مجھے لگتا تھا تمہارے بعد بھی زندگی ہے، محبّت ہے، خوشی، ہنسی سب ........لیکن اب پتہ چلا کے صرف سانس ہے اور باقی سب کھوکھلا پن!
ہر صبح اسی خیال سے جاگتی ہوں کے آج جینے کی ایک اور کوشش کرونگی، تمھیں بھلا کر کچھ اور یاد کرونگی لیکن رات کو جانے کیسے میری آنکھوں سے تم لہر بن کر نکلتے ہو اور تکیے کو گیلا کر دیتے ہو. تم کبھی یہ سب پڑھو تو سوچو گے جھوٹ کہتی ہے.
شاید جھوٹ ہی ہو کیوںکہ میں نے آگے بڑھنے کی ہر کوشش کی ہے.
تمہاری محبّت کو لفظوں میں لپیٹ کر، کاغذوں پر لکھ کر کتنی ہی بار ذہن کے تاریک گوشے میں ردّی بنا کر پھینکا لیکن بےسود ثابت ہوا. بستر سے اٹھ کر سفید دیوار پر سے تمہارا سایا بھی مٹایا تو تم نے آئینے میں گھر کرلیا. وہ شوخ گلابی کرتا یاد ہے؟ میں نے اس کو الماری کے سب سے نیچے ڈال دیا ہے تاکہ میری نظر سے بھی نہ گزرے.....وہ الگ بات ہے کہ اس کی خریداری کی رسید آج بھی دراز میں ہے.
دنیا آج بھی سمجھتی ہے کہ میری منّتوں میں تم ہو اور میری دعا تم پر ختم ہے.......نادان ہیں نہیں سمجھتے کے تمہارا ہونے کہ لئے مجھے کسی منّت مراد یا پھر قاضی کی ضرورت نہیں ہے.
میری ذات کو تم نے موم کی گڑیا بنا دیا ہے. اب میں ویسے ہی ڈھل گی ہوں جیسا تم چاہتے تھے........اس گڑیا تک پہنچ صرف تمہاری ہے. دل سے روح تک پہنچنے پر جو دروازہ ہے وہاں تم دربان بنے بیٹھے ہو.
اب بھلا بتاؤ مجھے دوبارہ کون پگھلاۓ اور اپنا بناۓ ؟
0 comments:
Post a Comment