Showing posts with label HumSub. Show all posts
Showing posts with label HumSub. Show all posts

May 11, 2020

تئیس ہزار کا دوپٹہ، تین ٹکے کی غربت

 Originally published here HumSub

چند روز پہلے، سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹ نے کافی شور مچا رکھا تھا جس میں درخت کی شاخ پر دو دوپٹے لہرا رہے تھے. عمومی طور پر شاخ پر الّو بیٹھتا ہے لیکن یہاں الّو بنانے والے دوپٹے تھے.

  
اس ٹوئیٹ کو لکھنے والے خود بھی ایک بہترین فوٹوگرافر ہیں اور انہوں نے نہ صرف دوپٹے کی قیمت پر ہم غریبوں کا دھیان کروایا بلکہ یہ بھی بتلایا کہ یہ کس قسم کی تصاویر ہیں. مجھے لگتا ہے اوسط درجے سے نیچے کی ہونگی کیوںکہ الّو کی آرامگاہ کو آپ نے ململ کے دوپٹے کی آماجگاہ بنا دیا. 

خیر، بندر کیا جانے ادرک کا سواد!

ہم ٹھہرے مڈل کلاس اور ہمارے پاس اس دور میں اگر اضافی ٢٠ ہزار آ بھی جاتے تو ہم اسے درخت پر لٹکانے کے بجاۓ کسی غریب کا راشن ڈلوا دیتے، کرایہ دے دیتے، بل یا فیس بھروا دیتے. 

پہلے پہل ہمیں لگا کہ کون اس قسم کے واہیات مہنگے دوپٹے خریدے گا جن میں نہ تو سونے کے تار کا کام ہے، نہ فیروزے یاقوت کا جڑاؤ ! جب آس پاس دیکھا تو پتہ چلا پاکستانی قوم جوش و خروش سے عید منانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کیوںکہ موسم گرما ہے تو ایسے جا بجا ڈیزائنر ہیں جو ململ اور سوتی کی قمیضیں ہزاروں میں بچ رہے ہیں اور خواتین لہک لہک کر خرید بھی رہی ہیں.

غلطی سے ایسی ہی ایک خاتون کو ہم نے عادت سے مجبور ہو کر ٹوک دیا کہ دور خراب ہے، وبا پھیلی ہوئی ہے، لوگوں کے پاس اگلے وقت کا کھانا نہیں ہے، تو وہ کیوں ١٥ ہزار کا جوڑا لے رہی ہیں؟ جواب آیا انہوں نے اپنے حصّے کی زکوة اور فلاحی کام انجام دے لئے ہیں.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اپنے حصّے کا فلاحی کام کردینا کافی ہے؟ کیا اصراف کی کوئی پوچھ نہیں ہے؟ کیا ہم ایک سال عید پر بنا نئے جوڑے کے نہیں رہ سکتے؟

دسمبر ٢٠١٩ میں،ماہراقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان جون ٢٠٢٠ تک غربت کی چالیس فیصد سے اوپر کی سطح پر موجود ہوگا. اس کے نتیجے میں تقریباً ستاسی ملین لوگ غربت کی زندگی گزاریں گے. یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجزیہ نگاری، کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے کی ہے. 

اس عالمی وبا سے تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی حالت شدید کمزور ہوگئی ہے. آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Ian Golding کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ہماری زندگی کی سب سے بڑی آفت ہوگی جس کا براہ راست اثر ترقی پذیر ممالک پہ ہوگا. خصوصی طور پروہاں رہنے والوں کی صحت اور معاشی حالت اثر انداز ہوگی.  


اس وقت ملک میں جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن کو کھولنے کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس سے ہونے والے نقصانات کا بھی ذکر ہے. ان سب کے بیچ آپ کو ملے گا سرمایہ دار نظام اور مادیت پسندی!

کورونا وائرس کے نتیجے میں بازار بند ہونے کے باعث تمام برانڈز اور ڈیزائنر نے آن لائن شاپنگ میں شدید تیزی پیدا کردی ہے. عام دنوں میں مارچ اپریل کے مہینے میں Spring/Summer Vol. 1 آیا کرتا تھا جو اس بار بھی آیا لیکن تیس سے چالیس فیصد چھوٹ کے ساتھ! جو پیسے عوام نے سیل کے نام پر وہاں بچاۓ، وہ اب عید کے جوڑوں پر خرچ ہونگے. 

پچیس ہزار، اٹھارہ ہزار، اور کم سے کم گیارہ ہزار کے عید کے جوڑے دیکھے گئے ہیں جو لوگ آرڈر بھی کر رہے ہیں، سلوا بھی رہے ہیں، اور یقیناً عید پر پہنے بھی جائیں گے. اب دیکھیں نا غریب ویسے بھی پچیس ہزار کا کیا کرے گا؟ وہ تو بمشکل روز کا آٹھ سو یا ہزار کما لیتا تھا. 

آپ لوگ امیروں سے جلتے ہیں. اب دیکھیں اگر آپ نے بھی کسی غریب کا حق مارا ہوتا، کم سے کم اجرت پر مزدوریاں، کاری گری کروائی ہوتی، تازہ کی جگہ جھوٹا کھانا دیا ہوتا، کم عمر سے گھر کا جھاڑو پوچھا لگوایا ہوتا تو آج آپ بھی پچیس چھوڑیں، پینتیس ہزار کا جوڑا پہنتے!  

دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں. ہمارے سیاسی، معاشی، مذہبی، یا فقہی اختلافات کرونا وائرس کی وبا کے آگے بے معنی ہیں. غربت جرائم کو جنم دیتی ہے. اس لئے بہتر ہوگا، ہم غربت کی نشونما کا حصّہ نہ بنیں اور اپنی دولت اور آمدن کو مساوات کے ساتھ استعمال کریں.......اس تئیس ہزار کے دوپٹے کو کسی کی موت اور بھوک کا پھندا بننے کا موقع نہ دیں. 


Sep 1, 2019

تاریخ عزاداری

Originally published here HumSub


یوں تڑپتے ہیں محرم کے لئے اہل عزا
حبس میں جیسے کوئی تڑپے ہوا کے واسطے
                                               (ماخوز) 

لغوی بیانیے کے مطابق لفظ عزاداری فارسی کا ہے جس کے معنی سوگواری یا غم منانے کے ہیں. عام طور پر آپ سنیں گے کہ مجلس، ماتم، اور عزاداری جیسی روایت نئی نویلی ہیں اور ان کا تاریخ سے یا  مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے.

سچ تو یہ ہے کہ، اسلام کا سیاسی رخ بدلنے اور بنانے میں سب سے بڑا واقعہ، واقعہ کربلا ہے. یہ وہ سانحہ ہے جس نے صحیح اور غلط، حق و باطل، سیاہ و سفید، ظالم و ملزوم، اور ایسی تمام تفریق کو میدان کربلا کے پلڑے میں کھڑا کردیا. یوں تا قیامت، بنی آدم کے لئے اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوگئی. 

بعد از کربلا، تقریباً ایک سال کے بعد جب اسیران شام کی رہائی ہونے جارہی تھی، تب یزید نے حضرت زینبؑ سے پوچھا اگر بی بی کی وقت رخصت کوئی خواھش ہو. بی بی زینب نے فرمایا کہ جنگ کے بعد انہیں اپنے پیاروں کی بے درد شہادت پر رونے اور گریہ و زاری کا موقع نہیں ملا. 

یوں زینبؑ بنت علیؑ نے تاریخ میں پہلی عزاداری براۓ کربلا کی بنیاد رکھی!

١٠ محرم، روز عاشور جب امام حسینؑ نے "ھل من الناصر؟" کی صدا لگائی تھی توکوئی نہیں آیا تھا اور امام نے اپنے خاندان، صحابہ، اور ناصرین کے ساتھ یہ جنگ اکیلے لڑی. 

اس روز کے بعد، مسلمان بلخصوص شیعہ مسلمان عزاداری حسین کا اہتمام کرتے ہیں اور زمانے میں ہونے والی ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف یک آواز ہوتے ہیں. ساتھ ہی ساتھ محرم کا پہلا عشرہ اور اس میں ہونے والی مجالس، کائنات کے لئے یاد دہانی ہیں کہ واقعہ کربلا کیا تھا، کیوں تھا،اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا. 

یتزاک نکاش، شیعہ تاریخ کے ماہرین میں سے ہیں اور انکی ریسرچ کے مطابق بی بی زینبؑ کے بعد بھی عزاداری حسین کا سلسلہ جاری تھا. خلافت امّید کے دوران عزاداری کا رواج خاموش اور ایک طرح سے تقیے کی نظر تھا. تمام مجالس و گریہ امام یا ان کے شعیوں کے گھر منعقد ہوتی تھیں. عباسی خلافت کے دوران یہ مجالس کچھ عرصہ کھلے عام ہوئیں.

لفظ عزا الحسین  کا تریقتاً استعمال پہلی بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے دور میں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے جد کو رونے والی مجلس کی میں تائید کرتا ہوں. 

پیٹر چیلکووسکی نیو یارک جامعہ سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ و حالات پر عبور رکھتے ہیں. انہوں نے اپنے ایک ریسرچ جرنل میں بیان کیا ہے کہ عزاداری کا پہلا سرکاری درجے کا واقعہ چوتھی صدی میں، سلطان معیز الدین دولہ کے دور میں پیش آیا تھا. تب بازار و دفاتر بینڈ ہوتے تھے اور روز عاشور عزاداری بپا ہوتی تھی.

دوسری طرف جے.کلمرڈ نے اپنے مذہبی مقالے میں لکھا ہے کہ ایران میں عزاداری اور ماتم کی روایت بارہویں صدی میں زور پکڑ گئی، اور سفوید خلافت کے دوران اسکو بھی سرکاری درجے پر لایا گیا.  

تیمور لنگ کا دور آیا اور عزاداری کا دائرہ جغرافیہ فارس اور عراق سے نکل کر سمرقند، بخارہ، اور آگے تک آگیا. ہم یہاں صرف تاریخ عزاداری کا بیان کر رہے ہیں تو ان ادوار اور بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی رجحانیت کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا. 

برصغیر میں یوں تو حوالہ ہے کہ سندھ میں جب عرب بسنا شروع ہوئے تو عزاداری کا اہتمام ہوا، مگر اس عزاداری کی صحیح ساعت لکھنؤ سے ہوئی جہاں آج بھی سب سے بڑا مرکزی جلوس روز عاشور نکلتا ہے. مرثیہ کی روایت یوں تو امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے ہے لیکن اردو میں مرثیے کو روح بخشنے کا سہرا لکھنؤ کے سر جاتا ہے.

اٹھارویں صدی نے لکھنؤ کو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیہ لکھنے والوں سے نوازا جیسے میر انیس، مرزا دبیر، اورعلی حیدر طباطبائ وغیرہ. 
لکھنؤ کی عزاداری نے برصغیر میں امام حسین کے غم کو آگے بڑھایا اور تبلیغ کی صورت پھیلا دیا. 

١٩٣٠میں مولانا سبط حسن وہ پہلے مولانا تھے جنہوں نے لکھنؤ میں عزاداری کو لیکچر کی شکل دی جو آج تک تمام مجالس میں دوہرائی جاتی ہے. مولانا کے اس طریقت میں پہلے سلام، پھر مرثیہ، پھر ذاکر کا بیان جو فضائل اور مصائب پر مبنی ہوتا ہے، اور سب سے آخر میں نوحہ خوانی ہوتی ہے. 

عزاداری نے بیسویں صدی میں جو نیا رخ لیا اس سے شیعہ مسلمانوں کو پیغام حسینی اور مقصد حسینی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی. یہ ایک ایسی تبلیغ کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ جو چاہے آ کر بیٹھے، سنے، سوال پوچھے، سمجھے، بلا تفریق!

محرم میں ہونے والی عزاداری دراصل ایک یاد دہانی ہے ہر زی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں؛ یا حسینی یا یزیدی. ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، دشمن بہت دوست کوئی کوئی ہوگا.


انسان  کو   بیدار  تو  ہو   لینے   دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں 'حسین' 

  

Aug 31, 2019

بارش، بجلی، اور غریب

Originally published here HumSub

پچھلے کچھ سالوں میں موسم کی تبدیلی کے باعث، کراچی میں بارش کا آنا جانا بس اتنا ہی تھا، جتنا ہمارے وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں ہے. 
دوسرے صوبے کے یار دوست کہتے تھے، تم کراچی والوں کے ہاں بارش نہیں مذاق ہوتا ہے. لاہور کی ایک مشہور ماڈل نے بھی سال رواں کی لاہوری بارش کے بعد ہمیں کہا کہ کراچی میں اتنی بارش نہیں ہوتی جتنی ہم اپنی سبزی پر چھڑکاؤ کرلیتے ہیں. 

قدرت کو یہ مزاق پسند نہ آیا!

موجودہ ہفتے میں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال نے آپس میں ہی صلح مشورہ کر کے کراچی شہر کو ٥٠ملی میٹر سے اوپر کی بارش دے ڈالی. 

ہماری والدہ ماجدہ کو آدھا بنگالی ہونے کی وجہ سے قدرت کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کرخدا سے دعا مانگی کہ دل کھول کر بادل برسیں.
خدا نے میری ماں کی اور کوئی دعا  سنی ہو یا نہ سنی ہو، یہ والی لمحوں میں قبول کرلی.

شروع شروع میں تو دھلے دھلے درخت، سرمئی چادر لپیٹے آسمان بلکل اسلام آباد کا سا سماں پیش کر رہا تھا. ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارا کراچی ہے!
ہمیں یقین دلانے کی ذمہ داری ذاتی طور پر کے-الیکٹرک نے لے لی اور ہم جو پنکھے کے نیچے آرام فرما تھے، بجلی والوں کو ان کے گھر والوں کی یاد دلاتے ہوئے اٹھ بیٹھے. 

صبح کے ١٠ بجے تک یہ طے ہو چکا تھا کے آج برتن دھونے سے لے کر کھانا پکانے تک تمام کام گھر والوں کو ہی کرنے پڑیں گے. 
اماں حضور کو اپنی دعا کے غلط اثرات بجلی اور گھریلو مدد کی صورت میں دکھنا شروع ہوگئے تھے. چار و ناچار انہوں نے تمام کام منصفانہ طریقے سے بانٹ کر بجلی بحال ہونے کا انتظار شروع کردیا. 

کے-الیکٹرک نے صدیوں پرانی مہارت دکھاتے ہوئے اپنی ہیلپ لائن بند کردی اور صارفین پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سوچ لیں بجلی کب اپنا منہ دکھاے گی. خدا جھوٹ نہ بلائے، کمبخت منہ موڑ کر ہی بیٹھی رہی. قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ہمارا جنریٹر خراب تھا اور دماغ بھی کیوںکہ کسی کو بنوانے کا خیال نہیں تھا. 
بہرحال ہم نے کچھ نہ کچھ انتظام کر کہ دن اور رات کاٹ لئے.

مولا کا کرم کہہ لیں کہ ہم اس طبقے سے ہیں جہاں تو نہ گھر کے اندر باڑھ آئی نہ چھت گری، اور نہ ہی کوئی بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا. 

اب تک کی خبروں کے مطابق، طوفانی بارشوں کے باعث کراچی میں ١٤ اموات ہو چکی ہیں، جس میں ٦ بچے بھی شامل ہیں. بچوں کو کیا خبر کے ایسی طوفانی بارش غربت کا مذاق اڑانے آتی ہے، اور ساتھ انھیں بھی لے اڑتی ہے. 

روز کی دیہاڑی والے گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں. کچی آبادی والے اپنے تمام برتن ٹپکتی ہوئی چھتوں سے لگا دیتے ہیں. بیمار کی چارپائی کے پاس کوئی گھر والا پنکھا جھلتا ہے اور باقی کے گھر والے بارش سے بنتی لہروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں لیکن پھر روکتے ہیں.

لیکن ان سب سے بھی جو بدتر ہیں، وہ ہیں بے گھر خاندان!

چند ہفتے پہلے ہی تقریباً ہزاروں کے قریب خاندان کوسپریم کورٹ کے احکام پر  بے-گھر کیا گیا تاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا علاقہ خالی ہو سکے. کورٹ کے مطابق گھروں کو ١٥ دن میں مسمار کردیا جائے جب کہ ان کی متبادل رہائش کا انتظام ایک سال میں کیا جائے. کوئی اداروں سے پوچھے یہ خاندان ایک سال تک ہوا میں معلق رہیں گے یا آپ اپنے دروازے ان پر کھول دیںگے؟ 

میرے شہر کی معیشت اور بلدیاتی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم بارش کی دعا مانگیں. ہمیں ابر کے برسنے سے زیادہ اس کے لئے ترسنے میں فائدہ ہے. سورج ظالم تو ہے لیکن عزت ڈھانک کر رکھتا ہے. کھلے آسمان تلے بھیگنے کا یا کرنٹ سے مرنے کا خوف بھی نہیں رہتا. روز کی کمائی گھر آجاتی ہے اور بچے بھی گلی میں کھل کود کر واپس لوٹ جاتے ہیں. 

خدا کی رحمت، غریب کے لئے زحمت ہی ہوتی ہے اور یہ بات مجھ یا آپ جیسے بھرے پیٹ اور پکّی چھت والوں کے سمجھ میں نہیں آئے گی!
    

Aug 30, 2019

تقریر پہ تقریر، بیچارہ کشمیر

Originally published here HumSub


اگر خود کے باغ میں آپ پھول پودے نہ اگا سکیں تو پڑوس والوں کو باغبانی کا مشورہ نہیں دینا چاہیے!
کشمیر میں لگے کرفیو کو تقریباً سولہ دن ہونے کو آئے ہیں، اور کشمیریوں کی آواز اس وقت دنیا کے ہر کونے میں سنائی دی جا سکتی ہے۔ دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لے کر امریکا میں مقیم کشمیری، تمام لوگ آرٹیکل 370 کو لے کر سرتاپا احتجاج ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کوئی چار روز پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 1947 سے چلا آرہا ہے اور جانے کب تک چلے۔ اس دوران مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مسائل اور مظالم صرف اور صرف وہ جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں یا جن کے پیارے وہاں موجود ہیں۔ میں، آپ، یا کوئی بھی تیسرا جس کو براہ راست اس صورتحال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ کشمیر پراپنی آواز اٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اچھی طرح سوچ لے۔

ہمیں اپنے وزیر اعظم کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، خصوصی طور پر ان کی تقاریر پر۔
دو روز پہلے خان صاحب نے سرکاری سطح پر آ کر کوئی بائیس منٹ قوم سے خطاب کیا جس کا مرکز کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت تھی۔ جس روز یہ تقریر نشر ہوئی ہے، اسی دن فرانس میں G 7 سمٹ ہو رہا تھا، جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر گفتگو کر رہے تھے۔
جہاں پاکستان کو ملک ملک جا کر کشمیر کے لئے جگانا پڑ رہا تھا، وہیں بھارت اپنی معاشی اور سماجی استحکام کی بنیاد پر G 7 میں اپنا موقف رکھ چکا تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے وقت میں کون اس کے ساتھ ہے۔

تقریر میں خان صاحب نے کہا کہ آج بھلے کوئی ہمارے ساتھ نہ ہو، لیکن کل ہوں گے ۔ انہوں نے بوسنیا کی مثال دے کر کہا، تب بھی دنیا بالاخر بوسنیا کی مدد کو آگئی تھی۔ جناب والا، مدد اور آواز تب پہنچی تھی جب بوسنیا کی نسل کشی اپنے اختتام پر تھی۔ گھر لٹ چکے تھے، عزتیں پامال ہو چکی تھیں، اورکئی نسلوں کا خون جم چکا تھا۔
کیا امّت مسلمہ بھی تب جاگے گی جب کشمیر کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہوگی؟
یا شاید کشمیر کو امّت کے کھوکھلے وجود کی ضرورت ہی نہیں۔ کشمیر تو انصاف اور خودمختاری کی تلاش میں ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے لئے آسان ہے شاہ رخ خان، پریانکا چوپڑا یا کسی بھی اداکار پر انگلی اٹھانا۔ ایسا نہیں کے ان کا اخلاقی فرض نہیں ہے لیکن اداکار، فنکار لوگوں کے ہاتھ میں فیصلہ سازی نہیں ہے، وہ طاقت نہیں ہے جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارت کے پاس ہے، یا روس کے پاس ہے۔
کیا ان میں سے کسی ملک نے آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملائی؟
کیا آپ بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں؟
اس تقریر کی شروعات میں وزیر اعظم نے کہا، بھارت کو سوچنا چاہیے تھا پلوامہ حملہ کیوں ہوا؟ کیوں ایک نوجوان نے خود کو بم سے اڑا لیا؟
خان صاحب، یہی سوال اگر آپ سے کل کو اپنے لوگ کردیں تو؟ کیا جواب دیں گے آپ بلوچ نوجوانوں کو؟ کیا آپ اتنی ہی نرمی پشتون نوجوانوں کے لئے دکھائیں گے؟ کیا آپ ماروائے عدالت قتل ہونے والے مہاجر سے یہ پوچھیں گے؟
نہیں پوچھ سکتے!
دوسرے پر ایک انگلی اٹھانے کا مطلب ہے، چار آپ کی طرف ہیں۔

خان صاحب نے ریفرنڈم کا بھی ذکر کیا کہ کیسے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی بنیاد پر آزادی ملی تھی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لفظ ریفرنڈم کا ذکر کرنے سے پہلے تھوڑا اغل بغل جھانک لیں۔ اگر آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان نے بھی ہاتھ اٹھا لیا تو ہم تو سیاحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کشمیر میں جو ہورہا ہے وہ غلط ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
ہمیں ان کے لئے بحیثیت انسان آواز اٹھانی چاہیے، نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ آپ کشمیر کے سفیر ہیں۔ کشمیر، اور دنیا بھر کے کشمیری اپنی زمین کے سفیر خود ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے جب وہ کشمیر کے احتجاجی مظاہروں میں جائیں تو اپنا جھنڈا نہ لہرائیں۔ ان کی آواز میں اپنی آواز ملائیں۔

”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ لگانے سے پہلے پوچھ لیں کیا انہیں پاکستان قبول ہے؟
خدارا، آپ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے آگے نہیں۔ کشمیری جانتے ہیں انہیں کیا چاہیے۔ انہیں پاکستان سے ہدایت نامہ نہیں چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی استحکامی کی جانب کام کرنا ہوگا جس کی بنیاد پرہی باقی ممالک سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے اور پاکستان کی آواز سنی جائےگی۔ پاکستان نے یقیناً متحدہ اقوام سیکورٹی کونسل تک کشمیر کا مسئلہ اٹھایا لیکن کوئی حل نہ نکل سکا، اس لئے اسے کسی بھی قسم کی کامیابی سمجھنا بیوقوفی ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لانے کا سہرا صرف پاکستان کے سر نہیں جا سکتا۔ یہ نا انصافی ہوگی ان ہزاروں کشمیریوں، اور باقی قومیتوں کے ساتھ جنہوں نے ہر ممکنہ جگہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر آواز اٹھائی۔ یہ غلط ہوگا ان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ جنہوں نے بھرتی حکومت کے سامنے آواز اٹھائی اوراب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
تقریر کا سب سے اہم حصّہ ”کھڑا ہونا“ تھا۔
ٹانگ اڑانے کے لئے ضروری ہے ٹانگوں کا مضبوط ہونا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام پاکستانی جمعے کو بوقت زوال تیس منٹ کشمیر کے مسئلے کے لئے کھڑے ہوں گے ۔
اگر آئنسٹائن یا نیوٹن زندہ ہوتے تو خان صاحب کے تجویزکردہ حل کی منطق پر دھیان کرتے۔ چونکہ وہ نہیں ہیں اور ہمارے پاس اتنا دماغ نہیں ہے اس لئے ہم صرف کشمیر کے حق میں دعا کر سکتے ہیں اور ان کے ہم آواز بن سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی امید کر سکتے ہیں کہ بھارت جمہوریت کا اطلاق کرے، حب الوطنی کا نہیں!

Jun 27, 2019

‘کبیر سنگھ’ میں وہ سب کچھ ہے جو محبت میں نہیں ہونا چاہیے

Originally published here HumSub

اگر میں ١٩ سال کی ہوتی تو "کبیر سنگھ" میرا خواب ہوتا !
خوش قسمتی سے اب میں کافی زیادہ عاقل و بالغ ہو چکی ہوں.

"کبیر سنگھ" اپنی تمام تر رجعت پسندی کے باوجود ایک ایسی فلم ہے جو آج بھی کئی لوگوں کو پسند آئے گی. یہ ایسی فلم ہے جس میں شدّت، محبّت پر غالب ہے. 
بر صغیر میں عشق، محبّت، جنوں تب تک مکمّل نہیں سمجھے جاتے جب تک ان میں پاگل پین کا عنصر شامل نہ ہو.



فلم "کبیر سنگھ" میں محبّت اندھی ہی نہیں، بلکہ اچھی خاصی گونگی بھی ہے. محبّت کا نام ہے پریتی سکا اور فلم کے زیادہ تر حصّے میں انہوں نے منہ کو مسکراہٹ کا تالا ڈالا ہوا ہے. ایسی کچی عمر کی دوشیزائیں آپ کو آسانی سے کالج/یونیورسٹی میں مل جائیں گی.

ایسے ہی تھوڑی "کبیر سنگھ" باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے!

فلم میں ویسے تو بہت کچھ غلط ہے لیکن جو سب سے غلط ہے وہ ہے محبّت کو ملکیت سمجھنا.

ہندوستان پاکستان میں لڑکی کو ویسے ہی "چیز" سمجھتے ہیں، سونے پر سہاگہ اسکو "کبیر سنگھ" جیسا مالک چاہیے. 

میرا آپ کو مشورہ ہے، وہ بھی بلکل مفت، کہ آپ کو ذرا سا بھی شک ہوآپ کا بوائے فرینڈ کبیر سنگھ جیسی شخصیت کا حامل ہے تو جان اور عزت دونوں بچا کر بھاگ جایئں. ایسے مرد آپ کی شخصیت کو کبھی بھی تجربہ کرنے کا موقع نہیں دیںگے، اور آپ کو انسان کی جگہ موم سمجھ کر سانچے میں ڈھال دیںگے. 

"کبیر سنگھ" نے ١٨/١٩ سال کی لڑکی کو پہلے دن سے ہی اپنے نام لکھوا لیا جیسے لڑکی نہیں، ابّا جی کی زمین ہو. 
کیا لڑکی سے پوچھا؟ لڑکی کی مرضی جانی؟ 

بہنوں، اس کو کہتے ہیں "consent" جو انتہائی ضروری ہے چاہے محبّت اندھی گونگی بھری سب ہو. اس کچی عمر میں "کبیر سنگھ" جیسا مرد جنّت کا دروازہ لگتا ہے جب کہ ہے وہ عمر بھر کا قفل.
کس سے دوستی کرنی چاہیے، کس سے نہیں، چنری کیسے اوڑھنی ہے، کیسے نہیں، یہ سب کسی بھی لڑکی کو اپنی مرضی سے منتخب کرنا چاہیے نا کہ کوئی "کبیر سنگھ" آپ کو بتاۓ.

بیچ سڑک، لوگوں کے سامنے اپنی محبّت کو تھپڑ مارنا، اس پر چیخنا چلانا کوئی عشق جنوں نہیں ہے. یہ سماجی بےعزتی، اور ذاتی ضرب ہے. یہ بات لڑکا اور لڑکی دونوں پر لاگو ہوتی ہے. محبّت کی آڑ میں آپ غصے کی غلاظت نہیں پھیلا سکتے. 

"کبیر سنگھ" صرف لڑکیوں نہیں، بلکہ لڑکوں کہ لئے بھی ایک سبق آزمودہ فلم ہے. ایک سین میں ہیرو کا دوست اسکو کہتا ہے "لڑکے روتے ہیں کیا؟" کیوںکہ یہ تو حدیث اور شاستروں  میں آیا ہے کہ لڑکے نہیں روتے ہیں. 
اب کیوںکہ ہم اکیسویں صدی کے باسی ہیں تو میں بتاتی چلوں کہ مرد اگر ہنس سکتے ہیں تو رو بھی سکتے ہیں. آپ کے tear glands اچھے خاصے ایکٹو ہیں اور ان کا آپ کی مردانہ صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں ہے. 

سب سے زیادہ جس منظر نے مجھے حیران کیا وہ یہ کہ، "کبیر سنگھ" کو فیملی پلاننگ اور برتھ کنٹرول جیسی چیز کا خاص اندازہ نہیں تھا. وہ اپنے بھائی کو تقریباً تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پلاننگ کیا ہوتی ہے؟ یہ تو بس جذبات ہیں. 

برائے مہربانی، ہند و پاک کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال کریں اور بچے کو محبّت کی نشانی سمجھنے سے گریز کریں. 

فلم کی موسیقی بہترین ہے اور میرے کانوں میں ابھی بھی بج رہی ہے. میوزک اور فلم ڈائریکٹر نے شدّت کا رنگ فلم کی موسیقی میں بھی ڈالا ہے. شاہد کپور سے بہتر کوئی اور یہ کردار نہ کر پاتا. کئی مناظر میں آپ کو "حیدر" فلم یاد آئے گی. 
کیارہ اڈوانی کی معصومیت اور نو عمری ان کے کردارمیں گھل مل گئی تھی.  

"کبیر سنگھ" اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود ایک دیکھنے قابل فلم ہے. یہ فلم آپ کوہر وہ چیز سکھائے گی جو محبّت میں نہیں ہونی چاہیے. 








May 25, 2019

کام کرنے کی جگہوں پر جنسی ہراسانی

Originally published here HumSub

ہم نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور قانون کے لئے سب برابر ہیں. کیا یہ بات حقیقت ہے؟ اصولی طور پر تو قانون کو اندھا نہیں، بلکہ منصف ہونا چاہیے کیوںکہ اندھا ہونے کی صورت میں تووہ استغاثہ اور دفاع دونوں ہی کو نقصان پہنچا سکتا ہے.

پاکستان میں قانون بہت لیکن استعمال اتنا ہی جتنا آٹے میں نمک!

میشا شفی کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا، لیکن معاشرتی طور پر ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو جنسی ہراسائی کی قانونی سمجھ بوجھ آگئی. میشا شفی ایک مشہور شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بااثر بھی ہیں جو اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے لئے لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں. اس کیس کے دوران ہم نے دیکھا کے انکا خاندان، دوست، اور متعدد چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے ہیں.

بدقسمتی سے ہر کسی کے نصیب میں نہ اتنی ہمّت ہے کہ وہ جنسی طورپرہراساں  ہونے کی شکایات کر سکے یا اس کے خلاف کیس لڑ سکے. آئے دن ہم مدرسے میں ہونے والے گھنونے واقعات کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، خبریں سنتے ہیں لیکن کیا کسی والدین نے کیس لڑا؟ جیتا؟ .......شاید نہیں!

ہمارے ملک میں قانون تو ہے لیکن سجا سجایا. بلکل قرآن پاک کی طرح جس کو ہم گھر میں سب سے بہترین کپڑے میں لپیٹ کرطاق پر رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیتے ہیں. 

اپریل ٢٠١٨ میں ڈان اخبار نے ایک آن لائن سروے کیا جو تقریباً ٣٠٠ عورتوں پر مشتمل تھا. اس سروے ک مطابق ٨٣% عورتوں کا ماننا تھا کہ دفاتر میں عمومی طور پر مرد نامناسب روّیہ اختیار کئے رہتے ہیں کیوںکہ انہیں یقین ہوتا ہے کے کوئی کاروائی یا چارہ جوئی نہیں ہوگی. 
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی جنسی ہراسائی کے لئے قانون موجود ہے:

Protection against Harassment of Women at the Workplace Act 2010:"Harassment as any unwelcome sexual advance, request for sexual favors or other verbal or written communication or physical conduct of a sexual nature or sexually demeaning attitudes, causing interference with work performance or creating an intimidating, hostile or offensive work environment, or the attempt to punish the complainant for refusal to comply with such a request or is made a condition of employment."

پاکستان کا کوئی حصّہ یا طبقہ ایسا نہیں ہے جہاں کام کرنے والی عورتوں کو ہراساں ہونے کا تجربہ نہ ہوا ہو. ٩ سال گزرنے کے باوجود مندرجہ بالا قانون سے کئی عورتیں ناواقف ہیں یا ڈرتی ہیں کے انصاف کے کٹہرے میں ان کی دھجیاں نہ اڑا دی جایئں. 
وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق ٢٠١٤ سے ٢٠١٨ کے درمیان ٣٧٨ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ملک بھر سے، جن میں سے ٢٢٠ شکایات حکومتی اداروں سے آئ تھیں. 

جب بات آتی ہے اداروں کی تو ہمارا پہلا خیال یہ ہوتا ہے کہ شاید تعلیمی ادارے اس سے محفوظ ہوں. آخر کو استاد تو روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں اور پھر تعلیم و تدریس بذات خود ایک انتہائی عزت دار پیشہ ہے.

ان تمام باتوں کے باوجود، پروٹیکشن ایکٹ ٢٠١٠ کے تحت موصول ہونے والی شکایات میں قائد اعظم، LUMS، جیسی یونیورسٹیز شامل تھیں.

٢٠١٨ میں ایک اور مشہور کیس اخباروں کی زینت بنا تھا جب پاکستان کے جانے مانے اردو کے شاعر پروفیسر سحر انصاری پر جنسی ہراسائ کا کیس ہوا تھا. پروفیسر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں بلکہ اردو کی خدمات کے انجام میں حکومت پاکستان سےستارہ-امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں. 

شکایات درج کرنے والی خاتون خود بھی اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ان کے ساتھ یہ واقعہ ٢٠١٦ میں پیش آیا تھا. اس شکایت کی بنیاد پر جامعہ کراچی نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ایک ماہ کے اندر پروفیسر صاحب کو کلین چٹ دے دی. 

خاتون برحق تھیں تو انہوں نے سندھ صوبائی محتسب کو اپیل دائر کی جس نے سوا سال بعد اگست ٢٠١٧ میں جامعہ کراچی کی کمیٹی رپورٹ کو رد کر کے نئی کمیٹی، پروٹیکشن ایکٹ ٢٠١٠ کے تحت تشکیل کرنے کا حکم دیا. 
جنوری ٢٠١٨ میں حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ پروفیسر سحر انصاری پر ہراسائی کی شکایت ثابت ہوئی جس میں جامعہ کراچی کی جانب سے کئی طالبات کی شکایات بھی شامل تھیں اور جامعہ کے چند ملازمین کی گواہی بھی شامل تھی.

پھر کیا ہوا؟
کوئی نہیں جانتا!

سندھ محتسب نے ایک بہترین قدم اٹھایا لیکن کیا اس کو مثالی بنا پائے؟ کیا پروفیسر سحر انصاری پر قانونی فیصلہ محفوظ ہوا؟  کیا جامعہ کراچی نے اس سلسلے میں پیش و رفت کی؟ مستقبل میں اساتذہ اور طالبات کو محفوظ بنانے کے لئے کیا اقدام کئے؟ 


حکومت پاکستان میں وفاق نے ایک پوری وزارت اس پروٹیکشن ایکٹ کے لئے محفوظ کی ہے جس کی وزیر اس وقت کشمالہ طارق ہیں. مجھے یقین ہے اگر حکومت چاہے تو اس قانون کو ہرچھوٹے بڑے دفاتر میں عمل میں لا سکتی ہے. عورتوں کو اس قانون کے بارے میں آگاہ کیا جائے، ان کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انکی شکایات اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا.  

جب فیصلے ہوا میں معلق ہوں، توقانون پر سے یقین ڈگمگانے لگتا ہے جو معاشرتی طور پر خطرناک ہے. پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی ہراسائی کے خلاف ایک مثبت قانون ہے جس کا یقینی استعمال ضروری ہے. 












  

Apr 14, 2019

فاختہ والے خلیل خان اور ہزارہ شیعہ

Originally published here HumSub

آج آپ  کی ملاقات خلیل میاں سے کرواتے ہیں!
یہ اکیسویں صدی میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی فاختہ اڑاۓ پائے جاتے ہیں. خلیل میاں کو کوئی غرض نہیں کہ دائیں ہاتھ والے گھرکا بڑا بیٹا اکثر بائیں ہاتھ والے گھر کی ملازمہ کوتتنگ کرنے چھت پر آجاتا ہے. خلیل میاں سامنے ہوتے ہوئے بھی اندھے بن جاتے ہیں کیوںکہ انکا کام فاختہ اڑانا ہے، محلے کے جوانوں کو ڈانٹنا نہیں. 
خلیل میاں تو اس دن بھی چپ سادھے ہوئے تھے، جس روز انہوں نے اپنی آنکھوں سے سامنے والے گھر میں انکی بہو کو مار کھاتے دیکھا تھا اور بعد میں شعلوں میں لپٹا اسکا جسم. پولیس آئی، تھانہ کچہری ہوا لیکن خلیل میاں انجان بنے فاختہ اڑاتے رہے کیوںکہ یہ کسی کے گھر کا اندرونی معاملہ ہے. 
فاختہ کی محبّت دنیا کے ہر مسئلے سے برتر تھے. چاہے وہ جلتی ہوئی بہو ہو، یا محلے کے لڑکوں کی ٹپکتی ہی رال، خلیل میں اپنی دنیا میں مگن تھے. 

اپنی اس دنیا سے بس وہ رات کو کچھ دیر کے لئے باہر آتے ہیں اور گلی کے نکڑ پر چند ایک اور فارغ ال اوقات حضرات کے ساتھ محفل جماتے ہیں. ایسی ہی ایک رات تھی جب محلے کے حیدر صاب نے کوئٹہ میں جمّعہ  مبارک کی صبح  سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر چھیڑ دیا.  ساتھ ہی کچھ  لوگوں نے تعزیتی گفتگو شروع کردی کہ کیسے شیعہ فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ کتنا پرامن دھرنا دے رہے ہیں.

بس یہ سننے کی دیر تھی، خلیل میاں نے فاختہ چھوڑ حب الوطنی کا دامن تھام لیا اور سب کو ٹوکتے ہوا کہا "آپ لوگ تعصبی باتیں نہ کریں. شیعہ نہیں مرے، مسلمان مرے ہیں. ہمارا ملک تو امن کی فاختہ ہے وہ تو بس بھارت حاسد یہ سب کرا رہا ہے."

حیدر صاب نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ لشکر جھنگوی نے یہ کہہ کر ذمےداری قبول کی ہے کہ یہ ہزارہ شیعہ پر حملہ تھا، لیکن خلیل میاں امن کی فاختہ چھوڑنے کو تیار نہ تھے.

ایسے کئی خلیل میاں آج ہمارے آس پاس موجود ہیں جوویسے تو چپ سادھے رہیں گے جب رمضان مینگل جیسا دہشتگرد رہا ہوجاۓ گا لیکن اس کے  ٹھیک ٣ دن بعد ہونے والے دھماکے کو پڑوسیوں کے نام کردیں گے. 

خلیل میاں کی نظرمیں  الزام لگانا آسان ہے، لیکن اپنے فیصلوں کی ذمےداری اٹھانا اس سے کہیں مشکل ہے. 

میں اکثر کراچی میں واقع قبرستان "وادی حسین" جاتی ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکوں یا رو لوں کیوںکہ اب تو روز حشر ہی ملاقات ہوئی تو ہوئی. وہاں کئی قبروں پر لال جھنڈا یا لال علم لگا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شہدا ہیں جنہیں "علی ولی الله" کی پاداش میں مار دیا گیا. 

ہم میں سے عمومی طور پر لوگ اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں کی لاشیں سلامت اٹھاتے ہیں. وہ ٹکڑوں میں نہیں ہوتیں نہ تتر بتر سڑک پر پھیلی نہیں ہوتیں. لاش اٹھانے میں اور لاش سمیٹنے میں بڑا فرق ہے! 

پاکستان کے شیعہ، خصوصی طور پر، ہزارہ شیعہ لاشیں سمیٹتے ہیں. کیا بزرگ کیا جوان، کیا شیرخوار. کیا بیٹا، کیا باپ، کیا بھائی، کیا شوہر! 
اگر واقعی میں "حسین" کا صبر کسی نے اپنایا ہے تو وہ ہیں ہزارہ شیعہ جو ہر دفعہ خاموشی سے اپنے پیاروں کی لاش سمیٹتے ہیں، اور سڑک ک کنارے بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید اس بار حکومت ہماری سن لے. 

انٹرنیٹ کا دور ہے اور کسی بھی خلیل میاں کو شاید ٥منٹ لگیں یہ جاننے میں کہ، ٢٠٠١ سے ٢٠١٨ تک پانچ سو کے قریب حملے شیعہ فرقے کے ماننے والوں پر ہوئے ہیں، جن میں سے ١١٦ (ایک سو سولہ) حملے صرف ہزارہ شیعہ پر ہوئے ہیں. ہزارہ ویسے ہی گنی چنی برادری ہے جو کوئٹہ میں اپنا مسکن بنائے بیٹھی ہے اور جو غلطی سے مسکن سے باہر نکلی تو دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے.

حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ، ہزارگنجی میں ہونے والے دھماکے سے ٣ دن قبل ہی لشکر جھنگوی کے سربراہ رمضان مینگل کو حکومت نے رہا کیا تھا. بعد از، اسی تنظیم نے ISIS کی مدد سے یہ حملہ کیا جس میں چوبیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہیں. 

ہزارہ شیعہ برادری اپنے روایتی انداز میں پرامن دھرنا دئیے بیٹھی ہے اور انکی مانگ بس اتنی سی ہے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں کو پکڑا جاۓ، اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ آ کر انکو گریہ و زاری سنیں. خان صاب نے بلکل سنی اور ٹویٹر پر ایک تعزیتی ٹویٹ بھی کردی جو مجھے امید ہے کہ ہزارہ برادری تک پہنچ گئی ہوگی. 

اب دیکھیں، بات کو سمجھیں، خان صاب وزیر اعظم ہیں، جگہ جگہ تو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ ڈالر ادھار نا دے رہے ہوں. اسی لئے انہوں نے نئے زمانے کی تعزیت کردی.

ہزارہ شیعہ ایک ایسی برادری ہے جو اپنے ہی شہر میں محصور ہے کیوںکہ حکومت انہیں محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے. اس چھ سے آٹھ لاکھ کی برادری زخم ابھی بھرتے بھی نہیں کہ ظالم انہیں پھر سے کھرچ ڈالتے ہیں. 
پاکستان انسانی حقوق نیشنل کمیشن کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں صرف کوئٹہ شہر کے اندر ٥٠٩ ہزارہ شیعہ ہلاک، اور ٦٢٧ زخمی ہو چکے ہیں. یہ افراد اپنے گھر سے کفن باندھ کر نہیں نکلے تھے، لیکن دہشتگردوں نے انہیں یا تو کفن پہنا دیا اور جو بچ گئے انہیں فاتحہ پڑھنے کو چھوڑ دیا. 

پڑھنے والے اور سننے والے کے لئے ٥٠٩ ہلاکتیں بس اعداد و شمار ہیں لیکن دراصل یہ پورے پورے خاندان ہیں جو سماجی، ذہنی، اور سب سے بڑھ کر معاشی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں. 

گلوبل اکسٹرمزم مانیٹر کی ٢٠١٧ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ٩٥% دہشتگردی کے واقعیات شیعہ مسلک پر ہوئے ہیں. اس رپورٹ میں، پاکستان دنیا کے ١٠ سب سے خطرناک ممالک میں شامل تھا جہاں فرقہ وارانہ حملے ہوتے ہیں. پاکستان کا نمبر آٹھ تھا!  

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی، بلکہ نہیں ہوگی کیوںکہ آپ بھی خلیل میاں کی نسل سے ہیں. پھر بھی بتانا میرا فرض ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے شہر جھنگ نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی ک خلاف خراج عقیدت پیش کیا اور انسانی عکس کی صورت ایک مسجد کی شکل بنائی. 
یہ خراج عقیدت عین اسی دن دیا گیا جس دن کوئٹہ خون میں نہا گیا تھا. 

کیا آپ نے کبھی پاکستان میں مرنے والی اقلیتوں کے لئے کوئی ایسا حسین و دلکش، دل کو پرنور کر دینے والا خراج عقیدت دیکھا ہے؟ 
نہیں!
وو کیا ہے نا کہ اقلیت تو بس پاکستان سے باہر ہوتی ہے. پاکستان میں تو بس اکثریت ہے اور وہ بھی خلیل میں کی! 





Dec 26, 2018

علی رضا عابدی: زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے

Originally published here HumSub

زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے 
سر قلم کروا کر آزادی دفن ہوتی ہے 

آج ٢٥ دسمبر ہے جب دنیا بھر میں حضرت عیسی کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے، جنہیں آج سے سینکڑوں صدیوں پہلے رومن سلطنت نے صلیب پر گاڑھ کر قتل کردیا تھا. وجہ؟ خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کا پرچار تھا. سرکار نے بہت روکنا چاہا لیکن آپ ابن آدم، پیغمبر دین، آپ نے تبلیغ جاری رکھی جو بعد از حضرت عیسی، عیسایت مذہب میں تبدیل ہوئی. 

ایک بات تو اٹل ہے شب و روز کی طرح کے سچائی کے پیغام کی قیمت عمومی طور پر جان دے کر ہی ادا ہوتی ہے، اور صدی بھلے پہلی ہو یا اکیسویں، سرکار کا وقار بلند رہتا ہے، خون سے تر رہتا ہے.

علی رضا عابدی،عمر ٤٦ سال،سابق ممبر نیشنل اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ ، شہر کراچی میں اپنے گھر کے سامنے سر اور گردن پر گولی لگنے سے جابحق!
آپ چاہیں تو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی طرح انہیں شہید کہہ سکتے ہیں، لیکن صرف اتنا بتا دیجیے گا کہ کیا آپ اپنے گھر سے شہید ہونے کے لئے نکلتے  ہیں؟
اگر نہیں تو قتل اور شہادت میں فرق جان کر جیو.

کراچی میں رہنے والے تقریباً ہر انسان کو معلوم تھا کہ علی رضا عابدی کون ہیں. کوئی ان کو علی بھائی کہتا تو کوئی عابدی بھائی اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ رشتےدار تھے، بلکہ اس لئے کہ جی دار تھے. ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد، علی بھائی نے باقی تمام کارکنوں کی طرح MQM لندن کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا، بلکہ وقتاً فوقتاً متحد ہونے کی بات کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بنتے. یہ آدمی بلا خوف و خطرکراچی کے نوجوانوں کہ ساتھ بیٹھا پایا جاتا تھا جہاں عقل اور منطق دونوں مہمان ہوا کرتے تھے. کسے خبر تھی کہ اس انسان دوست آدمی کو اسی کے گھر کے آگے ٧ گولیوں سے چھلنی کردیا جاۓ گا. 

دسمبر بڑا سرد اور ظالم مہینہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں!
سقوط ڈھاکہ ہو یا بی بی صاحبہ کی شہادت، آرمی پبلک کا معصوم خون ہو یا علی رضا عابدی کا جوان قتل. یہ مہینہ اپنے مزاج کی طرح ان سب لوگوں کو ٹھنڈا کرگیا.

آپ کو لوگ علی رضا عابدی کی تعریفیں کرتے ملیں گے، جب کہ ان میں ایک بہت بڑی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ آج مرحوم قرار پاۓ. وہ برائی تھی زبان درازی کی !
علی بھائی کو خدا کا خوف تو تھا، لیکن مملکت خداداد کا خوف نہیں تھا. کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کردی، تو کبھی NAB والوں کی دھججیاں اڑا دیں. حد تو حد، نومولود حکومت پر بھی سوال اٹھا دئے. کچھ نہیں تو عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ کرلیتے تھے. کیا خبر تھی کہ زبان درازی کے بدلے میں ٧ گولیاں جسم پر میڈل کی طرح سجا دی جائیں گی اور کہا جاۓ گا جو کرو اب منکر نکیر سے زبان درازی!

آج قائد اعظم کی بھی سالگرہ ہے. وہ قائد جنہوں نے یہ ملک دیا تاکہ ہم آزاد،اور  شاد و آباد رہ سکیں. بس قائد بتانا بھول گئے کہ آزادی کے زمرے میں تمھارے خیالات اور الفاظ کی آزادی نہیں آتی، تنقید کی اجازت نہیں آتی، کیوںکہ پھر زندگی کی ضمانت نہیں رہتی. 

علی رضا عابدی، کراچی کا بیٹا، کل لحد میں اتر کر زبان درازی کی قیمت ادا کرے گا. آپ سب سے گزارش ہے اپنی زبان بندی کر کے جنازے میں شرکت کریں. شکریہ!

Oct 12, 2018

جنسی ہراسانی کی چیخ

Originally published here HumSub

 اگر میں ایک شخص کو تھپڑ ماروں اور دوسرے کو گولی، تو کیا آپ دونوں حملوں کو جان لیوا کہیں گے؟
یقیناً نہیں!

٢٠١٤ میں میری ایک معمولی سی سرجری ہوئی تھی، جس کے باعث مجھے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی. ایک رات، قریب ٣ بجے میں نے درد کی شکایت کی اور غصّے میں شفٹ پر ڈاکٹر کو بلوایا جو اس وقت ایک شیعہ ہزارہ کی جان بچانے میں مصروف تھی. میری چیخ چللاہٹ سے اس کو آنا پڑا. پہلی بات جو اس ڈاکٹر نے کہی وہ یہ تھی "کلثوم تمہارا درد تکلیف دہ ہوگا لیکن جان نہیں لیگا. تمھارے اس ہنگامے سے اس آدمی کی جان بچانے کہ لئے ایک ڈاکٹر ضرور کم ہورہا ہے." 

اس رات مجھے احساس ہوا کہ، میری چیخ میں اس شخص کی چیخ کوئی نہیں سن پائے گا، جو چیخ بھی نہیں سکتا. 

  کچھ ایسا ہی موجودہ دور میں "جنسی ہراسائ" کو لے کر ہو رہا ہے.    
می ٹو تحریک نے دنیا بھر کی عورتوں کو نہ ہی تو صرف آواز دی ہے بلکہ دنیا کو ساتھ ہی ساتھ باور کرایا ہے کہ کیا امیر، کیا غریب، کیا عام، کیا خاص، کیا جاہل، کیا دانا، سب ہی میں صلاحیت ہے عورت کو زیر کرنے کی!

اس تحریک پر بہت سارے سوال بھی اٹھتے ہیں جن میں پہلا سوال ہوتا ہے "ثبوت کیا ہے؟". ایسے لوگوں کہ لئے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے:
١) جنسی ہرسائ کہتے کسے ہیں؟
٢) خوف کس بلا کا نام ہے؟

ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں:
اقوام متحدہ کے مطابق، کوئی بھی ایسا ناپسندیدہ جسمانی یا زبانی فعل جوآپ سے آپ کی اجازت کے بغیر، زبردستی ہو. 
    
اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو، آواز کسنا،گندی آوازیں نکلنا، بلا اجازت چھونا، یہ سب ہمارے معاشرے میں روز مرہ کی ہراساں کرنے والی حرکات ہیں. اب ذرا آپ اپنے گھٹنوں......میرا مطلب ہے چھوٹے سے دماغ پر زور لگایں اور بتایئں اگر راہ چلتے کوئی مجھے "ماشاللہ" یا "آئٹم " وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارے تو میں اس کا گواہ یا ثبوت کہاں سے لاؤں گی؟ بھرے بازار میں کسی لڑکی کو کوئی بھی لالچی مرد اگر چھو لے تو وہاں کہاں سے ثبوت لاے گی؟ چلتی بس میں جو انگلیاں سیٹ میں سے راستے بنا لیتی ہیں، ان کا ثبوت کیسے اکھٹا کریں؟

دراصل کیا ہے نا، ہم عورتیں اپنے سر پر ڈرون کیمرے تو لے کر چلتی نہیں ہیں اس لئے ثبوت مانگنے کے بجائے اگر آپ ان صرف اپنی سوچ کی اڑان اونچی کرلیں تو مہربانی ہوگی.

یہی وجہ ہے کہ، میشا شفی کوئی ثبوت نہ پیش کرسکیں کیوںکہ وہ سوچ کر مردوں سے نہیں ملتی تھیں کہ اس نے مجھے ہراساں کیا تو میرے سر پر اڑتا ہوا ڈرون کیمرے اسکی ویڈیو بنا لیگا. 
صرف میشا ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عورت جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں مردوں سے ملتی ہے، یہ نہیں سوچتی کہ آج یہ مجھ سے زبردستی کی کوشش کریگا. عروج ضیاء کو خبر نہیں تھی کہ فیصل ایدھی ان کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے، یا وہ لڑکیاں جو جنید اکرم کے خوف سے پبلک نہیں ہو پا رہیں. اگر ان میں سے کسی کو پتا ہوتا کہ ان کی تکلیف پر سوال اٹھیں گے، تو وہ یقیناً ساتھ میں کیمرے رپورٹر سب رکھتی تاکہ قوم کو بروقت اطلاع دی جا سکتی.......بریکنگ نیوز بھی تو کوئی چیز ہے!

 ملک کی لاکھوں عورتیں، اپنا آپ چادر میں اس لئے نہیں ڈھانپتی کہ حکم الہی ہے. چادر ان کی باریک محافظ ہے، گندی نظروں، ہاتھوں، اور فقرے بازیوں سے!
اگر صرف ہاتھ لگانا، آواز کسنا اتنی ذہنی تکلیف پہنچا سکتا ہے، تو سوچیں اس سے آگے کی ہرسائ کتنی تکلیف دہ ہوگی. عورت جب بازار سے گھر آتی ہے تو وہ یہ نہیں بتاتی کہ اگلی گلی کے مزدور نے اسکو آدھی تعمیر شدہ عمارت میں انے کی دعوت دی تھی....وہ اپنا راستہ بدل لیتی ہے بس. وجہ؟
وجہ آپ ہیں. آپ کی سوچ اور سوال ہیں جو اس عورت کو اسی کی نظر میں مجرم بنا دیںگے. 

خود کو خوف سے آزاد کرانا ایک اندرونی جنگ ہے. 
یاد رہے، جنگ کے شروع ہونے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن ختم کب ہوگی، معلوم نہیں. جب ہوتی ہے تب متاثرین باہر آ کر خود پر گزرا وقت بتاتے ہیں. 
جن بھوت، اندھیرے، پانی، پہاڑ، اور کئی سارے خوف ہیں جو نظر آتے ہیں لیکن جگ ہنسائی کا خوف نظر نہیں آتا. یہی وہ خوف ہے جو ان متاثرین کو اپنے خول میں بند رکھتا ہے. 

اگلا مرحلہ، معاملے کی سمجھ اور بوجھ کا ہے. 
یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ایک طرف تصوّف اور روحانیت کا بول بالا ہے تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصّوں سے نوزائدہ بچیوں کی لاشیں مل رہی ہیں. 

معاملہ جب عورت کی برابری اور حقوق کا آتا ہے تو ہمارا پہلا مقصد ہوتا ہے پدرانہ نظام کے زیر اثر متاثرین کو انصاف دلوانا، ان کی آواز کو اونچا کرنا، خوف کی سرحد پار کروانا. بدقسمتی سے، ان تمام مرحلوں کے بیچ اکثر آوازیں دب جاتی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی ابھی سرگوشی ہی کی تھی. 

اگر کسی مرد یا عورت نے آپ کو ہراساں کیا ہے تو اسکو ہراساں ہونا ہی کہیں گے، لیکن اگر آپ کسی غیر آرام دہ گفتگو کا حصّہ بن رہے ہیں تو وہ ابھی تک جنسی ہرسائ کی تعریف میں نہیں آیا. ہراساں ہونا مذاق نہیں ہے، اور نہ ہی اسکو اتنا آسان لیا جائے.

تحریک کو تحریک ہی رکھا جائے تو ٹھیک ہے، مزاق نہ بنائیں تاکہ قاضی شہر کو انصاف دینے میں آسانی ہو.  


  


٠

Apr 30, 2018

میں کینسر کی مریضہ ہوں

Originally published here HumSub

گزرتے وقت میں، مجھے چند چیزوں سے  بڑی چڑ ہوگئی ہے چاہے آگے جا کر ان کا کتنا ہی فائدہ کیوں ہو. مثال کے طور پر کدو!

کدوکی سبزی سے مجھے کبھی بھی شغف  رہا چاہے اکیلی پکی ملے یا بوٹیوں کے ساتھ شوربے میں غوطے لگاتی ہوئی. ھماری والدہ ماجدہ کدو کے قصیدوں میں کمی نہیں کرتیں اوردسترخوان پر افادیت اور کدو ساتھ رکھ دیتی تھیں. 
اب کدو مہاراج کی بدقسمتی کہئے یا نصیب کا کھیل، جہاں جہاں جس کے ساتھ لگے، اس کی عزت میں کمی آتی گئی. چند روز پہلے، فاروق ستار نے ملکی مستقبل کے سب سے عزت دار سانحے یعنی الیکشن ٢٠١٨ کو بھی کدوکہہ ڈالا. اب بیچارے کدو کی عزت تو ویسے ہی کچھ خاص نہیں، ساتھ میں الیکشن بیچارہ بھی منہ چھپاتا پھر رہا ہے. 

سچ پوچھئے تو، مجھے کدو اور آنے والا الیکشن،دونوں سے ہی لگاؤ نہیں لیکن پھر بھی مستقبل کا سوال ہے تو ہم کدو بھی کھالیتے ہیں اور ووٹ بھی دے دیںگے.  آنے والے وقتوں کی فکر میں، مجھے ایک مرض بھی لاحق ہوگیا  ہے: کینسر!
تشخیص کرنے والوں کا کہنا ہے یہ ایک نئے قسم کا کینسر دریافت ہوا ہے جس کی جڑیں بنیادی انسانی حقوق سے جڑی ہیں، اور اسکی ایک شاخ میرے مرض کی وجہ ہے. 

فیمینزم کا کینسر!
آپ سوچیں گے، مجھے فورا اس کا علاج کروانا چاہئے لیکن میں ایسا نہیں کرونگی. میں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے فائدے کیلئے یہ بیماری برداشت کرلونگی. اگر میں کدو کھا سکتی ہوں، اور ووٹ پر یقین رکھ سکتی ہوں تو فیمینزم کا تو حق ہے میری نسوانیت پر. نہیں؟

پچھلے ١٥ ماہ میں، ایدھی سینٹر اور چھیپا ویلفیئر نے سینکڑوں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی ہیں جن میں ٩٩% لڑکیاں تھیں. یاد رہے یہ صرف وہ بچیاں ہیں جہاں تا ایدھی اور چھیپا کی رسائی ہے، یا وہ جن کو دنیا میں چند سانسوں کا شرف بخشا گیا. کتنے ہی بیج ایسے بوئے گئے ہونگے، جن کی صرف جنس معلوم پڑنے پر ہی ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہوگا. 
ایک طرح سے اچھا ہی ہے کیوںکہ جس معاشرے میں انسانیت کے حقوق پر اٹھنے والی آوازوں کو کینسر کا نام دیا جاۓ وہاں ہم آنے والی نسل کو کیا دیںگے؟ آج نہیں تو کل اس لڑکی کو تو مرنا ہی ہے. غیرت کے نام پر، رشتے سے انکار کرنے پر، طلاق مانگنے پر، اور کچھ نہیں اور کچھ نہیں تو کھانا ٹھیک سے گرم نہ کرنے پر.

نیشنل پولیس بیورو کی جانب سے تازہ اشاعت ہوئے شمار کے مطابق، پاکستان میں پچھلے ٥ سالوں میں ایک لاکھ سے زائد انسانی حقوق کے کیس درج ہوئے ہیں جس میں، غیرت کے نام پر قتل، ریپ ،گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے جیسے تمام جرم شامل ہیں. یہ صرف وہ کیسز ہیں جن کا پرچہ تھانے میں درج ہوا تھا جس کے باعث یہ اعداد و شمار انتہائی کم ہیں. 

ہم وہ قوم ہیں جہاں کھانے کی میز پر اگر شوہر بیوی کے کھانے کی تعریف کردے تو جورو کا غلام، لیکن پلیٹ منہ پر دے مارے تو "مردانگی" پر پورے ١٠ نمبر اس کے ہوجاتے ہیں. ہر دوسرے دن، ہمارے معصوم بچے کسی مولوی کی حوس کا نشانہ بن جاتے ہیں، پھر بھی ہم کہتے نہیں تھکتے "کوئی مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟"
ہم ایسے تمام جرم پر دو دن یا زیادہ سے زیادہ چار دن تھو تھو کرتےہیں لیکن سد باب نہیں کرتے. اگرآپ ایسے گناہوں اور جرائم کو بدلاؤ کے دائرے میں نہیں لائیں گے تو آپ تنقید کا بھی حق نہیں رکھتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ووٹ نہ دیا ہو اور حکومتی نظام پر اپنی رائے پس کردیں.

جرم کرنے کے لئے مسلمان یا ہندو ہونا شرط نہیں ہوتی،بس حیوانیت چاہئے. جہالت کا خول چاہئے، وہ لبادہ چاہئے جسے اوڑھ کر آپ میرے مرض کی تشخیص کرتے ہیں. پاکستان میں حقوق کی جنگ لڑنا دن بدن مشکل ہورہا ہے. میرے ملک میں تو جو حق کی بات کرے وہ غدّار، جو سوال کرے وہ گمشدہ. اگر پشتین اور طاہر خان ہزارہ جیسے لوگوں کو اپنی آواز پہنچانے میں اتنی مشکلات کا سامنا ہے تو میں تو ایک "مریضہ" ہوں.

مجھے یہ مرض بخوشی قبول ہے کیوںکہ یہ میرے وجود کا سبب اور میرے کل کی جنگ ہے. ان چہروں کی روشنی ہے جو کسی جہل کے تیزاب میں دھندلا گئے. ان پھولوں کی خوشبو ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے. ان گردنوں کے محافظ ہیں جو اپنی پسند پر سر بلند ہونگے. ان آوازوں کی چیخ ہیں جوچار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں.

میرا مرض پدر شاہی کے خلاف بغاوت ہے!


Jan 7, 2018

اعتزاز حسن شہید کی یاد میں

Originally published here HumSub

آج بروز ٦ جنوری، ملک میں چند دردمند لوگ اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے ہماری آپکی خاطر اپنی نو عمری ہم پر قربان کردی، اپنی ماں کی گود، گھر کا آنگن، یہ سب کچھ سونا کردیا تاکہ اس کے گاؤں کا مستقبل محفوظ رہے. وہ مستقبل جو اس وقت تقریباً ٢٠٠٠ شاگردوں پر مشتمل تھا، اور لشکر جھنگوی کے رحم و کرم پر ہو سکتا تھا، اگر اس روز وہ  ١٥ سال کا بنگش قبیلے کا کم عمرلڑکا اس ملعون  کو سکول سے باہر نہ روک لیتا اور طالبانی/ جھنگوی ارادوں کی دھجیوں کے ساتھ خود کو بھی نہ  اڑ لیتا

وہ تھا اپنی ماں کا لعل، شیر جگر، اعتزازحسن!


آج اگر اعتزاز زندہ ہوتا تو ١٩ سال کا ہوتا لیکن اس نے لازوال قربانی کو اذیت کی زندگانی پر ترجیح دی. اعتزاز حسن، پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ہنگو ڈسٹرکٹ  کے گاؤں ابراہیمزائی سے تعلق رکھتا تھا، جس کی اکثریت شیعہ آبادی ہے اور آج بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے. 

اپریل سنہ ٢٠١٧ میں، طالبان نے اعتزاز کے گھروالوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے اور یاد دہانی کرائی کے انکا بیٹا/بھائی نہ ہی تو شہید ہے نہ ہیرو. مسلسل کوششوں کے باوجود پچھلے سال تک، پکّی FIR نہیں کٹ سکی تھی  اور نہ ہی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے وعدے پورے ہوئے تھے. یہ تو خیر ہم سب جانتے ہیں کے کون کس کے "ناراض بھائی" ہیں اور شاید اس لئے اب تک اعتزاز بس ایک یاد ہے. معلوم نہیں وہ کونسے علاقے ہیں جو اب تک نوے فیصد ہی کلیر ہوئے ہیں اور  باقی کے ١٠ فیصد کو بھائی بندی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اعتزاز جیسے شہدا کے گھروں پر دھمکتے رہیں اور یاد دلاتے رہیں کہ "تمہاری قربانی رائیگاں، ہمارا جہاد پائندہ"!

پاکستان کا المیہ یہ ہے جنہوں نے قربانی دی ان کے گھروالے حفاظت کی بھیک مانگتے، سرکاری دروازے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ جنہوں نے قربان کیا انکو باحفاظت رکھا جاتا ہے. کچھ یاد آیا؟

نہیں؟
14 دسمبر 2014، پشاور، آرمی پبلک سکول، 144 جانوں کا قتل !

میں ان بچوں اور بڑوں کو شہید نہیں کہتی کیوںکہ کوئی انسان، کم از کم ایک ٦ سال کی بچی، اپنے گھر سے یہ سوچ کر صبح کو نہیں نکلتی کہ آج تو میں طالبان کے ہاتھوں بیدردی، بےرحمی سے قتل ہونگی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرونگی. 
وہ معصوم جانیں ١٤ دسمبر کے روز قتل ہوئی تھیں!

انکو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے ہی سامنے چھلنی ہوتے دیکھیں گے. ان اساتذہ، کام کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ آج ضرب ازب کی ضرب انکو لگے گی.

ان ١٤٤ جانوں میں سے ١٣٥ بچے تھے، جن کی ماؤں نے انکو ٩ مہینے اپنے جسم کا حصّہ اس لئے بنا کرنہیں رکھا تھا کہ ایک دن کوئی تکفیری طالبان آ کر درسگاہ جیسی جگہ پر ان کے لعل کو لہولہان کردے گا. کوئی ماں باپ نہیں سوچتے کے سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے میرا بیٹے اور بیٹی کا جنازہ اٹھے گا.
اس بیٹے کا جوکچھ دن پہلے اپنے باپ کو اپنے مستقبل کے پلان بتا رہا تھا اور باپ دل ہی دل میں پیسے جوڑ رہا تھا. وہ بیٹی، جو ماں کا پلو نہیں چھوڑتی تھی اور اب کہیں جا کر اسکول جانا سیکھا تھا......ایسے، ایسے بچوں کا جنازہ گھر آیا اور آپ کہتے ہیں وہ شہید ہیں انہو نے جان کا نذرانہ دے دیا؟
نہیں!
ان بچوں  سے  اس روز درندگی نے زندگی چھین لی تھی!

بدلے میں ہم احسان الله احسان جیسوں کو میڈیا پر لا کر زخم تازہ کر رہے ہیں. اس کو ہیرو بنا رہے ہیں، اسلام کی خلافت کا مظاہرہ، اور آرمی کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں. بھلا ہو ان والدین کا اور انکی کوششوں کا جنہوں نے بروقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، اور اسپیشل بینچ نے احسان الله احسان کی عام معافی اور رہائی دونوں پر فالوقت پابندی عائد کردی ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان الله احسان جیسے درندے، قاتل کی عام معافی اور رہائی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟ اگر ہماری فوج حکمرانوں کے تختے الٹنے اور انھیں پھانسی کے تختے تک لے جا سکتی ہے تو احسان اللہ احسان کے لئے کیوں نہیں تارہ مسیح بن سکتی؟

آخر پاکستان میں آزادی کی سانس اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پیاز ٹماٹر الو کی مہنگائی پر رونا رونگی تو کوئی نہ سنےگا، نہ کچھ کہے گا، لیکن آزادی کی تنقید، حقوق کی آزادی، ایسی باتوں پر ادارے آپکی سستی سی جان کو رلا سکتے ہیں. 

آپ کو لگ رہا ہے میں مذاق کر رہی ہوں؟ ایک تو آپ لوگوں کی یاداشت بھی نا !

پچھلے سال اسی جنوری میں چند بلاگرز کو گمشدہ کردیا گیا تھا اور تب بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور کہا آزادی اور سچ بڑا مہنگا ہے. کچھ لوگ انجانے میں صبح کو گھر سے نکل کر، قتل ہو کر، آزادی کی نظر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ "انجام گلستان کیا ہوگا".

٢٠١٨ ابھی شروع ہوا ہے اور میری دعا ہے کسی ماں کی گود نہ اجڑے کیوںکہ ہر ماں ام لیلیٰ اور رباب تو نہیں، اور دعا ہے کہ حق کی طرف رہنے والوں کو "حر" کی دعا اور دوا دونوں ہو!


خدا مشعل خان جیسی کئی مشعل راہ دے میرے پاکستان کو.
آمین !