May 14, 2020

The Burden of a Heartbreak


I was 8 or 9 years old when my mother's best friend was visiting us from a different city. Since she was visiting us after some time, my mother decided to give them gifts before they leave which included my new, untouched dress to her friend’s daughter.

It is obvious that my mother managed to source me another new dress the very next day, but it couldn’t make me as happy as expected. This memory is so vivid as if happened yesterday.

You know, why?

Because this was the first time I experienced a heartbreak through a loss of something I loved.
I was unable to enjoy my new dress despite as a child, I loved new clothes.

A heartbreak disables the senses to feel the fullness of emotion. Any emotion. Be it your happiness, sadness, or even anger. Your body refuses to experience the momentary pinnacle of that feeling, leaving you indifferent towards the severity of that event.

When my mother pestered me to let her give away that dress, I remember crying and putting up a fight because I had energy in me.  

Standing today, in front of the mirror, in my mid-30s, if you ask me, I possess the same energy to fight back after a heartbreak. My answer will be a straight no!

We all have heard that life is not a bed of roses, but that’s a half-cooked piece of information. They forgot to tell us the type of thorns we will have to face and how long they going to hurt. Finding all of this on our own can not only be exhausting but leave some of us with emptiness. In my case, it is numbness.

Some of us start fighting our battles from early childhood such as taking the burden of handling younger siblings or competing with our cousins to secure better marks in our studies. Many of us went through organized bullying at school for our looks or with our extended families for different socio-economic reasons.

All in all, these are the fights that we start fighting internally while externally we find coping mechanisms. It can be in the shape of a company of friends, getting lost in books, or just picking a useless fight with everyone at home. This mechanism does not last very long because it does not heal us.



We lose a little bit of us as we grow up and start getting drained. It is not necessary that every time we must give back to the world, to the people around us. This is something we all need to learn early in life that giving away too many emotions can leave you empty and callous.

This whole process includes several heartbreaks, but we were young. We picked up our pieces and became whole again. But not for very long!

Over the years, our emotional well being gets compromised on our way to be a little more loved. Instead, most of us got a little more hurt. As much as hope and love is what keeps the world going, we cannot deny the strength we invest to keep it going.

Every time I have loved and lost, I realized how stronger my heart became. So strong that now it is indifferent to the pain of loss. Life has made us struggled and fought so much already that moving forward, I want one less battle to fight.

We owe this to our broken heart and tired soul!




#Banosaazi

May 11, 2020

تئیس ہزار کا دوپٹہ، تین ٹکے کی غربت

 Originally published here HumSub

چند روز پہلے، سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹ نے کافی شور مچا رکھا تھا جس میں درخت کی شاخ پر دو دوپٹے لہرا رہے تھے. عمومی طور پر شاخ پر الّو بیٹھتا ہے لیکن یہاں الّو بنانے والے دوپٹے تھے.

  
اس ٹوئیٹ کو لکھنے والے خود بھی ایک بہترین فوٹوگرافر ہیں اور انہوں نے نہ صرف دوپٹے کی قیمت پر ہم غریبوں کا دھیان کروایا بلکہ یہ بھی بتلایا کہ یہ کس قسم کی تصاویر ہیں. مجھے لگتا ہے اوسط درجے سے نیچے کی ہونگی کیوںکہ الّو کی آرامگاہ کو آپ نے ململ کے دوپٹے کی آماجگاہ بنا دیا. 

خیر، بندر کیا جانے ادرک کا سواد!

ہم ٹھہرے مڈل کلاس اور ہمارے پاس اس دور میں اگر اضافی ٢٠ ہزار آ بھی جاتے تو ہم اسے درخت پر لٹکانے کے بجاۓ کسی غریب کا راشن ڈلوا دیتے، کرایہ دے دیتے، بل یا فیس بھروا دیتے. 

پہلے پہل ہمیں لگا کہ کون اس قسم کے واہیات مہنگے دوپٹے خریدے گا جن میں نہ تو سونے کے تار کا کام ہے، نہ فیروزے یاقوت کا جڑاؤ ! جب آس پاس دیکھا تو پتہ چلا پاکستانی قوم جوش و خروش سے عید منانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کیوںکہ موسم گرما ہے تو ایسے جا بجا ڈیزائنر ہیں جو ململ اور سوتی کی قمیضیں ہزاروں میں بچ رہے ہیں اور خواتین لہک لہک کر خرید بھی رہی ہیں.

غلطی سے ایسی ہی ایک خاتون کو ہم نے عادت سے مجبور ہو کر ٹوک دیا کہ دور خراب ہے، وبا پھیلی ہوئی ہے، لوگوں کے پاس اگلے وقت کا کھانا نہیں ہے، تو وہ کیوں ١٥ ہزار کا جوڑا لے رہی ہیں؟ جواب آیا انہوں نے اپنے حصّے کی زکوة اور فلاحی کام انجام دے لئے ہیں.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اپنے حصّے کا فلاحی کام کردینا کافی ہے؟ کیا اصراف کی کوئی پوچھ نہیں ہے؟ کیا ہم ایک سال عید پر بنا نئے جوڑے کے نہیں رہ سکتے؟

دسمبر ٢٠١٩ میں،ماہراقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان جون ٢٠٢٠ تک غربت کی چالیس فیصد سے اوپر کی سطح پر موجود ہوگا. اس کے نتیجے میں تقریباً ستاسی ملین لوگ غربت کی زندگی گزاریں گے. یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجزیہ نگاری، کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے کی ہے. 

اس عالمی وبا سے تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی حالت شدید کمزور ہوگئی ہے. آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Ian Golding کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ہماری زندگی کی سب سے بڑی آفت ہوگی جس کا براہ راست اثر ترقی پذیر ممالک پہ ہوگا. خصوصی طور پروہاں رہنے والوں کی صحت اور معاشی حالت اثر انداز ہوگی.  


اس وقت ملک میں جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن کو کھولنے کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس سے ہونے والے نقصانات کا بھی ذکر ہے. ان سب کے بیچ آپ کو ملے گا سرمایہ دار نظام اور مادیت پسندی!

کورونا وائرس کے نتیجے میں بازار بند ہونے کے باعث تمام برانڈز اور ڈیزائنر نے آن لائن شاپنگ میں شدید تیزی پیدا کردی ہے. عام دنوں میں مارچ اپریل کے مہینے میں Spring/Summer Vol. 1 آیا کرتا تھا جو اس بار بھی آیا لیکن تیس سے چالیس فیصد چھوٹ کے ساتھ! جو پیسے عوام نے سیل کے نام پر وہاں بچاۓ، وہ اب عید کے جوڑوں پر خرچ ہونگے. 

پچیس ہزار، اٹھارہ ہزار، اور کم سے کم گیارہ ہزار کے عید کے جوڑے دیکھے گئے ہیں جو لوگ آرڈر بھی کر رہے ہیں، سلوا بھی رہے ہیں، اور یقیناً عید پر پہنے بھی جائیں گے. اب دیکھیں نا غریب ویسے بھی پچیس ہزار کا کیا کرے گا؟ وہ تو بمشکل روز کا آٹھ سو یا ہزار کما لیتا تھا. 

آپ لوگ امیروں سے جلتے ہیں. اب دیکھیں اگر آپ نے بھی کسی غریب کا حق مارا ہوتا، کم سے کم اجرت پر مزدوریاں، کاری گری کروائی ہوتی، تازہ کی جگہ جھوٹا کھانا دیا ہوتا، کم عمر سے گھر کا جھاڑو پوچھا لگوایا ہوتا تو آج آپ بھی پچیس چھوڑیں، پینتیس ہزار کا جوڑا پہنتے!  

دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں. ہمارے سیاسی، معاشی، مذہبی، یا فقہی اختلافات کرونا وائرس کی وبا کے آگے بے معنی ہیں. غربت جرائم کو جنم دیتی ہے. اس لئے بہتر ہوگا، ہم غربت کی نشونما کا حصّہ نہ بنیں اور اپنی دولت اور آمدن کو مساوات کے ساتھ استعمال کریں.......اس تئیس ہزار کے دوپٹے کو کسی کی موت اور بھوک کا پھندا بننے کا موقع نہ دیں.