میرا ماننا ہے کہ امرتا جی کو صرف ماضی میں نہیں رہنا بلکہ کتابوں سے نکل کر مستقبل بھی بننا ہے۔ ایسی ہستی آج کے دور میں ہونے والی ڈھیروں تحریکوں اور جوان ذہنوں کی نفسا نفسی کا جواب ہے۔
امرتا جی اکیسویں صدی کا انجانا خواب ہیں،اور پچھلی صدی کا انقلاب ہیں.
یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ امرتا جیسی لکھاری جنہیں یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونا چاہئیے، ان کا سرسری سا تعارف کرادوں۔ دراصل یہ محتاجی اس لئے ہے کیوں کہ آج کل لوگ Harry Potter کو تو رٹ بیٹھے ہیں لیکن مادری زبانوں کے شہنشاوں کا ذکر بس فیس بک کی حد تک، اور وہ بھی غلط اقوال میں۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ چلیں تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلتے ہیں اور ملتے ہیں 'ہیر وارث شاہ' والی امرتا سے!
٣١ اگست، سنہ ١٩١٩میں گوجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج بی بی اور کرتار سنگھ کے یہاں گرہ پرویش کیا. ماں جی استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر لیکن روزی کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے. یوں سمجھ لیجیۓ، قلم اس گھر کا غلام تھا.
امرتا جی اپنی کسی ایک نظم یا کسی ایک افسانے سے نہیں سمجھی جا سکتیں. امرتا جی کو سمجھنے کے لئے ایک آزاد ذہن اور باغی دل چاہئے. ایک ایسا ذہن جو سطحی سوچ سے بالاتر ہو، دل میں حوس نہ ہو لیکن بےباک ہو. پڑھنے والا ایسے مقام پر ہو جہاں وہ سماجی اور مذہبی شرائط سے آزاد ہو.
میرے ایک دوست ہیں رضوان، ان کا کہنا ہے امرتا پریتم کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ذات کسی بھی قسم کے عدم تحفّظ کا شکار نہ ہو.
امرتا کور کی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ جی سے شادی ہوگئی تھی، جس کے بعد تا عمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا تھا. جچتا بھی تھا.......آخر امرتا جی کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی.
اس کم عمری کے رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا جی نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے. پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا. اس سوال کو بنا امرتا جی اور پریتم جی سے پوچھے، کئی لوگوں نے اپنے سعی جواب دینے کی کوشش کی.
جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی. امرتا جی اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں. انکی نظر میں یہ پریتم جی حق تلفی تھی.
ہم ٢٠١٩ میں ہیں لیکن آج بھی لوگوں کو میاں بیوی کا باہمی اتفاق سے الگ ہوجانا، یا سمجھ بوجھ الگ ہونے کی بنیاد پر طلاق لینا سمجھ نہیں آتا ہے. پھر وہ تو ١٩٦٠ تھا اور امرتا پریتم تھیں......ذہنی سطح کے ساتویں درجے پر فائز!
مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا جی میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں.
اردو ادب سے شغف شاید میرے خون میں ہے کیوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اسکول کالج کے دور میں ہی منٹو کے افسانے بھائی کے شیلف پر، اور عصمت چغتائی کی لحاف اماں کے سرہانے پر مل جایا کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امرتا پریتم سے میری پہلی ملاقات سرسری تھی کیوں کہ پنجابی میں لکھی گئی "ہیر" مجھے کون سمجھاتا بھلا؟
پھر سنہ 2005 میں بھارتی سینیما کی فلم "پنجار" ریلیز ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار نبھانے والے دو اداکار تھے: ارمیلا مٹونڈکر اور منوج باجپائی۔ فلم دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ امرتا پریتم کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو دیکھئے، جذبات کا بہاو اتنا تیز ہے کہ سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر اجائے۔
بس وہ دن تھا اور میں امرتا جی کی ذات، ذندگی اور قلم کی کھوجی بن گئی!
سرسری طور پر امرتا پریتم کو لوگ بس دو تین حوالوں سے جانتے ہیں جیسے "ہیر وارث شاہ"،یا پھر "میں تینوں پھر ملاں گی"، یا "ساحر لدھیانوی" سے ان مٹ عشق.
امرتا پریتم ان حوالوں سے کہیں آگے ہیں. یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امرتا جی نے اپنے درد کو اپنے مفاد میں اپنایا. خود کی ذات کو زندگی کی بھٹی میں جلایا تو کہیں جا کر 'تیرہواں سورج، 'ڈاکٹر دیو'، اور 'پنجار' جیسی کہانیاں ادب کے کینوس پر اتریں.
برصغیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں زہین عورت مردانگی کے لئے دھمکی سمجھی جاتی ہے، لیکن اسی خطے میں ایک امرتا پریتم بھی تھیں جنہوں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری. امرتا جی نے کبھی بھی اپنے عشق کو کسی پردے میں قید کر کے نہیں رکھا، نہ اپنے جذبات کی عکاسی میں کوئی شرمندگی محسوس کی.
امرتا پریتم نے اپنی عورت اور ادیب دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا. چاہے وہ ساحر کی محبّت میں لکھے گئے سنھڑے ہوں، یا امروز کی مستقل رفاقت، امرتا جی نے کبھی بھی خود سے بغاوت نہیں کی نہ ہی زمانے کو باتیں کرنے کی تسّلی دی.
لکھاری تھیں تو خود بھی کھلی کتاب بن کر زندگی جی !
جب میں آج کل کی خواتین ادیب کو دیکھتی یا پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ خوف کیوں ہے ان کے الفاظوں میں، کہانیوں میں، کرداروں میں. کہاں ہے وہ نڈر عورت جو بلا خوف و خطراپنے وجود اور اسکی آزادی کا پرچار کرے. کہاں ہے عورت جس کی پہچان کسی رشتے کی محتاج نہیں، کسی بندھن کی باندی نہیں.
امرتا پریتم اپنے اور آنے والے تمام وقتوں کے انسانوں کی مشعل ہیں، اور اس مشعل کو ساتھ لے کر چلنے والے کا نام ہے 'امروز'.
امروز، امرتا جی کی زندگی کا وہ کردار ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب آپ کسی سے عشق کرتے ہیں تو اس کے عشق سمیت اسکو اپناتے ہیں.
امرتا جی کے ١٠٠ سال کو انہی کے الفاظ میں یاد کروں گی:
"جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پڑے، سمجھ لینا وہی میرا گھر ہے."
کاش پھر کوئی "امرتا" پیدا ہو اور زمین کا وجود سیراب کردے!
امرتا جی اکیسویں صدی کا انجانا خواب ہیں،اور پچھلی صدی کا انقلاب ہیں.
یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ امرتا جیسی لکھاری جنہیں یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونا چاہئیے، ان کا سرسری سا تعارف کرادوں۔ دراصل یہ محتاجی اس لئے ہے کیوں کہ آج کل لوگ Harry Potter کو تو رٹ بیٹھے ہیں لیکن مادری زبانوں کے شہنشاوں کا ذکر بس فیس بک کی حد تک، اور وہ بھی غلط اقوال میں۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ چلیں تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلتے ہیں اور ملتے ہیں 'ہیر وارث شاہ' والی امرتا سے!
٣١ اگست، سنہ ١٩١٩میں گوجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج بی بی اور کرتار سنگھ کے یہاں گرہ پرویش کیا. ماں جی استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر لیکن روزی کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے. یوں سمجھ لیجیۓ، قلم اس گھر کا غلام تھا.
امرتا جی اپنی کسی ایک نظم یا کسی ایک افسانے سے نہیں سمجھی جا سکتیں. امرتا جی کو سمجھنے کے لئے ایک آزاد ذہن اور باغی دل چاہئے. ایک ایسا ذہن جو سطحی سوچ سے بالاتر ہو، دل میں حوس نہ ہو لیکن بےباک ہو. پڑھنے والا ایسے مقام پر ہو جہاں وہ سماجی اور مذہبی شرائط سے آزاد ہو.
میرے ایک دوست ہیں رضوان، ان کا کہنا ہے امرتا پریتم کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ذات کسی بھی قسم کے عدم تحفّظ کا شکار نہ ہو.
امرتا کور کی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ جی سے شادی ہوگئی تھی، جس کے بعد تا عمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا تھا. جچتا بھی تھا.......آخر امرتا جی کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی.
اس کم عمری کے رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا جی نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے. پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا. اس سوال کو بنا امرتا جی اور پریتم جی سے پوچھے، کئی لوگوں نے اپنے سعی جواب دینے کی کوشش کی.
جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی. امرتا جی اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں. انکی نظر میں یہ پریتم جی حق تلفی تھی.
ہم ٢٠١٩ میں ہیں لیکن آج بھی لوگوں کو میاں بیوی کا باہمی اتفاق سے الگ ہوجانا، یا سمجھ بوجھ الگ ہونے کی بنیاد پر طلاق لینا سمجھ نہیں آتا ہے. پھر وہ تو ١٩٦٠ تھا اور امرتا پریتم تھیں......ذہنی سطح کے ساتویں درجے پر فائز!
مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا جی میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں.
اردو ادب سے شغف شاید میرے خون میں ہے کیوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اسکول کالج کے دور میں ہی منٹو کے افسانے بھائی کے شیلف پر، اور عصمت چغتائی کی لحاف اماں کے سرہانے پر مل جایا کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امرتا پریتم سے میری پہلی ملاقات سرسری تھی کیوں کہ پنجابی میں لکھی گئی "ہیر" مجھے کون سمجھاتا بھلا؟
پھر سنہ 2005 میں بھارتی سینیما کی فلم "پنجار" ریلیز ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار نبھانے والے دو اداکار تھے: ارمیلا مٹونڈکر اور منوج باجپائی۔ فلم دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ امرتا پریتم کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو دیکھئے، جذبات کا بہاو اتنا تیز ہے کہ سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر اجائے۔
بس وہ دن تھا اور میں امرتا جی کی ذات، ذندگی اور قلم کی کھوجی بن گئی!
سرسری طور پر امرتا پریتم کو لوگ بس دو تین حوالوں سے جانتے ہیں جیسے "ہیر وارث شاہ"،یا پھر "میں تینوں پھر ملاں گی"، یا "ساحر لدھیانوی" سے ان مٹ عشق.
امرتا پریتم ان حوالوں سے کہیں آگے ہیں. یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امرتا جی نے اپنے درد کو اپنے مفاد میں اپنایا. خود کی ذات کو زندگی کی بھٹی میں جلایا تو کہیں جا کر 'تیرہواں سورج، 'ڈاکٹر دیو'، اور 'پنجار' جیسی کہانیاں ادب کے کینوس پر اتریں.
برصغیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں زہین عورت مردانگی کے لئے دھمکی سمجھی جاتی ہے، لیکن اسی خطے میں ایک امرتا پریتم بھی تھیں جنہوں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری. امرتا جی نے کبھی بھی اپنے عشق کو کسی پردے میں قید کر کے نہیں رکھا، نہ اپنے جذبات کی عکاسی میں کوئی شرمندگی محسوس کی.
امرتا پریتم نے اپنی عورت اور ادیب دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا. چاہے وہ ساحر کی محبّت میں لکھے گئے سنھڑے ہوں، یا امروز کی مستقل رفاقت، امرتا جی نے کبھی بھی خود سے بغاوت نہیں کی نہ ہی زمانے کو باتیں کرنے کی تسّلی دی.
لکھاری تھیں تو خود بھی کھلی کتاب بن کر زندگی جی !
جب میں آج کل کی خواتین ادیب کو دیکھتی یا پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ خوف کیوں ہے ان کے الفاظوں میں، کہانیوں میں، کرداروں میں. کہاں ہے وہ نڈر عورت جو بلا خوف و خطراپنے وجود اور اسکی آزادی کا پرچار کرے. کہاں ہے عورت جس کی پہچان کسی رشتے کی محتاج نہیں، کسی بندھن کی باندی نہیں.
امرتا پریتم اپنے اور آنے والے تمام وقتوں کے انسانوں کی مشعل ہیں، اور اس مشعل کو ساتھ لے کر چلنے والے کا نام ہے 'امروز'.
امروز، امرتا جی کی زندگی کا وہ کردار ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب آپ کسی سے عشق کرتے ہیں تو اس کے عشق سمیت اسکو اپناتے ہیں.
امرتا جی کے ١٠٠ سال کو انہی کے الفاظ میں یاد کروں گی:
"جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پڑے، سمجھ لینا وہی میرا گھر ہے."
کاش پھر کوئی "امرتا" پیدا ہو اور زمین کا وجود سیراب کردے!
0 comments:
Post a Comment