Originally published here HumSub
پچھلے کچھ سالوں میں موسم کی تبدیلی کے باعث، کراچی میں بارش کا آنا جانا بس اتنا ہی تھا، جتنا ہمارے وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں ہے.
دوسرے صوبے کے یار دوست کہتے تھے، تم کراچی والوں کے ہاں بارش نہیں مذاق ہوتا ہے. لاہور کی ایک مشہور ماڈل نے بھی سال رواں کی لاہوری بارش کے بعد ہمیں کہا کہ کراچی میں اتنی بارش نہیں ہوتی جتنی ہم اپنی سبزی پر چھڑکاؤ کرلیتے ہیں.
قدرت کو یہ مزاق پسند نہ آیا!
موجودہ ہفتے میں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال نے آپس میں ہی صلح مشورہ کر کے کراچی شہر کو ٥٠ملی میٹر سے اوپر کی بارش دے ڈالی.
ہماری والدہ ماجدہ کو آدھا بنگالی ہونے کی وجہ سے قدرت کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کرخدا سے دعا مانگی کہ دل کھول کر بادل برسیں.
خدا نے میری ماں کی اور کوئی دعا سنی ہو یا نہ سنی ہو، یہ والی لمحوں میں قبول کرلی.
شروع شروع میں تو دھلے دھلے درخت، سرمئی چادر لپیٹے آسمان بلکل اسلام آباد کا سا سماں پیش کر رہا تھا. ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارا کراچی ہے!
ہمیں یقین دلانے کی ذمہ داری ذاتی طور پر کے-الیکٹرک نے لے لی اور ہم جو پنکھے کے نیچے آرام فرما تھے، بجلی والوں کو ان کے گھر والوں کی یاد دلاتے ہوئے اٹھ بیٹھے.
صبح کے ١٠ بجے تک یہ طے ہو چکا تھا کے آج برتن دھونے سے لے کر کھانا پکانے تک تمام کام گھر والوں کو ہی کرنے پڑیں گے.
اماں حضور کو اپنی دعا کے غلط اثرات بجلی اور گھریلو مدد کی صورت میں دکھنا شروع ہوگئے تھے. چار و ناچار انہوں نے تمام کام منصفانہ طریقے سے بانٹ کر بجلی بحال ہونے کا انتظار شروع کردیا.
کے-الیکٹرک نے صدیوں پرانی مہارت دکھاتے ہوئے اپنی ہیلپ لائن بند کردی اور صارفین پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سوچ لیں بجلی کب اپنا منہ دکھاے گی. خدا جھوٹ نہ بلائے، کمبخت منہ موڑ کر ہی بیٹھی رہی. قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ہمارا جنریٹر خراب تھا اور دماغ بھی کیوںکہ کسی کو بنوانے کا خیال نہیں تھا.
بہرحال ہم نے کچھ نہ کچھ انتظام کر کہ دن اور رات کاٹ لئے.
مولا کا کرم کہہ لیں کہ ہم اس طبقے سے ہیں جہاں تو نہ گھر کے اندر باڑھ آئی نہ چھت گری، اور نہ ہی کوئی بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا.
اب تک کی خبروں کے مطابق، طوفانی بارشوں کے باعث کراچی میں ١٤ اموات ہو چکی ہیں، جس میں ٦ بچے بھی شامل ہیں. بچوں کو کیا خبر کے ایسی طوفانی بارش غربت کا مذاق اڑانے آتی ہے، اور ساتھ انھیں بھی لے اڑتی ہے.
روز کی دیہاڑی والے گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں. کچی آبادی والے اپنے تمام برتن ٹپکتی ہوئی چھتوں سے لگا دیتے ہیں. بیمار کی چارپائی کے پاس کوئی گھر والا پنکھا جھلتا ہے اور باقی کے گھر والے بارش سے بنتی لہروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں لیکن پھر روکتے ہیں.
لیکن ان سب سے بھی جو بدتر ہیں، وہ ہیں بے گھر خاندان!
چند ہفتے پہلے ہی تقریباً ہزاروں کے قریب خاندان کوسپریم کورٹ کے احکام پر بے-گھر کیا گیا تاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا علاقہ خالی ہو سکے. کورٹ کے مطابق گھروں کو ١٥ دن میں مسمار کردیا جائے جب کہ ان کی متبادل رہائش کا انتظام ایک سال میں کیا جائے. کوئی اداروں سے پوچھے یہ خاندان ایک سال تک ہوا میں معلق رہیں گے یا آپ اپنے دروازے ان پر کھول دیںگے؟
میرے شہر کی معیشت اور بلدیاتی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم بارش کی دعا مانگیں. ہمیں ابر کے برسنے سے زیادہ اس کے لئے ترسنے میں فائدہ ہے. سورج ظالم تو ہے لیکن عزت ڈھانک کر رکھتا ہے. کھلے آسمان تلے بھیگنے کا یا کرنٹ سے مرنے کا خوف بھی نہیں رہتا. روز کی کمائی گھر آجاتی ہے اور بچے بھی گلی میں کھل کود کر واپس لوٹ جاتے ہیں.
خدا کی رحمت، غریب کے لئے زحمت ہی ہوتی ہے اور یہ بات مجھ یا آپ جیسے بھرے پیٹ اور پکّی چھت والوں کے سمجھ میں نہیں آئے گی!
0 comments:
Post a Comment