Oct 12, 2018

جنسی ہراسانی کی چیخ

Originally published here HumSub

 اگر میں ایک شخص کو تھپڑ ماروں اور دوسرے کو گولی، تو کیا آپ دونوں حملوں کو جان لیوا کہیں گے؟
یقیناً نہیں!

٢٠١٤ میں میری ایک معمولی سی سرجری ہوئی تھی، جس کے باعث مجھے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی. ایک رات، قریب ٣ بجے میں نے درد کی شکایت کی اور غصّے میں شفٹ پر ڈاکٹر کو بلوایا جو اس وقت ایک شیعہ ہزارہ کی جان بچانے میں مصروف تھی. میری چیخ چللاہٹ سے اس کو آنا پڑا. پہلی بات جو اس ڈاکٹر نے کہی وہ یہ تھی "کلثوم تمہارا درد تکلیف دہ ہوگا لیکن جان نہیں لیگا. تمھارے اس ہنگامے سے اس آدمی کی جان بچانے کہ لئے ایک ڈاکٹر ضرور کم ہورہا ہے." 

اس رات مجھے احساس ہوا کہ، میری چیخ میں اس شخص کی چیخ کوئی نہیں سن پائے گا، جو چیخ بھی نہیں سکتا. 

  کچھ ایسا ہی موجودہ دور میں "جنسی ہراسائ" کو لے کر ہو رہا ہے.    
می ٹو تحریک نے دنیا بھر کی عورتوں کو نہ ہی تو صرف آواز دی ہے بلکہ دنیا کو ساتھ ہی ساتھ باور کرایا ہے کہ کیا امیر، کیا غریب، کیا عام، کیا خاص، کیا جاہل، کیا دانا، سب ہی میں صلاحیت ہے عورت کو زیر کرنے کی!

اس تحریک پر بہت سارے سوال بھی اٹھتے ہیں جن میں پہلا سوال ہوتا ہے "ثبوت کیا ہے؟". ایسے لوگوں کہ لئے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے:
١) جنسی ہرسائ کہتے کسے ہیں؟
٢) خوف کس بلا کا نام ہے؟

ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں:
اقوام متحدہ کے مطابق، کوئی بھی ایسا ناپسندیدہ جسمانی یا زبانی فعل جوآپ سے آپ کی اجازت کے بغیر، زبردستی ہو. 
    
اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو، آواز کسنا،گندی آوازیں نکلنا، بلا اجازت چھونا، یہ سب ہمارے معاشرے میں روز مرہ کی ہراساں کرنے والی حرکات ہیں. اب ذرا آپ اپنے گھٹنوں......میرا مطلب ہے چھوٹے سے دماغ پر زور لگایں اور بتایئں اگر راہ چلتے کوئی مجھے "ماشاللہ" یا "آئٹم " وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارے تو میں اس کا گواہ یا ثبوت کہاں سے لاؤں گی؟ بھرے بازار میں کسی لڑکی کو کوئی بھی لالچی مرد اگر چھو لے تو وہاں کہاں سے ثبوت لاے گی؟ چلتی بس میں جو انگلیاں سیٹ میں سے راستے بنا لیتی ہیں، ان کا ثبوت کیسے اکھٹا کریں؟

دراصل کیا ہے نا، ہم عورتیں اپنے سر پر ڈرون کیمرے تو لے کر چلتی نہیں ہیں اس لئے ثبوت مانگنے کے بجائے اگر آپ ان صرف اپنی سوچ کی اڑان اونچی کرلیں تو مہربانی ہوگی.

یہی وجہ ہے کہ، میشا شفی کوئی ثبوت نہ پیش کرسکیں کیوںکہ وہ سوچ کر مردوں سے نہیں ملتی تھیں کہ اس نے مجھے ہراساں کیا تو میرے سر پر اڑتا ہوا ڈرون کیمرے اسکی ویڈیو بنا لیگا. 
صرف میشا ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عورت جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں مردوں سے ملتی ہے، یہ نہیں سوچتی کہ آج یہ مجھ سے زبردستی کی کوشش کریگا. عروج ضیاء کو خبر نہیں تھی کہ فیصل ایدھی ان کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے، یا وہ لڑکیاں جو جنید اکرم کے خوف سے پبلک نہیں ہو پا رہیں. اگر ان میں سے کسی کو پتا ہوتا کہ ان کی تکلیف پر سوال اٹھیں گے، تو وہ یقیناً ساتھ میں کیمرے رپورٹر سب رکھتی تاکہ قوم کو بروقت اطلاع دی جا سکتی.......بریکنگ نیوز بھی تو کوئی چیز ہے!

 ملک کی لاکھوں عورتیں، اپنا آپ چادر میں اس لئے نہیں ڈھانپتی کہ حکم الہی ہے. چادر ان کی باریک محافظ ہے، گندی نظروں، ہاتھوں، اور فقرے بازیوں سے!
اگر صرف ہاتھ لگانا، آواز کسنا اتنی ذہنی تکلیف پہنچا سکتا ہے، تو سوچیں اس سے آگے کی ہرسائ کتنی تکلیف دہ ہوگی. عورت جب بازار سے گھر آتی ہے تو وہ یہ نہیں بتاتی کہ اگلی گلی کے مزدور نے اسکو آدھی تعمیر شدہ عمارت میں انے کی دعوت دی تھی....وہ اپنا راستہ بدل لیتی ہے بس. وجہ؟
وجہ آپ ہیں. آپ کی سوچ اور سوال ہیں جو اس عورت کو اسی کی نظر میں مجرم بنا دیںگے. 

خود کو خوف سے آزاد کرانا ایک اندرونی جنگ ہے. 
یاد رہے، جنگ کے شروع ہونے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن ختم کب ہوگی، معلوم نہیں. جب ہوتی ہے تب متاثرین باہر آ کر خود پر گزرا وقت بتاتے ہیں. 
جن بھوت، اندھیرے، پانی، پہاڑ، اور کئی سارے خوف ہیں جو نظر آتے ہیں لیکن جگ ہنسائی کا خوف نظر نہیں آتا. یہی وہ خوف ہے جو ان متاثرین کو اپنے خول میں بند رکھتا ہے. 

اگلا مرحلہ، معاملے کی سمجھ اور بوجھ کا ہے. 
یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ایک طرف تصوّف اور روحانیت کا بول بالا ہے تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصّوں سے نوزائدہ بچیوں کی لاشیں مل رہی ہیں. 

معاملہ جب عورت کی برابری اور حقوق کا آتا ہے تو ہمارا پہلا مقصد ہوتا ہے پدرانہ نظام کے زیر اثر متاثرین کو انصاف دلوانا، ان کی آواز کو اونچا کرنا، خوف کی سرحد پار کروانا. بدقسمتی سے، ان تمام مرحلوں کے بیچ اکثر آوازیں دب جاتی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی ابھی سرگوشی ہی کی تھی. 

اگر کسی مرد یا عورت نے آپ کو ہراساں کیا ہے تو اسکو ہراساں ہونا ہی کہیں گے، لیکن اگر آپ کسی غیر آرام دہ گفتگو کا حصّہ بن رہے ہیں تو وہ ابھی تک جنسی ہرسائ کی تعریف میں نہیں آیا. ہراساں ہونا مذاق نہیں ہے، اور نہ ہی اسکو اتنا آسان لیا جائے.

تحریک کو تحریک ہی رکھا جائے تو ٹھیک ہے، مزاق نہ بنائیں تاکہ قاضی شہر کو انصاف دینے میں آسانی ہو.  


  


٠

0 comments: