Originally published here HumSub
گزرتے وقت میں، مجھے چند چیزوں سے بڑی چڑ ہوگئی ہے چاہے آگے جا کر ان کا کتنا ہی فائدہ کیوں ہو. مثال کے طور پر کدو!
کدوکی سبزی سے مجھے کبھی بھی شغف رہا چاہے اکیلی پکی ملے یا بوٹیوں کے ساتھ شوربے میں غوطے لگاتی ہوئی. ھماری والدہ ماجدہ کدو کے قصیدوں میں کمی نہیں کرتیں اوردسترخوان پر افادیت اور کدو ساتھ رکھ دیتی تھیں.
اب کدو مہاراج کی بدقسمتی کہئے یا نصیب کا کھیل، جہاں جہاں جس کے ساتھ لگے، اس کی عزت میں کمی آتی گئی. چند روز پہلے، فاروق ستار نے ملکی مستقبل کے سب سے عزت دار سانحے یعنی الیکشن ٢٠١٨ کو بھی کدوکہہ ڈالا. اب بیچارے کدو کی عزت تو ویسے ہی کچھ خاص نہیں، ساتھ میں الیکشن بیچارہ بھی منہ چھپاتا پھر رہا ہے.
سچ پوچھئے تو، مجھے کدو اور آنے والا الیکشن،دونوں سے ہی لگاؤ نہیں لیکن پھر بھی مستقبل کا سوال ہے تو ہم کدو بھی کھالیتے ہیں اور ووٹ بھی دے دیںگے. آنے والے وقتوں کی فکر میں، مجھے ایک مرض بھی لاحق ہوگیا ہے: کینسر!
تشخیص کرنے والوں کا کہنا ہے یہ ایک نئے قسم کا کینسر دریافت ہوا ہے جس کی جڑیں بنیادی انسانی حقوق سے جڑی ہیں، اور اسکی ایک شاخ میرے مرض کی وجہ ہے.
فیمینزم کا کینسر!
آپ سوچیں گے، مجھے فورا اس کا علاج کروانا چاہئے لیکن میں ایسا نہیں کرونگی. میں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے فائدے کیلئے یہ بیماری برداشت کرلونگی. اگر میں کدو کھا سکتی ہوں، اور ووٹ پر یقین رکھ سکتی ہوں تو فیمینزم کا تو حق ہے میری نسوانیت پر. نہیں؟
پچھلے ١٥ ماہ میں، ایدھی سینٹر اور چھیپا ویلفیئر نے سینکڑوں نوزائیدہ بچوں کی لاشیں کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی ہیں جن میں ٩٩% لڑکیاں تھیں. یاد رہے یہ صرف وہ بچیاں ہیں جہاں تا ایدھی اور چھیپا کی رسائی ہے، یا وہ جن کو دنیا میں چند سانسوں کا شرف بخشا گیا. کتنے ہی بیج ایسے بوئے گئے ہونگے، جن کی صرف جنس معلوم پڑنے پر ہی ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہوگا.
ایک طرح سے اچھا ہی ہے کیوںکہ جس معاشرے میں انسانیت کے حقوق پر اٹھنے والی آوازوں کو کینسر کا نام دیا جاۓ وہاں ہم آنے والی نسل کو کیا دیںگے؟ آج نہیں تو کل اس لڑکی کو تو مرنا ہی ہے. غیرت کے نام پر، رشتے سے انکار کرنے پر، طلاق مانگنے پر، اور کچھ نہیں اور کچھ نہیں تو کھانا ٹھیک سے گرم نہ کرنے پر.
نیشنل پولیس بیورو کی جانب سے تازہ اشاعت ہوئے شمار کے مطابق، پاکستان میں پچھلے ٥ سالوں میں ایک لاکھ سے زائد انسانی حقوق کے کیس درج ہوئے ہیں جس میں، غیرت کے نام پر قتل، ریپ ،گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے جیسے تمام جرم شامل ہیں. یہ صرف وہ کیسز ہیں جن کا پرچہ تھانے میں درج ہوا تھا جس کے باعث یہ اعداد و شمار انتہائی کم ہیں.
ہم وہ قوم ہیں جہاں کھانے کی میز پر اگر شوہر بیوی کے کھانے کی تعریف کردے تو جورو کا غلام، لیکن پلیٹ منہ پر دے مارے تو "مردانگی" پر پورے ١٠ نمبر اس کے ہوجاتے ہیں. ہر دوسرے دن، ہمارے معصوم بچے کسی مولوی کی حوس کا نشانہ بن جاتے ہیں، پھر بھی ہم کہتے نہیں تھکتے "کوئی مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟"
ہم ایسے تمام جرم پر دو دن یا زیادہ سے زیادہ چار دن تھو تھو کرتےہیں لیکن سد باب نہیں کرتے. اگرآپ ایسے گناہوں اور جرائم کو بدلاؤ کے دائرے میں نہیں لائیں گے تو آپ تنقید کا بھی حق نہیں رکھتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ووٹ نہ دیا ہو اور حکومتی نظام پر اپنی رائے پس کردیں.
جرم کرنے کے لئے مسلمان یا ہندو ہونا شرط نہیں ہوتی،بس حیوانیت چاہئے. جہالت کا خول چاہئے، وہ لبادہ چاہئے جسے اوڑھ کر آپ میرے مرض کی تشخیص کرتے ہیں. پاکستان میں حقوق کی جنگ لڑنا دن بدن مشکل ہورہا ہے. میرے ملک میں تو جو حق کی بات کرے وہ غدّار، جو سوال کرے وہ گمشدہ. اگر پشتین اور طاہر خان ہزارہ جیسے لوگوں کو اپنی آواز پہنچانے میں اتنی مشکلات کا سامنا ہے تو میں تو ایک "مریضہ" ہوں.
مجھے یہ مرض بخوشی قبول ہے کیوںکہ یہ میرے وجود کا سبب اور میرے کل کی جنگ ہے. ان چہروں کی روشنی ہے جو کسی جہل کے تیزاب میں دھندلا گئے. ان پھولوں کی خوشبو ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے. ان گردنوں کے محافظ ہیں جو اپنی پسند پر سر بلند ہونگے. ان آوازوں کی چیخ ہیں جوچار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں.
میرا مرض پدر شاہی کے خلاف بغاوت ہے!
0 comments:
Post a Comment