Jan 20, 2015

کہانی تمہاری زبانی میری


پہلی بار جب میں نےاس کو دیکھا تو مجھے لگا جیسے "وہ" سامنے آگیا ہو. اتنی گہری کالی آنکھیں لیکن بلکل خشک .....میں نے کتنی ہی بار انکو پڑھنا چاہا مگر ہزار غموں اور ایک ارمان کے سوا کچھ نہ دکھا.

اسے اجنبیوں سے کچھ خاص شغف نہیں لیکن پھر بھی وہ  رش میں خود کو روز کھونے اور کھوجنے دونوں کی کوشش کرتا  ہے. عجیب سا انسان ہے بالکل میرے جیسا .....جیسے فرشتوں نے ایک ہی خمیر سے اسکو اور مجھکو بنایا بس مجھے پہلے نازل کردیا.

کچھ لوگ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں لیکن وہ اپنے کڑوے پن سے......ایک بار غلطی سے اس نے مجھے مسکرا کر دکھا دیا، میرا دل ہوا اس  کے ہونٹ ہی سی دوں. اتنی جھوٹی اور طنزیہ تھی کے خدا دیکھ لیتا تو تا قیامت محرّم کا صور پھونک دیتا. 

وہ جو کوئی بھی تھی اس گہرے ترین کنویں جیسے انسان سے پانی کا ڈول کھینچ لایئ تھی......لیکن اسکو سدا کے لئے پیاسا چھوڑ گیی تھی.

بچوں جیسی ضد ہے....اور تلاش ایک دم انجان جیسے دنیا میں کچھ ہو ہی نہ ہو اس کی نظر کے سامنے. الٹی مانگ میں خواہشیں سیدھی کرتا رہتا ہے اور آڑھی ترچھی یادیں سمیٹتا ہے. 

آپ کبھی اسکو ملیں تو آپکو لگے گا عام سا نیم چڑھا کریلا ہے.

مجھے کیسا لگتا ہے؟
مجھے تو وہ ایسے ہی ملا تھا جیسے کسی آرٹ گیلری میں ایک کونے میں رکھا ہوا مجسّمہ جس پر ماضی کی گرد والی چادر پڑی تھی. میں نے جونہی چادر ہٹائی اس میں سانس چل پڑی. میرے لاکھ بار پوچھنے پر بھی اس نے تراشنے والے کا عشق نہ قبول کیا. 

وہ مجسّمہ ہی تو ہے جس کے خد و خال ہر کوئی چھوتا ہے ......کچھ تو پوجتے بھی ہیں.

میں بس دور کھڑی ہنستی ہوں......اپنے ہی خمیر کا عکس دیکھتی ہوں. 

وہ جس درد کے دریا میں غوطے کھا رہا ہے میں اسی دریا کی آخری تہہ میں دفن ہوں. 

  

Jan 19, 2015

جھوٹا سچ


مجھے لگتا تھا تمہارے  بعد بھی زندگی ہے، محبّت ہے، خوشی، ہنسی سب ........لیکن اب پتہ چلا کے صرف سانس ہے اور باقی سب کھوکھلا پن!

ہر صبح اسی خیال سے جاگتی ہوں کے آج جینے کی ایک اور کوشش کرونگی، تمھیں بھلا کر کچھ اور یاد کرونگی لیکن رات کو جانے کیسے میری آنکھوں سے تم لہر بن کر نکلتے ہو اور تکیے کو گیلا کر دیتے ہو. تم کبھی یہ سب پڑھو تو سوچو گے جھوٹ کہتی ہے. 

شاید جھوٹ ہی ہو کیوںکہ میں نے آگے بڑھنے کی ہر کوشش کی ہے. 

تمہاری محبّت کو لفظوں میں لپیٹ کر، کاغذوں پر لکھ کر کتنی ہی بار ذہن کے تاریک گوشے میں ردّی بنا کر پھینکا  لیکن بےسود ثابت ہوا. بستر سے اٹھ کر سفید دیوار پر سے تمہارا سایا بھی مٹایا تو تم نے آئینے میں گھر کرلیا. وہ شوخ گلابی کرتا یاد ہے؟ میں نے اس کو الماری کے سب سے نیچے ڈال دیا ہے تاکہ میری نظر سے بھی نہ گزرے.....وہ الگ بات ہے کہ اس کی خریداری کی رسید آج بھی دراز میں ہے. 

دنیا آج بھی سمجھتی ہے کہ میری منّتوں میں تم ہو اور میری دعا تم پر ختم ہے.......نادان ہیں نہیں سمجھتے کے تمہارا ہونے کہ لئے مجھے کسی منّت مراد یا پھر قاضی کی ضرورت نہیں ہے. 

میری ذات کو تم نے موم کی گڑیا بنا دیا ہے. اب میں ویسے ہی ڈھل گی ہوں جیسا تم چاہتے تھے........اس گڑیا تک پہنچ صرف تمہاری ہے. دل سے روح تک پہنچنے پر جو دروازہ ہے وہاں تم دربان بنے بیٹھے ہو.

اب بھلا بتاؤ مجھے دوبارہ کون پگھلاۓ  اور اپنا بناۓ ؟






Jan 13, 2015