Jun 23, 2016

قسمت میں مری … چین سے جینا لکھ دے

Originally published here HumSub

مشہور زمانہ قوال امجد صابری کو آج شہر کراچی میں چند نامعلوم افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں ان کی قسمت میں جینا تو نہیں البتہ مرنا لکھا گیا۔


شروع کے چند گھنٹے تو قاتل ہمیشہ ہی نامعلوم رہتے ہیں کیوںکہ کے کراچی کی روایت ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیوں اور کس نے مارا ہے۔ امجد صابری کی بھی موت کے کچھ دیر بعد ہی طالبان کے کمانڈر قاری سیف الله محسود نے ذمےداری قبول کرلی۔
کیا اس کے بعد بھی آپ کو کوئی وجہ چاہیے کہ دن دیہاڑے شہر قائد میں ایک قوال کو کیوں ماردیا؟ نہ سیاسی وابستگی نہ کسی فرقے سے تعلق۔۔۔۔ لیکن ایک تعلق تھا اور وہ تھا اہل بیت  سے محبت۔۔۔۔
سنہ 2014 میں امجد صابری نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر مارننگ شو میں ایک قوالی گائی تھی اور مذہب کے ٹھیکداروں کو یہ اتنا ناگوار گزرا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس دائر ہوگیا اور امجد صابری اور قوالی لکھنے والے دونوں افراد پر توہین رسالت کا نوٹس جاری ہوا۔
سندھ اور پنجاب وہ صوبے ہیں جہاں اسلام کی پہنچ صوفیوں کے ذریعے ہوئی اور آج بھی سال میں کئی عرس ہوتے ہین اور دھمال پڑتی ہے۔ یہ صرف عقیدت ہے، خدا کو چاہنے کی اپنی لگن اور روایت ہے۔ اس چاہت اور روایت کو اب جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
مزاروں پر، امام بارگاہوں پر، مسجدوں پر دھماکے ہوتے ہیں اور دہشت گرد یہ جوز دیتے ہیں کہ مرنے والے کافر تھے۔ ان دہشت گردوں کے تو خون منہ کو لگا ہے لیکن ایک اور بھی دہشت گرد ہیں جو میرے آپ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پربھی کئی بےگناہوں کا، عظیم ہستیوں کا خون لگا ہے۔
انہیں کہتے ہیں اپولوجسٹ یا حمایتی !
اگر مگر، ادھر ادھر، فلانا ڈھماکا تمام طرح کی دلیل لے کر میدان میں اترتے ہیں اور جہالت کے ہجوم میں خود کو نیوٹرل ثابت کر کے دہشت گردی کی حمایت کر دیں گے۔ اگر آپ کو بس سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیں، احمدی ہونے پر جلا دیں، سیاسی وابستگی پر ماروائے عدالت قتل کردیں تو بھی یہ خاموشی اختیار کرلیں گے اور کہیں گے کہ ہم سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ انسان کی تخلیقی سوچ میں وابستگی لازم ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلم اور مظلوم میں غیر جانبداری کا راستہ چن لے۔
حمایتی یا نیوٹرل لوگ ایسی دلیلیں اور تاویلیں دیں گے جیسے دہشت گرد اپنی بندوقیں صاف کر رہے تھے اور مقتول سامنے آ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں زبان رکھنے والے گونگے ہوگئے ہیں اور طالبانی سوچ نے اپنے دہانے کھول لئے ہیں۔
امجد صابری قوال جیسی ہی ہستیاں تھیں جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اسلام کا بھی نرم گوشہ دنیا کو دکھایا اور بتلایا کہ مذہب میں عقیدت ہی میں عظمت ہے۔
بدلے میں کیا ملا؟
 پینتالیس سال کی عمر میں 5 گولیاں !
پاکستان جیسے ملک میں حکومت سے لے کر عام آدمی تک یہ اخلاقی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم پر بولے ورنہ یہ وہ آگ ہے جس کے شعلے آپ کے دروازے ہی پر دہک رہے ہیں اور مستقبل میں آپ کا دروازہ جلنے کا امکان بھی موجود ہے۔

Jun 18, 2016

رمضان کا شیطان

Originally published here HumSub

عام خیال میں رمضان کا تعلق صرف پیٹ کی بھوک اور حلق کی پیاس سے ہے. یہی وجہ ہے کے جب رمضان آتا ہے تو اشیا کی قیمتیں اور خریداروں کا رونا، دونوں ہی آسمانوں کو چھو رہا ہوتا ہے. غریب اپنا پسینہ بیچ کر رحمتیں خریدتا ہے تو امیر اصراف کر کے دین سے انصاف کرتا ہے.

کیا پکوڑے، چاٹ، روح افزا کے آگے بھی روزہ ہے؟

اصل میں روزہ ان سب سے بھی پہلے ہے. بچپن میں دینیات کی کتاب میں پڑھا تھا کہ روزہ انسان کے جسم اور نفس دونوں کا ہوتا ہے لیکن آج کل تو نفس ایسے غائب ہے جیسےڈائناسورکی نسل کے ساتھ ہی اسکی بھی تدفین ہوگئی تھی.

دنیا بھر کی مشہور ہستیوں کی جانب سے رمضان کے مقدّس مہینے پرمسلمانوں کے نام پیغامات آتے ہیں جن میں اسلام کی بنیادی باتوں کا ذکر ہوتا ہے جیسے صبر، تقویٰ، فلاحی خدمات وغیرہ وغیرہ.

پاکستان میں شروعات ہوتی ہیں قتل سے، مار دھاڑ سے، اور دھمکیوں سے.

 ٧ جون کو پہلا روزہ انتہائی جوش و خروش سے رکھا گیا اور ٹھیک اس کے اگلے دن لاہور میں دن دہاڑے ایک ماں نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کوپیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا. اس انسانیت سوز واقعے کی وجہ نئی نہیں ہے. ہمیشہ کی طرح پسند کی شادی اور غیرت کے نام پر قتل.

قاتل بھی وہ ماں جس کو پشیمانی بھی نہیں اور ندامت نام کی چڑیا وہ جانتی نہیں.

ماں کو اور بھائی کو پولیس نے حراست میں لے لیا، چند روز بعد مولویوں نے فتویٰ بھی دے دیا کے غیرت کے نام پر قتل غیر اسلامی ہے. حالانکہ کوئی ان مسلمانوں سے پوچھے کہ تمھیں انسانیت کے اصولوں کے لئے بھی فتویٰ چاہیے؟ ہم اپنے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی نچلے درجے پر کھینچ لاۓ ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ اسلام ضابطہ حیات ہے. یہ کونسا ضابطہ ہے کہ جس میں حیات ہی نہیں رہتی؟

صبر و استقلال کا یہ عالم ہے کہ اندرون سندھ میں ایک انتہائی ضعیف انسان شام چھ کے قریب خیرات میں ملی بریانی کھا رہا تھا تو اسکو پولیس والوں نے لہولہان کردیا. قصور؟ افطار میں گھنٹہ باقی تھا اور وہ بوڑھا شخص ہندو تھا. 
کوئی پوچھے ان دو نیک مسلمان پولیس والوں سےکہ کس حدیث کی روشنی میں انہوں نے ایک غریب لاچار بوڑھے شخص کو رمضان کی پاداش میں بری طرح سے مارا پیٹا تھا؟ اگر آپ میں بھوک کی برداشت نہیں ہے تو روزہ رکھ کر خدا اور اسکی  خدائی پر احسان نہ کریں.

مغرب میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں انہیں تو پھر چاہئے ہر دوسرے  انگریز یا ہندو کی دھلائی کریں اور کہہ دیں میرا روزہ ہے.

آخر ہم رویوں کی انتہا پر کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ ہمارے اندر سے رواداری، انکساری، اور سب سے بڑھ کر اختلافات کو قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے.  

آج جب ہم نے ١٢ روزے مکمّل کرلئے ہونگے تب گجرانوالہ میں ایک سات ماہ کی حاملہ عورت کو اس کے  گھروالوں نے قتل کردیا ہے کیوںکہ اس نے آج سے ٣ سال پہلے پسند کی شادی کی تھی. اس مقتولہ کا پہلا بچہ، اسکا شوہر کس کے پاس فریاد لے کر جاۓ گا کہ اس مقدّس مہینے کا بھی مان نہ رکھا اور دو جانوں کو صفہ ہستی سے مٹا دیا.

بھول گئے ہیں پاکستان کے مسلمان کہ خاتم النبین نے بھی بی بی خدیجہ سے پسند کی شادی تھی. 

ویسے تو مجھے اپنی قوم پر یقین ہے کہ وہ رمضان ک چاند پر لگا گرہن ہے لیکن پھر بھی ایک امید جاگتی ہے کہ شاید ہم کبھی سمجھ پائیں کہ روزہ نفس کا ہے آپ کے معدے کا نہیں. جنگ خود سے ہے کسی شیطان سے نہیں. 

یہ قصّے کہانیاں ہیں کہ شیطان ٣٠ دن قید ہوجاتا ہے. یہ تو خدا کو اپنے بندوں سے امید تھی کہ وہ اپنے اندر کا شیطان قید کر لینگے پر ہائے رے افسوس!