Dec 26, 2018

علی رضا عابدی: زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے

Originally published here HumSub

زبان بندی کی رسم یوں ادا ہوتی ہے 
سر قلم کروا کر آزادی دفن ہوتی ہے 

آج ٢٥ دسمبر ہے جب دنیا بھر میں حضرت عیسی کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے، جنہیں آج سے سینکڑوں صدیوں پہلے رومن سلطنت نے صلیب پر گاڑھ کر قتل کردیا تھا. وجہ؟ خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کا پرچار تھا. سرکار نے بہت روکنا چاہا لیکن آپ ابن آدم، پیغمبر دین، آپ نے تبلیغ جاری رکھی جو بعد از حضرت عیسی، عیسایت مذہب میں تبدیل ہوئی. 

ایک بات تو اٹل ہے شب و روز کی طرح کے سچائی کے پیغام کی قیمت عمومی طور پر جان دے کر ہی ادا ہوتی ہے، اور صدی بھلے پہلی ہو یا اکیسویں، سرکار کا وقار بلند رہتا ہے، خون سے تر رہتا ہے.

علی رضا عابدی،عمر ٤٦ سال،سابق ممبر نیشنل اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ ، شہر کراچی میں اپنے گھر کے سامنے سر اور گردن پر گولی لگنے سے جابحق!
آپ چاہیں تو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی طرح انہیں شہید کہہ سکتے ہیں، لیکن صرف اتنا بتا دیجیے گا کہ کیا آپ اپنے گھر سے شہید ہونے کے لئے نکلتے  ہیں؟
اگر نہیں تو قتل اور شہادت میں فرق جان کر جیو.

کراچی میں رہنے والے تقریباً ہر انسان کو معلوم تھا کہ علی رضا عابدی کون ہیں. کوئی ان کو علی بھائی کہتا تو کوئی عابدی بھائی اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ رشتےدار تھے، بلکہ اس لئے کہ جی دار تھے. ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد، علی بھائی نے باقی تمام کارکنوں کی طرح MQM لندن کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا، بلکہ وقتاً فوقتاً متحد ہونے کی بات کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بنتے. یہ آدمی بلا خوف و خطرکراچی کے نوجوانوں کہ ساتھ بیٹھا پایا جاتا تھا جہاں عقل اور منطق دونوں مہمان ہوا کرتے تھے. کسے خبر تھی کہ اس انسان دوست آدمی کو اسی کے گھر کے آگے ٧ گولیوں سے چھلنی کردیا جاۓ گا. 

دسمبر بڑا سرد اور ظالم مہینہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں!
سقوط ڈھاکہ ہو یا بی بی صاحبہ کی شہادت، آرمی پبلک کا معصوم خون ہو یا علی رضا عابدی کا جوان قتل. یہ مہینہ اپنے مزاج کی طرح ان سب لوگوں کو ٹھنڈا کرگیا.

آپ کو لوگ علی رضا عابدی کی تعریفیں کرتے ملیں گے، جب کہ ان میں ایک بہت بڑی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ آج مرحوم قرار پاۓ. وہ برائی تھی زبان درازی کی !
علی بھائی کو خدا کا خوف تو تھا، لیکن مملکت خداداد کا خوف نہیں تھا. کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کردی، تو کبھی NAB والوں کی دھججیاں اڑا دیں. حد تو حد، نومولود حکومت پر بھی سوال اٹھا دئے. کچھ نہیں تو عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ کرلیتے تھے. کیا خبر تھی کہ زبان درازی کے بدلے میں ٧ گولیاں جسم پر میڈل کی طرح سجا دی جائیں گی اور کہا جاۓ گا جو کرو اب منکر نکیر سے زبان درازی!

آج قائد اعظم کی بھی سالگرہ ہے. وہ قائد جنہوں نے یہ ملک دیا تاکہ ہم آزاد،اور  شاد و آباد رہ سکیں. بس قائد بتانا بھول گئے کہ آزادی کے زمرے میں تمھارے خیالات اور الفاظ کی آزادی نہیں آتی، تنقید کی اجازت نہیں آتی، کیوںکہ پھر زندگی کی ضمانت نہیں رہتی. 

علی رضا عابدی، کراچی کا بیٹا، کل لحد میں اتر کر زبان درازی کی قیمت ادا کرے گا. آپ سب سے گزارش ہے اپنی زبان بندی کر کے جنازے میں شرکت کریں. شکریہ!

Nov 23, 2018

Santa Claus in Baghdad


Santa Claus in Baghdad by Elsa Marston
I got this book as my birthday gift, and I finally finished it.

It's a collection of stories from 8 different Arab countries, reflecting the lives of teenagers either torn in war or caught up in economic turmoil.

Having lived in 2 Arab countries and experienced their culture, I really enjoyed reading these short stories. Elsa has portrayed the lives of teenagers in a beautiful way that the reader does not feel sympathy for the characters but astonished by their strength of survival.

3.5/5
Available on Amazon

Nov 13, 2018

Rekha - The Untold Story

I am a big movie buff and it began with my love for Bollywood commercial and parallel cinema both. There was a time when "Salam e Ishq" and "Inn Ankhon ki Masti" was imprinted on my memory because.....REKHA!


This book is not an official biography of Rekha, neither approved or read by her prior to it's publishing. The author tried his best to get her endorsement but all attempts were futile.

If you happen to watch enough of old Bollywood and follow a bit of its news, then you know Rekha was always the centre of attention through scandals or her life long attachment with Amitabh Bachhan. The best part about this book is that it is extremely well researched from Rekha's friends and foes both.

'Justuju jis ki thee usko tau na paaya hum ne
Iss bahane say magar dekh li dunya hum ne'


Yasser Usman has not taken a neutral or an extreme path in portraying Rekha's life. He has told it as it is!


Rekha was the biggest threat and challenge to the patriarchal pattern of Bollywood, hence she was always under fire. Rekha did not only went through chauvinism but was also attacked by her fellow misogynistic female colleagues.

This book touches upon her non-conventional past, transforming the film era, and above all how she became what she is.

I finished this book in 3 nights 
4.5/5

Oct 12, 2018

جنسی ہراسانی کی چیخ

Originally published here HumSub

 اگر میں ایک شخص کو تھپڑ ماروں اور دوسرے کو گولی، تو کیا آپ دونوں حملوں کو جان لیوا کہیں گے؟
یقیناً نہیں!

٢٠١٤ میں میری ایک معمولی سی سرجری ہوئی تھی، جس کے باعث مجھے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی. ایک رات، قریب ٣ بجے میں نے درد کی شکایت کی اور غصّے میں شفٹ پر ڈاکٹر کو بلوایا جو اس وقت ایک شیعہ ہزارہ کی جان بچانے میں مصروف تھی. میری چیخ چللاہٹ سے اس کو آنا پڑا. پہلی بات جو اس ڈاکٹر نے کہی وہ یہ تھی "کلثوم تمہارا درد تکلیف دہ ہوگا لیکن جان نہیں لیگا. تمھارے اس ہنگامے سے اس آدمی کی جان بچانے کہ لئے ایک ڈاکٹر ضرور کم ہورہا ہے." 

اس رات مجھے احساس ہوا کہ، میری چیخ میں اس شخص کی چیخ کوئی نہیں سن پائے گا، جو چیخ بھی نہیں سکتا. 

  کچھ ایسا ہی موجودہ دور میں "جنسی ہراسائ" کو لے کر ہو رہا ہے.    
می ٹو تحریک نے دنیا بھر کی عورتوں کو نہ ہی تو صرف آواز دی ہے بلکہ دنیا کو ساتھ ہی ساتھ باور کرایا ہے کہ کیا امیر، کیا غریب، کیا عام، کیا خاص، کیا جاہل، کیا دانا، سب ہی میں صلاحیت ہے عورت کو زیر کرنے کی!

اس تحریک پر بہت سارے سوال بھی اٹھتے ہیں جن میں پہلا سوال ہوتا ہے "ثبوت کیا ہے؟". ایسے لوگوں کہ لئے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے:
١) جنسی ہرسائ کہتے کسے ہیں؟
٢) خوف کس بلا کا نام ہے؟

ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں:
اقوام متحدہ کے مطابق، کوئی بھی ایسا ناپسندیدہ جسمانی یا زبانی فعل جوآپ سے آپ کی اجازت کے بغیر، زبردستی ہو. 
    
اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو، آواز کسنا،گندی آوازیں نکلنا، بلا اجازت چھونا، یہ سب ہمارے معاشرے میں روز مرہ کی ہراساں کرنے والی حرکات ہیں. اب ذرا آپ اپنے گھٹنوں......میرا مطلب ہے چھوٹے سے دماغ پر زور لگایں اور بتایئں اگر راہ چلتے کوئی مجھے "ماشاللہ" یا "آئٹم " وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارے تو میں اس کا گواہ یا ثبوت کہاں سے لاؤں گی؟ بھرے بازار میں کسی لڑکی کو کوئی بھی لالچی مرد اگر چھو لے تو وہاں کہاں سے ثبوت لاے گی؟ چلتی بس میں جو انگلیاں سیٹ میں سے راستے بنا لیتی ہیں، ان کا ثبوت کیسے اکھٹا کریں؟

دراصل کیا ہے نا، ہم عورتیں اپنے سر پر ڈرون کیمرے تو لے کر چلتی نہیں ہیں اس لئے ثبوت مانگنے کے بجائے اگر آپ ان صرف اپنی سوچ کی اڑان اونچی کرلیں تو مہربانی ہوگی.

یہی وجہ ہے کہ، میشا شفی کوئی ثبوت نہ پیش کرسکیں کیوںکہ وہ سوچ کر مردوں سے نہیں ملتی تھیں کہ اس نے مجھے ہراساں کیا تو میرے سر پر اڑتا ہوا ڈرون کیمرے اسکی ویڈیو بنا لیگا. 
صرف میشا ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عورت جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں مردوں سے ملتی ہے، یہ نہیں سوچتی کہ آج یہ مجھ سے زبردستی کی کوشش کریگا. عروج ضیاء کو خبر نہیں تھی کہ فیصل ایدھی ان کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے، یا وہ لڑکیاں جو جنید اکرم کے خوف سے پبلک نہیں ہو پا رہیں. اگر ان میں سے کسی کو پتا ہوتا کہ ان کی تکلیف پر سوال اٹھیں گے، تو وہ یقیناً ساتھ میں کیمرے رپورٹر سب رکھتی تاکہ قوم کو بروقت اطلاع دی جا سکتی.......بریکنگ نیوز بھی تو کوئی چیز ہے!

 ملک کی لاکھوں عورتیں، اپنا آپ چادر میں اس لئے نہیں ڈھانپتی کہ حکم الہی ہے. چادر ان کی باریک محافظ ہے، گندی نظروں، ہاتھوں، اور فقرے بازیوں سے!
اگر صرف ہاتھ لگانا، آواز کسنا اتنی ذہنی تکلیف پہنچا سکتا ہے، تو سوچیں اس سے آگے کی ہرسائ کتنی تکلیف دہ ہوگی. عورت جب بازار سے گھر آتی ہے تو وہ یہ نہیں بتاتی کہ اگلی گلی کے مزدور نے اسکو آدھی تعمیر شدہ عمارت میں انے کی دعوت دی تھی....وہ اپنا راستہ بدل لیتی ہے بس. وجہ؟
وجہ آپ ہیں. آپ کی سوچ اور سوال ہیں جو اس عورت کو اسی کی نظر میں مجرم بنا دیںگے. 

خود کو خوف سے آزاد کرانا ایک اندرونی جنگ ہے. 
یاد رہے، جنگ کے شروع ہونے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن ختم کب ہوگی، معلوم نہیں. جب ہوتی ہے تب متاثرین باہر آ کر خود پر گزرا وقت بتاتے ہیں. 
جن بھوت، اندھیرے، پانی، پہاڑ، اور کئی سارے خوف ہیں جو نظر آتے ہیں لیکن جگ ہنسائی کا خوف نظر نہیں آتا. یہی وہ خوف ہے جو ان متاثرین کو اپنے خول میں بند رکھتا ہے. 

اگلا مرحلہ، معاملے کی سمجھ اور بوجھ کا ہے. 
یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ایک طرف تصوّف اور روحانیت کا بول بالا ہے تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصّوں سے نوزائدہ بچیوں کی لاشیں مل رہی ہیں. 

معاملہ جب عورت کی برابری اور حقوق کا آتا ہے تو ہمارا پہلا مقصد ہوتا ہے پدرانہ نظام کے زیر اثر متاثرین کو انصاف دلوانا، ان کی آواز کو اونچا کرنا، خوف کی سرحد پار کروانا. بدقسمتی سے، ان تمام مرحلوں کے بیچ اکثر آوازیں دب جاتی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی ابھی سرگوشی ہی کی تھی. 

اگر کسی مرد یا عورت نے آپ کو ہراساں کیا ہے تو اسکو ہراساں ہونا ہی کہیں گے، لیکن اگر آپ کسی غیر آرام دہ گفتگو کا حصّہ بن رہے ہیں تو وہ ابھی تک جنسی ہرسائ کی تعریف میں نہیں آیا. ہراساں ہونا مذاق نہیں ہے، اور نہ ہی اسکو اتنا آسان لیا جائے.

تحریک کو تحریک ہی رکھا جائے تو ٹھیک ہے، مزاق نہ بنائیں تاکہ قاضی شہر کو انصاف دینے میں آسانی ہو.  


  


٠

Aug 15, 2018

Apr 30, 2018

میں کینسر کی مریضہ ہوں

Originally published here HumSub

گزرتے وقت میں، مجھے چند چیزوں سے  بڑی چڑ ہوگئی ہے چاہے آگے جا کر ان کا کتنا ہی فائدہ کیوں ہو. مثال کے طور پر کدو!

کدوکی سبزی سے مجھے کبھی بھی شغف  رہا چاہے اکیلی پکی ملے یا بوٹیوں کے ساتھ شوربے میں غوطے لگاتی ہوئی. ھماری والدہ ماجدہ کدو کے قصیدوں میں کمی نہیں کرتیں اوردسترخوان پر افادیت اور کدو ساتھ رکھ دیتی تھیں. 
اب کدو مہاراج کی بدقسمتی کہئے یا نصیب کا کھیل، جہاں جہاں جس کے ساتھ لگے، اس کی عزت میں کمی آتی گئی. چند روز پہلے، فاروق ستار نے ملکی مستقبل کے سب سے عزت دار سانحے یعنی الیکشن ٢٠١٨ کو بھی کدوکہہ ڈالا. اب بیچارے کدو کی عزت تو ویسے ہی کچھ خاص نہیں، ساتھ میں الیکشن بیچارہ بھی منہ چھپاتا پھر رہا ہے. 

سچ پوچھئے تو، مجھے کدو اور آنے والا الیکشن،دونوں سے ہی لگاؤ نہیں لیکن پھر بھی مستقبل کا سوال ہے تو ہم کدو بھی کھالیتے ہیں اور ووٹ بھی دے دیںگے.  آنے والے وقتوں کی فکر میں، مجھے ایک مرض بھی لاحق ہوگیا  ہے: کینسر!
تشخیص کرنے والوں کا کہنا ہے یہ ایک نئے قسم کا کینسر دریافت ہوا ہے جس کی جڑیں بنیادی انسانی حقوق سے جڑی ہیں، اور اسکی ایک شاخ میرے مرض کی وجہ ہے. 

فیمینزم کا کینسر!
آپ سوچیں گے، مجھے فورا اس کا علاج کروانا چاہئے لیکن میں ایسا نہیں کرونگی. میں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے فائدے کیلئے یہ بیماری برداشت کرلونگی. اگر میں کدو کھا سکتی ہوں، اور ووٹ پر یقین رکھ سکتی ہوں تو فیمینزم کا تو حق ہے میری نسوانیت پر. نہیں؟

پچھلے ١٥ ماہ میں، ایدھی سینٹر اور چھیپا ویلفیئر نے سینکڑوں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی ہیں جن میں ٩٩% لڑکیاں تھیں. یاد رہے یہ صرف وہ بچیاں ہیں جہاں تا ایدھی اور چھیپا کی رسائی ہے، یا وہ جن کو دنیا میں چند سانسوں کا شرف بخشا گیا. کتنے ہی بیج ایسے بوئے گئے ہونگے، جن کی صرف جنس معلوم پڑنے پر ہی ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہوگا. 
ایک طرح سے اچھا ہی ہے کیوںکہ جس معاشرے میں انسانیت کے حقوق پر اٹھنے والی آوازوں کو کینسر کا نام دیا جاۓ وہاں ہم آنے والی نسل کو کیا دیںگے؟ آج نہیں تو کل اس لڑکی کو تو مرنا ہی ہے. غیرت کے نام پر، رشتے سے انکار کرنے پر، طلاق مانگنے پر، اور کچھ نہیں اور کچھ نہیں تو کھانا ٹھیک سے گرم نہ کرنے پر.

نیشنل پولیس بیورو کی جانب سے تازہ اشاعت ہوئے شمار کے مطابق، پاکستان میں پچھلے ٥ سالوں میں ایک لاکھ سے زائد انسانی حقوق کے کیس درج ہوئے ہیں جس میں، غیرت کے نام پر قتل، ریپ ،گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے جیسے تمام جرم شامل ہیں. یہ صرف وہ کیسز ہیں جن کا پرچہ تھانے میں درج ہوا تھا جس کے باعث یہ اعداد و شمار انتہائی کم ہیں. 

ہم وہ قوم ہیں جہاں کھانے کی میز پر اگر شوہر بیوی کے کھانے کی تعریف کردے تو جورو کا غلام، لیکن پلیٹ منہ پر دے مارے تو "مردانگی" پر پورے ١٠ نمبر اس کے ہوجاتے ہیں. ہر دوسرے دن، ہمارے معصوم بچے کسی مولوی کی حوس کا نشانہ بن جاتے ہیں، پھر بھی ہم کہتے نہیں تھکتے "کوئی مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟"
ہم ایسے تمام جرم پر دو دن یا زیادہ سے زیادہ چار دن تھو تھو کرتےہیں لیکن سد باب نہیں کرتے. اگرآپ ایسے گناہوں اور جرائم کو بدلاؤ کے دائرے میں نہیں لائیں گے تو آپ تنقید کا بھی حق نہیں رکھتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ووٹ نہ دیا ہو اور حکومتی نظام پر اپنی رائے پس کردیں.

جرم کرنے کے لئے مسلمان یا ہندو ہونا شرط نہیں ہوتی،بس حیوانیت چاہئے. جہالت کا خول چاہئے، وہ لبادہ چاہئے جسے اوڑھ کر آپ میرے مرض کی تشخیص کرتے ہیں. پاکستان میں حقوق کی جنگ لڑنا دن بدن مشکل ہورہا ہے. میرے ملک میں تو جو حق کی بات کرے وہ غدّار، جو سوال کرے وہ گمشدہ. اگر پشتین اور طاہر خان ہزارہ جیسے لوگوں کو اپنی آواز پہنچانے میں اتنی مشکلات کا سامنا ہے تو میں تو ایک "مریضہ" ہوں.

مجھے یہ مرض بخوشی قبول ہے کیوںکہ یہ میرے وجود کا سبب اور میرے کل کی جنگ ہے. ان چہروں کی روشنی ہے جو کسی جہل کے تیزاب میں دھندلا گئے. ان پھولوں کی خوشبو ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے. ان گردنوں کے محافظ ہیں جو اپنی پسند پر سر بلند ہونگے. ان آوازوں کی چیخ ہیں جوچار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں.

میرا مرض پدر شاہی کے خلاف بغاوت ہے!


Apr 22, 2018

"میں"

پیدا ہوئی حوا کی بیٹی تھی
جو مریم کا پاک دامن تھی 
آزاد فیصلہ تھی خدیجہ کا 
نسل سے بنت محمّد تھی

آج وقت کے رحم و کرم پر 
زمانے کے فیصلوں کی منتظر 
چند شہادتوں کی متلاشی
سینکڑوں کرداروں میں لپٹی 
گھر سجاۓ، دل بہلاۓ، 
یا ٹوٹ جاۓ 

دفن کیا حوا کے کرداروں کو 
میں اب آزاد ہوئی،
اپنی ذات ہوئی ! 




#بانوسازی 
  

Jan 7, 2018

اعتزاز حسن شہید کی یاد میں

Originally published here HumSub

آج بروز ٦ جنوری، ملک میں چند دردمند لوگ اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے ہماری آپکی خاطر اپنی نو عمری ہم پر قربان کردی، اپنی ماں کی گود، گھر کا آنگن، یہ سب کچھ سونا کردیا تاکہ اس کے گاؤں کا مستقبل محفوظ رہے. وہ مستقبل جو اس وقت تقریباً ٢٠٠٠ شاگردوں پر مشتمل تھا، اور لشکر جھنگوی کے رحم و کرم پر ہو سکتا تھا، اگر اس روز وہ  ١٥ سال کا بنگش قبیلے کا کم عمرلڑکا اس ملعون  کو سکول سے باہر نہ روک لیتا اور طالبانی/ جھنگوی ارادوں کی دھجیوں کے ساتھ خود کو بھی نہ  اڑ لیتا

وہ تھا اپنی ماں کا لعل، شیر جگر، اعتزازحسن!


آج اگر اعتزاز زندہ ہوتا تو ١٩ سال کا ہوتا لیکن اس نے لازوال قربانی کو اذیت کی زندگانی پر ترجیح دی. اعتزاز حسن، پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ہنگو ڈسٹرکٹ  کے گاؤں ابراہیمزائی سے تعلق رکھتا تھا، جس کی اکثریت شیعہ آبادی ہے اور آج بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے. 

اپریل سنہ ٢٠١٧ میں، طالبان نے اعتزاز کے گھروالوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے اور یاد دہانی کرائی کے انکا بیٹا/بھائی نہ ہی تو شہید ہے نہ ہیرو. مسلسل کوششوں کے باوجود پچھلے سال تک، پکّی FIR نہیں کٹ سکی تھی  اور نہ ہی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے وعدے پورے ہوئے تھے. یہ تو خیر ہم سب جانتے ہیں کے کون کس کے "ناراض بھائی" ہیں اور شاید اس لئے اب تک اعتزاز بس ایک یاد ہے. معلوم نہیں وہ کونسے علاقے ہیں جو اب تک نوے فیصد ہی کلیر ہوئے ہیں اور  باقی کے ١٠ فیصد کو بھائی بندی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اعتزاز جیسے شہدا کے گھروں پر دھمکتے رہیں اور یاد دلاتے رہیں کہ "تمہاری قربانی رائیگاں، ہمارا جہاد پائندہ"!

پاکستان کا المیہ یہ ہے جنہوں نے قربانی دی ان کے گھروالے حفاظت کی بھیک مانگتے، سرکاری دروازے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ جنہوں نے قربان کیا انکو باحفاظت رکھا جاتا ہے. کچھ یاد آیا؟

نہیں؟
14 دسمبر 2014، پشاور، آرمی پبلک سکول، 144 جانوں کا قتل !

میں ان بچوں اور بڑوں کو شہید نہیں کہتی کیوںکہ کوئی انسان، کم از کم ایک ٦ سال کی بچی، اپنے گھر سے یہ سوچ کر صبح کو نہیں نکلتی کہ آج تو میں طالبان کے ہاتھوں بیدردی، بےرحمی سے قتل ہونگی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرونگی. 
وہ معصوم جانیں ١٤ دسمبر کے روز قتل ہوئی تھیں!

انکو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے ہی سامنے چھلنی ہوتے دیکھیں گے. ان اساتذہ، کام کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ آج ضرب ازب کی ضرب انکو لگے گی.

ان ١٤٤ جانوں میں سے ١٣٥ بچے تھے، جن کی ماؤں نے انکو ٩ مہینے اپنے جسم کا حصّہ اس لئے بنا کرنہیں رکھا تھا کہ ایک دن کوئی تکفیری طالبان آ کر درسگاہ جیسی جگہ پر ان کے لعل کو لہولہان کردے گا. کوئی ماں باپ نہیں سوچتے کے سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے میرا بیٹے اور بیٹی کا جنازہ اٹھے گا.
اس بیٹے کا جوکچھ دن پہلے اپنے باپ کو اپنے مستقبل کے پلان بتا رہا تھا اور باپ دل ہی دل میں پیسے جوڑ رہا تھا. وہ بیٹی، جو ماں کا پلو نہیں چھوڑتی تھی اور اب کہیں جا کر اسکول جانا سیکھا تھا......ایسے، ایسے بچوں کا جنازہ گھر آیا اور آپ کہتے ہیں وہ شہید ہیں انہو نے جان کا نذرانہ دے دیا؟
نہیں!
ان بچوں  سے  اس روز درندگی نے زندگی چھین لی تھی!

بدلے میں ہم احسان الله احسان جیسوں کو میڈیا پر لا کر زخم تازہ کر رہے ہیں. اس کو ہیرو بنا رہے ہیں، اسلام کی خلافت کا مظاہرہ، اور آرمی کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے ہیں. بھلا ہو ان والدین کا اور انکی کوششوں کا جنہوں نے بروقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، اور اسپیشل بینچ نے احسان الله احسان کی عام معافی اور رہائی دونوں پر فالوقت پابندی عائد کردی ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان الله احسان جیسے درندے، قاتل کی عام معافی اور رہائی کا سوال کیسے پیدا ہوا؟ اگر ہماری فوج حکمرانوں کے تختے الٹنے اور انھیں پھانسی کے تختے تک لے جا سکتی ہے تو احسان اللہ احسان کے لئے کیوں نہیں تارہ مسیح بن سکتی؟

آخر پاکستان میں آزادی کی سانس اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پیاز ٹماٹر الو کی مہنگائی پر رونا رونگی تو کوئی نہ سنےگا، نہ کچھ کہے گا، لیکن آزادی کی تنقید، حقوق کی آزادی، ایسی باتوں پر ادارے آپکی سستی سی جان کو رلا سکتے ہیں. 

آپ کو لگ رہا ہے میں مذاق کر رہی ہوں؟ ایک تو آپ لوگوں کی یاداشت بھی نا !

پچھلے سال اسی جنوری میں چند بلاگرز کو گمشدہ کردیا گیا تھا اور تب بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور کہا آزادی اور سچ بڑا مہنگا ہے. کچھ لوگ انجانے میں صبح کو گھر سے نکل کر، قتل ہو کر، آزادی کی نظر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ حق کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ "انجام گلستان کیا ہوگا".

٢٠١٨ ابھی شروع ہوا ہے اور میری دعا ہے کسی ماں کی گود نہ اجڑے کیوںکہ ہر ماں ام لیلیٰ اور رباب تو نہیں، اور دعا ہے کہ حق کی طرف رہنے والوں کو "حر" کی دعا اور دوا دونوں ہو!


خدا مشعل خان جیسی کئی مشعل راہ دے میرے پاکستان کو.
آمین !