سر قلم کروا کر آزادی دفن ہوتی ہے
آج ٢٥ دسمبر ہے جب دنیا بھر میں حضرت عیسی کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے، جنہیں آج سے سینکڑوں صدیوں پہلے رومن سلطنت نے صلیب پر گاڑھ کر قتل کردیا تھا. وجہ؟ خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کا پرچار تھا. سرکار نے بہت روکنا چاہا لیکن آپ ابن آدم، پیغمبر دین، آپ نے تبلیغ جاری رکھی جو بعد از حضرت عیسی، عیسایت مذہب میں تبدیل ہوئی.
ایک بات تو اٹل ہے شب و روز کی طرح کے سچائی کے پیغام کی قیمت عمومی طور پر جان دے کر ہی ادا ہوتی ہے، اور صدی بھلے پہلی ہو یا اکیسویں، سرکار کا وقار بلند رہتا ہے، خون سے تر رہتا ہے.
علی رضا عابدی،عمر ٤٦ سال،سابق ممبر نیشنل اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ ، شہر کراچی میں اپنے گھر کے سامنے سر اور گردن پر گولی لگنے سے جابحق!
آپ چاہیں تو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی طرح انہیں شہید کہہ سکتے ہیں، لیکن صرف اتنا بتا دیجیے گا کہ کیا آپ اپنے گھر سے شہید ہونے کے لئے نکلتے ہیں؟
اگر نہیں تو قتل اور شہادت میں فرق جان کر جیو.
کراچی میں رہنے والے تقریباً ہر انسان کو معلوم تھا کہ علی رضا عابدی کون ہیں. کوئی ان کو علی بھائی کہتا تو کوئی عابدی بھائی اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ رشتےدار تھے، بلکہ اس لئے کہ جی دار تھے. ٢٢ اگست ٢٠١٦ کے بعد، علی بھائی نے باقی تمام کارکنوں کی طرح MQM لندن کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا، بلکہ وقتاً فوقتاً متحد ہونے کی بات کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بنتے. یہ آدمی بلا خوف و خطرکراچی کے نوجوانوں کہ ساتھ بیٹھا پایا جاتا تھا جہاں عقل اور منطق دونوں مہمان ہوا کرتے تھے. کسے خبر تھی کہ اس انسان دوست آدمی کو اسی کے گھر کے آگے ٧ گولیوں سے چھلنی کردیا جاۓ گا.
دسمبر بڑا سرد اور ظالم مہینہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں!
سقوط ڈھاکہ ہو یا بی بی صاحبہ کی شہادت، آرمی پبلک کا معصوم خون ہو یا علی رضا عابدی کا جوان قتل. یہ مہینہ اپنے مزاج کی طرح ان سب لوگوں کو ٹھنڈا کرگیا.
آپ کو لوگ علی رضا عابدی کی تعریفیں کرتے ملیں گے، جب کہ ان میں ایک بہت بڑی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ آج مرحوم قرار پاۓ. وہ برائی تھی زبان درازی کی !
علی بھائی کو خدا کا خوف تو تھا، لیکن مملکت خداداد کا خوف نہیں تھا. کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کردی، تو کبھی NAB والوں کی دھججیاں اڑا دیں. حد تو حد، نومولود حکومت پر بھی سوال اٹھا دئے. کچھ نہیں تو عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ کرلیتے تھے. کیا خبر تھی کہ زبان درازی کے بدلے میں ٧ گولیاں جسم پر میڈل کی طرح سجا دی جائیں گی اور کہا جاۓ گا جو کرو اب منکر نکیر سے زبان درازی!
آج قائد اعظم کی بھی سالگرہ ہے. وہ قائد جنہوں نے یہ ملک دیا تاکہ ہم آزاد،اور شاد و آباد رہ سکیں. بس قائد بتانا بھول گئے کہ آزادی کے زمرے میں تمھارے خیالات اور الفاظ کی آزادی نہیں آتی، تنقید کی اجازت نہیں آتی، کیوںکہ پھر زندگی کی ضمانت نہیں رہتی.
علی رضا عابدی، کراچی کا بیٹا، کل لحد میں اتر کر زبان درازی کی قیمت ادا کرے گا. آپ سب سے گزارش ہے اپنی زبان بندی کر کے جنازے میں شرکت کریں. شکریہ!
0 comments:
Post a Comment