئے رات کی طرف بڑھ رہی تھی اورمہر یادوں کے غار میں جہاں سے واپسی کا راستہ وہ ہمیشہ بھول جاتی تھی.
برابر میں بیٹھی سادیہ نے پھیکی سی مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا اورسمجھ گئی مہرکو راستہ دکھانے کا وقت آگیا ہے. سادیہ نے آواز اونچی کر کے اس کا دھیان اپنی طرف کیا اور کہا،
"میرا خیال ہے میں اس کو بھول چکی ہوں."
مہر نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور کہا، "بھول چکی ہوتی تو یوں یاد نہ ہوتا"
"کیا مطلب؟"
"محبّت ایک دائرہ ہے. تم دائرے سے کبھی نہیں نکل سکتی بس دوسرے سرے پر آکر اس مغالطے میں مت رہو کہ بھول گئی ہو."
"ہو سکتا ہو میں نے دائرہ توڑ دیا ہو؟"
"محبّت نامکمّل ہو تو پہلے درد دیتی ہے، پھر صبر بن کر ذات بن جاتی ہے. وہ دائرہ تمہاری ذات ہے جس کے ساتھ رہنا سیکھ لیتے ہیں."
"پھر تم صبرکیوں نہیں کرلیتی مہر؟"
"میرا درد جو ختم نہیں ہوتا."
بانوسازی
دسمبر ٢٨، ٢٠١٦
رات ١:١٥
0 comments:
Post a Comment