پہلی بار جب میں نےاس کو دیکھا تو مجھے لگا جیسے "وہ" سامنے آگیا ہو. اتنی گہری کالی آنکھیں لیکن بلکل خشک .....میں نے کتنی ہی بار انکو پڑھنا چاہا مگر ہزار غموں اور ایک ارمان کے سوا کچھ نہ دکھا.
اسے اجنبیوں سے کچھ خاص شغف نہیں لیکن پھر بھی وہ رش میں خود کو روز کھونے اور کھوجنے دونوں کی کوشش کرتا ہے. عجیب سا انسان ہے بالکل میرے جیسا .....جیسے فرشتوں نے ایک ہی خمیر سے اسکو اور مجھکو بنایا بس مجھے پہلے نازل کردیا.
کچھ لوگ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں لیکن وہ اپنے کڑوے پن سے......ایک بار غلطی سے اس نے مجھے مسکرا کر دکھا دیا، میرا دل ہوا اس کے ہونٹ ہی سی دوں. اتنی جھوٹی اور طنزیہ تھی کے خدا دیکھ لیتا تو تا قیامت محرّم کا صور پھونک دیتا.
وہ جو کوئی بھی تھی اس گہرے ترین کنویں جیسے انسان سے پانی کا ڈول کھینچ لایئ تھی......لیکن اسکو سدا کے لئے پیاسا چھوڑ گیی تھی.
بچوں جیسی ضد ہے....اور تلاش ایک دم انجان جیسے دنیا میں کچھ ہو ہی نہ ہو اس کی نظر کے سامنے. الٹی مانگ میں خواہشیں سیدھی کرتا رہتا ہے اور آڑھی ترچھی یادیں سمیٹتا ہے.
آپ کبھی اسکو ملیں تو آپکو لگے گا عام سا نیم چڑھا کریلا ہے.
مجھے کیسا لگتا ہے؟
مجھے تو وہ ایسے ہی ملا تھا جیسے کسی آرٹ گیلری میں ایک کونے میں رکھا ہوا مجسّمہ جس پر ماضی کی گرد والی چادر پڑی تھی. میں نے جونہی چادر ہٹائی اس میں سانس چل پڑی. میرے لاکھ بار پوچھنے پر بھی اس نے تراشنے والے کا عشق نہ قبول کیا.
وہ مجسّمہ ہی تو ہے جس کے خد و خال ہر کوئی چھوتا ہے ......کچھ تو پوجتے بھی ہیں.
میں بس دور کھڑی ہنستی ہوں......اپنے ہی خمیر کا عکس دیکھتی ہوں.
وہ جس درد کے دریا میں غوطے کھا رہا ہے میں اسی دریا کی آخری تہہ میں دفن ہوں.
0 comments:
Post a Comment