Apr 24, 2015

Break - Up


چلو پھر سے محبّت کرتے ہیں 
تھوڑا سا وقت گنواتے ہیں. 
پھر دنیا کو جلاتے ہیں،
مرتے اور مٹ جاتے ہیں.

پھر سے پیمان باندھتے ہیں 
ایک دوسرے میں کھو جاتے ہیں 

چلو پھر سے ساتھ چلتے ہیں 
قدموں پر ساۓ ڈھونڈتے ہیں.

چلو پھر سے محبّت کرتے ہیں 
اور 
پھر سے جدا ہوجاتے ہیں.


Chalo phir se muhabbat karte hain,
Thor'ra sa waqt ganwate hain.
Phir dunya ko jalate hain,
Martay aur mit jatay hain.

Phir se peimaan bandhte hain,
Ek dusre main kho jatay hain.

Chalo phir se saath chalte hain,
Qadmon per saaye dhond'te hain

Chalo phir se muhabbat karte hain,
Aur,
Phir se judaa hojate hain.





Bano B..
February 21, 2011
3:30 p.m.

Apr 20, 2015

انارکلی


"انارکلی" سے میرا پہلا تعارف کچھ ایسے ہوا کہ میری اماں جی کی دو ہی پسندیدہ فلمیں ہیں، اک پاکیزہ اور دوسری مغل اعظم. اب چونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن کے کافی حصّے تک میں نے بچکانہ فلمیں ہی دیکھی اس لئے بات کافی عرصے تک تعارف سے آگے نہ بڑھی. 

یوں میں نے کئ سال بنا جانے گزار دیے کہ یہ انارکلی کس کے دل کی کلی تھی اور کھلی بھی تھی یا بن کھلے مرجھا گی تھی .

پھر ایک دن میں اپنے نانا کے گھر پر کتابیں چھان رہی تھی جب ان کے شیلف سے  امتیاز علی تاج کا ڈرامہ "انارکلی" میرے ہاتھ لگ گیا. تب میری عمر تیرہ سال تھی لیکن اردو کا شغف کچھ گھٹی میں ہے سو اپنی بہن کے ساتھ جامن توڑنے کے بجائے میں کتاب لے کر بیٹھ گئی  اور پورا ڈرامہ ایسے پڑھ ڈالا جیسے اگلے دن سکول میں امتحان ہو. 

ہم جس انارکلی کو جانتے ہیں وہ اصل تھی یا تخیل یہ تو شاید میں آپ نہ جان پایئں لیکن اتنا ضرور ہے کے زمانہ کوئی بھی ہو، عشق پر پہرے سدا رہے اور رہیں گے. 

مجھے انارکلی کا خیال کیوںکر آیا؟

جب ایک اتوار صبح ٩ بجے، سلمان رشید، پاکستان کے مشہور سفری نامہ نگار، اپنے ساتھ انارکلی بازار ناشتے کے لئے لے گئے. مقصد تو آٹے کی پوریاں کھانا تھا لیکن سلمان کے ہوتے ہوئے تاریخ پر گفتگو نہ ہو، ناممکن.

میں نے ہمیشہ ہی لاہور کے بارے میں ایک بات کہی ہے کہ "لاہور کا حسن اس کی لال اینٹوں میں ہے." ایک دوست نے کہا اگر یہ اینٹیں کسی اور شہر میں رکھ دیں تو؟ میں نے جواب دیا، وہ بات نہیں کیوںکہ ہر شہر کی اپنی داستان ہے." 

اس روز بھی جب ہم  ناشتہ کر کے اٹھے تو سلمان نے کہا آؤ کچھ پرانا حصّہ دکھاتا ہوں اور تب ہم اس محرابی دروازے کی طرف بڑھے. 


Photo Courtesy: Bano Bee
 Location: Anarkali Bazar, Lahore

یہ داخلی محراب شاید ایک صدی یا اس سے بھی پرانا  ہو لیکن اس کی ہر اینٹ سورج کی تازہ روشنی میں آپ کو نئی پرانی ہر کہانی سناۓ گی. 

کتنی ہی انارکلیاں اپنے سلیم سے اس روشن اندھیرے میں ملی ہونگی جہاں ان پر زمانے کی نظر کچھ دیر سے پڑے گی. چوڑیوں کی کھنک دھیمی پڑ گئی ہوگی، آنچل سر سے سرکے ہونگے، لفظوں کی جگہ پلکوں کے اشارے سے جذبات بیان ہوئے ہونگے. 
اس راہ گزر نے کئی خط گرتے دیکھے ہونگے اور انکو اٹھانے والوں کی گواہ بھی یہی دیواریں ہونگی. ہاتھوں کو تھامتے اور ساتھ ہی ان کو الگ ہوتے دیکھا ہوگا. پائل سی کھنکتی ہنسی اور گالوں سے گرتے ہوئے خاموش آنسو بھی اسی دیوار نے پی لئے تھے. 

داستانیں سناتی یہ دیواریں، رکے ہوئے  راستے، بھٹی سے نکلی اینٹیں، مجھے بتاتی ہیں کہ اکبر نے تو بس ایک انارکلی کو ہم میں چنوایا تھا........ لیکن ہم تو زمانے سے کتنی انارکلیوں کو خود میں چنواتےآۓ  ہیں. 




بانو سازی 
٢٠ اپریل، ٢٠١٥
رات ١٢:٢٠


     

Apr 7, 2015

نسل



میں بہت سکون سے اپنی ٹھنڈی چائے آہستہ آہستہ پی رہی تھی جب اس نئے کہا کہ میرا اک بیٹا ہے اور میری بِیوِی دوسری بار امید سے ہے . عمومی  طور پر میں 
لوگوں کی ذاتیات سے ذرا فاصلہ رکھتی ہوں لیکن ہم دونوں اجنبی ہیں اور وقت گزار رہے تھے . 

اجنبی ہونے کا فائدہ یہ ہے کے دو لوگ آپس میں بنا کسی فائدے نقصان کے اک دوسرے سے وہ بھی کہہ دیتے ہیں جو خود سے بھی نہیں کہتے .
پِھر اس نے چند جملوں میں اپنی زندگی بیان کرنے کی کوشش کی کہ کیسے والدین کی مرضی کے آگے اسکو سر جھکنا پڑا. اسکا رشتہ کاغذی ہے لیکن دنیا کو دکھانے کے لئے "دو بچے خوشحال گھرانہ" بھی ہے.

پھر اس کے جانے کا وقت آگیا. 
وہ تو چلا گیا لیکن میں نے اک کپ چائے کا اور منگوایا  اور اس کے ٹھنڈے ہونے تک سوچتی رہی، "کیا یہ ٹھیک ہے؟"

میں نے بہت عرصے تک اپنی چھوٹی بہن کو یہ کہہ کر رلایا ستایا کے امی ابو اسکو کے کچرے کے ڈبے سے لائے ہیں کیوں کے وہ وہاں اکیلی رو رہی تھی . جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہہ نسل آدَم کی افزائش کیسے ہوتی ہے اور اس کے کئی سال بعد اس سے جڑے بہت سارے سوال پیدا ہوئے . ان تمام سوالوں میں پہلا سوال یہ تھا کے کیا بنا محبت کے آپ کسی کے بچے کی ماں یا باپ بن سکتے ہیں ؟ 

اِس سوال کے جواب میں مجھے شاید صرف مجبوریاں اور مجبور رشتے ملیں!

آپ خود یا آپ کے آس پاس ایسے رشتوں کی بہتات ہوگی جہاں اولاد محبّت کا نہیں بلکہ باپ کی تھکن اور ماں کی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہے. 

بر صغیر اک ایسا معاشرہ  ہے جہاں لڑکا لڑکی کا شادی سے پہلے ملنا کچھ معیوب  سی بات سمجھی جاتی ہے یا  یوں کہہ لیا  جائے کہہ ان کا ملنا اب تک تسلیم نہیں کیا گیا . والدین اِس خوش فہمی میں رہتے ہیں کے انکی اولاد اگر گھر سے باہر نکلے گی تو کسی انسانی کشش کا شکار نہیں ہوگی . 

انہی روایت پر چلتے ہوئے ہم تمام عمر اپنی لڑکیوں کو سکھاتے ہیں کےاجنبیوں سے، نامحرم سے فاصلہ رکھو لیکن پِھر اسی لڑکی کو اچانک سے نکاح پڑھوا کر اک اجنبی کے ساتھ راتیں گزارنے بھیج دیتے ہیں. کچھ تو ایسے بھی رشتے ہوتے ہیں کہ ساری عمر جس کو بھیا پکارا اسکو خاندان والوں  نے ملکر بھیا سے سیّاں کا درجہ دے ڈالا. 
  
لڑکوں کو بھی انکے والدین یہی کچھ سکھاتے ہیں کے تمہاری بِیوِی تمہیں نسل دے گی اور ہمارا نام آگے بڑھاے گی . اسی لیے ہمارے مرد فیصلوں کے کچے واقع ہوئے ہیں کیوں کے ان میں خوف ہوتا ہے اگر یہ اچھی ماں نا بنی  وغیرہ وغیرہ.
کوئی شادی اگر ہچکولے کھارہی ہو تو پہلا مشورہ "بس اولاد کرلو" کا دیا جائے گا جیسے پہلی جنگ عظیم سے لے کر داعیش تک ہر مسلۓ کا حل بچہ پیدا کرنا ہو. 

غرض اک مکمل اور بھرپور رشتے کا محور جسمانی ضروریات کو ٹھرا دیا جاتا ہے!

تو آپ شادی تک تو پہنچ گئے ؟
 لیکن نہیں . میں چاہتی ہوں آپ ذرا پیچھے جا ئیں اور دوبارہ سے سوچیں لیکن مختلف . 

ہم سب جانتے ہیں کے جب بچہ اپنی ماں کے بطن میں ہوتا ہے تو اسکو سب سنائی اور محسوس ہوتا ہے اور وہ بہت کچھ خود میں جذب کرتا ہے . اب آپ ہی بتائیں جو پودا محبت کے نہیں بلکہ مجبوری سے بویا گیا ہو اور پِھر اسکو سینچا  بھی انہی اطوار پر جائے ، تو کیا وہ بنیادی طور پر مکمل ہو گا ؟ 

والدین بچوں کو شروع سے ہی ایسی تربیت  دیتے ہیں جس میں ان کو سوال پوچھنے، انکار کرنے،یا پھر منطق ڈھونڈنے کی اجازت نہیں  ہوتی. اگر اتفاق سے کوئی ایسی جرّت کرلے تو اسکو کہہ  دیتے ہیں "زبان درازی مت کرو" کیوںکہ ماں باپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. دوسرے وہ بچے کہ اندر سے یہ للکار اور بغاوت ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کے بتاۓ  ہوئے راستے پر چلے اور ان کے دکھاۓ  ہوئے خواب دیکھے . 

 پاکستان کا ہر بچہ ڈاکٹر، انجنیئر یا پھر پائلٹ وغیرہ بننے کے خواب دیکھتا ہے. اس کی سوچ پر اسکی تربیت اتنی حاوی ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس دائرے سے باہر نہیں آ  پاتا جس میں وہ شاید بہترین پینٹر، ڈیزائنر، یا پھر کچھ اور بن سکتا ہو. 

یہی وجہ ہے کہ ہم گھسی پٹی تربیت کرتے ہیں.

بالکل اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں بھی خود ہی خود سوچ لیتے ہیں جس میں اول نمبر پر ماموں اور خالہ کے بچے ہوتے ہیں. کبھی کبھار چچا پھوپھی بھی کسی کھاتے میں آجاتے ہیں. 


ہمارے معاشرے کی یہ روش ہی نہیں کہ اپنی ہی نسل کو سمجھیں، پہچانیں، اور فیصلوں کو جذباتی مجبوری میں انکو قربان نہ کردیں.

بنیادی طور پر تو ہمیں اپنے مستقبل کی تربیت خود سے بہتر کرنی چاہئے لیکن نہیں ہم اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنے ہی نطفے سے لیتے ہیں.

یہی وجہ ہے کے جو ہمیں ہمارے والدین سکھاتے ہیں ہم بس اسی کو کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں اپنی اولاد کی تربیت پر . اب تو نسلیں گزر گئی ہیں اِس خطے میں ایسے ہی مجبوریوں میں گھری لیکن کیا آپکا میرا فرض نہیں کہہ ہم روایت سے باہر نکل کر سوچیں ؟ سہی اور غلط کی پہچان کرائیں ؟  آنے والی نسل کو یہ نہ سکھایں کہ کیا سوچنا ہے بلکہ اسکی سوچ پر سے پہرے اٹھایں . 


 ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو وہ سب دینا چاہئے جو ہمیں نہیں مل سکا.......جیسے ذہن کی آزادی، سوچ کی پروان، اور سب سے بڑھ کر فیصلوں کی خود مختاری. 






بانوسازی  

٧ اپریل، ٢٠١٥