Aug 31, 2019

بارش، بجلی، اور غریب

Originally published here HumSub

پچھلے کچھ سالوں میں موسم کی تبدیلی کے باعث، کراچی میں بارش کا آنا جانا بس اتنا ہی تھا، جتنا ہمارے وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں ہے. 
دوسرے صوبے کے یار دوست کہتے تھے، تم کراچی والوں کے ہاں بارش نہیں مذاق ہوتا ہے. لاہور کی ایک مشہور ماڈل نے بھی سال رواں کی لاہوری بارش کے بعد ہمیں کہا کہ کراچی میں اتنی بارش نہیں ہوتی جتنی ہم اپنی سبزی پر چھڑکاؤ کرلیتے ہیں. 

قدرت کو یہ مزاق پسند نہ آیا!

موجودہ ہفتے میں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال نے آپس میں ہی صلح مشورہ کر کے کراچی شہر کو ٥٠ملی میٹر سے اوپر کی بارش دے ڈالی. 

ہماری والدہ ماجدہ کو آدھا بنگالی ہونے کی وجہ سے قدرت کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کرخدا سے دعا مانگی کہ دل کھول کر بادل برسیں.
خدا نے میری ماں کی اور کوئی دعا  سنی ہو یا نہ سنی ہو، یہ والی لمحوں میں قبول کرلی.

شروع شروع میں تو دھلے دھلے درخت، سرمئی چادر لپیٹے آسمان بلکل اسلام آباد کا سا سماں پیش کر رہا تھا. ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارا کراچی ہے!
ہمیں یقین دلانے کی ذمہ داری ذاتی طور پر کے-الیکٹرک نے لے لی اور ہم جو پنکھے کے نیچے آرام فرما تھے، بجلی والوں کو ان کے گھر والوں کی یاد دلاتے ہوئے اٹھ بیٹھے. 

صبح کے ١٠ بجے تک یہ طے ہو چکا تھا کے آج برتن دھونے سے لے کر کھانا پکانے تک تمام کام گھر والوں کو ہی کرنے پڑیں گے. 
اماں حضور کو اپنی دعا کے غلط اثرات بجلی اور گھریلو مدد کی صورت میں دکھنا شروع ہوگئے تھے. چار و ناچار انہوں نے تمام کام منصفانہ طریقے سے بانٹ کر بجلی بحال ہونے کا انتظار شروع کردیا. 

کے-الیکٹرک نے صدیوں پرانی مہارت دکھاتے ہوئے اپنی ہیلپ لائن بند کردی اور صارفین پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سوچ لیں بجلی کب اپنا منہ دکھاے گی. خدا جھوٹ نہ بلائے، کمبخت منہ موڑ کر ہی بیٹھی رہی. قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ہمارا جنریٹر خراب تھا اور دماغ بھی کیوںکہ کسی کو بنوانے کا خیال نہیں تھا. 
بہرحال ہم نے کچھ نہ کچھ انتظام کر کہ دن اور رات کاٹ لئے.

مولا کا کرم کہہ لیں کہ ہم اس طبقے سے ہیں جہاں تو نہ گھر کے اندر باڑھ آئی نہ چھت گری، اور نہ ہی کوئی بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا. 

اب تک کی خبروں کے مطابق، طوفانی بارشوں کے باعث کراچی میں ١٤ اموات ہو چکی ہیں، جس میں ٦ بچے بھی شامل ہیں. بچوں کو کیا خبر کے ایسی طوفانی بارش غربت کا مذاق اڑانے آتی ہے، اور ساتھ انھیں بھی لے اڑتی ہے. 

روز کی دیہاڑی والے گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں. کچی آبادی والے اپنے تمام برتن ٹپکتی ہوئی چھتوں سے لگا دیتے ہیں. بیمار کی چارپائی کے پاس کوئی گھر والا پنکھا جھلتا ہے اور باقی کے گھر والے بارش سے بنتی لہروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں لیکن پھر روکتے ہیں.

لیکن ان سب سے بھی جو بدتر ہیں، وہ ہیں بے گھر خاندان!

چند ہفتے پہلے ہی تقریباً ہزاروں کے قریب خاندان کوسپریم کورٹ کے احکام پر  بے-گھر کیا گیا تاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا علاقہ خالی ہو سکے. کورٹ کے مطابق گھروں کو ١٥ دن میں مسمار کردیا جائے جب کہ ان کی متبادل رہائش کا انتظام ایک سال میں کیا جائے. کوئی اداروں سے پوچھے یہ خاندان ایک سال تک ہوا میں معلق رہیں گے یا آپ اپنے دروازے ان پر کھول دیںگے؟ 

میرے شہر کی معیشت اور بلدیاتی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم بارش کی دعا مانگیں. ہمیں ابر کے برسنے سے زیادہ اس کے لئے ترسنے میں فائدہ ہے. سورج ظالم تو ہے لیکن عزت ڈھانک کر رکھتا ہے. کھلے آسمان تلے بھیگنے کا یا کرنٹ سے مرنے کا خوف بھی نہیں رہتا. روز کی کمائی گھر آجاتی ہے اور بچے بھی گلی میں کھل کود کر واپس لوٹ جاتے ہیں. 

خدا کی رحمت، غریب کے لئے زحمت ہی ہوتی ہے اور یہ بات مجھ یا آپ جیسے بھرے پیٹ اور پکّی چھت والوں کے سمجھ میں نہیں آئے گی!
    

امرتا پریتم - ایک صدی

Originally published here Independent Urdu 



میرا ماننا ہے کہ امرتا جی کو صرف ماضی میں نہیں رہنا بلکہ کتابوں سے نکل کر مستقبل بھی بننا ہے۔ ایسی ہستی آج کے دور میں ہونے والی ڈھیروں تحریکوں اور جوان ذہنوں کی نفسا نفسی کا جواب ہے۔ 

امرتا جی اکیسویں صدی کا انجانا خواب ہیں،اور پچھلی صدی کا انقلاب ہیں. 

یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ امرتا جیسی لکھاری جنہیں یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونا چاہئیے،  ان کا سرسری سا تعارف کرادوں۔ دراصل یہ محتاجی اس لئے ہے کیوں کہ آج کل لوگ Harry Potter کو تو رٹ بیٹھے ہیں لیکن مادری  زبانوں کے شہنشاوں کا ذکر بس فیس بک کی حد تک، اور وہ بھی غلط اقوال میں۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ چلیں تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلتے ہیں اور ملتے ہیں 'ہیر وارث شاہ' والی امرتا سے!

٣١ اگست، سنہ ١٩١٩میں گوجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج بی بی اور کرتار سنگھ کے یہاں گرہ پرویش کیا. ماں جی استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر لیکن روزی کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے. یوں سمجھ لیجیۓ، قلم اس گھر کا غلام تھا. 


امرتا جی اپنی کسی ایک نظم یا کسی ایک افسانے سے نہیں سمجھی جا سکتیں. امرتا جی کو سمجھنے کے لئے ایک آزاد ذہن اور باغی دل چاہئے. ایک ایسا ذہن جو سطحی سوچ سے بالاتر ہو، دل میں حوس نہ ہو لیکن بےباک ہو. پڑھنے والا ایسے مقام پر ہو جہاں وہ سماجی اور مذہبی شرائط سے آزاد ہو.

میرے ایک دوست ہیں رضوان، ان کا کہنا ہے امرتا پریتم کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ذات کسی بھی قسم کے عدم تحفّظ کا شکار نہ ہو.

امرتا کور کی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ جی سے شادی ہوگئی تھی، جس کے بعد تا عمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا تھا. جچتا بھی تھا.......آخر امرتا جی کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی. 

اس کم عمری کے رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا جی نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے. پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا. اس سوال کو بنا امرتا جی اور پریتم جی سے پوچھے، کئی لوگوں نے اپنے سعی جواب دینے کی کوشش کی. 
جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی. امرتا جی اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں. انکی نظر میں یہ پریتم جی حق تلفی تھی. 

ہم ٢٠١٩ میں ہیں لیکن آج بھی لوگوں کو میاں بیوی کا باہمی اتفاق سے الگ ہوجانا، یا سمجھ بوجھ الگ ہونے کی بنیاد پر طلاق لینا سمجھ نہیں آتا ہے. پھر وہ تو ١٩٦٠ تھا اور امرتا پریتم تھیں......ذہنی سطح کے ساتویں درجے پر فائز!

مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا جی میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں.

اردو ادب سے شغف شاید میرے خون میں ہے کیوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اسکول کالج کے دور میں ہی منٹو کے افسانے بھائی کے شیلف پر، اور عصمت چغتائی کی لحاف اماں کے سرہانے پر مل جایا کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امرتا پریتم سے میری پہلی ملاقات سرسری تھی کیوں کہ پنجابی میں لکھی گئی "ہیر" مجھے کون سمجھاتا بھلا؟ 


 پھر سنہ 2005 میں بھارتی سینیما کی فلم "پنجار" ریلیز ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار نبھانے والے دو اداکار تھے: ارمیلا مٹونڈکر اور منوج باجپائی۔ فلم دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ امرتا پریتم کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو دیکھئے، جذبات کا بہاو اتنا تیز ہے کہ سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر اجائے۔

بس وہ دن تھا اور میں امرتا جی کی ذات، ذندگی اور قلم کی کھوجی بن گئی!

سرسری طور پر امرتا پریتم کو لوگ بس دو تین حوالوں سے جانتے ہیں جیسے "ہیر وارث شاہ"،یا پھر "میں تینوں پھر ملاں گی"، یا "ساحر لدھیانوی" سے ان مٹ عشق. 

امرتا پریتم ان حوالوں سے کہیں آگے ہیں. یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امرتا جی نے اپنے درد کو اپنے مفاد میں اپنایا. خود کی ذات کو زندگی کی بھٹی میں جلایا تو کہیں جا کر 'تیرہواں سورج، 'ڈاکٹر دیو'، اور 'پنجار' جیسی کہانیاں ادب کے کینوس پر اتریں. 

برصغیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں زہین عورت مردانگی کے لئے دھمکی سمجھی جاتی ہے، لیکن اسی خطے میں ایک امرتا پریتم بھی تھیں جنہوں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری. امرتا جی نے کبھی بھی اپنے عشق کو کسی پردے میں قید کر کے نہیں رکھا، نہ اپنے جذبات کی عکاسی میں کوئی شرمندگی محسوس کی.

امرتا پریتم نے اپنی عورت اور ادیب دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا. چاہے وہ ساحر کی محبّت میں لکھے گئے سنھڑے ہوں، یا امروز کی مستقل رفاقت، امرتا جی نے کبھی بھی خود سے بغاوت نہیں کی نہ ہی زمانے کو باتیں کرنے کی تسّلی دی. 
لکھاری تھیں تو خود بھی کھلی کتاب بن کر زندگی جی !

جب میں آج کل کی خواتین ادیب کو دیکھتی یا پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ خوف کیوں ہے ان کے الفاظوں میں، کہانیوں میں، کرداروں میں. کہاں ہے وہ نڈر عورت جو بلا خوف و خطراپنے وجود اور اسکی آزادی کا پرچار کرے. کہاں ہے عورت جس کی پہچان کسی رشتے کی محتاج نہیں، کسی بندھن کی باندی نہیں.

امرتا پریتم اپنے اور آنے والے تمام وقتوں کے انسانوں کی مشعل ہیں، اور اس مشعل کو ساتھ لے کر چلنے والے کا نام ہے 'امروز'. 

امروز، امرتا جی کی زندگی کا وہ کردار ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب آپ کسی سے عشق کرتے ہیں تو اس کے عشق سمیت اسکو اپناتے ہیں. 


امرتا جی کے ١٠٠ سال کو انہی کے الفاظ میں یاد کروں گی:
"جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پڑے، سمجھ لینا وہی میرا گھر ہے."

کاش پھر کوئی "امرتا" پیدا ہو اور زمین کا وجود سیراب کردے!




  


Aug 30, 2019

تقریر پہ تقریر، بیچارہ کشمیر

Originally published here HumSub


اگر خود کے باغ میں آپ پھول پودے نہ اگا سکیں تو پڑوس والوں کو باغبانی کا مشورہ نہیں دینا چاہیے!
کشمیر میں لگے کرفیو کو تقریباً سولہ دن ہونے کو آئے ہیں، اور کشمیریوں کی آواز اس وقت دنیا کے ہر کونے میں سنائی دی جا سکتی ہے۔ دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لے کر امریکا میں مقیم کشمیری، تمام لوگ آرٹیکل 370 کو لے کر سرتاپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کوئی چار روز پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 1947 سے چلا آرہا ہے اور جانے کب تک چلے۔ اس دوران مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مسائل اور مظالم صرف اور صرف وہ جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں یا جن کے پیارے وہاں موجود ہیں۔ میں، آپ، یا کوئی بھی تیسرا جس کو براہ راست اس صورتحال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ کشمیر پراپنی آواز اٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اچھی طرح سوچ لے۔

ہمیں اپنے وزیر اعظم کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، خصوصی طور پر ان کی تقاریر پر۔
دو روز پہلے خان صاحب نے سرکاری سطح پر آ کر کوئی بائیس منٹ قوم سے خطاب کیا جس کا مرکز کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت تھی۔ جس روز یہ تقریر نشر ہوئی ہے، اسی دن فرانس میں G 7 سمٹ ہو رہا تھا، جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر گفتگو کر رہے تھے۔
جہاں پاکستان کو ملک ملک جا کر کشمیر کے لئے جگانا پڑ رہا تھا، وہیں بھارت اپنی معاشی اور سماجی استحکام کی بنیاد پر G 7 میں اپنا موقف رکھ چکا تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے وقت میں کون اس کے ساتھ ہے۔

تقریر میں خان صاحب نے کہا کہ آج بھلے کوئی ہمارے ساتھ نہ ہو، لیکن کل ہوں گے ۔ انہوں نے بوسنیا کی مثال دے کر کہا، تب بھی دنیا بالاخر بوسنیا کی مدد کو آگئی تھی۔ جناب والا، مدد اور آواز تب پہنچی تھی جب بوسنیا کی نسل کشی اپنے اختتام پر تھی۔ گھر لٹ چکے تھے، عزتیں پامال ہو چکی تھیں، اورکئی نسلوں کا خون جم چکا تھا۔
کیا امّت مسلمہ بھی تب جاگے گی جب کشمیر کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہوگی؟
یا شاید کشمیر کو امّت کے کھوکھلے وجود کی ضرورت ہی نہیں۔ کشمیر تو انصاف اور خودمختاری کی تلاش میں ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے لئے آسان ہے شاہ رخ خان، پریانکا چوپڑا یا کسی بھی اداکار پر انگلی اٹھانا۔ ایسا نہیں کے ان کا اخلاقی فرض نہیں ہے لیکن اداکار، فنکار لوگوں کے ہاتھ میں فیصلہ سازی نہیں ہے، وہ طاقت نہیں ہے جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارت کے پاس ہے، یا روس کے پاس ہے۔
کیا ان میں سے کسی ملک نے آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملائی؟
کیا آپ بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں؟
اس تقریر کی شروعات میں وزیر اعظم نے کہا، بھارت کو سوچنا چاہیے تھا پلوامہ حملہ کیوں ہوا؟ کیوں ایک نوجوان نے خود کو بم سے اڑا لیا؟
خان صاحب، یہی سوال اگر آپ سے کل کو اپنے لوگ کردیں تو؟ کیا جواب دیں گے آپ بلوچ نوجوانوں کو؟ کیا آپ اتنی ہی نرمی پشتون نوجوانوں کے لئے دکھائیں گے؟ کیا آپ ماروائے عدالت قتل ہونے والے مہاجر سے یہ پوچھیں گے؟
نہیں پوچھ سکتے!
دوسرے پر ایک انگلی اٹھانے کا مطلب ہے، چار آپ کی طرف ہیں۔

خان صاحب نے ریفرنڈم کا بھی ذکر کیا کہ کیسے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی بنیاد پر آزادی ملی تھی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لفظ ریفرنڈم کا ذکر کرنے سے پہلے تھوڑا اغل بغل جھانک لیں۔ اگر آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان نے بھی ہاتھ اٹھا لیا تو ہم تو سیاحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کشمیر میں جو ہورہا ہے وہ غلط ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
ہمیں ان کے لئے بحیثیت انسان آواز اٹھانی چاہیے، نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ آپ کشمیر کے سفیر ہیں۔ کشمیر، اور دنیا بھر کے کشمیری اپنی زمین کے سفیر خود ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے جب وہ کشمیر کے احتجاجی مظاہروں میں جائیں تو اپنا جھنڈا نہ لہرائیں۔ ان کی آواز میں اپنی آواز ملائیں۔

”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ لگانے سے پہلے پوچھ لیں کیا انہیں پاکستان قبول ہے؟
خدارا، آپ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے آگے نہیں۔ کشمیری جانتے ہیں انہیں کیا چاہیے۔ انہیں پاکستان سے ہدایت نامہ نہیں چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی استحکامی کی جانب کام کرنا ہوگا جس کی بنیاد پرہی باقی ممالک سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے اور پاکستان کی آواز سنی جائےگی۔ پاکستان نے یقیناً متحدہ اقوام سیکورٹی کونسل تک کشمیر کا مسئلہ اٹھایا لیکن کوئی حل نہ نکل سکا، اس لئے اسے کسی بھی قسم کی کامیابی سمجھنا بیوقوفی ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لانے کا سہرا صرف پاکستان کے سر نہیں جا سکتا۔ یہ نا انصافی ہوگی ان ہزاروں کشمیریوں، اور باقی قومیتوں کے ساتھ جنہوں نے ہر ممکنہ جگہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر آواز اٹھائی۔ یہ غلط ہوگا ان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ جنہوں نے بھرتی حکومت کے سامنے آواز اٹھائی اوراب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
تقریر کا سب سے اہم حصّہ ”کھڑا ہونا“ تھا۔
ٹانگ اڑانے کے لئے ضروری ہے ٹانگوں کا مضبوط ہونا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام پاکستانی جمعے کو بوقت زوال تیس منٹ کشمیر کے مسئلے کے لئے کھڑے ہوں گے ۔
اگر آئنسٹائن یا نیوٹن زندہ ہوتے تو خان صاحب کے تجویزکردہ حل کی منطق پر دھیان کرتے۔ چونکہ وہ نہیں ہیں اور ہمارے پاس اتنا دماغ نہیں ہے اس لئے ہم صرف کشمیر کے حق میں دعا کر سکتے ہیں اور ان کے ہم آواز بن سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی امید کر سکتے ہیں کہ بھارت جمہوریت کا اطلاق کرے، حب الوطنی کا نہیں!

Aug 20, 2019

دوپٹے کی دیوار

Originally published here Independent Urdu 

دوپٹہ، چنری، اوڑھنی، چادر، یا کچھ بھی کہہ لیں اپنی زبان اور علاقے کے مطابق، مقصد اسکا عمومی طور پر عورت کے آگے دیوار بنے رہنے کا ہے. ایسی دیوار جو سامنے والے (مردوں) کو مجبور کردے کہ وہ صرف آپ کا چہرہ دیکھیں یا پھر سوچتے رہیں کہ اس کپڑے کی پھیلی ہوئی دیوار کے نیچے قدرت کے کونسے راز پنہاں ہیں.

در حقیقت، لفظ دوپٹہ سنسکرت کا ہے جس کے معنی دو طرفہ پٹے کے ہیں. ارے نہیں نہیں، کتے کا پٹہ نہیں، دوپٹہ!

تاریخ بتاتی ہے، دوپٹے تب سے ہیں جب سے تہذیب و تمدن کا قیام ہے. یوں لگتا ہے تہذیب کا تمام دھیان عورت کے نقوش پر تھا کہ کیسے اسکو رنگ برنگے، جھلملاتے، چمکتے ہوئے کپڑے میں لپیٹ دیں. 

محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا بیگم رعنا لیاقت علی، یا پھر بینظر بھٹو. ان تمام خواتین نے دوپٹے کو معاشرتی شرم و حیا کو لحاظ میں رکھتے ہوئے پہنا تھا. 
ایک دور تھا جب PTV کی خبرنامہ پڑھنے والی خواتین بھی سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھیں لیکن پھر سیاست بدلی، ماحول بدلا، تو حلیے بھی بدل گئے.

سوال پھر وہی کہ آخر دوپٹے کی ضرورت ہی کیوں؟ کیا سامنے والے کی نظر صرف چہرے تک نہیں روک سکتی؟ کیا وہ بلاوجہ خلق خدا کو گھورنا یا ناپنا بند نہیں کر سکتا؟

عمومی طور پر بر صغیر میں لڑکیوں کا دوپٹہ اسکول کے V یا Sash کی صورت میں متعارف ہوتا ہے اور جلد ہی دوپٹے میں تبدیل ہوجاتا ہے. دوپٹہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ لڑکی نے بلوغت میں قدم رکھ دیا ہے اور اب لگامیں کھینچنے کا وقت آگیا ہے. اس لگام کا پہلا پٹہ، دوپٹہ ہے. 

ذاتی طور پر میں نے آٹھویں جماعت سے باہر جانے پر دوپٹہ لینا شروع کیا تھا. وقت کے ساتھ ساتھ دوپٹہ اور میں دو قلب یک جان ہوگئے.
 میں نے کچھ سال مشنری اسکول میں گزارے ہیں، جو کہ باقی مشنری کی طرح صرف لڑکیوں کا تھا. واحد مرد ذات ایک اکاؤنٹنٹ کی تھی جو دور پرے دفتر میں بیٹھتا تھا. 
ایک روز میں سیڑھیوں پر دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور میرا دوپٹہ برابر میں پڑا تھا. پوری عمارت میں لڑکیاں تھیں یا راہبائیں، جن میں سے ایک راہبہ نے ہمیں بنا دوپٹے کے دیکھ لیا. جانے کیا کیا کہا اور سب نے سر جھکا کر سنا،لیکن ایک بات دماغ میں بیٹھ گئی جو انہوں نے کچھ یوں کہی تھی "بنا دوپٹے کے کونسی تمیز تہذیب لے کر یہاں سے باہر نکلو گی؟".

شکر میرا اسکول تبدیل ہوگیا ورنہ راہباؤں کو تبدیل کردیتی!

خزیمہ، ماسٹرز کی طالبہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے نو عمری میں دوپٹہ پہننا شروع کیا تھا. اس کی بنیادی وجہ اس وقت کے فیشن کی تنگ قمیضیں تھیں اور بنا دوپٹے کے خاندان یا معاشرے میں بات نہیں بنتی. کچھ سالوں بعد جب کرتا پہننے کا فیشن آیا تو خزیمہ نے خود کو دوپٹے سے آزاد کردیا. 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا، عورت کی عمر کوئی بھی ہو، لیکن ان  کے مسائل دوپٹے کو لے کر تقریباً ایک جیسے ہونگے. غلط بھی نہیں ہے کیوںکہ معاشرتی درندے صرف جنس دیکھتے ہیں، باقی سب تفصیلات کے زمرے میں آتا ہے جس کے لئے ان کے پاس فرصت نہیں ہے.

سائرہ، جو اب کئی سالوں سے غیر ملک میں مقیم ہیں، بتاتی ہیں کہ  وہ صرف سسرال میں جب ہوتی ہیں تب گلے میں دوپٹہ ڈالے رکھتی ہیں یا اپنے شوہر کی بات کا مان رکھنے باہر ملک میں بھی شلوار قمیض کی صورت میں دوپٹہ ضرور لیتی ہیں. اگر جینز شرٹ ہو تب بھی کوئی سکارف وغیرہ ڈال لیتی ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ جب وہ اکیلی باہر نکلتی ہیں تو دوپٹے کو بھی اکیلا چھوڑ دیتی ہیں......گھر پر!

پاکستان میں خواتین پر ایک جانا انجانا معاشرتی دباؤ ہے کہ وہ گھر کے مردوں کے سامنے، گھر کے داخلی دروازے پر، یا  بازار وغیرہ جاتے ہوئے دوپٹے کا خیال رکھیں. مکمل پھیلا کر پہنا ہو تو واہ واہ، سر پر بھی ڈال لیں تو سبحان اللہ، ورنہ گلے کا پھندا بنا کر تو رکھیں ہی رکھیں. 

کئی خواتین، جن کو گھر سے دوپٹہ پہننے کی پابندی نہیں ہوتی، وہ باہر جاتے ہوئے صرف اس لئے پہنتی ہیں تاکہ انہیں ہوس بھری نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے. 
ساتھ ہی ساتھ، دوپٹہ پہننے والی خواتین کی ہمارے معاشرے میں زیادہ عزت ہے.

یقین نہ آئے تو عمیرہ احمد کے ڈرامے دیکھ لیں!
دوپٹے والی لڑکی ہمیشہ صابر و شاکر،پرہیزگار،خدمت گزار، خاموش طبیعت، اوررسم و رواج کی پابند ہوگی. دوسری طرف آپ کو ملیں گی جینز شرٹ، یا بنا دوپٹے کے کرتے والی لڑکی جو انتہائی تیز طرار، اپنے حقوق سے آگاہ، بد زبان، بد لحاظ، بدتمیز قسم کی ہوگی. 

معاشرہ تھوڑا میڈیا سے سیکھتا ہے، تو تھوڑا میڈیا بھی معاشرے سے سیکھتا ہے. 

خاندانی تقریبات ہوں، ہسپتال میں ڈاکٹر ہو، سڑک پر رپورٹر ہو، یا گھر پر رہنے والی خواتین، سب کا طریقہ استعمال ایک ہی ہے. ان میں سے کچھ اپنی مرضی اور موجودہ دورکے فیشن کے لئے دوپٹہ پہنتی ہیں لیکن یہ ایک دھوکہ ہے. دوپٹہ صدیوں پرانا طریقہ ہے یہ جتانے کا، کہ عورت اپنے عمل کی ذمہ دار ہے سو وہ دوپٹہ اگر نہیں پہنے گی تو وہ دعوت عام دے رہی ہے. دوسری جانب، مرد اپنے عمل سے مبرہ ہے. حرف عام میں اسکو victim shaming کہتے ہیں. 

کئی گھروں میں عورتیں گھر کے اندر بھی پہنتی ہیں جبکہ دوسری طرف گھر کے مرد بنیان اور شلوار میں گھومتے نظر آئیں گے کیوںکہ "گرمی بہت ہے." بیچاری عورتیں گرم چولہے کے پاس کھڑی ہو کر اسی دوپٹے سے پسینہ خشک کریں گی، یا اسکا ہلکا پنکھا بنا کر چہرے کو ہوا دینگی. 

گھر کی عورتوں اور مردوں دونوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ دوپٹہ کچن میں لے جانا خطرناک عمل ہے. اسی طرح جب "ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا" موٹر سائیکل کے پہیے میں پھنستا ہے تو جان لیوا ہو سکتا ہے.

آخر ایک غیر ضروری چیز کو معاشرے کا حصّہ کیوں بنایئں؟

کئی بزرگ خواتین کہتی ملیں گی کہ پردہ نہیں کرتی ہو تو دوپٹہ تو اوڑھ لو. بات صرف اتنی ہے کہ کوئی عورت کچھ بھی پہنے، مگر اپنی مرضی سے پہنے. اس خوف سے نہ پہنے کے مرد اسے وحشی نگاہوں سے دیکھیں گے یا خاندان والے کردار پر انگلی اٹھائیں گے.

دیکھا جائے تو دوپٹے کا کچھ خاص استعمال نہیں ہے. ایک اضافی ڈھائی گز کا کپڑا ہے جس کا مقصد صرف اوباش نظروں کو آپ سے دور رکھنا ہے. وہ الگ بات ہے کہ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں. 
اسی لئے آج کل اکثریت اس دوپٹے کی ایک اور قمیض بنا لیتی ہے!