Originally published here HumSub
آج بروز ٦ جنوری، ملک میں چند دردمند لوگ اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے ہماری آپکی خاطر اپنی نو عمری ہم پر قربان کردی، اپنی ماں کی گود، گھر کا آنگن، یہ سب کچھ سونا کردیا تاکہ اس کے گاؤں کا مستقبل محفوظ رہے. وہ مستقبل جو اس وقت تقریباً ٢٠٠٠ شاگردوں پر مشتمل تھا، اور لشکر جھنگوی کے رحم و کرم پر ہو سکتا تھا، اگر اس روز وہ ١٥ سال کا بنگش قبیلے کا کم عمرلڑکا اس ملعون کو سکول سے باہر نہ روک لیتا اور طالبانی/ جھنگوی ارادوں کی دھجیوں کے ساتھ خود کو بھی نہ اڑ لیتا.
وہ تھا اپنی ماں کا لعل، شیر جگر، اعتزازحسن!
آج اگر اعتزاز زندہ ہوتا تو ١٩ سال کا ہوتا لیکن اس نے لازوال قربانی کو اذیت کی زندگانی پر ترجیح دی. اعتزاز حسن، پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ہنگو ڈسٹرکٹ کے گاؤں ابراہیمزائی سے تعلق رکھتا تھا، جس کی اکثریت شیعہ آبادی ہے اور آج بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے.
اپریل سنہ ٢٠١٧ میں، طالبان نے اعتزاز کے گھروالوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے اور یاد دہانی کرائی کے انکا بیٹا/بھائی نہ ہی تو شہید ہے نہ ہیرو. مسلسل کوششوں کے باوجود پچھلے سال تک، پکّی FIR نہیں کٹ سکی تھی اور نہ ہی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے وعدے پورے ہوئے تھے. یہ تو خیر ہم سب جانتے ہیں کے کون کس کے "ناراض بھائی" ہیں اور شاید اس لئے اب تک اعتزاز بس ایک یاد ہے. معلوم نہیں وہ کونسے علاقے ہیں جو اب تک نوے فیصد ہی کلیر ہوئے ہیں اور باقی کے ١٠ فیصد کو بھائی بندی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اعتزاز جیسے شہدا کے گھروں پر دھمکتے رہیں اور یاد دلاتے رہیں کہ "تمہاری قربانی رائیگاں، ہمارا جہاد پائندہ"!
پاکستان کا المیہ یہ ہے جنہوں نے قربانی دی ان کے گھروالے حفاظت کی بھیک مانگتے، سرکاری دروازے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ جنہوں نے قربان کیا انکو باحفاظت رکھا جاتا ہے. کچھ یاد آیا؟
نہیں؟
14 دسمبر 2014، پشاور، آرمی پبلک سکول، 144 جانوں کا قتل !
میں ان بچوں اور بڑوں کو شہید نہیں کہتی کیوںکہ کوئی انسان، کم از کم ایک ٦ سال کی بچی، اپنے گھر سے یہ سوچ کر صبح کو نہیں نکلتی کہ آج تو میں طالبان کے ہاتھوں بیدردی، بےرحمی سے قتل ہونگی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرونگی.
وہ معصوم جانیں ١٤ دسمبر کے روز قتل ہوئی تھیں!
انکو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے ہی سامنے چھلنی ہوتے دیکھیں گے. ان اساتذہ، کام کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ آج ضرب ازب کی ضرب انکو لگے گی.
ان ١٤٤ جانوں میں سے ١٣٥ بچے تھے، جن کی ماؤں نے انکو ٩ مہینے اپنے جسم کا حصّہ اس لئے بنا کرنہیں رکھا تھا کہ ایک دن کوئی تکفیری طالبان آ کر درسگاہ جیسی جگہ پر ان کے لعل کو لہولہان کردے گا. کوئی ماں باپ نہیں سوچتے کے سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے میرا بیٹے اور بیٹی کا جنازہ اٹھے گا.
اس بیٹے کا جوکچھ دن پہلے اپنے باپ کو اپنے مستقبل کے پلان بتا رہا تھا اور باپ دل ہی دل میں پیسے جوڑ رہا تھا. وہ بیٹی، جو ماں کا پلو نہیں چھوڑتی تھی اور اب کہیں جا کر اسکول جانا سیکھا تھا......ایسے، ایسے بچوں کا جنازہ گھر آیا اور آپ کہتے ہیں وہ شہید ہیں انہو نے جان کا نذرانہ دے دیا؟
نہیں!
ان بچوں سے اس روز درندگی نے زندگی چھین لی تھی!
بدلے میں ہم احسان الله احسان جیسوں کو میڈیا پر لا کر زخم تازہ کر رہے ہیں. اس کو ہیرو بنا رہے ہیں، اسلام کی خلافت کا مظاہرہ، اور آرمی کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں. بھلا ہو ان والدین کا اور انکی کوششوں کا جنہوں نے بروقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، اور اسپیشل بینچ نے احسان الله احسان کی عام معافی اور رہائی دونوں پر فالوقت پابندی عائد کردی ہے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان الله احسان جیسے درندے، قاتل کی عام معافی اور رہائی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟ اگر ہماری فوج حکمرانوں کے تختے الٹنے اور انھیں پھانسی کے تختے تک لے جا سکتی ہے تو احسان اللہ احسان کے لئے کیوں نہیں تارہ مسیح بن سکتی؟
آخر پاکستان میں آزادی کی سانس اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پیاز ٹماٹر الو کی مہنگائی پر رونا رونگی تو کوئی نہ سنےگا، نہ کچھ کہے گا، لیکن آزادی کی تنقید، حقوق کی آزادی، ایسی باتوں پر ادارے آپکی سستی سی جان کو رلا سکتے ہیں.
آپ کو لگ رہا ہے میں مذاق کر رہی ہوں؟ ایک تو آپ لوگوں کی یاداشت بھی نا !
پچھلے سال اسی جنوری میں چند بلاگرز کو گمشدہ کردیا گیا تھا اور تب بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور کہا آزادی اور سچ بڑا مہنگا ہے. کچھ لوگ انجانے میں صبح کو گھر سے نکل کر، قتل ہو کر، آزادی کی نظر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ "انجام گلستان کیا ہوگا".
٢٠١٨ ابھی شروع ہوا ہے اور میری دعا ہے کسی ماں کی گود نہ اجڑے کیوںکہ ہر ماں ام لیلیٰ اور رباب تو نہیں، اور دعا ہے کہ حق کی طرف رہنے والوں کو "حر" کی دعا اور دوا دونوں ہو!
خدا مشعل خان جیسی کئی مشعل راہ دے میرے پاکستان کو.
آمین !
0 comments:
Post a Comment