Showing posts with label Quetta. Show all posts
Showing posts with label Quetta. Show all posts

Jun 8, 2015

شیعہ کہانی



یہ میری اپنی اور میرے آس پاس والوں کی کہانی ہے  جو قسمت سے یا مرضی سے شیعان علی کے دائرے میں ہیں.

ہم نے آزادی کی جنگ کے قصّے سن رکھے ہیں کیسے بلوائیوں نے گھر اجاڑے ، عزتیں اتاریں، اور فلانہ ڈھمکانا ا سب سنا پڑھا لیکن کہیں فرقے کا ذکر نہیں سنا. الٹا میرے بڑے جنہوں نے ایک چھوڑ دو ہجرتیں دیکھیں اور ساتھ جانے کیا کیا دیکھا جس کا ذکر وہ کبھی خشک آنکھوں سے نہیں کرتے، کہتے ہیں شیعہ سنی فسادات ہند اور بنگال کا کبھی مسلۂ نہیں رہا. 
ہندو مجلس سنتے تھے اور حسین کے نام کی نیاز، سکینہ کے نام کی سبیل، اورعبّاس کو باب الحوائج مانتے تھے / ہیں. انسانی اور مذہبی ہم آہنگی بنیاد تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ہجرتوں کی قصّہ گوئی بن کر رہ گئی بس. 

میں خود سے شروع کروں تو میری پہلی یاداشت تب کی ہے جب چوتھی جماعت میں تھی. سکول کے بعد وین کے انتظار میں تھی جب میں نے دیکھا کہ میری ہم جماعت اپنی خالی پانی کی بوتل لئے کھڑی ہے اور ادھر ادھر پانی کے  لئے کسی کو ڈھونڈ رہی ہے. 
میری پرورش میں ایک جملہ بہت شامل رہا وہ تھا "پانی پر کبھی انکار نہیں کرتے چاہے کچھ ہو، تم کوئی یزید تھوڑی ہو."   

تو بس اسی جملے کی بنیاد پر بانو صاحبہ ڈیڑھ ہوشیار بنتے ہوئے اس بچی کو پانی دینے لگیں اپنی بوتل سے لیکن سامنے سے عجیب بات سننے کو ملی. اس نے کہا "تم شیعہ ہو پانی میں تھوکتی ہوگی میں نہیں پیوں گی." میں ہاتھ میں بوتل کا گلاس لئے حیران و پریشان رہ گئی اور خود وہ پانی پی گئی. 

چوتھی کلاس کی بچی کو کیا عقل فرقے کی نہ کبھی ہمیں فرقہ واریت سکھائی گئی سو گھرپہنچتے ہی اماں کے آگے اپنا مرثیہ لے کر بیٹھ گئی کہ شیعہ کیا ہے؟ میرے پانی میں کون تھوکتا ہے؟ اور ثانیہ کی بچی نے ایسا کیوں کہا؟ بہرحال اماں نے کچھ مجھے سمجھایا اور کچھ میری استانی کو کہ بچے سکول میں کیا گفتگو اور رویہ رکھتے ہیں. 

پانی کے تھوک، حلیم میں بچوں کے خون سے لے کر اور بہت ساری بیہودہ اور بے بنیاد فرقوی شک و شبہات لے کروقت گزارا بڑے ہوگئے لیکن پھر بھی میں نے اور مجھ جیسے کئی شیعوں نے خوف کی چادر کبھی نہیں لپیٹی.

تکفیری اور دیوبندی جیسے نام کانوں میں شاد و نادر ہی پڑھتے تھے لیکن اکیسویں صدی خود تو آیئ ساتھ اپنے بہت جوڑ توڑ لائی.  

٢٢ فروری ٢٠٠٣  کو کراچی میں لشکر جھنگوی  نے امام بارگاہ مہدی میں دوران نماز گھس کر ٩ شیعہ کو شہید کردیا تھا. سننے میں کتنی معمولی تعداد لگتی ہے نہ؟ 
سنۂ ٢٠٠٤ میں کل ملا کر ایک سو انتیس شیعہ شہید ہوئے اور چار سو  زخمی. 
اس سال کے دو بڑے دھماکے لیاقت بازار کوئٹہ اور حیدری مسجد کراچی کے تھے؛ لیکن عام شیعہ پھر بھی چوکنا نہ ہوا کہ آنے والا وقت ہر گھر سے جنازہ اٹھواے گا اور ہماری نسل کشی ہوگی. ہم یتیم مسکین نہیں ہونگے بلکہ ہونگے ہی نہیں.

میں ہر سال اپنے بھائی  کو عاشور کے جلوس میں بعد فجر چھوڑ کر آتی ہوں کیوںکہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے گاڑی نہیں لے جاتا. سنۂ ٢٠٠٩، اٹھائیس دسمبر کو میرے خاندان کا ہر مرد اور بچہ اس دھماکے کا گواہ ہے جو پچاس سے زائد شیعوں کو شہید اور سینکڑوں گھروں کو سوگوار کر گیا. چھوٹے چھوٹے بچے لاشوں کو پھلانگتے ہوئے وہاں سے نکلے اوراگلے روز نماز جنازہ پڑھنے گئے. 

میں نے ایک بار پھر اپنے بھائی کو اسی سال اربعین پر جاتے دیکھا. 

وہ دن اور آج کا دن ہے میں ہر روز اس کا چہرہ ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے آخری بار ہو کیوںکہ وہ ایک شیعہ ہے اور کبھی بھی ٹارگٹ ہو سکتا ہے.  

اور یہ صرف میرا وطیرہ نہیں ہر اس گھر کا ہے جو شیعان علی سے تعلق رکھتا ہے. لوگ کہتے ہیں محرم میں کالا مت پہنوکہ نشاندہی ہوگی لیکن ہم اتنی ہی ضد سے پہنتے ہیں،  انگلیوں میں چھلا ڈال کر رکھتے ہیں جو ہماری مائیں نظر دلاتی ہیں.

یہ نسل کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت ہے جس کی شروعات کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہوئی. 

پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں ١٣،٠٠٠ سے زائد ہزارہ شیعہ کا قتل عام ہوا اور ١٥،٠٠٠ سے زائد زخمی ہوئے. 

اور پھر لوگ کہتے ہیں شیعہ مت کہو، کہو پاکستانی مرا ہے؟

پچھلے سات سے آٹھ سالوں میں ہم شیعوں نے اتنے  جنازے اٹھاۓ اپنے جوانوں، بوڑھوں، اور بچوں کے، کہ اب تعداد بھی یاد نہیں رہی ہے.
تکفیری سوچ نے لمحوں میں ہماری جواں سال عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، اور ہماری دو دو تین تین نسلوں کوشہادت کے رتبے پر پہنچا دیا.......لیکن سلام ہے پاکستانی قوم پر جس کی اکثریت نے ہمارے لئے نہ آنسو بہاے، نہ گلے پھاڑ پھاڑ کر بین کیا. 

کیوں کہ ہم شیعہ ہیں، کشمیری یا برما کے مسلمان نہیں!

پاکستان کا آزاد میڈیا بھی لفظ "شیعہ" کا استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے. DAWN News، Express Tribune  جیسے بڑے بڑے اخبارات بھی کھل کر یہ نہیں بتاتے کہ ہزارہ کو کس بنیاد پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے؟ کوئی ذاتی یا کاروباری دشمنی نہیں ہے، یہ فرقہ واریت ہے تو پھر کیوں نہیں بولتے ہو؟

کیا "یا علی مدد" کہنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہر کا شہر ہمارا خون ہاتھ پر لگاے پھرتا ہے؟

شیعوں کا ناحق خون بہانے والے  تکفیریوں جان لو کہ جس جنّت کہ پیچھے تم اپنی جان گنواتے ہو، اس کے سردار "حسن و حسین" ہیں، اور لبّیک یاحسین کہنے والے ہم شیعہ! 









Aug 3, 2010

Sponsoring Suicide

If you have any intentions of committing suicide, let Pakistan sponsor you.

The whole country is hit by natural and un-natural disasters. First it was only Talibans and their jackets, which can blow you into pieces. In return, you family gets meager amount of compensation and that too after struggling through red tape policies.

But that’s old. The nation got used to it so much that hearing only 30-40 people died in a blast is a thankful situation. One may hear, “Chalo shukar karo buhat ziada log nahi maray” or “Abhi to dekho, hospital jakar kitne maren gay”. We Pakistanis have become immune to terrorism.

So, now if we don’t get killed in a blast, we have other sources. You may flying in a plane, anticipating the landing and guess what? You are murdered at Margalla Hills (Islamabad) leaving others never to look at the hills in a way they used to.
It’s ok if you don’t like being burned down like this. We have floods to offer as well.


Millions displaced and thousands killed by the floods in northern and southern Pakistan. There was a time when we were crying for water shortage and bad crops due to no rains. When it came, it came like cats and dogs. I prefer to call it bitchy rains.


You are also most welcome to Karachi or Quetta. Both are the hubs of ethnical clashes. There are various choices such as target killing, torched buses and cars.


If not by this, than by that but options are infinite. Choose at your ease.


Lakki Marwat Blast, January 2010

Khyber Pakhtoonkhwa Flood and Rains, July  2010

Karachi, burned down after ethnical target killing, Aug 2010

May 7, 2010

Cast, Creed, and Men

-->


A few nights back, during a discussion about men, I realized some use-your-common-sense facts and defended my ideology. The conversation included my mother, sister, paternal aunt and me.

Inter-ethnic unions can ensue in lifelong rivalries and expulsion from a family which makes life harder for the girl especially. With all the enlightened moderation Pakistan owns, the people are still not out of the mindsets which compel them to follow culture, not religion.

Argument kicked off when my aunty said that she thinks Punjabi men are not respectful towards women and cannot be good husbands, my mother followed her.  Her conviction is based on what she or many of us Urdu-speaking are instilled with since childhood against the Punjabi, Pathan, Sindhi, and Balochi. And I personally don’t blame them for this because the situation is vice-versa all over Pakistan.

According to my mother, men from tribal or feudal backgrounds don’t consider women human and mistreat them. I countered her by citing examples of so-called sophisticated Mahajir men who have beaten their wives, abused them, and womanize. Both of the women were quite.

I think that even after knowing the truth, we are not courageous enough to defy the system. Men or a woman must not b stereotyped on an ethnic basis. Men are mostly what their mothers make of them.

I have met people from various backgrounds who consider Mahajir men to be more sophisticated than any other ethnicity present in the country. I tend to disagree with them because humans should remain humans instead of being identified from their caste or creed. Baloch man can be as good as any Urdu speaking.

If a man had to be identified by his ethnicity, then am sure, the finest men should be Arabs for Muslims.

Muslims are just too good at denominating themselves into sects and Pakistanis master the division of a nation.