Showing posts with label Shia. Show all posts
Showing posts with label Shia. Show all posts

Sep 7, 2019

شیعہ سکاؤٹس - گمنام سپاہی

Originally published here NayaDaur Urdu



میں کراچی کے ایک مرکزی امام بارگاہ میں پچھلے ١٥ سال سے مسلسل مجلس سننے جاتی ہوں. کل جب لاؤڈ سپیکر خراب ہوگیا میری سڑک کی طرف والا تو میں نے ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو روکا اور پوچھا، "بیٹا سپیکر تو کھلوا دو." 
اس بچے نے بڑی عاجزی سے مجھے کہا "آنٹی، بارش کی وجہ سے تار خراب ہیں. ہم کام کر رہے ہیں. آپ سے معذرت."

یہ بچہ ایک "سکاؤٹ" تھا!
تمیز، تہذیب، صبر، عاجزی، اور نظم و ضبط کی بہترین مثال اگر دیکھنی ہو تو پاکستان سکاؤٹس کے شیعہ رضاکاروں کو دیکھئے. 

 پاکستان میں پورے ملک سے اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ سے اوپر رجسٹرڈ سکاؤٹس ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں. 

 شیعہ سکاؤٹ بالخصوص محرم اور صفر کے مہینے میں متحرک ہوجاتے ہیں اور جذبہ حسینی کی خاطر رضاکارانہ طور پر مجلس جلوس میں انے والے عزاداروں کی خدمات میں کوشاں ہوتے ہیں.  

٩/١١ کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں وہ الگ، لیکن جو نقصان اور خطرہ پاکستان کی شیعہ برادری نے مول لیا وہ الگ.

سب سے زیادہ آسان اور کھلا ہدف محرم کے جلوس اور مجالس ہوتی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں حضرت امام حسینؑ کے ماننے اور چاہنے والے جمع ہوتے ہیں. ایسی جگہوں کو محفوظ بنانا یقینن ایک انتہائی مشکل کام ہے جو اکیلے پاکستان کے حفاظتی ادارے جیسے آرمی، رینجرز، اور پولیس نہیں کر سکتی. 

ایسے وقت میں شیعہ سکاؤٹس - رضاکار عوام اور اداروں کے بیچ میں رابطے کی صورت اختیار کرتے ہیں. کوئٹہ ہو یا کراچی، گلگت ہو یا پاراچنار، یہ رضاکار اپنی جان ہتھیلی پر لئے، تمام خطرات سے اگاہ ہوتے ہوئے بھی عزادار حسینی کی حفاظت کو اولین فرض سمجھتے ہی.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سکاؤٹس کی حفاظت کے لئے بھی کوئی اقدامات ہیں؟

سرور حسین (سردار) صاحب ١٩٧٧ سے پاکستان سکاؤٹس کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس وقت سندھ سکاؤٹس کے محرم کوارڈینیٹر اور کراچی اوپن ڈسٹرکٹ کے رجسٹرار  بھی ہیں. سردار صاحب کا ماننا ہے کہ سکاؤٹس ایک رضاکارانہ خدمت ضرور ہے لیکن اچھا ہوگا اگر مختلف سکاؤٹس انجمن گروپ کی صورت میں لائف انشورنس یا میڈیکل انشورنس جیسی سہولیات کا سوچیں.

سردار صاحب کے مطابق محرم سے پہلے سندھ رینجرز، اور سندھ پولیس سکاؤٹس کو ممکنہ ٹریننگ دیتی ہے جس میں بم ڈسپوزل، دہشت گردی کا حملے کی روک تھام اور چیکنگ وغیرہ شامل ہوتی ہے. 

کراچی کے مرکزی جلوسوں میں حملے میں شدید جانی نقصان اٹھایا ہے. اس میں کئی سکاؤٹس کے جوان بھی تھے جو ماتمین کی حفاظت کرتے ہوۓ شہید ہوگئے. 

زین، ٢٩ سال کے ہیں، ٢ بیٹیوں کے باپ، اور کراچی میں ایک جانے مانے امام بارگاہ میں ١٢ سال سے سکاؤٹ کی خدمات انجام دیتے ہیں. زین کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر سکاؤٹس اور ان سے منسلک انجمن کو چندے کی صورت میں عزادار بھی مدد کریں. اس سے حفاظتی اقدام لینے میں آسانی ہوگی. 

زین کہتے ہیں، جو پیسہ چندے کی صورت جمع ہوگا وہ سکاؤٹس کی ٹریننگ اور حفاظتی اقدام پر استعمال ہوگا، کیوںکہ جان سب کی قیمتی ہے.  

دوسری جانب سید عظیم ہیں جو ٥ سال کی عمر سے العباس سکاؤٹس کراچی، سے منسلک ہیں. عظیم کا ماننا ہے کہ انہوں نے پچھلے ١٥ سالوں میں سکاؤٹس کو اپنی مدد آپ ک تحت بہتر ہوتے دیکھا ہے. امام بارگاہوں میں بہتر سیکورٹی آلات نصب کرنا، حفاظتی اداروں کے ساتھ مل کر نت نئی حفاظتی طریقے کار کا اقدام کرنا. یہ سب سکاؤٹس اب اور زیادہ دھیان اور جذبے سے کرتی ہے کیوںکہ عزادار حسینی کا ان پر اندھا اعتماد ہے.

پاکستان شیعہ سکاؤٹس آپ کو بلا کسی غرض کے کام کرتے نظر آئیں گے. چاہے وہ کراچی کی تیز بارش ہو، یا گلگت کی برفباری. شیعہ سکاؤٹس کی تربیتی اقدار باقی تمام سکاؤٹس سے قدرے مختلف ہیں. 

انہیں معلوم ہوتا ہے کے یہ جلوس کے سامنے چلتے ہوئے جایئں گے لیکن شاید واپس نہ آئیں. ہو سکتا ہے حفاظتی چیکنگ کرتے ہوئے کوئی خودکش ان سے لپٹ جائے اور ان کا جنازہ بھی سلامت گھر نہ پہنچے.

کیا ان سب باتوں کے باوجود، کبھی کسی گھر والے یا پیاروں نے ان کو روکا خدمات حسینی سے؟

فروا کے والد صاحب کراچی کی مختلف سکاؤٹ انجمن کے ساتھ منسلک رہے اور کراچی میں ہونے والے دھماکوں اور تباہی کے عینی شاہد تھے. فروا کہتی ہیں، شہادت ہماری عقیدت کا بنیادی حصہ ہے. ہم کسی کو اس سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی اس کام کے لئے اپ کبھی کسی سکاؤٹ کو پیچھے ہٹتا دیکھیں گے. ہر دہشت گردی کے حملے کے بعد، شیعہ برادری اور زور و شور سے آگے آتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم کفن پہن کر گھر سے نکلتے ہیں. 

"گھر والے بس گاہے بگاہے فون کرتے ہیں اور محفوظ رہنے کا کہتے ہیں." 
عظیم جو کراچی میں تو سکاؤٹس کی خدمات انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ میں عراق میں بھی عاشورہ اور اربعین کے رضاکار ہیں. ان کا ماننا ہے کہ آپ کسی کو اس نیک عمل سے روک نہیں سکتے. 

دوران مجلس آپ کا کبھی بھی اتفاق ہو تو آپ سکاؤٹ سے پوچھیں کہ وہ کب سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور کیوں؟

عمومی طور پر یہ بچپن سے ہی سکاؤٹ میں آجاتے ہیں اور "حسینؑ کی خدمت" کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں. جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، سکاؤٹس کے جوان اور بوڑھے اپنی روز مرہ کی زندگی کو محرم کیلنڈر کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں. 

جو سٹوڈنٹس ہوتے ہیں وہ تعلیمی مصروفیت  ختم کرتے ہی امام بارگاہ اور انجمن کا رخ کرتے ہیں. دفتر جانے والے یا تو جلدی چھٹی لیتے ہیں یا پھر پہلے عشرے میں مکمل چھٹیاں. زین، اپنے دفتر کی چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں تاکہ محرم میں کام آسکیں. 

سکاؤٹس، ایام حسینی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنا رضاکارانہ فرض یاد رکھتے ہیں. ان کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت ہوتا ہے جو مسلک، مذہب ہر چیز سےبالاتر ہے. 
عظیم بتاتے ہیں کہ محرم کے شروع ١٠  دن،سکاؤٹس آرام بھول جاتی ہے. یہ مسلسل مجلس کے ایک کونسے سے دوسرے کونے تک خدمات میں مصروف رہتے ہیں. گاڑیاں پارکنگ میں لگوانے سے لے کر چیکنگ تک ہر چھوٹا بڑا حفاظتی اقدام ان کے سر ہوتا ہے، جس کی اجرت کوئی نہیں لیکن لطف بہت. 

پاکستان سکاؤٹس- بالخصوص محرم میں آپ کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں. ان کے لئے نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی، نہ ہندو، نہ عیسائی. ان کے لئے سب انسان ہیں جن کی خدمت ایام حسینی میں سکاؤٹس خود پر فرض سمجھتی ہیں.

وقت بدل رہا ہے، ملکی حالات بدل رہے ہیں، اور اس میں یہی امید کی جا سکتی ہے کے شیعہ نگران اور انجمنیں سکاؤٹس کی ذاتی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بہتر اقدام لیں گی.

بحثیت قوم، سکاؤٹس کے ساتھ تعاون کریں، عزت کریں، اوران کا کام آسان بنائیں!

Sep 1, 2019

تاریخ عزاداری

Originally published here HumSub


یوں تڑپتے ہیں محرم کے لئے اہل عزا
حبس میں جیسے کوئی تڑپے ہوا کے واسطے
                                               (ماخوز) 

لغوی بیانیے کے مطابق لفظ عزاداری فارسی کا ہے جس کے معنی سوگواری یا غم منانے کے ہیں. عام طور پر آپ سنیں گے کہ مجلس، ماتم، اور عزاداری جیسی روایت نئی نویلی ہیں اور ان کا تاریخ سے یا  مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے.

سچ تو یہ ہے کہ، اسلام کا سیاسی رخ بدلنے اور بنانے میں سب سے بڑا واقعہ، واقعہ کربلا ہے. یہ وہ سانحہ ہے جس نے صحیح اور غلط، حق و باطل، سیاہ و سفید، ظالم و ملزوم، اور ایسی تمام تفریق کو میدان کربلا کے پلڑے میں کھڑا کردیا. یوں تا قیامت، بنی آدم کے لئے اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوگئی. 

بعد از کربلا، تقریباً ایک سال کے بعد جب اسیران شام کی رہائی ہونے جارہی تھی، تب یزید نے حضرت زینبؑ سے پوچھا اگر بی بی کی وقت رخصت کوئی خواھش ہو. بی بی زینب نے فرمایا کہ جنگ کے بعد انہیں اپنے پیاروں کی بے درد شہادت پر رونے اور گریہ و زاری کا موقع نہیں ملا. 

یوں زینبؑ بنت علیؑ نے تاریخ میں پہلی عزاداری براۓ کربلا کی بنیاد رکھی!

١٠ محرم، روز عاشور جب امام حسینؑ نے "ھل من الناصر؟" کی صدا لگائی تھی توکوئی نہیں آیا تھا اور امام نے اپنے خاندان، صحابہ، اور ناصرین کے ساتھ یہ جنگ اکیلے لڑی. 

اس روز کے بعد، مسلمان بلخصوص شیعہ مسلمان عزاداری حسین کا اہتمام کرتے ہیں اور زمانے میں ہونے والی ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف یک آواز ہوتے ہیں. ساتھ ہی ساتھ محرم کا پہلا عشرہ اور اس میں ہونے والی مجالس، کائنات کے لئے یاد دہانی ہیں کہ واقعہ کربلا کیا تھا، کیوں تھا،اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا. 

یتزاک نکاش، شیعہ تاریخ کے ماہرین میں سے ہیں اور انکی ریسرچ کے مطابق بی بی زینبؑ کے بعد بھی عزاداری حسین کا سلسلہ جاری تھا. خلافت امّید کے دوران عزاداری کا رواج خاموش اور ایک طرح سے تقیے کی نظر تھا. تمام مجالس و گریہ امام یا ان کے شعیوں کے گھر منعقد ہوتی تھیں. عباسی خلافت کے دوران یہ مجالس کچھ عرصہ کھلے عام ہوئیں.

لفظ عزا الحسین  کا تریقتاً استعمال پہلی بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے دور میں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے جد کو رونے والی مجلس کی میں تائید کرتا ہوں. 

پیٹر چیلکووسکی نیو یارک جامعہ سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ و حالات پر عبور رکھتے ہیں. انہوں نے اپنے ایک ریسرچ جرنل میں بیان کیا ہے کہ عزاداری کا پہلا سرکاری درجے کا واقعہ چوتھی صدی میں، سلطان معیز الدین دولہ کے دور میں پیش آیا تھا. تب بازار و دفاتر بینڈ ہوتے تھے اور روز عاشور عزاداری بپا ہوتی تھی.

دوسری طرف جے.کلمرڈ نے اپنے مذہبی مقالے میں لکھا ہے کہ ایران میں عزاداری اور ماتم کی روایت بارہویں صدی میں زور پکڑ گئی، اور سفوید خلافت کے دوران اسکو بھی سرکاری درجے پر لایا گیا.  

تیمور لنگ کا دور آیا اور عزاداری کا دائرہ جغرافیہ فارس اور عراق سے نکل کر سمرقند، بخارہ، اور آگے تک آگیا. ہم یہاں صرف تاریخ عزاداری کا بیان کر رہے ہیں تو ان ادوار اور بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی رجحانیت کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا. 

برصغیر میں یوں تو حوالہ ہے کہ سندھ میں جب عرب بسنا شروع ہوئے تو عزاداری کا اہتمام ہوا، مگر اس عزاداری کی صحیح ساعت لکھنؤ سے ہوئی جہاں آج بھی سب سے بڑا مرکزی جلوس روز عاشور نکلتا ہے. مرثیہ کی روایت یوں تو امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے ہے لیکن اردو میں مرثیے کو روح بخشنے کا سہرا لکھنؤ کے سر جاتا ہے.

اٹھارویں صدی نے لکھنؤ کو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیہ لکھنے والوں سے نوازا جیسے میر انیس، مرزا دبیر، اورعلی حیدر طباطبائ وغیرہ. 
لکھنؤ کی عزاداری نے برصغیر میں امام حسین کے غم کو آگے بڑھایا اور تبلیغ کی صورت پھیلا دیا. 

١٩٣٠میں مولانا سبط حسن وہ پہلے مولانا تھے جنہوں نے لکھنؤ میں عزاداری کو لیکچر کی شکل دی جو آج تک تمام مجالس میں دوہرائی جاتی ہے. مولانا کے اس طریقت میں پہلے سلام، پھر مرثیہ، پھر ذاکر کا بیان جو فضائل اور مصائب پر مبنی ہوتا ہے، اور سب سے آخر میں نوحہ خوانی ہوتی ہے. 

عزاداری نے بیسویں صدی میں جو نیا رخ لیا اس سے شیعہ مسلمانوں کو پیغام حسینی اور مقصد حسینی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی. یہ ایک ایسی تبلیغ کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ جو چاہے آ کر بیٹھے، سنے، سوال پوچھے، سمجھے، بلا تفریق!

محرم میں ہونے والی عزاداری دراصل ایک یاد دہانی ہے ہر زی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں؛ یا حسینی یا یزیدی. ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، دشمن بہت دوست کوئی کوئی ہوگا.


انسان  کو   بیدار  تو  ہو   لینے   دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں 'حسین' 

  

Apr 14, 2019

فاختہ والے خلیل خان اور ہزارہ شیعہ

Originally published here HumSub

آج آپ  کی ملاقات خلیل میاں سے کرواتے ہیں!
یہ اکیسویں صدی میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی فاختہ اڑاۓ پائے جاتے ہیں. خلیل میاں کو کوئی غرض نہیں کہ دائیں ہاتھ والے گھرکا بڑا بیٹا اکثر بائیں ہاتھ والے گھر کی ملازمہ کوتتنگ کرنے چھت پر آجاتا ہے. خلیل میاں سامنے ہوتے ہوئے بھی اندھے بن جاتے ہیں کیوںکہ انکا کام فاختہ اڑانا ہے، محلے کے جوانوں کو ڈانٹنا نہیں. 
خلیل میاں تو اس دن بھی چپ سادھے ہوئے تھے، جس روز انہوں نے اپنی آنکھوں سے سامنے والے گھر میں انکی بہو کو مار کھاتے دیکھا تھا اور بعد میں شعلوں میں لپٹا اسکا جسم. پولیس آئی، تھانہ کچہری ہوا لیکن خلیل میاں انجان بنے فاختہ اڑاتے رہے کیوںکہ یہ کسی کے گھر کا اندرونی معاملہ ہے. 
فاختہ کی محبّت دنیا کے ہر مسئلے سے برتر تھے. چاہے وہ جلتی ہوئی بہو ہو، یا محلے کے لڑکوں کی ٹپکتی ہی رال، خلیل میں اپنی دنیا میں مگن تھے. 

اپنی اس دنیا سے بس وہ رات کو کچھ دیر کے لئے باہر آتے ہیں اور گلی کے نکڑ پر چند ایک اور فارغ ال اوقات حضرات کے ساتھ محفل جماتے ہیں. ایسی ہی ایک رات تھی جب محلے کے حیدر صاب نے کوئٹہ میں جمّعہ  مبارک کی صبح  سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر چھیڑ دیا.  ساتھ ہی کچھ  لوگوں نے تعزیتی گفتگو شروع کردی کہ کیسے شیعہ فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ کتنا پرامن دھرنا دے رہے ہیں.

بس یہ سننے کی دیر تھی، خلیل میاں نے فاختہ چھوڑ حب الوطنی کا دامن تھام لیا اور سب کو ٹوکتے ہوا کہا "آپ لوگ تعصبی باتیں نہ کریں. شیعہ نہیں مرے، مسلمان مرے ہیں. ہمارا ملک تو امن کی فاختہ ہے وہ تو بس بھارت حاسد یہ سب کرا رہا ہے."

حیدر صاب نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ لشکر جھنگوی نے یہ کہہ کر ذمےداری قبول کی ہے کہ یہ ہزارہ شیعہ پر حملہ تھا، لیکن خلیل میاں امن کی فاختہ چھوڑنے کو تیار نہ تھے.

ایسے کئی خلیل میاں آج ہمارے آس پاس موجود ہیں جوویسے تو چپ سادھے رہیں گے جب رمضان مینگل جیسا دہشتگرد رہا ہوجاۓ گا لیکن اس کے  ٹھیک ٣ دن بعد ہونے والے دھماکے کو پڑوسیوں کے نام کردیں گے. 

خلیل میاں کی نظرمیں  الزام لگانا آسان ہے، لیکن اپنے فیصلوں کی ذمےداری اٹھانا اس سے کہیں مشکل ہے. 

میں اکثر کراچی میں واقع قبرستان "وادی حسین" جاتی ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکوں یا رو لوں کیوںکہ اب تو روز حشر ہی ملاقات ہوئی تو ہوئی. وہاں کئی قبروں پر لال جھنڈا یا لال علم لگا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شہدا ہیں جنہیں "علی ولی الله" کی پاداش میں مار دیا گیا. 

ہم میں سے عمومی طور پر لوگ اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں کی لاشیں سلامت اٹھاتے ہیں. وہ ٹکڑوں میں نہیں ہوتیں نہ تتر بتر سڑک پر پھیلی نہیں ہوتیں. لاش اٹھانے میں اور لاش سمیٹنے میں بڑا فرق ہے! 

پاکستان کے شیعہ، خصوصی طور پر، ہزارہ شیعہ لاشیں سمیٹتے ہیں. کیا بزرگ کیا جوان، کیا شیرخوار. کیا بیٹا، کیا باپ، کیا بھائی، کیا شوہر! 
اگر واقعی میں "حسین" کا صبر کسی نے اپنایا ہے تو وہ ہیں ہزارہ شیعہ جو ہر دفعہ خاموشی سے اپنے پیاروں کی لاش سمیٹتے ہیں، اور سڑک ک کنارے بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید اس بار حکومت ہماری سن لے. 

انٹرنیٹ کا دور ہے اور کسی بھی خلیل میاں کو شاید ٥منٹ لگیں یہ جاننے میں کہ، ٢٠٠١ سے ٢٠١٨ تک پانچ سو کے قریب حملے شیعہ فرقے کے ماننے والوں پر ہوئے ہیں، جن میں سے ١١٦ (ایک سو سولہ) حملے صرف ہزارہ شیعہ پر ہوئے ہیں. ہزارہ ویسے ہی گنی چنی برادری ہے جو کوئٹہ میں اپنا مسکن بنائے بیٹھی ہے اور جو غلطی سے مسکن سے باہر نکلی تو دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے.

حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ، ہزارگنجی میں ہونے والے دھماکے سے ٣ دن قبل ہی لشکر جھنگوی کے سربراہ رمضان مینگل کو حکومت نے رہا کیا تھا. بعد از، اسی تنظیم نے ISIS کی مدد سے یہ حملہ کیا جس میں چوبیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہیں. 

ہزارہ شیعہ برادری اپنے روایتی انداز میں پرامن دھرنا دئیے بیٹھی ہے اور انکی مانگ بس اتنی سی ہے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں کو پکڑا جاۓ، اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ آ کر انکو گریہ و زاری سنیں. خان صاب نے بلکل سنی اور ٹویٹر پر ایک تعزیتی ٹویٹ بھی کردی جو مجھے امید ہے کہ ہزارہ برادری تک پہنچ گئی ہوگی. 

اب دیکھیں، بات کو سمجھیں، خان صاب وزیر اعظم ہیں، جگہ جگہ تو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ ڈالر ادھار نا دے رہے ہوں. اسی لئے انہوں نے نئے زمانے کی تعزیت کردی.

ہزارہ شیعہ ایک ایسی برادری ہے جو اپنے ہی شہر میں محصور ہے کیوںکہ حکومت انہیں محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے. اس چھ سے آٹھ لاکھ کی برادری زخم ابھی بھرتے بھی نہیں کہ ظالم انہیں پھر سے کھرچ ڈالتے ہیں. 
پاکستان انسانی حقوق نیشنل کمیشن کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں صرف کوئٹہ شہر کے اندر ٥٠٩ ہزارہ شیعہ ہلاک، اور ٦٢٧ زخمی ہو چکے ہیں. یہ افراد اپنے گھر سے کفن باندھ کر نہیں نکلے تھے، لیکن دہشتگردوں نے انہیں یا تو کفن پہنا دیا اور جو بچ گئے انہیں فاتحہ پڑھنے کو چھوڑ دیا. 

پڑھنے والے اور سننے والے کے لئے ٥٠٩ ہلاکتیں بس اعداد و شمار ہیں لیکن دراصل یہ پورے پورے خاندان ہیں جو سماجی، ذہنی، اور سب سے بڑھ کر معاشی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں. 

گلوبل اکسٹرمزم مانیٹر کی ٢٠١٧ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ٩٥% دہشتگردی کے واقعیات شیعہ مسلک پر ہوئے ہیں. اس رپورٹ میں، پاکستان دنیا کے ١٠ سب سے خطرناک ممالک میں شامل تھا جہاں فرقہ وارانہ حملے ہوتے ہیں. پاکستان کا نمبر آٹھ تھا!  

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی، بلکہ نہیں ہوگی کیوںکہ آپ بھی خلیل میاں کی نسل سے ہیں. پھر بھی بتانا میرا فرض ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے شہر جھنگ نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی ک خلاف خراج عقیدت پیش کیا اور انسانی عکس کی صورت ایک مسجد کی شکل بنائی. 
یہ خراج عقیدت عین اسی دن دیا گیا جس دن کوئٹہ خون میں نہا گیا تھا. 

کیا آپ نے کبھی پاکستان میں مرنے والی اقلیتوں کے لئے کوئی ایسا حسین و دلکش، دل کو پرنور کر دینے والا خراج عقیدت دیکھا ہے؟ 
نہیں!
وو کیا ہے نا کہ اقلیت تو بس پاکستان سے باہر ہوتی ہے. پاکستان میں تو بس اکثریت ہے اور وہ بھی خلیل میں کی! 





Jan 7, 2018

اعتزاز حسن شہید کی یاد میں

Originally published here HumSub

آج بروز ٦ جنوری، ملک میں چند دردمند لوگ اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے ہماری آپکی خاطر اپنی نو عمری ہم پر قربان کردی، اپنی ماں کی گود، گھر کا آنگن، یہ سب کچھ سونا کردیا تاکہ اس کے گاؤں کا مستقبل محفوظ رہے. وہ مستقبل جو اس وقت تقریباً ٢٠٠٠ شاگردوں پر مشتمل تھا، اور لشکر جھنگوی کے رحم و کرم پر ہو سکتا تھا، اگر اس روز وہ  ١٥ سال کا بنگش قبیلے کا کم عمرلڑکا اس ملعون  کو سکول سے باہر نہ روک لیتا اور طالبانی/ جھنگوی ارادوں کی دھجیوں کے ساتھ خود کو بھی نہ  اڑ لیتا

وہ تھا اپنی ماں کا لعل، شیر جگر، اعتزازحسن!


آج اگر اعتزاز زندہ ہوتا تو ١٩ سال کا ہوتا لیکن اس نے لازوال قربانی کو اذیت کی زندگانی پر ترجیح دی. اعتزاز حسن، پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ہنگو ڈسٹرکٹ  کے گاؤں ابراہیمزائی سے تعلق رکھتا تھا، جس کی اکثریت شیعہ آبادی ہے اور آج بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے. 

اپریل سنہ ٢٠١٧ میں، طالبان نے اعتزاز کے گھروالوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے اور یاد دہانی کرائی کے انکا بیٹا/بھائی نہ ہی تو شہید ہے نہ ہیرو. مسلسل کوششوں کے باوجود پچھلے سال تک، پکّی FIR نہیں کٹ سکی تھی  اور نہ ہی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے وعدے پورے ہوئے تھے. یہ تو خیر ہم سب جانتے ہیں کے کون کس کے "ناراض بھائی" ہیں اور شاید اس لئے اب تک اعتزاز بس ایک یاد ہے. معلوم نہیں وہ کونسے علاقے ہیں جو اب تک نوے فیصد ہی کلیر ہوئے ہیں اور  باقی کے ١٠ فیصد کو بھائی بندی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اعتزاز جیسے شہدا کے گھروں پر دھمکتے رہیں اور یاد دلاتے رہیں کہ "تمہاری قربانی رائیگاں، ہمارا جہاد پائندہ"!

پاکستان کا المیہ یہ ہے جنہوں نے قربانی دی ان کے گھروالے حفاظت کی بھیک مانگتے، سرکاری دروازے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ جنہوں نے قربان کیا انکو باحفاظت رکھا جاتا ہے. کچھ یاد آیا؟

نہیں؟
14 دسمبر 2014، پشاور، آرمی پبلک سکول، 144 جانوں کا قتل !

میں ان بچوں اور بڑوں کو شہید نہیں کہتی کیوںکہ کوئی انسان، کم از کم ایک ٦ سال کی بچی، اپنے گھر سے یہ سوچ کر صبح کو نہیں نکلتی کہ آج تو میں طالبان کے ہاتھوں بیدردی، بےرحمی سے قتل ہونگی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرونگی. 
وہ معصوم جانیں ١٤ دسمبر کے روز قتل ہوئی تھیں!

انکو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے ہی سامنے چھلنی ہوتے دیکھیں گے. ان اساتذہ، کام کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ آج ضرب ازب کی ضرب انکو لگے گی.

ان ١٤٤ جانوں میں سے ١٣٥ بچے تھے، جن کی ماؤں نے انکو ٩ مہینے اپنے جسم کا حصّہ اس لئے بنا کرنہیں رکھا تھا کہ ایک دن کوئی تکفیری طالبان آ کر درسگاہ جیسی جگہ پر ان کے لعل کو لہولہان کردے گا. کوئی ماں باپ نہیں سوچتے کے سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے میرا بیٹے اور بیٹی کا جنازہ اٹھے گا.
اس بیٹے کا جوکچھ دن پہلے اپنے باپ کو اپنے مستقبل کے پلان بتا رہا تھا اور باپ دل ہی دل میں پیسے جوڑ رہا تھا. وہ بیٹی، جو ماں کا پلو نہیں چھوڑتی تھی اور اب کہیں جا کر اسکول جانا سیکھا تھا......ایسے، ایسے بچوں کا جنازہ گھر آیا اور آپ کہتے ہیں وہ شہید ہیں انہو نے جان کا نذرانہ دے دیا؟
نہیں!
ان بچوں  سے  اس روز درندگی نے زندگی چھین لی تھی!

بدلے میں ہم احسان الله احسان جیسوں کو میڈیا پر لا کر زخم تازہ کر رہے ہیں. اس کو ہیرو بنا رہے ہیں، اسلام کی خلافت کا مظاہرہ، اور آرمی کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں. بھلا ہو ان والدین کا اور انکی کوششوں کا جنہوں نے بروقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، اور اسپیشل بینچ نے احسان الله احسان کی عام معافی اور رہائی دونوں پر فالوقت پابندی عائد کردی ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان الله احسان جیسے درندے، قاتل کی عام معافی اور رہائی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟ اگر ہماری فوج حکمرانوں کے تختے الٹنے اور انھیں پھانسی کے تختے تک لے جا سکتی ہے تو احسان اللہ احسان کے لئے کیوں نہیں تارہ مسیح بن سکتی؟

آخر پاکستان میں آزادی کی سانس اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پیاز ٹماٹر الو کی مہنگائی پر رونا رونگی تو کوئی نہ سنےگا، نہ کچھ کہے گا، لیکن آزادی کی تنقید، حقوق کی آزادی، ایسی باتوں پر ادارے آپکی سستی سی جان کو رلا سکتے ہیں. 

آپ کو لگ رہا ہے میں مذاق کر رہی ہوں؟ ایک تو آپ لوگوں کی یاداشت بھی نا !

پچھلے سال اسی جنوری میں چند بلاگرز کو گمشدہ کردیا گیا تھا اور تب بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور کہا آزادی اور سچ بڑا مہنگا ہے. کچھ لوگ انجانے میں صبح کو گھر سے نکل کر، قتل ہو کر، آزادی کی نظر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ "انجام گلستان کیا ہوگا".

٢٠١٨ ابھی شروع ہوا ہے اور میری دعا ہے کسی ماں کی گود نہ اجڑے کیوںکہ ہر ماں ام لیلیٰ اور رباب تو نہیں، اور دعا ہے کہ حق کی طرف رہنے والوں کو "حر" کی دعا اور دوا دونوں ہو!


خدا مشعل خان جیسی کئی مشعل راہ دے میرے پاکستان کو.
آمین !


Jun 8, 2015

شیعہ کہانی



یہ میری اپنی اور میرے آس پاس والوں کی کہانی ہے  جو قسمت سے یا مرضی سے شیعان علی کے دائرے میں ہیں.

ہم نے آزادی کی جنگ کے قصّے سن رکھے ہیں کیسے بلوائیوں نے گھر اجاڑے ، عزتیں اتاریں، اور فلانہ ڈھمکانا ا سب سنا پڑھا لیکن کہیں فرقے کا ذکر نہیں سنا. الٹا میرے بڑے جنہوں نے ایک چھوڑ دو ہجرتیں دیکھیں اور ساتھ جانے کیا کیا دیکھا جس کا ذکر وہ کبھی خشک آنکھوں سے نہیں کرتے، کہتے ہیں شیعہ سنی فسادات ہند اور بنگال کا کبھی مسلۂ نہیں رہا. 
ہندو مجلس سنتے تھے اور حسین کے نام کی نیاز، سکینہ کے نام کی سبیل، اورعبّاس کو باب الحوائج مانتے تھے / ہیں. انسانی اور مذہبی ہم آہنگی بنیاد تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ہجرتوں کی قصّہ گوئی بن کر رہ گئی بس. 

میں خود سے شروع کروں تو میری پہلی یاداشت تب کی ہے جب چوتھی جماعت میں تھی. سکول کے بعد وین کے انتظار میں تھی جب میں نے دیکھا کہ میری ہم جماعت اپنی خالی پانی کی بوتل لئے کھڑی ہے اور ادھر ادھر پانی کے  لئے کسی کو ڈھونڈ رہی ہے. 
میری پرورش میں ایک جملہ بہت شامل رہا وہ تھا "پانی پر کبھی انکار نہیں کرتے چاہے کچھ ہو، تم کوئی یزید تھوڑی ہو."   

تو بس اسی جملے کی بنیاد پر بانو صاحبہ ڈیڑھ ہوشیار بنتے ہوئے اس بچی کو پانی دینے لگیں اپنی بوتل سے لیکن سامنے سے عجیب بات سننے کو ملی. اس نے کہا "تم شیعہ ہو پانی میں تھوکتی ہوگی میں نہیں پیوں گی." میں ہاتھ میں بوتل کا گلاس لئے حیران و پریشان رہ گئی اور خود وہ پانی پی گئی. 

چوتھی کلاس کی بچی کو کیا عقل فرقے کی نہ کبھی ہمیں فرقہ واریت سکھائی گئی سو گھرپہنچتے ہی اماں کے آگے اپنا مرثیہ لے کر بیٹھ گئی کہ شیعہ کیا ہے؟ میرے پانی میں کون تھوکتا ہے؟ اور ثانیہ کی بچی نے ایسا کیوں کہا؟ بہرحال اماں نے کچھ مجھے سمجھایا اور کچھ میری استانی کو کہ بچے سکول میں کیا گفتگو اور رویہ رکھتے ہیں. 

پانی کے تھوک، حلیم میں بچوں کے خون سے لے کر اور بہت ساری بیہودہ اور بے بنیاد فرقوی شک و شبہات لے کروقت گزارا بڑے ہوگئے لیکن پھر بھی میں نے اور مجھ جیسے کئی شیعوں نے خوف کی چادر کبھی نہیں لپیٹی.

تکفیری اور دیوبندی جیسے نام کانوں میں شاد و نادر ہی پڑھتے تھے لیکن اکیسویں صدی خود تو آیئ ساتھ اپنے بہت جوڑ توڑ لائی.  

٢٢ فروری ٢٠٠٣  کو کراچی میں لشکر جھنگوی  نے امام بارگاہ مہدی میں دوران نماز گھس کر ٩ شیعہ کو شہید کردیا تھا. سننے میں کتنی معمولی تعداد لگتی ہے نہ؟ 
سنۂ ٢٠٠٤ میں کل ملا کر ایک سو انتیس شیعہ شہید ہوئے اور چار سو  زخمی. 
اس سال کے دو بڑے دھماکے لیاقت بازار کوئٹہ اور حیدری مسجد کراچی کے تھے؛ لیکن عام شیعہ پھر بھی چوکنا نہ ہوا کہ آنے والا وقت ہر گھر سے جنازہ اٹھواے گا اور ہماری نسل کشی ہوگی. ہم یتیم مسکین نہیں ہونگے بلکہ ہونگے ہی نہیں.

میں ہر سال اپنے بھائی  کو عاشور کے جلوس میں بعد فجر چھوڑ کر آتی ہوں کیوںکہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے گاڑی نہیں لے جاتا. سنۂ ٢٠٠٩، اٹھائیس دسمبر کو میرے خاندان کا ہر مرد اور بچہ اس دھماکے کا گواہ ہے جو پچاس سے زائد شیعوں کو شہید اور سینکڑوں گھروں کو سوگوار کر گیا. چھوٹے چھوٹے بچے لاشوں کو پھلانگتے ہوئے وہاں سے نکلے اوراگلے روز نماز جنازہ پڑھنے گئے. 

میں نے ایک بار پھر اپنے بھائی کو اسی سال اربعین پر جاتے دیکھا. 

وہ دن اور آج کا دن ہے میں ہر روز اس کا چہرہ ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے آخری بار ہو کیوںکہ وہ ایک شیعہ ہے اور کبھی بھی ٹارگٹ ہو سکتا ہے.  

اور یہ صرف میرا وطیرہ نہیں ہر اس گھر کا ہے جو شیعان علی سے تعلق رکھتا ہے. لوگ کہتے ہیں محرم میں کالا مت پہنوکہ نشاندہی ہوگی لیکن ہم اتنی ہی ضد سے پہنتے ہیں،  انگلیوں میں چھلا ڈال کر رکھتے ہیں جو ہماری مائیں نظر دلاتی ہیں.

یہ نسل کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت ہے جس کی شروعات کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہوئی. 

پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں ١٣،٠٠٠ سے زائد ہزارہ شیعہ کا قتل عام ہوا اور ١٥،٠٠٠ سے زائد زخمی ہوئے. 

اور پھر لوگ کہتے ہیں شیعہ مت کہو، کہو پاکستانی مرا ہے؟

پچھلے سات سے آٹھ سالوں میں ہم شیعوں نے اتنے  جنازے اٹھاۓ اپنے جوانوں، بوڑھوں، اور بچوں کے، کہ اب تعداد بھی یاد نہیں رہی ہے.
تکفیری سوچ نے لمحوں میں ہماری جواں سال عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، اور ہماری دو دو تین تین نسلوں کوشہادت کے رتبے پر پہنچا دیا.......لیکن سلام ہے پاکستانی قوم پر جس کی اکثریت نے ہمارے لئے نہ آنسو بہاے، نہ گلے پھاڑ پھاڑ کر بین کیا. 

کیوں کہ ہم شیعہ ہیں، کشمیری یا برما کے مسلمان نہیں!

پاکستان کا آزاد میڈیا بھی لفظ "شیعہ" کا استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے. DAWN News، Express Tribune  جیسے بڑے بڑے اخبارات بھی کھل کر یہ نہیں بتاتے کہ ہزارہ کو کس بنیاد پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے؟ کوئی ذاتی یا کاروباری دشمنی نہیں ہے، یہ فرقہ واریت ہے تو پھر کیوں نہیں بولتے ہو؟

کیا "یا علی مدد" کہنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہر کا شہر ہمارا خون ہاتھ پر لگاے پھرتا ہے؟

شیعوں کا ناحق خون بہانے والے  تکفیریوں جان لو کہ جس جنّت کہ پیچھے تم اپنی جان گنواتے ہو، اس کے سردار "حسن و حسین" ہیں، اور لبّیک یاحسین کہنے والے ہم شیعہ! 









Jul 12, 2010

Advocating Fadlallah

Many a times, when people are alive, we don’t get the chance to tell them how do we perceive them or what influence do they have on our lives. So when they pass away, the emotional insurgency takes place, compelling us to let the world know how we feel.



That is what exactly happened when Ayatollah Fadlallah passed away on July 4, 2010.
During his life, Ayatollah Fadlallah considered harbouring Hezbollah and being one of its pioneers. Though, never acknowledged by either of them, any wise man can judge the importance of connection after Ayatollah Fadlallah came under CIA car bomb attack in 1985 which killed around 80 people. A decade later, he was labelled as terrorist by USA.


Modern media claims to be liberal and is permitted with freedom of speech but one of its own Octavia Nasr, who had been with CNN for decades, got fired for paying a tweet homage to Ayatollah. If a person is in media or government, doesn’t mean that they hold no personal opinions. May be they had far different experience than CIA with the labelled terrorist.


Ayatollah Fadlallah has been portrayed more of as an American enemy rather than on his stance against Iran and support on women’s right. His practices were pretty much easier to adopt in common life and speak logic.


A human holds different roles and personalities in one life which defines his character. I am not an authority to judge Ayatollah but am sure he must have had some charm which made CNN’s Octavia Nasr and British Ambassador to Lebanon, Frances Guy to eulogize him.










May you rest in peace.