Showing posts with label politics. Show all posts
Showing posts with label politics. Show all posts

Nov 28, 2019

بایئں نظرئیے کا دایاں رخ - پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن

Originally publish here NayaDaur Urdu



"بقول غالب، میری وحشت تری شہرت ہی سہی!
 تو بس ان کی جو وحشت ہے نا، وہی ہماری شہرت ہے."

ایسا کہنا  ہے، ٢٣ سالہ  وقاص عالم کا، جو پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن-کراچی PrSF کے بنیادی رکن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ٢٩ نومبر کو آنے والے "طلباء یکجہتی مارچ" کے منتظمین میں سے بھی ہیں. 




وقاص اپنی عمر میں کچے لیکن خیال کی پختگی میں ملکی سیاست کے بزرگوں کو مقابلہ دے سکتے ہیں. مرزا غالب اور کارل مارکس سے وابستگی انہیں وراثت میں ملی ہے. صاحب اکثر غالب کی شاعری فلسفے کے مختلف نظریات کی روشنی میں سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں. 

ساٹھ کی دہائی میں جب نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو کراچی شہر اور اس کے کالج اور جامعات کا ایک بہت بڑا کردار تھا.  یہی وجہ تھی کے جب یکجہتی مارچ کا اعلان ہوا تو کراچی سے طلباء و طالبات کا جھکاؤ دیکھا گیا اور لیفٹ-ونگ میں ایک تیزی کی لہر آئی.

وقاص بذات خود جامعہ کراچی سے  سیاسیات میں ماسٹرز کے آخری مراحل میں ہیں اور پچھلے ٥ سال سے لیفٹ - ونگ سے خود کو منسلک بتاتے ہیں. قومیت کے لحاظ سے وقاص کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس نسبت سے ان کو لگتا ہے کہ لیفٹ کا نظریہ ان کے حالات و واقعات کی بہتر عکاسی کرتا ہے.

"جب میں نے لیفٹ کا نظریہ پڑھنا شروع کیا تو سمجھیں سب کچھ پلٹ گیا اور مجھے لگا میں ایک خول میں رہتا ہوں.میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تب مجھے NSF کی معلومات ہوئیں اور میں نے ٢٠١٧ کے آخر تک ان کے ساتھ کام کیا."

پاکستان میں طلباء میں سیاسی تعلیم اور نظرئیے کا شدید فقدان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طلبات اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے نصابی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور اداروں کی لائبریری خالی پڑی رہ جاتی ہیں. وقاص اپنی سیاسی معلومات اور تربیت کا سہرا کتابوں کو دیتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ١٠ سال کی عمر سے وقت گزارنا شروع  کردیا تھا.

ضیاء الحق کے دور میں طلباء یونین پر پابندی لگی کیوںکہ تب اداروں اور حکومت کو طلباء کی طاقت کا اندازہ تھا جن کا مظاہرہ وہ پچھلی حکومتوں میں کر چکے تھے. بعد از پابندی، ملکی سیاست میں مختلف اتار چڑھاؤ آئے جس میں ایک تو خود ضیاء الحق کا قتل تھا. اس کے بعد بھی ملک میں تبدیلی در تبدیلی جنم لیتی رہی مگر طلباء یونین کا معاملہ کہیں دب گیا.

طلباء یونین اورسیاسی طلباء تنظیم کا ایک بنیادی فرق ہے الیکشن!
یونین میں مختلف تنظیمیں، فیڈریشن الیکشن کے زریعے منتخب کردہ نمائندگان طلباء کی آواز بنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تدریسسی اداروں اور طلباء میں مفاد ہوتا ہے. جب کے سیاسی طلباء تنظیم اپنی بنیادی تنظیم کا منشور لے کر آتی ہیں، وہ بھی بنا کسی الیکشن کے جو طاقت اور تشدد کا باعث بنتے ہیں.

طلباء یونین بھی ایک بنیادی حق ہے جس کی غیر موجودگی میں ملک بھر میں طلباء کے ساتھ ہونے والی کوئی بھی ناانصافی کسی اجتماعی چھتر کے نیچے نہیں آ سکتی ہے. واقعہ چاہے مشعال خان کے بہیمانہ قتل کا ہو یا  جامعہ بلوچستان میں طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسائی کا. یونین نہ ہونے کے باعث طلبہ و طالبات انفرادی احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں. ایسے میں طلباء یونین کی بحالی ہی وقت کی عین ضرورت ہے.

آپ کی نظر میں کسی کو بھی طلباء یونین کی بحالی کا مطالبہ کیوں کرنا چاہئے؟ اسکی بنیادی وجہ یا فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟
"اس سوال کے جواب میں وقاص کا کہنا تھا، ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں حصّہ لے، معلومات رکھے. ریاست اور قوم کا رشتہ حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہیں جس میں ریاست کے فرائض ہیں اور قوم کے حقوق ہوتے ہیں. اس رشتے کی ہم آہنگی ہی ہمیں ایک بہتر ملک دے سکتی ہے. 

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس ڈکٹیٹر شپ ہے یا پھر موروثی سیاست جس کی موجودگی میں کسی بھی متبادل قیادت کا قیام عمل میں لانا ناممکن ہے. طلباء یونین مختلف طریقے جیسے ریڈنگ سرکل، سیمینار،آرٹ کے زریعے  طلباء کی سیاسی تربیت کرتی ہے جو مستقبل میں سیاسی قیادت کی بنیاد فراہم کرتی ہے."

ملک بھر میں جو ایک عام خیال پایا جاتا ہے وہ یہ کے طلباء تدریسی اداروں میں ہنگامہ آرائی، تشدد، یا قتل و غارت کی وجہ بنے ہیں. پابندی لگنے سے پہلے طلباء ایک مٹھی تھے لیکن جب بکھرے تو کچھ کنارہ کش ہوگئے اور کچھ نے سیاسی طلباء تنظیم کا رخ کیا. سیاسی تنظیموں سے سٹوڈنٹ ونگ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے.  اس کے بر عکس طلباء یونین تمام تفریقات سے بالا تر ہے. 

ایسا نہیں ہے کے ماضی میں حکومتوں نے طلباء یونین پر بات نہیں کی، لیکن کسی نے بھی اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لڑا. ١٩٨٨ میں محترمہ بینظیر نے جب حکومت سنبھالی تو پابندی اٹھا دی لیکن ١٩٩٣ میں یہ پابندی پھر عائد  کر دی گئی. اس پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ قدامت پسند یا مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کو ہوا جن کا٨٠ اور ٩٠ کی دہائی  بےدریغ استعمال ہوا.

اسی دوران APMSO نے بھی زور پکڑا اورIJT اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالف بن گئی. یوں سلسلہ شروع ہوا  جامعہ کراچی کی  بدترین طلباء سیاست کا! 
جامعہ کے جھگڑے، قتل و غارت سیاسی بنیاد پر تھے جس سے عام طلباء کا کوئی تعلق نہیں تھا. ان وجوہات کی بناء پر طلبہ و طالبات نے سیاسی طور پر تدریسی اداروں میں کنارہ کشی اختیار کرلی.




ملک بھر میں سیاسی تنظیموں کے طلباء ونگ کا زور ٹوٹنے سے یونین کی بحالی کا معاملہ کچھ حد تک آسان ہوا ہے، خصوصی طور پر کراچی میں جہاں کالج اور جامعہ کراچی میں حالات قابو میں رکھنے کے لئے سندھ رینجرز کی اکثریت ہے. 


اس پابندی کی بحالی پر بلند و بالا آواز اٹھنے میں اتنے سال کیوں کیوں لگے؟
"وقاص کہتے ہیں کہ، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈرشن نے ٢٠٠٧ پھر متحرک ہونا شروع کیا تھا جس کی بنیادی وجہ  صدر پرویز مشرف کے آخری دور میں پیدا ہونے والا معاشی بحران تھا. بین الاقوامی سطح پر بھی یہ زوال آ چکا تھا اورتب پاکستان میں لیفٹ-ونگ کو لگا کہ یہی موقع ہے.

اس طرح سے ایک بار پھرلیفٹ کی بنیاد رکھنا شروع کی گئی، جس میں مختلف اشکال پیدا ہوتی رہیں لیکن ایک بات جو قائم کردی گئی وہ یہ کہ، لیفٹ-ونگ نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی تھی. ہم نے محاذ کھولنے کے بجائے مختلف تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور ملاقات کی کیوںکہ ہم خود کو ایک سیاسی تربیت گاہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں.

تمام لیفٹ تنظیموں نے، کارکنان نے پچھلے چند سالوں میں بہت محنت کی ہے تاکہ ایک منظّم طریقے سے ہم باقاعدہ تحریک کا آغاز کر سکیں. فیض فیسٹیول، ریڈنگ سرکل، سٹریٹ تھیٹر وغیرہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں. اس سے ہم لوگوں میں آگاہی اور شعور اجاگر کرتے ہیں."

 کراچی شہر میں وقاص اور ان کے PrSF  کے ساتھی دن و رات آنے والے طلباء یکجہتی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں. جامعہ کراچی میں مختلف جگہ پر طلباء و طالبات پر امن طریقے سے مظاہرے کی تیاری کرتے نظر آئیں گے. 

اس تمام عمل کی خوبصورتی یہ ہے کہ PrSF کراچی میں موجود ہر بڑی چھوٹی طلباء تنظیم کو دعوت عام دے رہی ہے. ضروری نہیں کے آپ اس وقت طالب علم ہی ہوں تو اس مارچ کا حصّہ بن سکتے ہیں. یہ مارچ تعلیم سے جڑے ہر مسلۓ کے لئے ہے. بڑھتی ہوئی فیس، گھٹتے ہوئے تعلیمی بجٹ، اور کالج جامعات میں ہونے والے واقعیات کی ترجمانی کرتا ہے. 





٢٩ نومبر کو ملک بھر میں ہونے والا یہ مارچ، کراچی میں بھی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہوگا. یہ مارچ انتہائی منظم طریقے سے سرانجام ہوگا، یہاں تک کے PrSF نے نعرے بازی کی ٹیم الگ تشکیل دی ہے جب کے مختلف رضاکار بھی اس میں حصّہ لے کر مارچ کو منصوبہ بندی کے تحت چلائیں گے.

ان تمام باتوں کے با وجود سوشل میڈیا پر لیفٹ-ونگ کافی تنقید کا شکار ہے کیوںکہ جن ممالک نے اس نظرئیے پر چلنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہے ہیں.  

"وقاص کہتے ہیں کہ ہر نظریہ ایک مرحلے سے گزرتا ہے. بلکل اسی طرح لیفٹ-ونگ ہے جو سرمایادار نظام کے نقاد ہیں اور رہیں گے. ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو سرمایہ ملک میں آرہا ہے اور جہاں جا رہا ہے اسے صاف شفاف طریقے سے دکھایا جائے. ہمارا مقصد ترقی تو ہے مگر حقوق کی برابری کے ساتھ ہو. 

مارکسزم کو مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فکٹریاں ہیں یا سرمایہ داری بڑھ رہی ہے. مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا فائدہ ایک مخصوص طبقے کی جیب میں چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی ہوجاتی ہے. یہ نظریہ دراصل ریاستی بہبود کی بات کرتا ہے، مساوی حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے."

جہاں تو خطّے میں کہیں ہرا رنگ اور کہیں کیسریا رنگ لہرا رہا ہے، وہیں "ایشیا سرخ ہے" کے نعرے ہوا میں بلند ہو رہے ہیں. پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی ہی تاریخ سے نابلد ہے اور لیفٹ -ونگ کوصرف لیدر جیکٹ پہنا دی ہے. تنقید نگار لیدر جیکٹ سے بلند ہوتے نعرے اور حقوق کی مانگ کو نظر انداز کر رہے ہیں.

یہی وہ لمحہ فکریہ ہے کہ PrSF عام لوگوں یا مستقبل کے طالب علموں کو لیفٹ نظرئیے سے کیسے روشناس کرائے گی اور کیا لائحه عمل ہوگا. 


PrSF انوکھے طریقے اپنا رہی ہے کیوںکہ بڑے پیمانے پر لوگ کتابیں، مضامین وغیرہ نہیں پڑھتے ہیں. اس کے لئے قریبی مستقبل میں memes کی مدد سے لوگوں میں لیفٹ اور اس سے جڑے مختلف فلسفوں کی آگاہی دی جائے گی. یہ طریقہ پڑوسی ملک میں بھی اپنایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آسانی سے بات سمجھائی جا سکے. 

اس کے ساتھ ساتھ PrSF مختلف کمیونٹیز کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہی ہے تاکہ لوگوں کے اندر سے وہ خوف نکل سکے کہ ہم کسی ایک زبان یا رنگ یا نسل کے ساتھ ہیں. طلباء سیاسی تنظیم کی وجہ سے لڑکیوں کی سیاسی شرکت بہت کم ہوگئی تھی جبکہ PrSF مخالف صنف کو بھی شانہ بشانہ لے کر چل رہی ہے. 

وقاص کا ماننا ہے، سیاست بھی ایک سائنس ہے اور تجربوں کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے. تجربوں کی شروعات ہوچکی ہے اور چند سالوں بعد جا کر ہمیں ان کا پھل دیکھنے کو ملے گا.

کیا طلباء یونین صرف سرکاری کالج اور جامعات تک محدود ہے؟

ایسا بلکل نہیں ہے!
طلباء یونین کا تعلق ہر طالب علم اور ان سے جڑے مسائل سے ہوگا. یہی وجہ ہے کہ وقاص اوران کے ساتھ IBA, Habib University جیسی پرائیویٹ درسگاہوں میں بھی گئے ہیں اور طلباء کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے. طلباء کے مسائل صرف سرکاری کالج یا جامعات تک محدود نہیں ہیں. پرائیویٹ اداروں میں سنوائی کا کوئی خاص عمل نہیں ہے. 



بدقسمتی سے، نصاب کی کتابوں میں یا سیاسی تنظیمیں خود بھی لیفٹ - ونگ کی خدمات کو، کامیابیوں کو نہیں سراھتی ہیں. کوئی ذکر نہیں کرتا ہے کہ  پاکستان میں طلباء سیاست کتنی پرزور رہ چکی ہے اور ملکی سیاست میں ایک اہم کردار رکھتی تھی. یہی کردار پھر سے آواز اٹھا رہی ہیں، ظلم کے خلاف، جبر کے خلاف، اس امید سے ملک کے ہر کونے میں ان کی آواز کو سنا اور سمجھا جاۓ گا.


Nov 26, 2019

انقلاب بذریعہ کتاب

Originally published here NayaDaur Urdu


حالیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں ٧٥% طالبات اپنے نصاب کے باہر کی کوئی کتاب نہیں پڑھتے ہیں. یہ کتابیں بھی صرف اس مقصد سے پڑھی جاتی ہیں کہ امتحانات میں پاس ہو سکیں. 

بلاشبہ، کتاب بہترین دوست تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انسانی بنیاد کا لازمی جز ہے. 

٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلبہ یکجہتی مارچ" میں  پاکستان بھرسے کئی موجودہ اور سابقہ طالب علم حصّہ لیں گے. سوال یہ ہے کیا یہ طلبہ و طالبات اچانک سے باشعور ہوگئے ہیں؟ کیا ان طلبہ کو یونین کے نظریات اور فرق کا علم ہے؟  

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سوشل میڈیا پرہر لکھی پوسٹ کو قرآن کی آیت سمجھ لیا جاتا ہے، یا کسی بھی نام سے منسوب کردیا جاتا ہے، وہیں ایک عدد طلبہ تنظیم "پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن" (PrSF)  ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں ادبی نشست کا اہتمام کرتی ہے.

ایسی نشستوں کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات میں مختلف نظریات، تحریک، فلسفہ، اور اس سے منسلک غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا کیا جائے. تعلیمی دورانیے میں غیر نصابی پڑھائی سے نہ صرف ذات اور ذہن کی نشونما ہوتی ہے بلکہ سماجی تخلیق کاری میں مدد ملتی ہے.  

رواں سال شہر قائد، کراچی میں بھی ایسی نشستوں کا آغاز فرئیر ہال اورجامعہ کراچی سے ہوا اور حرف عام میں "Reading Circle" کا نام دیا گیا. مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور نوکری پیشہ افراد تک اس نشست کے بارے میں سوشل میڈیا اور منہ زبانی چرچا کیا گیا.

 جامعہ کراچی کےشعبہ لٹریچرسے پڑھ کرنکلنے والی طالبہ عائشہ کا کہنا ہے، "ہمیں لوگوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر باشعور بنانا ہے جس کے لئے کتابوں کا پڑھنا اور مختلف نظریات کو سمجھنا بہت ضروری ہے."

عائشہ PrSF، اور WDF کی کارکن ہیں اور ان ادبی نشستوں کا ہفتہ وار اہتمام کرتی ہیں. ان نشستوں میں عمومی طور پر سیاست، ریاست، اور ان سے جڑے نظریات و فلسفے پر گفتگو ہوتی ہے. طلبہ و طالبات ہر ہفتے کسی کتاب یا موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اور اس پر تفصیل سے تبادلہ خیال کرتے ہیں.

جہاں ایک طرف جامعہ کراچی سیاسی طلبہ تنظیمیں کی غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بدنام ہے، وہیں دوسری طرف PrSF جیسی فیڈرشن ہے نظریاتی روشنائی کی بنیاد پر طلبہ کو ان کے بنیادی حقوق کی آگاہی دینے کا کام سر انجام دے رہی ہے.

ان ادبی و نظریاتی نشستوں کا فائدہ آنے والے مارچ میں دیکھنے کو ملے گا جہاں عائشہ اور ان جیسے کئی طلبہ و طالبات یونین کی بحالی کے لئے مارچ کریں گے. 

عام ذہن میں طلباء یونین اور سیاسی طلباء تنظیموں کو لے کر کافی غلط فہمی ہے. عائشہ کا کہنا ہے اس فرق کو سمجھنے اور قبول کرنے میں PrSF Reading Circles نے بہت مدد کی ہے. سیاسی تنظیموں نے طلباء کے بنیادی حقوق اور انکی بہتری کی طرف کام کرنے کے بجائے تشدد اور ہنگاموں کا ذریعہ اپنایا تھا جس کے باعث طلباء کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے.

یونین کا نظریہ قدرے مختلف ہے اور کیوںکہ ٣ دہائیوں کے بعد اس کی گونج سنائی دے رہی ہے تو مختلف جامعات میں اس کو لے کر ایک ہلچل ہے.

اپنے طالب علمی کے دور میں یونین نہ ہونے کے باعث عائشہ نے خود بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کے وہ طلباء یکجہتی مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہی ہیں. وہ نہیں چاہتیں کہ جو مسائل ان کو درپیش آئے وہ مستقبل کے طلباء کو بھی آئیں.

تعلیمی و ادبی سرگرمیاں، تھیٹر، کلچر، آرٹس، یہ وہ چند چیزیں ہیں جو طلباء یونین کو طلباء تنظیموں سے جدا کرتی ہیں.

عائشہ کا ماننا ہے کہ حقوق کی مانگ اور بحالی کے لئے ضروری نہیں کہ تشدد اور ہتھیار کا سہارا لیا جائے. اب چونکہ سیاسی تنظیموں کا زور ٹوٹ رہا ہے، حقوق کا شعور اجاگر ہو رہا ہے، ملک میں مختلف تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں تو شاید وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جہاں طلباء یونین کی بحالی کا معاملہ اٹھایا جائے.

دنیا بھر میں اس وقت مختلف قسم کے مارچ اور مظاہرے جاری ہیں اور اسی بیچ پاکستان بھی اپنا زور(بایاں) بازو دکھائے گا اور اس کی شروعات ٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلباء یکجہتی مارچ" سے ہوگی.

ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یاروں
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
(حبیب جالب)








Nov 24, 2019

جان کی قیمت ، پچاس روپے

Originally published here NayaDaur Urdu


پچھلے کچھ ہفتوں سے میرے گھر کے باہر رینجرز سنیپ چیکنگ کے لئے کھڑی ہوتی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ چاق و چوبند اور ایسے خود کو تعینات کرتی ہے کے مجرم کو وہ آسانی سے نہیں دیکھتے ہیں. مگرسوال یہ اٹھتا ہے آخر شہر میں ایسی کیا وباء پھیل گئی ہے جو ایک کامیاب آپریشن ناکامی کی جانب ہے. آخر کو ہم کراچی جیسے بڑے شہر میں، ہر گلی ہر کونے میں تو سندھ رینجرز کی خدمات نہیں لے سکتے ہیں.

سندھ رینجرز کے کراچی آپریشن کو لے کرعام عوام اور سیاستدانوں میں ملے جلے تاثرات تھے. جہاں ایک طرف واہ واہ تھی، تو دوسری طرف تنقید کی تھو تھو بھی تھی. کچھ نے کہا یہ ایک طرفہ ہے، تو کچھ نے کہا ڈرامہ ہے. حقیقت بہرحال یہی رہی کہ معینہ مدّت کے لئے شہر کے حالات درست ہوگئے. رینجرز اور عوام دونوں ہی اس بات سے انجان تھے یا شاید ابھی بھی ہیں کہ ہر جرم ملٹری آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتا ہے. 

کچھ جرائم کی جڑ مجرم سے نہیں، بلکہ مجرم کے حالات سے جڑی ہوتی ہے، جن کا حل نہ ہمارے پاس ہے نہ کراچی کی سڑکوں پر کھڑی رینجرز کے پاس!

اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج سے ٢ روز قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والا میجر لاریب گل کا قتل. میجر لاریب کو مبینہ طور پر موبائل چھیننے کی واردات میں G 9 کے علاقے میں، مزاحمت کے دوران مار دیا گیا.
کچھ ہی گھنٹوں بعد، شہر قائد، کراچی سے خبر آئی کہ فرسٹ کلاس کرکٹر خلیل الرحمن کو بھی چھینا جھپٹی کی واردات میں قتل کردیا گیا.

یوں دو ہنستے بستے خاندانوں نے اپنے جوان سالہ بیٹوں کی لاشیں دیکھیں!

 بوڑھے والدین نے بیٹے کی یونیفارم پر میڈل سوچے ہونگے، فوج میں ترقی سوچی ہوگی، یا شہادت کا رتبہ سوچا ہوگا. یہ لیکن کبھی نہیں سوچا ہوگا، نہ شاید لاریب نے خود سوچا ہوگا کہ وہ آرمی کمانڈو ہونے کے باوجود سڑک کنارے ایک ٥٠ روپے کی گولی کا نشانہ بن جاۓ گا.

خلیل الرحمن جیسا فرسٹ کلاس، ابھرتا ہوا قابل کرکٹر بھی وقت سے پہلے زندگی سے آوٹ ہوگیا کیوںکہ کسی کو اسکی جان سے زیادہ اسکا مال پیارا تھا. کیا خلیل کے پیاروں نے سوچا ہوگا کہ وہ کندھوں پر اٹھا کر اسکی جیت کا جشن منانے کے بجائے اسکا جنازہ کندھوں پر اٹھائیں گے؟ 
یقیناً نہیں!

اسلام آباد صرف دارلخلافہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے خوبصورت اور محفوظ ترین شہروں میں سے ہے. ان سب کے بواجوڈم محفوظ ترین شہر میں ہی محافظ کا قتل ہوگیا. کراچی، جہاں ہر جگہ سندھ رینجرز اپنا بوریا بستر لگا کر رکھتی ہے، وہاں بھی شہریوں کا قتل، لوٹ مار کی وارداتوں کا بازار گرم ہے.......کیوںکہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں!

کسی بھی جیتے جاگتے انسان کا بے وجہ قتل کر دینا، اپنی جان بھی داؤ پر لگانا،کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے. قتل واردات کی بنیاد پر ہو یا ٹارگٹ کی، ہر قتل کی قیمت ہے. 

پچھلے ٢ ماہ میں، ملک میں مہنگائی کی شرح ١١% ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ IMF کے مطابق یہ شرح ١٣% تک جا سکتی ہے. ہم جب ان اعداد و شمار کو اور گہرائی میں دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے شہری علاقہ جات میں  کھانے پینے کی اشیاء سالانہ بنیاد پر ~14% ، ماہانہ بنیاد پر ڈیڑھ فیصد پر بڑھ رہی ہیں. 
دیہی علاقوں کی مہنگائی کی شرح سالانہ طور پر ~١٥% اور ماہانہ بنیاد پر ڈھائی فیصد بڑھ رہی ہے.

بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی!

ملک میں ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں، جن کی قیمت عام دنوں سے تقریباً پینتیس % مہنگی ہے. انڈے، دال، آٹا، اور ایسی کئی بنیادی کھانے پینے کی اشیاء پر مہنگائی کا مہاراجہ چین کی بانسری بجا رہا ہے. 

جس ملک میں اوسط تنخواہ سترہ ہزار، اور خاندان چھ سے سات افراد پر مشتمل ہو، اور نوکری کے مواقع نہ ہونے کا برابر ہوں، وہاں سڑک پر ہونے والے جرائم کی شرح بڑھنا یقینی بات ہے. ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان کے مطابق، حکومت کی جانب سے شائع کردہ بیروزگاری کی ~پانچ % شرح غلط ہے جو کہ صحیح معنوں میں تقریباً ١٥% بنتی ہے.

آج صبح کی خبروں کے مطابق ملک میں بڑے پیمانے پرلگے کارخانوں نے ~چھ فیصد پیداوار کے نقصان کی رپورٹ فراہم کی ہے جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت اور بڑھے گی.  اس کے باعث، پاکستان میں بڑے سرمایہ داروں کا ملکی پیداوار میں حصّہ اب صرف ١٠% رہ گیا ہے، جو کہ پچھلے انیس سالوں میں سب سے کم ہے.

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے ملک اس مشکل دور سے نکل جاۓ گا، انہیں قوم کے جذبے اور ساتھ کی ضرورت ہے.

خان صاحب، خدا آپ کا چولہا گرم رکھے، پیٹ میں دال روٹی رہے تو حب الوطنی کی باتیں اچھی لگتی ہیں. جب گھر میں بیمار مہنگی دوا نہ ملنے کے باعث مرجاۓ، بچہ فیس نہ دینے کی وجہ سے گھر میں بیٹھ جاۓ، نومولود ویکسین نہ ملنے پر مر جاۓ، اور ساتھ میں بجلی پانی گیس کے بل جیب میں پڑے پڑے گل جایئں، تو ملک محبوبہ نہیں لگتا ہے. 

آپ کتنی ہی رینجرز تعینات کردیں، پولیس کو عام شہری کو مارنے کی آزادی دے دیں،جب تک مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی، جان سستی ہوتی رہے گی کیوںکہ ...........ٹماٹر 80 روپے پاؤ ہے، اور ایک گولی 50 روپے !








  

Oct 1, 2019

Here’s Why Imran Khan’s Remarks Against Islamophobia Were Hypocritical

Originally published here NayaDaur 




"Charity begins at home."

Guess who has not heard of this before? Our Prime Minister, Imran Khan.

Amidst the chaos last week, Pakistan once again voted "NO" for UN intervention against human rights violation in Yemen, but crying out loud about the Indian violations in Kashmir.

As of now, PM Imran Khan is being applauded by the Pakistani nation for speaking against Islamophobia and hailing as leader of Muslim Ummah. While the nation continues to clap, you can hear the plight of Uyghur, Syrian, and Yemeni Muslims in background.

Alas, Pakistan has chosen to speak for selective human rights.

This is an undeniable fact that Kashmir is in dire need of UN intervention after a cruel lockdown by the Indian government since August 4th. In the name of development, a large population of 8million Kashmiris is deprived of their basic human rights and necessities, while the international community has sealed its lips. 

Earlier this month, before UNGA begins, Pakistan assured that it has international support on Kashmir resolution and will be able to submit it with supporting signatures. Unfortunately, it was just a claim as Pakistan failed to get the minimum quota of 16 members. Pakistan's foreign minister Shah Mehmood Qureishi, reportedly, made 3 attempts to OIC but all in vain. Towards the end, Pakistan only gained support from Turkey and Iran. 

As much as the nation looked up to its Arab brethren to raise their voice in favor of Kashmir, all they got from them is a private jet of MBS to carry PM Imran Khan to New York for attending UNGA. It is indeed a great show of brotherhood but without any benefit to 8million locked out Kashmiris. 

PM Imran Khan made a remarkable speech at UNGA 2019, divided into 4 pointers which included climate change, corruption (of course), islamophobia, and last but not the least Kashmir.
We must applaud his sequence of topics because it kind of built his speech blocks. Nevertheless, we must take this into an account that speech such as at the platforms of the UN does require a structured speech writing. 

We know, your heart is in the right place. Hence, you could have done without your extempore display of speech, Mr. Prime Minister. 

Throughout his on-going trip, PM Imran Khan has made it loud and clear that the Pakistan Army was involved in the training of Mujahideens, later turned into Taliban and Al-Qaeda. This repetitive emphasis has made international/national media to speculate his on-the-record support for the Taliban, and an obvious harboring at home. 

Perhaps, choosing your words wisely was not an option!

Now, the question arises that how all of this is helping Kashmir?

Despite the continuous public reminders and Friday stand-up shows that upcoming UNGA will be focused on Kashmir, it was not!

The speech began with a mandatory I-am-doing-a-favor to this world and invalidating the struggle of several other countries such as Afghanistan, Ecuador, Iraq, Lebanon, Venezuela, Syria, and Yemen. The kindness we expect the world to show us is only possible if we bestow it on them, as well. 

Climate change was indeed a positive and polite pick-up note, for which we really admire our prime minister and his isolated efforts in a single province of Pakistan. Hopefully, this initiative spread out by the government, nationwide. 

In case you are not aware of the time constraint, every UNGA speaker has a maximum of 15mins whereas Pakistani PM Imran Khan took a little over 50mins. Nevermind, UNGA was polite and just kept on beeping the red light situated in front of the podium.

PM Imran Khan, indeed made some hard-hitting points towards the UNGA members which may help Kashmir to be heard and find itself unisolated. Kashmir deserves the right to live and self-determination, as our PM made it clear in his speech. 

This is not the first time, Pakistan has raised its voice for Kashmir. 
We must remember the actual historic speech of Sir Zafarullah Khan at UNGA which led the UN to have Kashmir resolution. Speeches at forums like UNGA should act as a catalyst of significant change and not mere motivation. 

As the PM's speech was unfolding, many Kashmiris and Pakistanis kept on waiting when will Kashmir come. It came, at last, around 35th minute of the speech!

The speech contained unnecessary mention of RSS and Modi's background which is no news. The on-going situation in Kashmir is full of facts and figures from several independent and Indian news outlets to support the Kashmir resolution itself. 

PM Imran Khan speech included the mentioning that how cruel occupation of forces can turn an innocent boy into a terrorist. He empathized and portrayed himself in the same situation for the audience's better understanding. 

While he uttered the bitter truth, thousands of Pashtuns, Baloch, Muhajirs, and religious minorities looked in amazement that why they were forced to disappear. With a man of such stature and dignity, they should be served justice, if not at their doorstep, at least in their lifetime.

The same day as our PM gave a heartening speech in UNGA, back home protests were happening in Peshawar. Several doctors gathered in KPK province to protest against regional and district authorities act. Provincial police used force against the protestors, resulting in many injured doctors. The immediate imposition of Article 144 took place at Lady Reading Hospital, Peshawar barring more than5 doctors to gather at one place.

Few days before UNGA began, a human rights activist Gulalai Ismail had to flee Pakistan and file asylum in the US, because of her activism with Pashtun Tahaffuz Movement. 

Three days before the speech, Amnesty International urged Pakistan government to release a Fulbright scholar Junaid Hafeez. Mr. Hafeez was a lecturer at Bahauddin Zakaria University and has been kept in solitary confinement since Jun '14 over false blasphemy charges.

In all fairness, a Pakistani like myself cannot help but wonder if Prime Minister Imran Khan's speech was all preach and no practice!


Aug 30, 2019

تقریر پہ تقریر، بیچارہ کشمیر

Originally published here HumSub


اگر خود کے باغ میں آپ پھول پودے نہ اگا سکیں تو پڑوس والوں کو باغبانی کا مشورہ نہیں دینا چاہیے!
کشمیر میں لگے کرفیو کو تقریباً سولہ دن ہونے کو آئے ہیں، اور کشمیریوں کی آواز اس وقت دنیا کے ہر کونے میں سنائی دی جا سکتی ہے۔ دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لے کر امریکا میں مقیم کشمیری، تمام لوگ آرٹیکل 370 کو لے کر سرتاپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کوئی چار روز پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 1947 سے چلا آرہا ہے اور جانے کب تک چلے۔ اس دوران مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مسائل اور مظالم صرف اور صرف وہ جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں یا جن کے پیارے وہاں موجود ہیں۔ میں، آپ، یا کوئی بھی تیسرا جس کو براہ راست اس صورتحال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ کشمیر پراپنی آواز اٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اچھی طرح سوچ لے۔

ہمیں اپنے وزیر اعظم کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، خصوصی طور پر ان کی تقاریر پر۔
دو روز پہلے خان صاحب نے سرکاری سطح پر آ کر کوئی بائیس منٹ قوم سے خطاب کیا جس کا مرکز کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت تھی۔ جس روز یہ تقریر نشر ہوئی ہے، اسی دن فرانس میں G 7 سمٹ ہو رہا تھا، جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر گفتگو کر رہے تھے۔
جہاں پاکستان کو ملک ملک جا کر کشمیر کے لئے جگانا پڑ رہا تھا، وہیں بھارت اپنی معاشی اور سماجی استحکام کی بنیاد پر G 7 میں اپنا موقف رکھ چکا تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے وقت میں کون اس کے ساتھ ہے۔

تقریر میں خان صاحب نے کہا کہ آج بھلے کوئی ہمارے ساتھ نہ ہو، لیکن کل ہوں گے ۔ انہوں نے بوسنیا کی مثال دے کر کہا، تب بھی دنیا بالاخر بوسنیا کی مدد کو آگئی تھی۔ جناب والا، مدد اور آواز تب پہنچی تھی جب بوسنیا کی نسل کشی اپنے اختتام پر تھی۔ گھر لٹ چکے تھے، عزتیں پامال ہو چکی تھیں، اورکئی نسلوں کا خون جم چکا تھا۔
کیا امّت مسلمہ بھی تب جاگے گی جب کشمیر کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہوگی؟
یا شاید کشمیر کو امّت کے کھوکھلے وجود کی ضرورت ہی نہیں۔ کشمیر تو انصاف اور خودمختاری کی تلاش میں ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے لئے آسان ہے شاہ رخ خان، پریانکا چوپڑا یا کسی بھی اداکار پر انگلی اٹھانا۔ ایسا نہیں کے ان کا اخلاقی فرض نہیں ہے لیکن اداکار، فنکار لوگوں کے ہاتھ میں فیصلہ سازی نہیں ہے، وہ طاقت نہیں ہے جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارت کے پاس ہے، یا روس کے پاس ہے۔
کیا ان میں سے کسی ملک نے آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملائی؟
کیا آپ بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں؟
اس تقریر کی شروعات میں وزیر اعظم نے کہا، بھارت کو سوچنا چاہیے تھا پلوامہ حملہ کیوں ہوا؟ کیوں ایک نوجوان نے خود کو بم سے اڑا لیا؟
خان صاحب، یہی سوال اگر آپ سے کل کو اپنے لوگ کردیں تو؟ کیا جواب دیں گے آپ بلوچ نوجوانوں کو؟ کیا آپ اتنی ہی نرمی پشتون نوجوانوں کے لئے دکھائیں گے؟ کیا آپ ماروائے عدالت قتل ہونے والے مہاجر سے یہ پوچھیں گے؟
نہیں پوچھ سکتے!
دوسرے پر ایک انگلی اٹھانے کا مطلب ہے، چار آپ کی طرف ہیں۔

خان صاحب نے ریفرنڈم کا بھی ذکر کیا کہ کیسے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی بنیاد پر آزادی ملی تھی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لفظ ریفرنڈم کا ذکر کرنے سے پہلے تھوڑا اغل بغل جھانک لیں۔ اگر آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان نے بھی ہاتھ اٹھا لیا تو ہم تو سیاحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کشمیر میں جو ہورہا ہے وہ غلط ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
ہمیں ان کے لئے بحیثیت انسان آواز اٹھانی چاہیے، نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ آپ کشمیر کے سفیر ہیں۔ کشمیر، اور دنیا بھر کے کشمیری اپنی زمین کے سفیر خود ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے جب وہ کشمیر کے احتجاجی مظاہروں میں جائیں تو اپنا جھنڈا نہ لہرائیں۔ ان کی آواز میں اپنی آواز ملائیں۔

”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ لگانے سے پہلے پوچھ لیں کیا انہیں پاکستان قبول ہے؟
خدارا، آپ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے آگے نہیں۔ کشمیری جانتے ہیں انہیں کیا چاہیے۔ انہیں پاکستان سے ہدایت نامہ نہیں چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی استحکامی کی جانب کام کرنا ہوگا جس کی بنیاد پرہی باقی ممالک سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے اور پاکستان کی آواز سنی جائےگی۔ پاکستان نے یقیناً متحدہ اقوام سیکورٹی کونسل تک کشمیر کا مسئلہ اٹھایا لیکن کوئی حل نہ نکل سکا، اس لئے اسے کسی بھی قسم کی کامیابی سمجھنا بیوقوفی ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لانے کا سہرا صرف پاکستان کے سر نہیں جا سکتا۔ یہ نا انصافی ہوگی ان ہزاروں کشمیریوں، اور باقی قومیتوں کے ساتھ جنہوں نے ہر ممکنہ جگہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر آواز اٹھائی۔ یہ غلط ہوگا ان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ جنہوں نے بھرتی حکومت کے سامنے آواز اٹھائی اوراب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
تقریر کا سب سے اہم حصّہ ”کھڑا ہونا“ تھا۔
ٹانگ اڑانے کے لئے ضروری ہے ٹانگوں کا مضبوط ہونا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام پاکستانی جمعے کو بوقت زوال تیس منٹ کشمیر کے مسئلے کے لئے کھڑے ہوں گے ۔
اگر آئنسٹائن یا نیوٹن زندہ ہوتے تو خان صاحب کے تجویزکردہ حل کی منطق پر دھیان کرتے۔ چونکہ وہ نہیں ہیں اور ہمارے پاس اتنا دماغ نہیں ہے اس لئے ہم صرف کشمیر کے حق میں دعا کر سکتے ہیں اور ان کے ہم آواز بن سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی امید کر سکتے ہیں کہ بھارت جمہوریت کا اطلاق کرے، حب الوطنی کا نہیں!

Jul 7, 2019

The Rise of Maryam Nawaz

Originally published here NayaDaur



After the unfortunate demise of Benazir Bhutto, Pakistan’s political stage witnessed an unspoken emptiness. BB Shaheed’s presence in national politics was flagbearer of not only democracy but also representative of the women of Pakistan.

We cannot deny the fact that only women of significance have been able to reach the pinnacle of Pakistani politics. Yet, we also cannot ignore that nothing was served to them on plate. From Fatima Jinnah to Benazir Bhutto, all of them tasted the power of patriarchy and anarchy.

With the arrest of Mian Nawaz Sharif in 2018, we saw the sudden ascension of his daughter Maryam Nawaz Sharif (MNS) in PMLN which made everyone raise their eyebrow.

The name of Maryam is not new and has been used repeatedly in past by opposition to bring dirt to PMLN and her father, equally. Her new-found position in the national political sphere has put everyone on alert inside and outside PMLN.

MNS is not just a pretty face, or daughter of Mian Sahab, or wife of Captain Safdar!

She is a 45yr old woman, holding MA in Literature from Punjab University. MNS, in all these years have handled her family’s philanthropic work and stayed as prime face for Sharif Trust. Back in 2017, she was among the BBC’s 100 Women, and by end of the same year got featured on The New York Time’s 11 Powerful Women Around the World.

Maryam Nawaz is indeed a power and an identity of her own.

Her political career took its first flight in 2011 and later in 2013, she became in-charge of her father’s political campaign for general elections. During all these years, she remained low-key until her name appeared in Panama Papers, and all hell break loose!

It is not like the first time a female politician is facing character assassination. The only difference is this time we will also have social media and keyboard warriors to raze her down to ashes against the sitting power. 

Over the last 70 years, Pakistan has seen an ethical downfall across the board but with the help of social-bots and paid campaigners we have reached the ethical demise of our country.

MNS has been slandered on her marriage with Captain (R) Safdar in one the most brutal manners where her even her children were not spared. Ruling party supporters made sure everyone get to know how Pakistan treats its women nationally and internationally, both.

As a nation, our understanding of private and family affairs is almost null.

Hence, our youth and not-so-youth decided to dig MNS pictures from her daughter’s wedding and ridiculed her for adorning herself. They went as far as calling her “buddhi ghorri laal lagaam” which roughly translates that a woman after certain age should not be wearing red.

Socially, we are accustomed to age-shaming and have normalized it in our daily life. Often, I hear people using the word “Aunty” as a shameful prefix.

When it comes to Maryam Nawaz, they shamelessly started a twitter trend identifying her real-life status of Naani i.e. grandmother. I must not forget that this trend was brought to you by another Pakistani woman, Veena Malik. Following in her footsteps, many other embarrassing trends took place on Pakistani Twitter.

2019 has been a houseful of internal misogyny; courtesy women taking a character dig at Maryam Nawaz.

Did all this character assassination and age-shaming pushed Maryam Nawaz back from the political forefront? Did it break her morale?

No. A big no.

She belongs to a hard-core political family, with Kashmiri blood running in her veins. This is not the first time, a woman in Pakistani politics has to rise and fight for her father. History, probably not repeating itself in similar fashion but definitely saving some lessons for Maryam Nawaz.

Today’s bold and brazen press conference by PMLN, led by MNS, displayed the authority that she holds and power she possesses. Through her poised and charismatic demeanor, MNS has proven everyone wrong and brought herself to the front stage of Pakistan’s political opposition.

Keeping the differences aside, we as a nation should welcome Maryam Nawaz and wish her all the strength and courage against hard core male-dominated politics.

“May the force be with you, woman!”






Apr 14, 2019

فاختہ والے خلیل خان اور ہزارہ شیعہ

Originally published here HumSub

آج آپ  کی ملاقات خلیل میاں سے کرواتے ہیں!
یہ اکیسویں صدی میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی فاختہ اڑاۓ پائے جاتے ہیں. خلیل میاں کو کوئی غرض نہیں کہ دائیں ہاتھ والے گھرکا بڑا بیٹا اکثر بائیں ہاتھ والے گھر کی ملازمہ کوتتنگ کرنے چھت پر آجاتا ہے. خلیل میاں سامنے ہوتے ہوئے بھی اندھے بن جاتے ہیں کیوںکہ انکا کام فاختہ اڑانا ہے، محلے کے جوانوں کو ڈانٹنا نہیں. 
خلیل میاں تو اس دن بھی چپ سادھے ہوئے تھے، جس روز انہوں نے اپنی آنکھوں سے سامنے والے گھر میں انکی بہو کو مار کھاتے دیکھا تھا اور بعد میں شعلوں میں لپٹا اسکا جسم. پولیس آئی، تھانہ کچہری ہوا لیکن خلیل میاں انجان بنے فاختہ اڑاتے رہے کیوںکہ یہ کسی کے گھر کا اندرونی معاملہ ہے. 
فاختہ کی محبّت دنیا کے ہر مسئلے سے برتر تھے. چاہے وہ جلتی ہوئی بہو ہو، یا محلے کے لڑکوں کی ٹپکتی ہی رال، خلیل میں اپنی دنیا میں مگن تھے. 

اپنی اس دنیا سے بس وہ رات کو کچھ دیر کے لئے باہر آتے ہیں اور گلی کے نکڑ پر چند ایک اور فارغ ال اوقات حضرات کے ساتھ محفل جماتے ہیں. ایسی ہی ایک رات تھی جب محلے کے حیدر صاب نے کوئٹہ میں جمّعہ  مبارک کی صبح  سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر چھیڑ دیا.  ساتھ ہی کچھ  لوگوں نے تعزیتی گفتگو شروع کردی کہ کیسے شیعہ فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ کتنا پرامن دھرنا دے رہے ہیں.

بس یہ سننے کی دیر تھی، خلیل میاں نے فاختہ چھوڑ حب الوطنی کا دامن تھام لیا اور سب کو ٹوکتے ہوا کہا "آپ لوگ تعصبی باتیں نہ کریں. شیعہ نہیں مرے، مسلمان مرے ہیں. ہمارا ملک تو امن کی فاختہ ہے وہ تو بس بھارت حاسد یہ سب کرا رہا ہے."

حیدر صاب نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ لشکر جھنگوی نے یہ کہہ کر ذمےداری قبول کی ہے کہ یہ ہزارہ شیعہ پر حملہ تھا، لیکن خلیل میاں امن کی فاختہ چھوڑنے کو تیار نہ تھے.

ایسے کئی خلیل میاں آج ہمارے آس پاس موجود ہیں جوویسے تو چپ سادھے رہیں گے جب رمضان مینگل جیسا دہشتگرد رہا ہوجاۓ گا لیکن اس کے  ٹھیک ٣ دن بعد ہونے والے دھماکے کو پڑوسیوں کے نام کردیں گے. 

خلیل میاں کی نظرمیں  الزام لگانا آسان ہے، لیکن اپنے فیصلوں کی ذمےداری اٹھانا اس سے کہیں مشکل ہے. 

میں اکثر کراچی میں واقع قبرستان "وادی حسین" جاتی ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکوں یا رو لوں کیوںکہ اب تو روز حشر ہی ملاقات ہوئی تو ہوئی. وہاں کئی قبروں پر لال جھنڈا یا لال علم لگا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شہدا ہیں جنہیں "علی ولی الله" کی پاداش میں مار دیا گیا. 

ہم میں سے عمومی طور پر لوگ اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں کی لاشیں سلامت اٹھاتے ہیں. وہ ٹکڑوں میں نہیں ہوتیں نہ تتر بتر سڑک پر پھیلی نہیں ہوتیں. لاش اٹھانے میں اور لاش سمیٹنے میں بڑا فرق ہے! 

پاکستان کے شیعہ، خصوصی طور پر، ہزارہ شیعہ لاشیں سمیٹتے ہیں. کیا بزرگ کیا جوان، کیا شیرخوار. کیا بیٹا، کیا باپ، کیا بھائی، کیا شوہر! 
اگر واقعی میں "حسین" کا صبر کسی نے اپنایا ہے تو وہ ہیں ہزارہ شیعہ جو ہر دفعہ خاموشی سے اپنے پیاروں کی لاش سمیٹتے ہیں، اور سڑک ک کنارے بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید اس بار حکومت ہماری سن لے. 

انٹرنیٹ کا دور ہے اور کسی بھی خلیل میاں کو شاید ٥منٹ لگیں یہ جاننے میں کہ، ٢٠٠١ سے ٢٠١٨ تک پانچ سو کے قریب حملے شیعہ فرقے کے ماننے والوں پر ہوئے ہیں، جن میں سے ١١٦ (ایک سو سولہ) حملے صرف ہزارہ شیعہ پر ہوئے ہیں. ہزارہ ویسے ہی گنی چنی برادری ہے جو کوئٹہ میں اپنا مسکن بنائے بیٹھی ہے اور جو غلطی سے مسکن سے باہر نکلی تو دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے.

حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ، ہزارگنجی میں ہونے والے دھماکے سے ٣ دن قبل ہی لشکر جھنگوی کے سربراہ رمضان مینگل کو حکومت نے رہا کیا تھا. بعد از، اسی تنظیم نے ISIS کی مدد سے یہ حملہ کیا جس میں چوبیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہیں. 

ہزارہ شیعہ برادری اپنے روایتی انداز میں پرامن دھرنا دئیے بیٹھی ہے اور انکی مانگ بس اتنی سی ہے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں کو پکڑا جاۓ، اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ آ کر انکو گریہ و زاری سنیں. خان صاب نے بلکل سنی اور ٹویٹر پر ایک تعزیتی ٹویٹ بھی کردی جو مجھے امید ہے کہ ہزارہ برادری تک پہنچ گئی ہوگی. 

اب دیکھیں، بات کو سمجھیں، خان صاب وزیر اعظم ہیں، جگہ جگہ تو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ ڈالر ادھار نا دے رہے ہوں. اسی لئے انہوں نے نئے زمانے کی تعزیت کردی.

ہزارہ شیعہ ایک ایسی برادری ہے جو اپنے ہی شہر میں محصور ہے کیوںکہ حکومت انہیں محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے. اس چھ سے آٹھ لاکھ کی برادری زخم ابھی بھرتے بھی نہیں کہ ظالم انہیں پھر سے کھرچ ڈالتے ہیں. 
پاکستان انسانی حقوق نیشنل کمیشن کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں صرف کوئٹہ شہر کے اندر ٥٠٩ ہزارہ شیعہ ہلاک، اور ٦٢٧ زخمی ہو چکے ہیں. یہ افراد اپنے گھر سے کفن باندھ کر نہیں نکلے تھے، لیکن دہشتگردوں نے انہیں یا تو کفن پہنا دیا اور جو بچ گئے انہیں فاتحہ پڑھنے کو چھوڑ دیا. 

پڑھنے والے اور سننے والے کے لئے ٥٠٩ ہلاکتیں بس اعداد و شمار ہیں لیکن دراصل یہ پورے پورے خاندان ہیں جو سماجی، ذہنی، اور سب سے بڑھ کر معاشی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں. 

گلوبل اکسٹرمزم مانیٹر کی ٢٠١٧ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ٩٥% دہشتگردی کے واقعیات شیعہ مسلک پر ہوئے ہیں. اس رپورٹ میں، پاکستان دنیا کے ١٠ سب سے خطرناک ممالک میں شامل تھا جہاں فرقہ وارانہ حملے ہوتے ہیں. پاکستان کا نمبر آٹھ تھا!  

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی، بلکہ نہیں ہوگی کیوںکہ آپ بھی خلیل میاں کی نسل سے ہیں. پھر بھی بتانا میرا فرض ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے شہر جھنگ نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی ک خلاف خراج عقیدت پیش کیا اور انسانی عکس کی صورت ایک مسجد کی شکل بنائی. 
یہ خراج عقیدت عین اسی دن دیا گیا جس دن کوئٹہ خون میں نہا گیا تھا. 

کیا آپ نے کبھی پاکستان میں مرنے والی اقلیتوں کے لئے کوئی ایسا حسین و دلکش، دل کو پرنور کر دینے والا خراج عقیدت دیکھا ہے؟ 
نہیں!
وو کیا ہے نا کہ اقلیت تو بس پاکستان سے باہر ہوتی ہے. پاکستان میں تو بس اکثریت ہے اور وہ بھی خلیل میں کی! 





Dec 26, 2018

علی رضا عابدی: زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے

Originally published here HumSub

زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے 
سر قلم کروا کر آزادی دفن ہوتی ہے 

آج ٢٥ دسمبر ہے جب دنیا بھر میں حضرت عیسی کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے، جنہیں آج سے سینکڑوں صدیوں پہلے رومن سلطنت نے صلیب پر گاڑھ کر قتل کردیا تھا. وجہ؟ خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کا پرچار تھا. سرکار نے بہت روکنا چاہا لیکن آپ ابن آدم، پیغمبر دین، آپ نے تبلیغ جاری رکھی جو بعد از حضرت عیسی، عیسایت مذہب میں تبدیل ہوئی. 

ایک بات تو اٹل ہے شب و روز کی طرح کے سچائی کے پیغام کی قیمت عمومی طور پر جان دے کر ہی ادا ہوتی ہے، اور صدی بھلے پہلی ہو یا اکیسویں، سرکار کا وقار بلند رہتا ہے، خون سے تر رہتا ہے.

علی رضا عابدی،عمر ٤٦ سال،سابق ممبر نیشنل اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ ، شہر کراچی میں اپنے گھر کے سامنے سر اور گردن پر گولی لگنے سے جابحق!
آپ چاہیں تو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی طرح انہیں شہید کہہ سکتے ہیں، لیکن صرف اتنا بتا دیجیے گا کہ کیا آپ اپنے گھر سے شہید ہونے کے لئے نکلتے  ہیں؟
اگر نہیں تو قتل اور شہادت میں فرق جان کر جیو.

کراچی میں رہنے والے تقریباً ہر انسان کو معلوم تھا کہ علی رضا عابدی کون ہیں. کوئی ان کو علی بھائی کہتا تو کوئی عابدی بھائی اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ رشتےدار تھے، بلکہ اس لئے کہ جی دار تھے. ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد، علی بھائی نے باقی تمام کارکنوں کی طرح MQM لندن کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا، بلکہ وقتاً فوقتاً متحد ہونے کی بات کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بنتے. یہ آدمی بلا خوف و خطرکراچی کے نوجوانوں کہ ساتھ بیٹھا پایا جاتا تھا جہاں عقل اور منطق دونوں مہمان ہوا کرتے تھے. کسے خبر تھی کہ اس انسان دوست آدمی کو اسی کے گھر کے آگے ٧ گولیوں سے چھلنی کردیا جاۓ گا. 

دسمبر بڑا سرد اور ظالم مہینہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں!
سقوط ڈھاکہ ہو یا بی بی صاحبہ کی شہادت، آرمی پبلک کا معصوم خون ہو یا علی رضا عابدی کا جوان قتل. یہ مہینہ اپنے مزاج کی طرح ان سب لوگوں کو ٹھنڈا کرگیا.

آپ کو لوگ علی رضا عابدی کی تعریفیں کرتے ملیں گے، جب کہ ان میں ایک بہت بڑی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ آج مرحوم قرار پاۓ. وہ برائی تھی زبان درازی کی !
علی بھائی کو خدا کا خوف تو تھا، لیکن مملکت خداداد کا خوف نہیں تھا. کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کردی، تو کبھی NAB والوں کی دھججیاں اڑا دیں. حد تو حد، نومولود حکومت پر بھی سوال اٹھا دئے. کچھ نہیں تو عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ کرلیتے تھے. کیا خبر تھی کہ زبان درازی کے بدلے میں ٧ گولیاں جسم پر میڈل کی طرح سجا دی جائیں گی اور کہا جاۓ گا جو کرو اب منکر نکیر سے زبان درازی!

آج قائد اعظم کی بھی سالگرہ ہے. وہ قائد جنہوں نے یہ ملک دیا تاکہ ہم آزاد،اور  شاد و آباد رہ سکیں. بس قائد بتانا بھول گئے کہ آزادی کے زمرے میں تمھارے خیالات اور الفاظ کی آزادی نہیں آتی، تنقید کی اجازت نہیں آتی، کیوںکہ پھر زندگی کی ضمانت نہیں رہتی. 

علی رضا عابدی، کراچی کا بیٹا، کل لحد میں اتر کر زبان درازی کی قیمت ادا کرے گا. آپ سب سے گزارش ہے اپنی زبان بندی کر کے جنازے میں شرکت کریں. شکریہ!

Jan 7, 2018

اعتزاز حسن شہید کی یاد میں

Originally published here HumSub

آج بروز ٦ جنوری، ملک میں چند دردمند لوگ اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے ہماری آپکی خاطر اپنی نو عمری ہم پر قربان کردی، اپنی ماں کی گود، گھر کا آنگن، یہ سب کچھ سونا کردیا تاکہ اس کے گاؤں کا مستقبل محفوظ رہے. وہ مستقبل جو اس وقت تقریباً ٢٠٠٠ شاگردوں پر مشتمل تھا، اور لشکر جھنگوی کے رحم و کرم پر ہو سکتا تھا، اگر اس روز وہ  ١٥ سال کا بنگش قبیلے کا کم عمرلڑکا اس ملعون  کو سکول سے باہر نہ روک لیتا اور طالبانی/ جھنگوی ارادوں کی دھجیوں کے ساتھ خود کو بھی نہ  اڑ لیتا

وہ تھا اپنی ماں کا لعل، شیر جگر، اعتزازحسن!


آج اگر اعتزاز زندہ ہوتا تو ١٩ سال کا ہوتا لیکن اس نے لازوال قربانی کو اذیت کی زندگانی پر ترجیح دی. اعتزاز حسن، پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ہنگو ڈسٹرکٹ  کے گاؤں ابراہیمزائی سے تعلق رکھتا تھا، جس کی اکثریت شیعہ آبادی ہے اور آج بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے. 

اپریل سنہ ٢٠١٧ میں، طالبان نے اعتزاز کے گھروالوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے اور یاد دہانی کرائی کے انکا بیٹا/بھائی نہ ہی تو شہید ہے نہ ہیرو. مسلسل کوششوں کے باوجود پچھلے سال تک، پکّی FIR نہیں کٹ سکی تھی  اور نہ ہی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے وعدے پورے ہوئے تھے. یہ تو خیر ہم سب جانتے ہیں کے کون کس کے "ناراض بھائی" ہیں اور شاید اس لئے اب تک اعتزاز بس ایک یاد ہے. معلوم نہیں وہ کونسے علاقے ہیں جو اب تک نوے فیصد ہی کلیر ہوئے ہیں اور  باقی کے ١٠ فیصد کو بھائی بندی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اعتزاز جیسے شہدا کے گھروں پر دھمکتے رہیں اور یاد دلاتے رہیں کہ "تمہاری قربانی رائیگاں، ہمارا جہاد پائندہ"!

پاکستان کا المیہ یہ ہے جنہوں نے قربانی دی ان کے گھروالے حفاظت کی بھیک مانگتے، سرکاری دروازے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ جنہوں نے قربان کیا انکو باحفاظت رکھا جاتا ہے. کچھ یاد آیا؟

نہیں؟
14 دسمبر 2014، پشاور، آرمی پبلک سکول، 144 جانوں کا قتل !

میں ان بچوں اور بڑوں کو شہید نہیں کہتی کیوںکہ کوئی انسان، کم از کم ایک ٦ سال کی بچی، اپنے گھر سے یہ سوچ کر صبح کو نہیں نکلتی کہ آج تو میں طالبان کے ہاتھوں بیدردی، بےرحمی سے قتل ہونگی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرونگی. 
وہ معصوم جانیں ١٤ دسمبر کے روز قتل ہوئی تھیں!

انکو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے ہی سامنے چھلنی ہوتے دیکھیں گے. ان اساتذہ، کام کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ آج ضرب ازب کی ضرب انکو لگے گی.

ان ١٤٤ جانوں میں سے ١٣٥ بچے تھے، جن کی ماؤں نے انکو ٩ مہینے اپنے جسم کا حصّہ اس لئے بنا کرنہیں رکھا تھا کہ ایک دن کوئی تکفیری طالبان آ کر درسگاہ جیسی جگہ پر ان کے لعل کو لہولہان کردے گا. کوئی ماں باپ نہیں سوچتے کے سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے میرا بیٹے اور بیٹی کا جنازہ اٹھے گا.
اس بیٹے کا جوکچھ دن پہلے اپنے باپ کو اپنے مستقبل کے پلان بتا رہا تھا اور باپ دل ہی دل میں پیسے جوڑ رہا تھا. وہ بیٹی، جو ماں کا پلو نہیں چھوڑتی تھی اور اب کہیں جا کر اسکول جانا سیکھا تھا......ایسے، ایسے بچوں کا جنازہ گھر آیا اور آپ کہتے ہیں وہ شہید ہیں انہو نے جان کا نذرانہ دے دیا؟
نہیں!
ان بچوں  سے  اس روز درندگی نے زندگی چھین لی تھی!

بدلے میں ہم احسان الله احسان جیسوں کو میڈیا پر لا کر زخم تازہ کر رہے ہیں. اس کو ہیرو بنا رہے ہیں، اسلام کی خلافت کا مظاہرہ، اور آرمی کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں. بھلا ہو ان والدین کا اور انکی کوششوں کا جنہوں نے بروقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، اور اسپیشل بینچ نے احسان الله احسان کی عام معافی اور رہائی دونوں پر فالوقت پابندی عائد کردی ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان الله احسان جیسے درندے، قاتل کی عام معافی اور رہائی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟ اگر ہماری فوج حکمرانوں کے تختے الٹنے اور انھیں پھانسی کے تختے تک لے جا سکتی ہے تو احسان اللہ احسان کے لئے کیوں نہیں تارہ مسیح بن سکتی؟

آخر پاکستان میں آزادی کی سانس اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پیاز ٹماٹر الو کی مہنگائی پر رونا رونگی تو کوئی نہ سنےگا، نہ کچھ کہے گا، لیکن آزادی کی تنقید، حقوق کی آزادی، ایسی باتوں پر ادارے آپکی سستی سی جان کو رلا سکتے ہیں. 

آپ کو لگ رہا ہے میں مذاق کر رہی ہوں؟ ایک تو آپ لوگوں کی یاداشت بھی نا !

پچھلے سال اسی جنوری میں چند بلاگرز کو گمشدہ کردیا گیا تھا اور تب بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور کہا آزادی اور سچ بڑا مہنگا ہے. کچھ لوگ انجانے میں صبح کو گھر سے نکل کر، قتل ہو کر، آزادی کی نظر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ "انجام گلستان کیا ہوگا".

٢٠١٨ ابھی شروع ہوا ہے اور میری دعا ہے کسی ماں کی گود نہ اجڑے کیوںکہ ہر ماں ام لیلیٰ اور رباب تو نہیں، اور دعا ہے کہ حق کی طرف رہنے والوں کو "حر" کی دعا اور دوا دونوں ہو!


خدا مشعل خان جیسی کئی مشعل راہ دے میرے پاکستان کو.
آمین !


Jan 13, 2017

میری آواز کو قفل ڈال، سچ کی گونج لے جا!

 Originally published here HumSub
بچپن میں جب کچھ غلط کرتے ہیں  ہیں تو گھر کے بڑے بزرگ ڈانٹ مار کر سمجھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ سچ بولو اور اچھا کرو لیکن دستور وطن کچھ اور ٹہرا .سچ بولنے کو خاموشی کا سبق دیا جاتا ہے  اور حق کی آواز اٹھانے والوں کو ہی اٹھا لیا جاتا ہے.
وطن عزیز میں مثالیں تو بہت ہیں جب جب ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ ہم نے انگریزوں سے تو آزادی حاصل کرلی، لیکن خود سے آزاد نہ ہو سکے.
سلمان حیدر، احمد رضا، احمد وقاص گورایا اور عاصم سعید وہ چند نام ہیں جو ٤ جنوری سے ٧ جنوری کے بیچ پاکستان کے مختلف علاقوں سے غائب کردیۓ گئے. ٢٠١٦ تک تو ہم بس سنتے تھے کہ گمشدہ یا تو بلوچ ہوتے ہیں یا پھر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان لیکن ٢٠١٧ نے تو مجھ جیسی عام  انسان کی آنکھیں ہی کھول دی ہیں اورساتھ ہی عقل نے زبان پر تالہ ڈالنے کا تقاضا کردیا.
کیا انسانوں کی گمشدگی  ان کی اٹھائی آوازوں کو بھی گم کردے گی؟ یا پھر یہ اشارہ ہے اس خاموشی کا جو خوف کی صورت پیدا ہوتی ہے.
لے جا،
میری زبان سے
 نکلے الفاظ
لے جا


میرے ذہن پہ
لکھےخیال 
لے جا 

میری جنگ کے
ہتھیار لے جا
 
کوئی چارہ گر 
رہ نہ جائے
میرے یار
میرے احباب 
لے جا 

میری سوچ کا 
قاتل بن کر
میری نظموں کا 
مضمون 
لے جا

جنوں کو ضرب 
لگانے والے
زمانے بھر سے
مرہم لے جا 

میری آواز کو
قفل ڈال 
اور
سچ کی گونج 
لے جا !