Nov 28, 2019

بایئں نظرئیے کا دایاں رخ - پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن

Originally publish here NayaDaur Urdu



"بقول غالب، میری وحشت تری شہرت ہی سہی!
 تو بس ان کی جو وحشت ہے نا، وہی ہماری شہرت ہے."

ایسا کہنا  ہے، ٢٣ سالہ  وقاص عالم کا، جو پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن-کراچی PrSF کے بنیادی رکن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ٢٩ نومبر کو آنے والے "طلباء یکجہتی مارچ" کے منتظمین میں سے بھی ہیں. 




وقاص اپنی عمر میں کچے لیکن خیال کی پختگی میں ملکی سیاست کے بزرگوں کو مقابلہ دے سکتے ہیں. مرزا غالب اور کارل مارکس سے وابستگی انہیں وراثت میں ملی ہے. صاحب اکثر غالب کی شاعری فلسفے کے مختلف نظریات کی روشنی میں سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں. 

ساٹھ کی دہائی میں جب نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو کراچی شہر اور اس کے کالج اور جامعات کا ایک بہت بڑا کردار تھا.  یہی وجہ تھی کے جب یکجہتی مارچ کا اعلان ہوا تو کراچی سے طلباء و طالبات کا جھکاؤ دیکھا گیا اور لیفٹ-ونگ میں ایک تیزی کی لہر آئی.

وقاص بذات خود جامعہ کراچی سے  سیاسیات میں ماسٹرز کے آخری مراحل میں ہیں اور پچھلے ٥ سال سے لیفٹ - ونگ سے خود کو منسلک بتاتے ہیں. قومیت کے لحاظ سے وقاص کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس نسبت سے ان کو لگتا ہے کہ لیفٹ کا نظریہ ان کے حالات و واقعات کی بہتر عکاسی کرتا ہے.

"جب میں نے لیفٹ کا نظریہ پڑھنا شروع کیا تو سمجھیں سب کچھ پلٹ گیا اور مجھے لگا میں ایک خول میں رہتا ہوں.میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تب مجھے NSF کی معلومات ہوئیں اور میں نے ٢٠١٧ کے آخر تک ان کے ساتھ کام کیا."

پاکستان میں طلباء میں سیاسی تعلیم اور نظرئیے کا شدید فقدان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طلبات اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے نصابی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور اداروں کی لائبریری خالی پڑی رہ جاتی ہیں. وقاص اپنی سیاسی معلومات اور تربیت کا سہرا کتابوں کو دیتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ١٠ سال کی عمر سے وقت گزارنا شروع  کردیا تھا.

ضیاء الحق کے دور میں طلباء یونین پر پابندی لگی کیوںکہ تب اداروں اور حکومت کو طلباء کی طاقت کا اندازہ تھا جن کا مظاہرہ وہ پچھلی حکومتوں میں کر چکے تھے. بعد از پابندی، ملکی سیاست میں مختلف اتار چڑھاؤ آئے جس میں ایک تو خود ضیاء الحق کا قتل تھا. اس کے بعد بھی ملک میں تبدیلی در تبدیلی جنم لیتی رہی مگر طلباء یونین کا معاملہ کہیں دب گیا.

طلباء یونین اورسیاسی طلباء تنظیم کا ایک بنیادی فرق ہے الیکشن!
یونین میں مختلف تنظیمیں، فیڈریشن الیکشن کے زریعے منتخب کردہ نمائندگان طلباء کی آواز بنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تدریسسی اداروں اور طلباء میں مفاد ہوتا ہے. جب کے سیاسی طلباء تنظیم اپنی بنیادی تنظیم کا منشور لے کر آتی ہیں، وہ بھی بنا کسی الیکشن کے جو طاقت اور تشدد کا باعث بنتے ہیں.

طلباء یونین بھی ایک بنیادی حق ہے جس کی غیر موجودگی میں ملک بھر میں طلباء کے ساتھ ہونے والی کوئی بھی ناانصافی کسی اجتماعی چھتر کے نیچے نہیں آ سکتی ہے. واقعہ چاہے مشعال خان کے بہیمانہ قتل کا ہو یا  جامعہ بلوچستان میں طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسائی کا. یونین نہ ہونے کے باعث طلبہ و طالبات انفرادی احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں. ایسے میں طلباء یونین کی بحالی ہی وقت کی عین ضرورت ہے.

آپ کی نظر میں کسی کو بھی طلباء یونین کی بحالی کا مطالبہ کیوں کرنا چاہئے؟ اسکی بنیادی وجہ یا فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟
"اس سوال کے جواب میں وقاص کا کہنا تھا، ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں حصّہ لے، معلومات رکھے. ریاست اور قوم کا رشتہ حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہیں جس میں ریاست کے فرائض ہیں اور قوم کے حقوق ہوتے ہیں. اس رشتے کی ہم آہنگی ہی ہمیں ایک بہتر ملک دے سکتی ہے. 

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس ڈکٹیٹر شپ ہے یا پھر موروثی سیاست جس کی موجودگی میں کسی بھی متبادل قیادت کا قیام عمل میں لانا ناممکن ہے. طلباء یونین مختلف طریقے جیسے ریڈنگ سرکل، سیمینار،آرٹ کے زریعے  طلباء کی سیاسی تربیت کرتی ہے جو مستقبل میں سیاسی قیادت کی بنیاد فراہم کرتی ہے."

ملک بھر میں جو ایک عام خیال پایا جاتا ہے وہ یہ کے طلباء تدریسی اداروں میں ہنگامہ آرائی، تشدد، یا قتل و غارت کی وجہ بنے ہیں. پابندی لگنے سے پہلے طلباء ایک مٹھی تھے لیکن جب بکھرے تو کچھ کنارہ کش ہوگئے اور کچھ نے سیاسی طلباء تنظیم کا رخ کیا. سیاسی تنظیموں سے سٹوڈنٹ ونگ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے.  اس کے بر عکس طلباء یونین تمام تفریقات سے بالا تر ہے. 

ایسا نہیں ہے کے ماضی میں حکومتوں نے طلباء یونین پر بات نہیں کی، لیکن کسی نے بھی اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لڑا. ١٩٨٨ میں محترمہ بینظیر نے جب حکومت سنبھالی تو پابندی اٹھا دی لیکن ١٩٩٣ میں یہ پابندی پھر عائد  کر دی گئی. اس پابندی کا سب سے زیادہ فائدہ قدامت پسند یا مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کو ہوا جن کا٨٠ اور ٩٠ کی دہائی  بےدریغ استعمال ہوا.

اسی دوران APMSO نے بھی زور پکڑا اورIJT اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالف بن گئی. یوں سلسلہ شروع ہوا  جامعہ کراچی کی  بدترین طلباء سیاست کا! 
جامعہ کے جھگڑے، قتل و غارت سیاسی بنیاد پر تھے جس سے عام طلباء کا کوئی تعلق نہیں تھا. ان وجوہات کی بناء پر طلبہ و طالبات نے سیاسی طور پر تدریسی اداروں میں کنارہ کشی اختیار کرلی.




ملک بھر میں سیاسی تنظیموں کے طلباء ونگ کا زور ٹوٹنے سے یونین کی بحالی کا معاملہ کچھ حد تک آسان ہوا ہے، خصوصی طور پر کراچی میں جہاں کالج اور جامعہ کراچی میں حالات قابو میں رکھنے کے لئے سندھ رینجرز کی اکثریت ہے. 


اس پابندی کی بحالی پر بلند و بالا آواز اٹھنے میں اتنے سال کیوں کیوں لگے؟
"وقاص کہتے ہیں کہ، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈرشن نے ٢٠٠٧ پھر متحرک ہونا شروع کیا تھا جس کی بنیادی وجہ  صدر پرویز مشرف کے آخری دور میں پیدا ہونے والا معاشی بحران تھا. بین الاقوامی سطح پر بھی یہ زوال آ چکا تھا اورتب پاکستان میں لیفٹ-ونگ کو لگا کہ یہی موقع ہے.

اس طرح سے ایک بار پھرلیفٹ کی بنیاد رکھنا شروع کی گئی، جس میں مختلف اشکال پیدا ہوتی رہیں لیکن ایک بات جو قائم کردی گئی وہ یہ کہ، لیفٹ-ونگ نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی تھی. ہم نے محاذ کھولنے کے بجائے مختلف تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور ملاقات کی کیوںکہ ہم خود کو ایک سیاسی تربیت گاہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں.

تمام لیفٹ تنظیموں نے، کارکنان نے پچھلے چند سالوں میں بہت محنت کی ہے تاکہ ایک منظّم طریقے سے ہم باقاعدہ تحریک کا آغاز کر سکیں. فیض فیسٹیول، ریڈنگ سرکل، سٹریٹ تھیٹر وغیرہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں. اس سے ہم لوگوں میں آگاہی اور شعور اجاگر کرتے ہیں."

 کراچی شہر میں وقاص اور ان کے PrSF  کے ساتھی دن و رات آنے والے طلباء یکجہتی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں. جامعہ کراچی میں مختلف جگہ پر طلباء و طالبات پر امن طریقے سے مظاہرے کی تیاری کرتے نظر آئیں گے. 

اس تمام عمل کی خوبصورتی یہ ہے کہ PrSF کراچی میں موجود ہر بڑی چھوٹی طلباء تنظیم کو دعوت عام دے رہی ہے. ضروری نہیں کے آپ اس وقت طالب علم ہی ہوں تو اس مارچ کا حصّہ بن سکتے ہیں. یہ مارچ تعلیم سے جڑے ہر مسلۓ کے لئے ہے. بڑھتی ہوئی فیس، گھٹتے ہوئے تعلیمی بجٹ، اور کالج جامعات میں ہونے والے واقعیات کی ترجمانی کرتا ہے. 





٢٩ نومبر کو ملک بھر میں ہونے والا یہ مارچ، کراچی میں بھی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہوگا. یہ مارچ انتہائی منظم طریقے سے سرانجام ہوگا، یہاں تک کے PrSF نے نعرے بازی کی ٹیم الگ تشکیل دی ہے جب کے مختلف رضاکار بھی اس میں حصّہ لے کر مارچ کو منصوبہ بندی کے تحت چلائیں گے.

ان تمام باتوں کے با وجود سوشل میڈیا پر لیفٹ-ونگ کافی تنقید کا شکار ہے کیوںکہ جن ممالک نے اس نظرئیے پر چلنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہے ہیں.  

"وقاص کہتے ہیں کہ ہر نظریہ ایک مرحلے سے گزرتا ہے. بلکل اسی طرح لیفٹ-ونگ ہے جو سرمایادار نظام کے نقاد ہیں اور رہیں گے. ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو سرمایہ ملک میں آرہا ہے اور جہاں جا رہا ہے اسے صاف شفاف طریقے سے دکھایا جائے. ہمارا مقصد ترقی تو ہے مگر حقوق کی برابری کے ساتھ ہو. 

مارکسزم کو مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فکٹریاں ہیں یا سرمایہ داری بڑھ رہی ہے. مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا فائدہ ایک مخصوص طبقے کی جیب میں چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی ہوجاتی ہے. یہ نظریہ دراصل ریاستی بہبود کی بات کرتا ہے، مساوی حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے."

جہاں تو خطّے میں کہیں ہرا رنگ اور کہیں کیسریا رنگ لہرا رہا ہے، وہیں "ایشیا سرخ ہے" کے نعرے ہوا میں بلند ہو رہے ہیں. پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی ہی تاریخ سے نابلد ہے اور لیفٹ -ونگ کوصرف لیدر جیکٹ پہنا دی ہے. تنقید نگار لیدر جیکٹ سے بلند ہوتے نعرے اور حقوق کی مانگ کو نظر انداز کر رہے ہیں.

یہی وہ لمحہ فکریہ ہے کہ PrSF عام لوگوں یا مستقبل کے طالب علموں کو لیفٹ نظرئیے سے کیسے روشناس کرائے گی اور کیا لائحه عمل ہوگا. 


PrSF انوکھے طریقے اپنا رہی ہے کیوںکہ بڑے پیمانے پر لوگ کتابیں، مضامین وغیرہ نہیں پڑھتے ہیں. اس کے لئے قریبی مستقبل میں memes کی مدد سے لوگوں میں لیفٹ اور اس سے جڑے مختلف فلسفوں کی آگاہی دی جائے گی. یہ طریقہ پڑوسی ملک میں بھی اپنایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آسانی سے بات سمجھائی جا سکے. 

اس کے ساتھ ساتھ PrSF مختلف کمیونٹیز کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہی ہے تاکہ لوگوں کے اندر سے وہ خوف نکل سکے کہ ہم کسی ایک زبان یا رنگ یا نسل کے ساتھ ہیں. طلباء سیاسی تنظیم کی وجہ سے لڑکیوں کی سیاسی شرکت بہت کم ہوگئی تھی جبکہ PrSF مخالف صنف کو بھی شانہ بشانہ لے کر چل رہی ہے. 

وقاص کا ماننا ہے، سیاست بھی ایک سائنس ہے اور تجربوں کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے. تجربوں کی شروعات ہوچکی ہے اور چند سالوں بعد جا کر ہمیں ان کا پھل دیکھنے کو ملے گا.

کیا طلباء یونین صرف سرکاری کالج اور جامعات تک محدود ہے؟

ایسا بلکل نہیں ہے!
طلباء یونین کا تعلق ہر طالب علم اور ان سے جڑے مسائل سے ہوگا. یہی وجہ ہے کہ وقاص اوران کے ساتھ IBA, Habib University جیسی پرائیویٹ درسگاہوں میں بھی گئے ہیں اور طلباء کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے. طلباء کے مسائل صرف سرکاری کالج یا جامعات تک محدود نہیں ہیں. پرائیویٹ اداروں میں سنوائی کا کوئی خاص عمل نہیں ہے. 



بدقسمتی سے، نصاب کی کتابوں میں یا سیاسی تنظیمیں خود بھی لیفٹ - ونگ کی خدمات کو، کامیابیوں کو نہیں سراھتی ہیں. کوئی ذکر نہیں کرتا ہے کہ  پاکستان میں طلباء سیاست کتنی پرزور رہ چکی ہے اور ملکی سیاست میں ایک اہم کردار رکھتی تھی. یہی کردار پھر سے آواز اٹھا رہی ہیں، ظلم کے خلاف، جبر کے خلاف، اس امید سے ملک کے ہر کونے میں ان کی آواز کو سنا اور سمجھا جاۓ گا.


Nov 26, 2019

انقلاب بذریعہ کتاب

Originally published here NayaDaur Urdu


حالیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں ٧٥% طالبات اپنے نصاب کے باہر کی کوئی کتاب نہیں پڑھتے ہیں. یہ کتابیں بھی صرف اس مقصد سے پڑھی جاتی ہیں کہ امتحانات میں پاس ہو سکیں. 

بلاشبہ، کتاب بہترین دوست تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انسانی بنیاد کا لازمی جز ہے. 

٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلبہ یکجہتی مارچ" میں  پاکستان بھرسے کئی موجودہ اور سابقہ طالب علم حصّہ لیں گے. سوال یہ ہے کیا یہ طلبہ و طالبات اچانک سے باشعور ہوگئے ہیں؟ کیا ان طلبہ کو یونین کے نظریات اور فرق کا علم ہے؟  

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سوشل میڈیا پرہر لکھی پوسٹ کو قرآن کی آیت سمجھ لیا جاتا ہے، یا کسی بھی نام سے منسوب کردیا جاتا ہے، وہیں ایک عدد طلبہ تنظیم "پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن" (PrSF)  ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں ادبی نشست کا اہتمام کرتی ہے.

ایسی نشستوں کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات میں مختلف نظریات، تحریک، فلسفہ، اور اس سے منسلک غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا کیا جائے. تعلیمی دورانیے میں غیر نصابی پڑھائی سے نہ صرف ذات اور ذہن کی نشونما ہوتی ہے بلکہ سماجی تخلیق کاری میں مدد ملتی ہے.  

رواں سال شہر قائد، کراچی میں بھی ایسی نشستوں کا آغاز فرئیر ہال اورجامعہ کراچی سے ہوا اور حرف عام میں "Reading Circle" کا نام دیا گیا. مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور نوکری پیشہ افراد تک اس نشست کے بارے میں سوشل میڈیا اور منہ زبانی چرچا کیا گیا.

 جامعہ کراچی کےشعبہ لٹریچرسے پڑھ کرنکلنے والی طالبہ عائشہ کا کہنا ہے، "ہمیں لوگوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر باشعور بنانا ہے جس کے لئے کتابوں کا پڑھنا اور مختلف نظریات کو سمجھنا بہت ضروری ہے."

عائشہ PrSF، اور WDF کی کارکن ہیں اور ان ادبی نشستوں کا ہفتہ وار اہتمام کرتی ہیں. ان نشستوں میں عمومی طور پر سیاست، ریاست، اور ان سے جڑے نظریات و فلسفے پر گفتگو ہوتی ہے. طلبہ و طالبات ہر ہفتے کسی کتاب یا موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اور اس پر تفصیل سے تبادلہ خیال کرتے ہیں.

جہاں ایک طرف جامعہ کراچی سیاسی طلبہ تنظیمیں کی غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بدنام ہے، وہیں دوسری طرف PrSF جیسی فیڈرشن ہے نظریاتی روشنائی کی بنیاد پر طلبہ کو ان کے بنیادی حقوق کی آگاہی دینے کا کام سر انجام دے رہی ہے.

ان ادبی و نظریاتی نشستوں کا فائدہ آنے والے مارچ میں دیکھنے کو ملے گا جہاں عائشہ اور ان جیسے کئی طلبہ و طالبات یونین کی بحالی کے لئے مارچ کریں گے. 

عام ذہن میں طلباء یونین اور سیاسی طلباء تنظیموں کو لے کر کافی غلط فہمی ہے. عائشہ کا کہنا ہے اس فرق کو سمجھنے اور قبول کرنے میں PrSF Reading Circles نے بہت مدد کی ہے. سیاسی تنظیموں نے طلباء کے بنیادی حقوق اور انکی بہتری کی طرف کام کرنے کے بجائے تشدد اور ہنگاموں کا ذریعہ اپنایا تھا جس کے باعث طلباء کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے.

یونین کا نظریہ قدرے مختلف ہے اور کیوںکہ ٣ دہائیوں کے بعد اس کی گونج سنائی دے رہی ہے تو مختلف جامعات میں اس کو لے کر ایک ہلچل ہے.

اپنے طالب علمی کے دور میں یونین نہ ہونے کے باعث عائشہ نے خود بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کے وہ طلباء یکجہتی مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہی ہیں. وہ نہیں چاہتیں کہ جو مسائل ان کو درپیش آئے وہ مستقبل کے طلباء کو بھی آئیں.

تعلیمی و ادبی سرگرمیاں، تھیٹر، کلچر، آرٹس، یہ وہ چند چیزیں ہیں جو طلباء یونین کو طلباء تنظیموں سے جدا کرتی ہیں.

عائشہ کا ماننا ہے کہ حقوق کی مانگ اور بحالی کے لئے ضروری نہیں کہ تشدد اور ہتھیار کا سہارا لیا جائے. اب چونکہ سیاسی تنظیموں کا زور ٹوٹ رہا ہے، حقوق کا شعور اجاگر ہو رہا ہے، ملک میں مختلف تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں تو شاید وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جہاں طلباء یونین کی بحالی کا معاملہ اٹھایا جائے.

دنیا بھر میں اس وقت مختلف قسم کے مارچ اور مظاہرے جاری ہیں اور اسی بیچ پاکستان بھی اپنا زور(بایاں) بازو دکھائے گا اور اس کی شروعات ٢٩ نومبر کو ہونے والے "طلباء یکجہتی مارچ" سے ہوگی.

ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یاروں
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
(حبیب جالب)








Nov 24, 2019

جان کی قیمت ، پچاس روپے

Originally published here NayaDaur Urdu


پچھلے کچھ ہفتوں سے میرے گھر کے باہر رینجرز سنیپ چیکنگ کے لئے کھڑی ہوتی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ چاق و چوبند اور ایسے خود کو تعینات کرتی ہے کے مجرم کو وہ آسانی سے نہیں دیکھتے ہیں. مگرسوال یہ اٹھتا ہے آخر شہر میں ایسی کیا وباء پھیل گئی ہے جو ایک کامیاب آپریشن ناکامی کی جانب ہے. آخر کو ہم کراچی جیسے بڑے شہر میں، ہر گلی ہر کونے میں تو سندھ رینجرز کی خدمات نہیں لے سکتے ہیں.

سندھ رینجرز کے کراچی آپریشن کو لے کرعام عوام اور سیاستدانوں میں ملے جلے تاثرات تھے. جہاں ایک طرف واہ واہ تھی، تو دوسری طرف تنقید کی تھو تھو بھی تھی. کچھ نے کہا یہ ایک طرفہ ہے، تو کچھ نے کہا ڈرامہ ہے. حقیقت بہرحال یہی رہی کہ معینہ مدّت کے لئے شہر کے حالات درست ہوگئے. رینجرز اور عوام دونوں ہی اس بات سے انجان تھے یا شاید ابھی بھی ہیں کہ ہر جرم ملٹری آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتا ہے. 

کچھ جرائم کی جڑ مجرم سے نہیں، بلکہ مجرم کے حالات سے جڑی ہوتی ہے، جن کا حل نہ ہمارے پاس ہے نہ کراچی کی سڑکوں پر کھڑی رینجرز کے پاس!

اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج سے ٢ روز قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والا میجر لاریب گل کا قتل. میجر لاریب کو مبینہ طور پر موبائل چھیننے کی واردات میں G 9 کے علاقے میں، مزاحمت کے دوران مار دیا گیا.
کچھ ہی گھنٹوں بعد، شہر قائد، کراچی سے خبر آئی کہ فرسٹ کلاس کرکٹر خلیل الرحمن کو بھی چھینا جھپٹی کی واردات میں قتل کردیا گیا.

یوں دو ہنستے بستے خاندانوں نے اپنے جوان سالہ بیٹوں کی لاشیں دیکھیں!

 بوڑھے والدین نے بیٹے کی یونیفارم پر میڈل سوچے ہونگے، فوج میں ترقی سوچی ہوگی، یا شہادت کا رتبہ سوچا ہوگا. یہ لیکن کبھی نہیں سوچا ہوگا، نہ شاید لاریب نے خود سوچا ہوگا کہ وہ آرمی کمانڈو ہونے کے باوجود سڑک کنارے ایک ٥٠ روپے کی گولی کا نشانہ بن جاۓ گا.

خلیل الرحمن جیسا فرسٹ کلاس، ابھرتا ہوا قابل کرکٹر بھی وقت سے پہلے زندگی سے آوٹ ہوگیا کیوںکہ کسی کو اسکی جان سے زیادہ اسکا مال پیارا تھا. کیا خلیل کے پیاروں نے سوچا ہوگا کہ وہ کندھوں پر اٹھا کر اسکی جیت کا جشن منانے کے بجائے اسکا جنازہ کندھوں پر اٹھائیں گے؟ 
یقیناً نہیں!

اسلام آباد صرف دارلخلافہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے خوبصورت اور محفوظ ترین شہروں میں سے ہے. ان سب کے بواجوڈم محفوظ ترین شہر میں ہی محافظ کا قتل ہوگیا. کراچی، جہاں ہر جگہ سندھ رینجرز اپنا بوریا بستر لگا کر رکھتی ہے، وہاں بھی شہریوں کا قتل، لوٹ مار کی وارداتوں کا بازار گرم ہے.......کیوںکہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں!

کسی بھی جیتے جاگتے انسان کا بے وجہ قتل کر دینا، اپنی جان بھی داؤ پر لگانا،کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے. قتل واردات کی بنیاد پر ہو یا ٹارگٹ کی، ہر قتل کی قیمت ہے. 

پچھلے ٢ ماہ میں، ملک میں مہنگائی کی شرح ١١% ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ IMF کے مطابق یہ شرح ١٣% تک جا سکتی ہے. ہم جب ان اعداد و شمار کو اور گہرائی میں دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے شہری علاقہ جات میں  کھانے پینے کی اشیاء سالانہ بنیاد پر ~14% ، ماہانہ بنیاد پر ڈیڑھ فیصد پر بڑھ رہی ہیں. 
دیہی علاقوں کی مہنگائی کی شرح سالانہ طور پر ~١٥% اور ماہانہ بنیاد پر ڈھائی فیصد بڑھ رہی ہے.

بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی!

ملک میں ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں، جن کی قیمت عام دنوں سے تقریباً پینتیس % مہنگی ہے. انڈے، دال، آٹا، اور ایسی کئی بنیادی کھانے پینے کی اشیاء پر مہنگائی کا مہاراجہ چین کی بانسری بجا رہا ہے. 

جس ملک میں اوسط تنخواہ سترہ ہزار، اور خاندان چھ سے سات افراد پر مشتمل ہو، اور نوکری کے مواقع نہ ہونے کا برابر ہوں، وہاں سڑک پر ہونے والے جرائم کی شرح بڑھنا یقینی بات ہے. ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان کے مطابق، حکومت کی جانب سے شائع کردہ بیروزگاری کی ~پانچ % شرح غلط ہے جو کہ صحیح معنوں میں تقریباً ١٥% بنتی ہے.

آج صبح کی خبروں کے مطابق ملک میں بڑے پیمانے پرلگے کارخانوں نے ~چھ فیصد پیداوار کے نقصان کی رپورٹ فراہم کی ہے جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت اور بڑھے گی.  اس کے باعث، پاکستان میں بڑے سرمایہ داروں کا ملکی پیداوار میں حصّہ اب صرف ١٠% رہ گیا ہے، جو کہ پچھلے انیس سالوں میں سب سے کم ہے.

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے ملک اس مشکل دور سے نکل جاۓ گا، انہیں قوم کے جذبے اور ساتھ کی ضرورت ہے.

خان صاحب، خدا آپ کا چولہا گرم رکھے، پیٹ میں دال روٹی رہے تو حب الوطنی کی باتیں اچھی لگتی ہیں. جب گھر میں بیمار مہنگی دوا نہ ملنے کے باعث مرجاۓ، بچہ فیس نہ دینے کی وجہ سے گھر میں بیٹھ جاۓ، نومولود ویکسین نہ ملنے پر مر جاۓ، اور ساتھ میں بجلی پانی گیس کے بل جیب میں پڑے پڑے گل جایئں، تو ملک محبوبہ نہیں لگتا ہے. 

آپ کتنی ہی رینجرز تعینات کردیں، پولیس کو عام شہری کو مارنے کی آزادی دے دیں،جب تک مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی، جان سستی ہوتی رہے گی کیوںکہ ...........ٹماٹر 80 روپے پاؤ ہے، اور ایک گولی 50 روپے !








  

Nov 14, 2019

ہجرت کا درد

Originally published here NayaDaur Urdu

اماں کوئی سترہ سال کی ہونگی جب وہ ایک دن سکول سے گھر واپس آئیں اور میری نانی نے ان کو بتایا کے ان کی منگنی ہوگئی ہے. اتفاقاً، ابّا کے چچا اور میرے نانا دوست تھے اور انہوں نے سوچا کیوں نہ اس عظیم دوستی کو ایک ارینج رشتے داری میں تبدیل کردیا جائے. میرے ابّا تب کوئی پچیس سال کے تھے اور ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے. گھر بار ہندوستان میں، لیکن نوکری کا جنجال بنگال میں تھا. 

الله الله خیر سلا، مارچ '٧١ میں اماں نے ابّا کے نام کی انگوٹھی پہن لی، اور حالات کو کروٹ لیتے دیکھنے لگی. 

یہی وہ مہینہ بھی تھا جب پاکستانی افواج نے ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا تھا اورشیخ مجیب ارحمن کو گرفتار بھی اسی دوران کیا گیا تھا. آج بھی سقوط ڈھاکہ کی تاریخ اور بنگلادیش کی آزادی کی تاریخ مختلف ہے.

حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے نانا نانی نے اماں ابّا کی شادی عجلت میں اسی سال اگست میں کردی. ماں باپ کو لگا لڑکی اپنے گھر کی ہوگی تو عزت کم خطرے میں رہے گی. مگر یہ خام خیالی تھی !

مارچ کی آزادی سے سقوط ڈھاکہ تک، مشرقی پاکستان میں ایک عجیب تلاطم تھا. قتل و غارت اور جنگی حالات روز مرہ کا معمول تھے. عورتوں، بچیوں کا گھر سے نکلنا تقریباً بند تھا. چند عقلمند لوگ تھے اور حیثیت بھی رکھتے تھے، انہوں نے سقوط کا انتظار نہ کیا بلکہ بذریعہ نیپال، لندن چلے گئے. پھر وہاں سے کراچی کوچ کیا.

جنہوں نے اچھے وقت کی امید اور انتظار کیا، وہ جنگی قیدی بن گئے جیسے میرے اماں ابّا اور ڈھیروں دوست، رشتےدار، پڑوسی وغیرہ.  

قیدی بننا تو بعد کا ظلم تھا، میری اماں اس سے پہلے ایک اور ظلم سہہ رہی تھیں لیکن شور کرنے یا ماتم منانے کا وقت نہ ملا. میری نانی  انھیں شب و روز کے ہنگاموں میں ایک روز اپنے ٨ سالہ بھانجے کے ساتھ پڑوس میں جانے کو نکلی اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں. میرے نانا کئی سال وہیں گزرے، آبائی لوگوں کی مدد سے بہت ڈھونڈا مگر سب بے-سود!

آج بھی میری اماں اکثر مجھے کہتی ہیں کہ تمہاری نانی میرے خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ کیا معلوم وہ زندہ ہوں؟ کیا وہ مجھ سے ناراض ہیں؟
حد تو حد ہم نے آیت اللہ سے بھی پوچھوا لیا کہ نانی خواب میں کیوں نہیں آتیں؟ وہ بھی جواب دینے سے قاصر رہے.

ہم آج بھی فاتحہ درور کرتے ہیں مگرمیری ماں نے اپنی ماں کا چہرہ دیکھے بغیر انہیں مردہ تصور کرلیا ہے اور اسکا درد انھیں آج بھی ہے. جنگ بنجر کردیتی ہے.....اس زمین کو بھی جہاں اسکا خون بہا اور ان کا بھی جو کبھی اس زمین کے باسی تھے.

راتوں رات گھر گلیاں چوبارہ سب چھوڑا. قیدی بننے سے پہلے اتنی بھی مہلت نہیں ملی کے اپنے بچپن، لڑکپن، اور جوانی کو الوداع کہتے یہ لوگ! 

اماں ابّا کو لگا چلو جب سب ٹھیک ہوجاۓ گا تو گھر واپس آجاییں گے. ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اب جو گئے تو اجنبی ہوگئے. نئے نویلے دولہا دلہن نے فوجی ٹرک میں اپنی ہجرت کا آغاز کیا. لوگوں کے پاس ان کے والدین کی نشانیاں ہوتی ہیں جیسے شادی کا جوڑا، کوئی پشتینی زیور، یا کوئی بھی اور ایسی چیز جو نسل دار نسل یاد کے طور پر منتقل ہوتی ہے.

مجھے میری اماں سے بس قصّے اور یادیں ملی. وہ سب کچھ جو انہوں نے ہمارے بڑے ہونے پر ہمیں بتائی.

میرے ابّا تو بمشکل ہی بات کرتے ہیں ان ٢٢ مہینوں کے بارے میں جو انہوں نے قید میں گزارے، یا وہ وقت جو انہیں کیمپ تک پہنچنے میں لگا، یا پھر وہ سب کچھ جو انہوں نے ڈھاکہ چھوڑتے وقت دیکھا. بزرگ کہتے ہیں، ہم نے جوان بچیوں کو کنویں میں کودتے دیکھا، نالیوں سے خون بہتا دیکھا، اور تو اور سقوط میں الجھے انسانوں کو بچھڑتے اجڑتے دیکھا.

'٧١ دسمبر کو جو شہر چھوڑا تو پھر کبھی واپس نہیں گئے!

میں نے اکثر خود کو رکھ کر سوچا کے کوئی مجھ سے میرا کراچی چھین لے، یا مجھے کہے اب یہ تمہارا گھر نہیں تو مجھے یقین ہے کہ میرا دل بند ہوجاۓ گا. جس شہر نے میرا وجود، میری شخصیت سینچی، وہ دھڑکن کا ایک حصّہ ہوتا ہے. میں کہیں بھی گئی، اس امید سے گئی کہ گھر تو کراچی ہے. 

ایک میں ہوں جو سوچ بھی نہیں سکتی اور ایک مہاجرین ہیں جن کے پاس واپسی کا راستہ ہی نہیں. جن کی یادوں پر خون کے دھبّے اور چیخوں کا دھمال ہے.

 چند روز پہلے جب کرتارپور بارڈر کی تقریب دیکھی، اور اس سے جڑی خبریں جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنے بارڈر پار آئے ہیں، تو میں نے مجبوراً سوچا کہ اماں سے پوچھوں اگر وہ ڈھاکہ چلنا چاہیں گی؟

اماں نے کہا، "بیٹا، اس بڑھاپے میں اتنی ہمّت نہیں کہ اس یاد سے پھر گزریں."

میری اماں کا آبائی گھر اب ایک بڑے شاپنگ مال میں تبدیل ہوگیا ہے. آس پاس کی گلیاں، علاقے، محلے، سب بدل گیا ہے. کچھ نہیں بدلہ تو میرے والدین کے اندر ہجرت کا درد!
  







Oct 1, 2019

Here’s Why Imran Khan’s Remarks Against Islamophobia Were Hypocritical

Originally published here NayaDaur 




"Charity begins at home."

Guess who has not heard of this before? Our Prime Minister, Imran Khan.

Amidst the chaos last week, Pakistan once again voted "NO" for UN intervention against human rights violation in Yemen, but crying out loud about the Indian violations in Kashmir.

As of now, PM Imran Khan is being applauded by the Pakistani nation for speaking against Islamophobia and hailing as leader of Muslim Ummah. While the nation continues to clap, you can hear the plight of Uyghur, Syrian, and Yemeni Muslims in background.

Alas, Pakistan has chosen to speak for selective human rights.

This is an undeniable fact that Kashmir is in dire need of UN intervention after a cruel lockdown by the Indian government since August 4th. In the name of development, a large population of 8million Kashmiris is deprived of their basic human rights and necessities, while the international community has sealed its lips. 

Earlier this month, before UNGA begins, Pakistan assured that it has international support on Kashmir resolution and will be able to submit it with supporting signatures. Unfortunately, it was just a claim as Pakistan failed to get the minimum quota of 16 members. Pakistan's foreign minister Shah Mehmood Qureishi, reportedly, made 3 attempts to OIC but all in vain. Towards the end, Pakistan only gained support from Turkey and Iran. 

As much as the nation looked up to its Arab brethren to raise their voice in favor of Kashmir, all they got from them is a private jet of MBS to carry PM Imran Khan to New York for attending UNGA. It is indeed a great show of brotherhood but without any benefit to 8million locked out Kashmiris. 

PM Imran Khan made a remarkable speech at UNGA 2019, divided into 4 pointers which included climate change, corruption (of course), islamophobia, and last but not the least Kashmir.
We must applaud his sequence of topics because it kind of built his speech blocks. Nevertheless, we must take this into an account that speech such as at the platforms of the UN does require a structured speech writing. 

We know, your heart is in the right place. Hence, you could have done without your extempore display of speech, Mr. Prime Minister. 

Throughout his on-going trip, PM Imran Khan has made it loud and clear that the Pakistan Army was involved in the training of Mujahideens, later turned into Taliban and Al-Qaeda. This repetitive emphasis has made international/national media to speculate his on-the-record support for the Taliban, and an obvious harboring at home. 

Perhaps, choosing your words wisely was not an option!

Now, the question arises that how all of this is helping Kashmir?

Despite the continuous public reminders and Friday stand-up shows that upcoming UNGA will be focused on Kashmir, it was not!

The speech began with a mandatory I-am-doing-a-favor to this world and invalidating the struggle of several other countries such as Afghanistan, Ecuador, Iraq, Lebanon, Venezuela, Syria, and Yemen. The kindness we expect the world to show us is only possible if we bestow it on them, as well. 

Climate change was indeed a positive and polite pick-up note, for which we really admire our prime minister and his isolated efforts in a single province of Pakistan. Hopefully, this initiative spread out by the government, nationwide. 

In case you are not aware of the time constraint, every UNGA speaker has a maximum of 15mins whereas Pakistani PM Imran Khan took a little over 50mins. Nevermind, UNGA was polite and just kept on beeping the red light situated in front of the podium.

PM Imran Khan, indeed made some hard-hitting points towards the UNGA members which may help Kashmir to be heard and find itself unisolated. Kashmir deserves the right to live and self-determination, as our PM made it clear in his speech. 

This is not the first time, Pakistan has raised its voice for Kashmir. 
We must remember the actual historic speech of Sir Zafarullah Khan at UNGA which led the UN to have Kashmir resolution. Speeches at forums like UNGA should act as a catalyst of significant change and not mere motivation. 

As the PM's speech was unfolding, many Kashmiris and Pakistanis kept on waiting when will Kashmir come. It came, at last, around 35th minute of the speech!

The speech contained unnecessary mention of RSS and Modi's background which is no news. The on-going situation in Kashmir is full of facts and figures from several independent and Indian news outlets to support the Kashmir resolution itself. 

PM Imran Khan speech included the mentioning that how cruel occupation of forces can turn an innocent boy into a terrorist. He empathized and portrayed himself in the same situation for the audience's better understanding. 

While he uttered the bitter truth, thousands of Pashtuns, Baloch, Muhajirs, and religious minorities looked in amazement that why they were forced to disappear. With a man of such stature and dignity, they should be served justice, if not at their doorstep, at least in their lifetime.

The same day as our PM gave a heartening speech in UNGA, back home protests were happening in Peshawar. Several doctors gathered in KPK province to protest against regional and district authorities act. Provincial police used force against the protestors, resulting in many injured doctors. The immediate imposition of Article 144 took place at Lady Reading Hospital, Peshawar barring more than5 doctors to gather at one place.

Few days before UNGA began, a human rights activist Gulalai Ismail had to flee Pakistan and file asylum in the US, because of her activism with Pashtun Tahaffuz Movement. 

Three days before the speech, Amnesty International urged Pakistan government to release a Fulbright scholar Junaid Hafeez. Mr. Hafeez was a lecturer at Bahauddin Zakaria University and has been kept in solitary confinement since Jun '14 over false blasphemy charges.

In all fairness, a Pakistani like myself cannot help but wonder if Prime Minister Imran Khan's speech was all preach and no practice!


Sep 30, 2019

چاۓ کا کپ اور صبین محمود


گزرے ہوئے اتوار کی صبح، میں جلدی جلدی تیار ہوئی اور اپنی دوست کے ساتھ کراچی شہر کے کیپری سنیما پہنچی. وہاں  جرمن گوئتھے انسٹیٹیوٹ کی جانب سے صبین محمود پربنی ڈوکمنٹری فلم  دکھائی جارہی تھی.

ڈوکمنٹری کے اختتام پرمیں اور میری دوست خاموشی سے ہجوم سے الگ ہو کر باہر آگئے.ایک طرف خوشی اس بات کی تھی کہ صبین کو یاد کرنے والے ہیں دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور ان میں سے ایک ہیں اس  ڈوکمنٹری فلم  کی ڈائریکٹر شوکوفی کامیز. دوسری جانب دل میں ایک سوال آیا کاش کسی ہم وطن نے صبین محمود کو یہ نذرانہ پیش کیا ہوتا.     

 صبین محمود کا جب ٢٤ اپریل، ٢٠١٥ میں قتل ہوا تھا تو ملک کا ہر ذی شعور انسان سوالیہ نشان بنا ہوا تھا. یہ سوال اس ڈوکمنٹری کی اسکریننگ کے بعد ایک بار پھر تازہ ہوگیا. 

سنہ ٢٠١٥ میں سائبر کرائم بل پاس ہونے کے بعد کئی ایسے موضوعات ایسے تھے جن کے بارے میں گفتگو کرنے سے بڑے بڑے اداروں نے بھی معذرت کرلی تھی. ان میں سے ایک موضوع تھا "بلوچستان".

صبین کا قتل اس سیمینار سے واپسی پر ہوا جس کا موضوع "unsilencing balochistan" تھا. یہ سیمینار کوئی ہفتہ بھر پہلے، پاکستان کی ایک پائے کی یونیورسٹی نے کرنے سے انکار کردیا تھا، لیکن صبین محمود نے اپنے کیفے T2F میں اس کو آواز دی. 

افسوس، اس سیمینار کے فوراً بعد ہی صبین محمود ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئیں.

کراچی نے ٹارگٹ کلنگ کے نام پر کئی گوہر نایاب کھوۓ ہیں. پروین رحمان، علی رضا عابدی،امجد علی صابری، خرّم زکی، اور صبین محمود ان میں سے چند ایک نام ہیں. یہ تمام نام دن دہاڑے، کراچی میں سچ بولنے یا اس کی پیروی کرنے کے جرم میں قتل ہوئے. غور کیا جاۓ تو ان تمام لوگوں میں ایک بات مشترکہ تھی اور وہ تھی "بے خوفی"!

 سنیما کی دوسری جانب ایک چائے کا ہوٹل تھا لیکن اس تک جانے کے لئے ہمیں انتہائی ٹوٹی پھوٹی سڑک پار کرنی پڑی، گٹر اور بارش کے پانی کو پھلانگ کر ہوٹل تک جانا ہوا.





ہم نے دو چائے منگوائی اور کھنڈر سے بدتر سڑک دیکھنے لگ گئے. میں اور میری دوست دونوں ہی ملک سے باہر ایک عرصہ گزار چکے ہیں لیکن اس وقت ڈھابے پر بیٹھے ہم نے یہی سوچا کہ اپنا شہر پھر اپنا ہوتا ہے. ہم اس کو اس کی تمام تر کمی اور کم ظرفی کے باوجود اپنا مانتے ہیں. 

جانے کہ ایک گھونٹ میں ہی یہ بات صاف دکھنے لگی کے خوف سے بھاگ کر جینا بھی کوئی جینا ہے.صبین محمود اپنے اطراف کے خطروں سے واقف تھیں لیکن نہ ہی اپنے لئے محافظ رکھے، نہ  پھونک پھونک کر قدم اٹھایا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کوچ کیا. 

یہ وہ لوگ تھے جو اپنے شہر کو اپنا گھر سمجھتے تھے، اپنے ملک کو اپنا محافظ مانتے تھے. صبین کو قتل کرنے والے اس بات سے ناواقف تھے کہ جسم چھلنی کر سکتے ہیں لیکن خیال نہیں!

صبین کی سوچ آج بھی ان کی والدہ اور دوستوں کے زریعے PeaceNiche اور T2F کی صورت میں زندہ ہے. امید ہے کہ کبھی نہ کبھی تو میرے لوگ آزادی کو آزاد کریں گے، اور برابری کے حقوق کا آغاز کریں گے.



کب نظر میں  آئے  گی  بے داغ  سبزے  کی  بہار
خون کے دھبّے دھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد  
                                                                              (فیض)


Sep 7, 2019

شیعہ سکاؤٹس - گمنام سپاہی

Originally published here NayaDaur Urdu



میں کراچی کے ایک مرکزی امام بارگاہ میں پچھلے ١٥ سال سے مسلسل مجلس سننے جاتی ہوں. کل جب لاؤڈ سپیکر خراب ہوگیا میری سڑک کی طرف والا تو میں نے ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو روکا اور پوچھا، "بیٹا سپیکر تو کھلوا دو." 
اس بچے نے بڑی عاجزی سے مجھے کہا "آنٹی، بارش کی وجہ سے تار خراب ہیں. ہم کام کر رہے ہیں. آپ سے معذرت."

یہ بچہ ایک "سکاؤٹ" تھا!
تمیز، تہذیب، صبر، عاجزی، اور نظم و ضبط کی بہترین مثال اگر دیکھنی ہو تو پاکستان سکاؤٹس کے شیعہ رضاکاروں کو دیکھئے. 

 پاکستان میں پورے ملک سے اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ سے اوپر رجسٹرڈ سکاؤٹس ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں. 

 شیعہ سکاؤٹ بالخصوص محرم اور صفر کے مہینے میں متحرک ہوجاتے ہیں اور جذبہ حسینی کی خاطر رضاکارانہ طور پر مجلس جلوس میں انے والے عزاداروں کی خدمات میں کوشاں ہوتے ہیں.  

٩/١١ کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں وہ الگ، لیکن جو نقصان اور خطرہ پاکستان کی شیعہ برادری نے مول لیا وہ الگ.

سب سے زیادہ آسان اور کھلا ہدف محرم کے جلوس اور مجالس ہوتی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں حضرت امام حسینؑ کے ماننے اور چاہنے والے جمع ہوتے ہیں. ایسی جگہوں کو محفوظ بنانا یقینن ایک انتہائی مشکل کام ہے جو اکیلے پاکستان کے حفاظتی ادارے جیسے آرمی، رینجرز، اور پولیس نہیں کر سکتی. 

ایسے وقت میں شیعہ سکاؤٹس - رضاکار عوام اور اداروں کے بیچ میں رابطے کی صورت اختیار کرتے ہیں. کوئٹہ ہو یا کراچی، گلگت ہو یا پاراچنار، یہ رضاکار اپنی جان ہتھیلی پر لئے، تمام خطرات سے اگاہ ہوتے ہوئے بھی عزادار حسینی کی حفاظت کو اولین فرض سمجھتے ہی.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سکاؤٹس کی حفاظت کے لئے بھی کوئی اقدامات ہیں؟

سرور حسین (سردار) صاحب ١٩٧٧ سے پاکستان سکاؤٹس کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس وقت سندھ سکاؤٹس کے محرم کوارڈینیٹر اور کراچی اوپن ڈسٹرکٹ کے رجسٹرار  بھی ہیں. سردار صاحب کا ماننا ہے کہ سکاؤٹس ایک رضاکارانہ خدمت ضرور ہے لیکن اچھا ہوگا اگر مختلف سکاؤٹس انجمن گروپ کی صورت میں لائف انشورنس یا میڈیکل انشورنس جیسی سہولیات کا سوچیں.

سردار صاحب کے مطابق محرم سے پہلے سندھ رینجرز، اور سندھ پولیس سکاؤٹس کو ممکنہ ٹریننگ دیتی ہے جس میں بم ڈسپوزل، دہشت گردی کا حملے کی روک تھام اور چیکنگ وغیرہ شامل ہوتی ہے. 

کراچی کے مرکزی جلوسوں میں حملے میں شدید جانی نقصان اٹھایا ہے. اس میں کئی سکاؤٹس کے جوان بھی تھے جو ماتمین کی حفاظت کرتے ہوۓ شہید ہوگئے. 

زین، ٢٩ سال کے ہیں، ٢ بیٹیوں کے باپ، اور کراچی میں ایک جانے مانے امام بارگاہ میں ١٢ سال سے سکاؤٹ کی خدمات انجام دیتے ہیں. زین کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر سکاؤٹس اور ان سے منسلک انجمن کو چندے کی صورت میں عزادار بھی مدد کریں. اس سے حفاظتی اقدام لینے میں آسانی ہوگی. 

زین کہتے ہیں، جو پیسہ چندے کی صورت جمع ہوگا وہ سکاؤٹس کی ٹریننگ اور حفاظتی اقدام پر استعمال ہوگا، کیوںکہ جان سب کی قیمتی ہے.  

دوسری جانب سید عظیم ہیں جو ٥ سال کی عمر سے العباس سکاؤٹس کراچی، سے منسلک ہیں. عظیم کا ماننا ہے کہ انہوں نے پچھلے ١٥ سالوں میں سکاؤٹس کو اپنی مدد آپ ک تحت بہتر ہوتے دیکھا ہے. امام بارگاہوں میں بہتر سیکورٹی آلات نصب کرنا، حفاظتی اداروں کے ساتھ مل کر نت نئی حفاظتی طریقے کار کا اقدام کرنا. یہ سب سکاؤٹس اب اور زیادہ دھیان اور جذبے سے کرتی ہے کیوںکہ عزادار حسینی کا ان پر اندھا اعتماد ہے.

پاکستان شیعہ سکاؤٹس آپ کو بلا کسی غرض کے کام کرتے نظر آئیں گے. چاہے وہ کراچی کی تیز بارش ہو، یا گلگت کی برفباری. شیعہ سکاؤٹس کی تربیتی اقدار باقی تمام سکاؤٹس سے قدرے مختلف ہیں. 

انہیں معلوم ہوتا ہے کے یہ جلوس کے سامنے چلتے ہوئے جایئں گے لیکن شاید واپس نہ آئیں. ہو سکتا ہے حفاظتی چیکنگ کرتے ہوئے کوئی خودکش ان سے لپٹ جائے اور ان کا جنازہ بھی سلامت گھر نہ پہنچے.

کیا ان سب باتوں کے باوجود، کبھی کسی گھر والے یا پیاروں نے ان کو روکا خدمات حسینی سے؟

فروا کے والد صاحب کراچی کی مختلف سکاؤٹ انجمن کے ساتھ منسلک رہے اور کراچی میں ہونے والے دھماکوں اور تباہی کے عینی شاہد تھے. فروا کہتی ہیں، شہادت ہماری عقیدت کا بنیادی حصہ ہے. ہم کسی کو اس سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی اس کام کے لئے اپ کبھی کسی سکاؤٹ کو پیچھے ہٹتا دیکھیں گے. ہر دہشت گردی کے حملے کے بعد، شیعہ برادری اور زور و شور سے آگے آتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم کفن پہن کر گھر سے نکلتے ہیں. 

"گھر والے بس گاہے بگاہے فون کرتے ہیں اور محفوظ رہنے کا کہتے ہیں." 
عظیم جو کراچی میں تو سکاؤٹس کی خدمات انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ میں عراق میں بھی عاشورہ اور اربعین کے رضاکار ہیں. ان کا ماننا ہے کہ آپ کسی کو اس نیک عمل سے روک نہیں سکتے. 

دوران مجلس آپ کا کبھی بھی اتفاق ہو تو آپ سکاؤٹ سے پوچھیں کہ وہ کب سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور کیوں؟

عمومی طور پر یہ بچپن سے ہی سکاؤٹ میں آجاتے ہیں اور "حسینؑ کی خدمت" کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں. جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، سکاؤٹس کے جوان اور بوڑھے اپنی روز مرہ کی زندگی کو محرم کیلنڈر کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں. 

جو سٹوڈنٹس ہوتے ہیں وہ تعلیمی مصروفیت  ختم کرتے ہی امام بارگاہ اور انجمن کا رخ کرتے ہیں. دفتر جانے والے یا تو جلدی چھٹی لیتے ہیں یا پھر پہلے عشرے میں مکمل چھٹیاں. زین، اپنے دفتر کی چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں تاکہ محرم میں کام آسکیں. 

سکاؤٹس، ایام حسینی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنا رضاکارانہ فرض یاد رکھتے ہیں. ان کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت ہوتا ہے جو مسلک، مذہب ہر چیز سےبالاتر ہے. 
عظیم بتاتے ہیں کہ محرم کے شروع ١٠  دن،سکاؤٹس آرام بھول جاتی ہے. یہ مسلسل مجلس کے ایک کونسے سے دوسرے کونے تک خدمات میں مصروف رہتے ہیں. گاڑیاں پارکنگ میں لگوانے سے لے کر چیکنگ تک ہر چھوٹا بڑا حفاظتی اقدام ان کے سر ہوتا ہے، جس کی اجرت کوئی نہیں لیکن لطف بہت. 

پاکستان سکاؤٹس- بالخصوص محرم میں آپ کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں. ان کے لئے نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی، نہ ہندو، نہ عیسائی. ان کے لئے سب انسان ہیں جن کی خدمت ایام حسینی میں سکاؤٹس خود پر فرض سمجھتی ہیں.

وقت بدل رہا ہے، ملکی حالات بدل رہے ہیں، اور اس میں یہی امید کی جا سکتی ہے کے شیعہ نگران اور انجمنیں سکاؤٹس کی ذاتی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بہتر اقدام لیں گی.

بحثیت قوم، سکاؤٹس کے ساتھ تعاون کریں، عزت کریں، اوران کا کام آسان بنائیں!

Sep 1, 2019

تاریخ عزاداری

Originally published here HumSub


یوں تڑپتے ہیں محرم کے لئے اہل عزا
حبس میں جیسے کوئی تڑپے ہوا کے واسطے
                                               (ماخوز) 

لغوی بیانیے کے مطابق لفظ عزاداری فارسی کا ہے جس کے معنی سوگواری یا غم منانے کے ہیں. عام طور پر آپ سنیں گے کہ مجلس، ماتم، اور عزاداری جیسی روایت نئی نویلی ہیں اور ان کا تاریخ سے یا  مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے.

سچ تو یہ ہے کہ، اسلام کا سیاسی رخ بدلنے اور بنانے میں سب سے بڑا واقعہ، واقعہ کربلا ہے. یہ وہ سانحہ ہے جس نے صحیح اور غلط، حق و باطل، سیاہ و سفید، ظالم و ملزوم، اور ایسی تمام تفریق کو میدان کربلا کے پلڑے میں کھڑا کردیا. یوں تا قیامت، بنی آدم کے لئے اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوگئی. 

بعد از کربلا، تقریباً ایک سال کے بعد جب اسیران شام کی رہائی ہونے جارہی تھی، تب یزید نے حضرت زینبؑ سے پوچھا اگر بی بی کی وقت رخصت کوئی خواھش ہو. بی بی زینب نے فرمایا کہ جنگ کے بعد انہیں اپنے پیاروں کی بے درد شہادت پر رونے اور گریہ و زاری کا موقع نہیں ملا. 

یوں زینبؑ بنت علیؑ نے تاریخ میں پہلی عزاداری براۓ کربلا کی بنیاد رکھی!

١٠ محرم، روز عاشور جب امام حسینؑ نے "ھل من الناصر؟" کی صدا لگائی تھی توکوئی نہیں آیا تھا اور امام نے اپنے خاندان، صحابہ، اور ناصرین کے ساتھ یہ جنگ اکیلے لڑی. 

اس روز کے بعد، مسلمان بلخصوص شیعہ مسلمان عزاداری حسین کا اہتمام کرتے ہیں اور زمانے میں ہونے والی ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف یک آواز ہوتے ہیں. ساتھ ہی ساتھ محرم کا پہلا عشرہ اور اس میں ہونے والی مجالس، کائنات کے لئے یاد دہانی ہیں کہ واقعہ کربلا کیا تھا، کیوں تھا،اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا. 

یتزاک نکاش، شیعہ تاریخ کے ماہرین میں سے ہیں اور انکی ریسرچ کے مطابق بی بی زینبؑ کے بعد بھی عزاداری حسین کا سلسلہ جاری تھا. خلافت امّید کے دوران عزاداری کا رواج خاموش اور ایک طرح سے تقیے کی نظر تھا. تمام مجالس و گریہ امام یا ان کے شعیوں کے گھر منعقد ہوتی تھیں. عباسی خلافت کے دوران یہ مجالس کچھ عرصہ کھلے عام ہوئیں.

لفظ عزا الحسین  کا تریقتاً استعمال پہلی بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے دور میں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے جد کو رونے والی مجلس کی میں تائید کرتا ہوں. 

پیٹر چیلکووسکی نیو یارک جامعہ سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ و حالات پر عبور رکھتے ہیں. انہوں نے اپنے ایک ریسرچ جرنل میں بیان کیا ہے کہ عزاداری کا پہلا سرکاری درجے کا واقعہ چوتھی صدی میں، سلطان معیز الدین دولہ کے دور میں پیش آیا تھا. تب بازار و دفاتر بینڈ ہوتے تھے اور روز عاشور عزاداری بپا ہوتی تھی.

دوسری طرف جے.کلمرڈ نے اپنے مذہبی مقالے میں لکھا ہے کہ ایران میں عزاداری اور ماتم کی روایت بارہویں صدی میں زور پکڑ گئی، اور سفوید خلافت کے دوران اسکو بھی سرکاری درجے پر لایا گیا.  

تیمور لنگ کا دور آیا اور عزاداری کا دائرہ جغرافیہ فارس اور عراق سے نکل کر سمرقند، بخارہ، اور آگے تک آگیا. ہم یہاں صرف تاریخ عزاداری کا بیان کر رہے ہیں تو ان ادوار اور بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی رجحانیت کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا. 

برصغیر میں یوں تو حوالہ ہے کہ سندھ میں جب عرب بسنا شروع ہوئے تو عزاداری کا اہتمام ہوا، مگر اس عزاداری کی صحیح ساعت لکھنؤ سے ہوئی جہاں آج بھی سب سے بڑا مرکزی جلوس روز عاشور نکلتا ہے. مرثیہ کی روایت یوں تو امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے ہے لیکن اردو میں مرثیے کو روح بخشنے کا سہرا لکھنؤ کے سر جاتا ہے.

اٹھارویں صدی نے لکھنؤ کو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیہ لکھنے والوں سے نوازا جیسے میر انیس، مرزا دبیر، اورعلی حیدر طباطبائ وغیرہ. 
لکھنؤ کی عزاداری نے برصغیر میں امام حسین کے غم کو آگے بڑھایا اور تبلیغ کی صورت پھیلا دیا. 

١٩٣٠میں مولانا سبط حسن وہ پہلے مولانا تھے جنہوں نے لکھنؤ میں عزاداری کو لیکچر کی شکل دی جو آج تک تمام مجالس میں دوہرائی جاتی ہے. مولانا کے اس طریقت میں پہلے سلام، پھر مرثیہ، پھر ذاکر کا بیان جو فضائل اور مصائب پر مبنی ہوتا ہے، اور سب سے آخر میں نوحہ خوانی ہوتی ہے. 

عزاداری نے بیسویں صدی میں جو نیا رخ لیا اس سے شیعہ مسلمانوں کو پیغام حسینی اور مقصد حسینی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی. یہ ایک ایسی تبلیغ کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ جو چاہے آ کر بیٹھے، سنے، سوال پوچھے، سمجھے، بلا تفریق!

محرم میں ہونے والی عزاداری دراصل ایک یاد دہانی ہے ہر زی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں؛ یا حسینی یا یزیدی. ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، دشمن بہت دوست کوئی کوئی ہوگا.


انسان  کو   بیدار  تو  ہو   لینے   دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں 'حسین' 

  

Aug 31, 2019

بارش، بجلی، اور غریب

Originally published here HumSub

پچھلے کچھ سالوں میں موسم کی تبدیلی کے باعث، کراچی میں بارش کا آنا جانا بس اتنا ہی تھا، جتنا ہمارے وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں ہے. 
دوسرے صوبے کے یار دوست کہتے تھے، تم کراچی والوں کے ہاں بارش نہیں مذاق ہوتا ہے. لاہور کی ایک مشہور ماڈل نے بھی سال رواں کی لاہوری بارش کے بعد ہمیں کہا کہ کراچی میں اتنی بارش نہیں ہوتی جتنی ہم اپنی سبزی پر چھڑکاؤ کرلیتے ہیں. 

قدرت کو یہ مزاق پسند نہ آیا!

موجودہ ہفتے میں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال نے آپس میں ہی صلح مشورہ کر کے کراچی شہر کو ٥٠ملی میٹر سے اوپر کی بارش دے ڈالی. 

ہماری والدہ ماجدہ کو آدھا بنگالی ہونے کی وجہ سے قدرت کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کرخدا سے دعا مانگی کہ دل کھول کر بادل برسیں.
خدا نے میری ماں کی اور کوئی دعا  سنی ہو یا نہ سنی ہو، یہ والی لمحوں میں قبول کرلی.

شروع شروع میں تو دھلے دھلے درخت، سرمئی چادر لپیٹے آسمان بلکل اسلام آباد کا سا سماں پیش کر رہا تھا. ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارا کراچی ہے!
ہمیں یقین دلانے کی ذمہ داری ذاتی طور پر کے-الیکٹرک نے لے لی اور ہم جو پنکھے کے نیچے آرام فرما تھے، بجلی والوں کو ان کے گھر والوں کی یاد دلاتے ہوئے اٹھ بیٹھے. 

صبح کے ١٠ بجے تک یہ طے ہو چکا تھا کے آج برتن دھونے سے لے کر کھانا پکانے تک تمام کام گھر والوں کو ہی کرنے پڑیں گے. 
اماں حضور کو اپنی دعا کے غلط اثرات بجلی اور گھریلو مدد کی صورت میں دکھنا شروع ہوگئے تھے. چار و ناچار انہوں نے تمام کام منصفانہ طریقے سے بانٹ کر بجلی بحال ہونے کا انتظار شروع کردیا. 

کے-الیکٹرک نے صدیوں پرانی مہارت دکھاتے ہوئے اپنی ہیلپ لائن بند کردی اور صارفین پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سوچ لیں بجلی کب اپنا منہ دکھاے گی. خدا جھوٹ نہ بلائے، کمبخت منہ موڑ کر ہی بیٹھی رہی. قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ہمارا جنریٹر خراب تھا اور دماغ بھی کیوںکہ کسی کو بنوانے کا خیال نہیں تھا. 
بہرحال ہم نے کچھ نہ کچھ انتظام کر کہ دن اور رات کاٹ لئے.

مولا کا کرم کہہ لیں کہ ہم اس طبقے سے ہیں جہاں تو نہ گھر کے اندر باڑھ آئی نہ چھت گری، اور نہ ہی کوئی بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا. 

اب تک کی خبروں کے مطابق، طوفانی بارشوں کے باعث کراچی میں ١٤ اموات ہو چکی ہیں، جس میں ٦ بچے بھی شامل ہیں. بچوں کو کیا خبر کے ایسی طوفانی بارش غربت کا مذاق اڑانے آتی ہے، اور ساتھ انھیں بھی لے اڑتی ہے. 

روز کی دیہاڑی والے گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں. کچی آبادی والے اپنے تمام برتن ٹپکتی ہوئی چھتوں سے لگا دیتے ہیں. بیمار کی چارپائی کے پاس کوئی گھر والا پنکھا جھلتا ہے اور باقی کے گھر والے بارش سے بنتی لہروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں لیکن پھر روکتے ہیں.

لیکن ان سب سے بھی جو بدتر ہیں، وہ ہیں بے گھر خاندان!

چند ہفتے پہلے ہی تقریباً ہزاروں کے قریب خاندان کوسپریم کورٹ کے احکام پر  بے-گھر کیا گیا تاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا علاقہ خالی ہو سکے. کورٹ کے مطابق گھروں کو ١٥ دن میں مسمار کردیا جائے جب کہ ان کی متبادل رہائش کا انتظام ایک سال میں کیا جائے. کوئی اداروں سے پوچھے یہ خاندان ایک سال تک ہوا میں معلق رہیں گے یا آپ اپنے دروازے ان پر کھول دیںگے؟ 

میرے شہر کی معیشت اور بلدیاتی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم بارش کی دعا مانگیں. ہمیں ابر کے برسنے سے زیادہ اس کے لئے ترسنے میں فائدہ ہے. سورج ظالم تو ہے لیکن عزت ڈھانک کر رکھتا ہے. کھلے آسمان تلے بھیگنے کا یا کرنٹ سے مرنے کا خوف بھی نہیں رہتا. روز کی کمائی گھر آجاتی ہے اور بچے بھی گلی میں کھل کود کر واپس لوٹ جاتے ہیں. 

خدا کی رحمت، غریب کے لئے زحمت ہی ہوتی ہے اور یہ بات مجھ یا آپ جیسے بھرے پیٹ اور پکّی چھت والوں کے سمجھ میں نہیں آئے گی!
    

امرتا پریتم - ایک صدی

Originally published here Independent Urdu 



میرا ماننا ہے کہ امرتا جی کو صرف ماضی میں نہیں رہنا بلکہ کتابوں سے نکل کر مستقبل بھی بننا ہے۔ ایسی ہستی آج کے دور میں ہونے والی ڈھیروں تحریکوں اور جوان ذہنوں کی نفسا نفسی کا جواب ہے۔ 

امرتا جی اکیسویں صدی کا انجانا خواب ہیں،اور پچھلی صدی کا انقلاب ہیں. 

یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ امرتا جیسی لکھاری جنہیں یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونا چاہئیے،  ان کا سرسری سا تعارف کرادوں۔ دراصل یہ محتاجی اس لئے ہے کیوں کہ آج کل لوگ Harry Potter کو تو رٹ بیٹھے ہیں لیکن مادری  زبانوں کے شہنشاوں کا ذکر بس فیس بک کی حد تک، اور وہ بھی غلط اقوال میں۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ چلیں تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلتے ہیں اور ملتے ہیں 'ہیر وارث شاہ' والی امرتا سے!

٣١ اگست، سنہ ١٩١٩میں گوجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج بی بی اور کرتار سنگھ کے یہاں گرہ پرویش کیا. ماں جی استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر لیکن روزی کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے. یوں سمجھ لیجیۓ، قلم اس گھر کا غلام تھا. 


امرتا جی اپنی کسی ایک نظم یا کسی ایک افسانے سے نہیں سمجھی جا سکتیں. امرتا جی کو سمجھنے کے لئے ایک آزاد ذہن اور باغی دل چاہئے. ایک ایسا ذہن جو سطحی سوچ سے بالاتر ہو، دل میں حوس نہ ہو لیکن بےباک ہو. پڑھنے والا ایسے مقام پر ہو جہاں وہ سماجی اور مذہبی شرائط سے آزاد ہو.

میرے ایک دوست ہیں رضوان، ان کا کہنا ہے امرتا پریتم کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ذات کسی بھی قسم کے عدم تحفّظ کا شکار نہ ہو.

امرتا کور کی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ جی سے شادی ہوگئی تھی، جس کے بعد تا عمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا تھا. جچتا بھی تھا.......آخر امرتا جی کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی. 

اس کم عمری کے رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا جی نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے. پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا. اس سوال کو بنا امرتا جی اور پریتم جی سے پوچھے، کئی لوگوں نے اپنے سعی جواب دینے کی کوشش کی. 
جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی. امرتا جی اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں. انکی نظر میں یہ پریتم جی حق تلفی تھی. 

ہم ٢٠١٩ میں ہیں لیکن آج بھی لوگوں کو میاں بیوی کا باہمی اتفاق سے الگ ہوجانا، یا سمجھ بوجھ الگ ہونے کی بنیاد پر طلاق لینا سمجھ نہیں آتا ہے. پھر وہ تو ١٩٦٠ تھا اور امرتا پریتم تھیں......ذہنی سطح کے ساتویں درجے پر فائز!

مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا جی میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں.

اردو ادب سے شغف شاید میرے خون میں ہے کیوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اسکول کالج کے دور میں ہی منٹو کے افسانے بھائی کے شیلف پر، اور عصمت چغتائی کی لحاف اماں کے سرہانے پر مل جایا کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امرتا پریتم سے میری پہلی ملاقات سرسری تھی کیوں کہ پنجابی میں لکھی گئی "ہیر" مجھے کون سمجھاتا بھلا؟ 


 پھر سنہ 2005 میں بھارتی سینیما کی فلم "پنجار" ریلیز ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار نبھانے والے دو اداکار تھے: ارمیلا مٹونڈکر اور منوج باجپائی۔ فلم دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ امرتا پریتم کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو دیکھئے، جذبات کا بہاو اتنا تیز ہے کہ سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر اجائے۔

بس وہ دن تھا اور میں امرتا جی کی ذات، ذندگی اور قلم کی کھوجی بن گئی!

سرسری طور پر امرتا پریتم کو لوگ بس دو تین حوالوں سے جانتے ہیں جیسے "ہیر وارث شاہ"،یا پھر "میں تینوں پھر ملاں گی"، یا "ساحر لدھیانوی" سے ان مٹ عشق. 

امرتا پریتم ان حوالوں سے کہیں آگے ہیں. یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امرتا جی نے اپنے درد کو اپنے مفاد میں اپنایا. خود کی ذات کو زندگی کی بھٹی میں جلایا تو کہیں جا کر 'تیرہواں سورج، 'ڈاکٹر دیو'، اور 'پنجار' جیسی کہانیاں ادب کے کینوس پر اتریں. 

برصغیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں زہین عورت مردانگی کے لئے دھمکی سمجھی جاتی ہے، لیکن اسی خطے میں ایک امرتا پریتم بھی تھیں جنہوں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری. امرتا جی نے کبھی بھی اپنے عشق کو کسی پردے میں قید کر کے نہیں رکھا، نہ اپنے جذبات کی عکاسی میں کوئی شرمندگی محسوس کی.

امرتا پریتم نے اپنی عورت اور ادیب دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا. چاہے وہ ساحر کی محبّت میں لکھے گئے سنھڑے ہوں، یا امروز کی مستقل رفاقت، امرتا جی نے کبھی بھی خود سے بغاوت نہیں کی نہ ہی زمانے کو باتیں کرنے کی تسّلی دی. 
لکھاری تھیں تو خود بھی کھلی کتاب بن کر زندگی جی !

جب میں آج کل کی خواتین ادیب کو دیکھتی یا پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ خوف کیوں ہے ان کے الفاظوں میں، کہانیوں میں، کرداروں میں. کہاں ہے وہ نڈر عورت جو بلا خوف و خطراپنے وجود اور اسکی آزادی کا پرچار کرے. کہاں ہے عورت جس کی پہچان کسی رشتے کی محتاج نہیں، کسی بندھن کی باندی نہیں.

امرتا پریتم اپنے اور آنے والے تمام وقتوں کے انسانوں کی مشعل ہیں، اور اس مشعل کو ساتھ لے کر چلنے والے کا نام ہے 'امروز'. 

امروز، امرتا جی کی زندگی کا وہ کردار ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب آپ کسی سے عشق کرتے ہیں تو اس کے عشق سمیت اسکو اپناتے ہیں. 


امرتا جی کے ١٠٠ سال کو انہی کے الفاظ میں یاد کروں گی:
"جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پڑے، سمجھ لینا وہی میرا گھر ہے."

کاش پھر کوئی "امرتا" پیدا ہو اور زمین کا وجود سیراب کردے!




  


Aug 30, 2019

تقریر پہ تقریر، بیچارہ کشمیر

Originally published here HumSub


اگر خود کے باغ میں آپ پھول پودے نہ اگا سکیں تو پڑوس والوں کو باغبانی کا مشورہ نہیں دینا چاہیے!
کشمیر میں لگے کرفیو کو تقریباً سولہ دن ہونے کو آئے ہیں، اور کشمیریوں کی آواز اس وقت دنیا کے ہر کونے میں سنائی دی جا سکتی ہے۔ دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لے کر امریکا میں مقیم کشمیری، تمام لوگ آرٹیکل 370 کو لے کر سرتاپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کوئی چار روز پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 1947 سے چلا آرہا ہے اور جانے کب تک چلے۔ اس دوران مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مسائل اور مظالم صرف اور صرف وہ جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں یا جن کے پیارے وہاں موجود ہیں۔ میں، آپ، یا کوئی بھی تیسرا جس کو براہ راست اس صورتحال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ کشمیر پراپنی آواز اٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اچھی طرح سوچ لے۔

ہمیں اپنے وزیر اعظم کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، خصوصی طور پر ان کی تقاریر پر۔
دو روز پہلے خان صاحب نے سرکاری سطح پر آ کر کوئی بائیس منٹ قوم سے خطاب کیا جس کا مرکز کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت تھی۔ جس روز یہ تقریر نشر ہوئی ہے، اسی دن فرانس میں G 7 سمٹ ہو رہا تھا، جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر گفتگو کر رہے تھے۔
جہاں پاکستان کو ملک ملک جا کر کشمیر کے لئے جگانا پڑ رہا تھا، وہیں بھارت اپنی معاشی اور سماجی استحکام کی بنیاد پر G 7 میں اپنا موقف رکھ چکا تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے وقت میں کون اس کے ساتھ ہے۔

تقریر میں خان صاحب نے کہا کہ آج بھلے کوئی ہمارے ساتھ نہ ہو، لیکن کل ہوں گے ۔ انہوں نے بوسنیا کی مثال دے کر کہا، تب بھی دنیا بالاخر بوسنیا کی مدد کو آگئی تھی۔ جناب والا، مدد اور آواز تب پہنچی تھی جب بوسنیا کی نسل کشی اپنے اختتام پر تھی۔ گھر لٹ چکے تھے، عزتیں پامال ہو چکی تھیں، اورکئی نسلوں کا خون جم چکا تھا۔
کیا امّت مسلمہ بھی تب جاگے گی جب کشمیر کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہوگی؟
یا شاید کشمیر کو امّت کے کھوکھلے وجود کی ضرورت ہی نہیں۔ کشمیر تو انصاف اور خودمختاری کی تلاش میں ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے لئے آسان ہے شاہ رخ خان، پریانکا چوپڑا یا کسی بھی اداکار پر انگلی اٹھانا۔ ایسا نہیں کے ان کا اخلاقی فرض نہیں ہے لیکن اداکار، فنکار لوگوں کے ہاتھ میں فیصلہ سازی نہیں ہے، وہ طاقت نہیں ہے جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارت کے پاس ہے، یا روس کے پاس ہے۔
کیا ان میں سے کسی ملک نے آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملائی؟
کیا آپ بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں؟
اس تقریر کی شروعات میں وزیر اعظم نے کہا، بھارت کو سوچنا چاہیے تھا پلوامہ حملہ کیوں ہوا؟ کیوں ایک نوجوان نے خود کو بم سے اڑا لیا؟
خان صاحب، یہی سوال اگر آپ سے کل کو اپنے لوگ کردیں تو؟ کیا جواب دیں گے آپ بلوچ نوجوانوں کو؟ کیا آپ اتنی ہی نرمی پشتون نوجوانوں کے لئے دکھائیں گے؟ کیا آپ ماروائے عدالت قتل ہونے والے مہاجر سے یہ پوچھیں گے؟
نہیں پوچھ سکتے!
دوسرے پر ایک انگلی اٹھانے کا مطلب ہے، چار آپ کی طرف ہیں۔

خان صاحب نے ریفرنڈم کا بھی ذکر کیا کہ کیسے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی بنیاد پر آزادی ملی تھی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لفظ ریفرنڈم کا ذکر کرنے سے پہلے تھوڑا اغل بغل جھانک لیں۔ اگر آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان نے بھی ہاتھ اٹھا لیا تو ہم تو سیاحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کشمیر میں جو ہورہا ہے وہ غلط ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
ہمیں ان کے لئے بحیثیت انسان آواز اٹھانی چاہیے، نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ آپ کشمیر کے سفیر ہیں۔ کشمیر، اور دنیا بھر کے کشمیری اپنی زمین کے سفیر خود ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے جب وہ کشمیر کے احتجاجی مظاہروں میں جائیں تو اپنا جھنڈا نہ لہرائیں۔ ان کی آواز میں اپنی آواز ملائیں۔

”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ لگانے سے پہلے پوچھ لیں کیا انہیں پاکستان قبول ہے؟
خدارا، آپ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے آگے نہیں۔ کشمیری جانتے ہیں انہیں کیا چاہیے۔ انہیں پاکستان سے ہدایت نامہ نہیں چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی استحکامی کی جانب کام کرنا ہوگا جس کی بنیاد پرہی باقی ممالک سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے اور پاکستان کی آواز سنی جائےگی۔ پاکستان نے یقیناً متحدہ اقوام سیکورٹی کونسل تک کشمیر کا مسئلہ اٹھایا لیکن کوئی حل نہ نکل سکا، اس لئے اسے کسی بھی قسم کی کامیابی سمجھنا بیوقوفی ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لانے کا سہرا صرف پاکستان کے سر نہیں جا سکتا۔ یہ نا انصافی ہوگی ان ہزاروں کشمیریوں، اور باقی قومیتوں کے ساتھ جنہوں نے ہر ممکنہ جگہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر آواز اٹھائی۔ یہ غلط ہوگا ان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ جنہوں نے بھرتی حکومت کے سامنے آواز اٹھائی اوراب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
تقریر کا سب سے اہم حصّہ ”کھڑا ہونا“ تھا۔
ٹانگ اڑانے کے لئے ضروری ہے ٹانگوں کا مضبوط ہونا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام پاکستانی جمعے کو بوقت زوال تیس منٹ کشمیر کے مسئلے کے لئے کھڑے ہوں گے ۔
اگر آئنسٹائن یا نیوٹن زندہ ہوتے تو خان صاحب کے تجویزکردہ حل کی منطق پر دھیان کرتے۔ چونکہ وہ نہیں ہیں اور ہمارے پاس اتنا دماغ نہیں ہے اس لئے ہم صرف کشمیر کے حق میں دعا کر سکتے ہیں اور ان کے ہم آواز بن سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی امید کر سکتے ہیں کہ بھارت جمہوریت کا اطلاق کرے، حب الوطنی کا نہیں!