May 25, 2019

کام کرنے کی جگہوں پر جنسی ہراسانی

Originally published here HumSub

ہم نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور قانون کے لئے سب برابر ہیں. کیا یہ بات حقیقت ہے؟ اصولی طور پر تو قانون کو اندھا نہیں، بلکہ منصف ہونا چاہیے کیوںکہ اندھا ہونے کی صورت میں تووہ استغاثہ اور دفاع دونوں ہی کو نقصان پہنچا سکتا ہے.

پاکستان میں قانون بہت لیکن استعمال اتنا ہی جتنا آٹے میں نمک!

میشا شفی کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا، لیکن معاشرتی طور پر ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو جنسی ہراسائی کی قانونی سمجھ بوجھ آگئی. میشا شفی ایک مشہور شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بااثر بھی ہیں جو اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے لئے لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں. اس کیس کے دوران ہم نے دیکھا کے انکا خاندان، دوست، اور متعدد چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے ہیں.

بدقسمتی سے ہر کسی کے نصیب میں نہ اتنی ہمّت ہے کہ وہ جنسی طورپرہراساں  ہونے کی شکایات کر سکے یا اس کے خلاف کیس لڑ سکے. آئے دن ہم مدرسے میں ہونے والے گھنونے واقعات کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، خبریں سنتے ہیں لیکن کیا کسی والدین نے کیس لڑا؟ جیتا؟ .......شاید نہیں!

ہمارے ملک میں قانون تو ہے لیکن سجا سجایا. بلکل قرآن پاک کی طرح جس کو ہم گھر میں سب سے بہترین کپڑے میں لپیٹ کرطاق پر رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیتے ہیں. 

اپریل ٢٠١٨ میں ڈان اخبار نے ایک آن لائن سروے کیا جو تقریباً ٣٠٠ عورتوں پر مشتمل تھا. اس سروے ک مطابق ٨٣% عورتوں کا ماننا تھا کہ دفاتر میں عمومی طور پر مرد نامناسب روّیہ اختیار کئے رہتے ہیں کیوںکہ انہیں یقین ہوتا ہے کے کوئی کاروائی یا چارہ جوئی نہیں ہوگی. 
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی جنسی ہراسائی کے لئے قانون موجود ہے:

Protection against Harassment of Women at the Workplace Act 2010:"Harassment as any unwelcome sexual advance, request for sexual favors or other verbal or written communication or physical conduct of a sexual nature or sexually demeaning attitudes, causing interference with work performance or creating an intimidating, hostile or offensive work environment, or the attempt to punish the complainant for refusal to comply with such a request or is made a condition of employment."

پاکستان کا کوئی حصّہ یا طبقہ ایسا نہیں ہے جہاں کام کرنے والی عورتوں کو ہراساں ہونے کا تجربہ نہ ہوا ہو. ٩ سال گزرنے کے باوجود مندرجہ بالا قانون سے کئی عورتیں ناواقف ہیں یا ڈرتی ہیں کے انصاف کے کٹہرے میں ان کی دھجیاں نہ اڑا دی جایئں. 
وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق ٢٠١٤ سے ٢٠١٨ کے درمیان ٣٧٨ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ملک بھر سے، جن میں سے ٢٢٠ شکایات حکومتی اداروں سے آئ تھیں. 

جب بات آتی ہے اداروں کی تو ہمارا پہلا خیال یہ ہوتا ہے کہ شاید تعلیمی ادارے اس سے محفوظ ہوں. آخر کو استاد تو روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں اور پھر تعلیم و تدریس بذات خود ایک انتہائی عزت دار پیشہ ہے.

ان تمام باتوں کے باوجود، پروٹیکشن ایکٹ ٢٠١٠ کے تحت موصول ہونے والی شکایات میں قائد اعظم، LUMS، جیسی یونیورسٹیز شامل تھیں.

٢٠١٨ میں ایک اور مشہور کیس اخباروں کی زینت بنا تھا جب پاکستان کے جانے مانے اردو کے شاعر پروفیسر سحر انصاری پر جنسی ہراسائ کا کیس ہوا تھا. پروفیسر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں بلکہ اردو کی خدمات کے انجام میں حکومت پاکستان سےستارہ-امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں. 

شکایات درج کرنے والی خاتون خود بھی اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ان کے ساتھ یہ واقعہ ٢٠١٦ میں پیش آیا تھا. اس شکایت کی بنیاد پر جامعہ کراچی نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ایک ماہ کے اندر پروفیسر صاحب کو کلین چٹ دے دی. 

خاتون برحق تھیں تو انہوں نے سندھ صوبائی محتسب کو اپیل دائر کی جس نے سوا سال بعد اگست ٢٠١٧ میں جامعہ کراچی کی کمیٹی رپورٹ کو رد کر کے نئی کمیٹی، پروٹیکشن ایکٹ ٢٠١٠ کے تحت تشکیل کرنے کا حکم دیا. 
جنوری ٢٠١٨ میں حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ پروفیسر سحر انصاری پر ہراسائی کی شکایت ثابت ہوئی جس میں جامعہ کراچی کی جانب سے کئی طالبات کی شکایات بھی شامل تھیں اور جامعہ کے چند ملازمین کی گواہی بھی شامل تھی.

پھر کیا ہوا؟
کوئی نہیں جانتا!

سندھ محتسب نے ایک بہترین قدم اٹھایا لیکن کیا اس کو مثالی بنا پائے؟ کیا پروفیسر سحر انصاری پر قانونی فیصلہ محفوظ ہوا؟  کیا جامعہ کراچی نے اس سلسلے میں پیش و رفت کی؟ مستقبل میں اساتذہ اور طالبات کو محفوظ بنانے کے لئے کیا اقدام کئے؟ 


حکومت پاکستان میں وفاق نے ایک پوری وزارت اس پروٹیکشن ایکٹ کے لئے محفوظ کی ہے جس کی وزیر اس وقت کشمالہ طارق ہیں. مجھے یقین ہے اگر حکومت چاہے تو اس قانون کو ہرچھوٹے بڑے دفاتر میں عمل میں لا سکتی ہے. عورتوں کو اس قانون کے بارے میں آگاہ کیا جائے، ان کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انکی شکایات اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا.  

جب فیصلے ہوا میں معلق ہوں، توقانون پر سے یقین ڈگمگانے لگتا ہے جو معاشرتی طور پر خطرناک ہے. پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی ہراسائی کے خلاف ایک مثبت قانون ہے جس کا یقینی استعمال ضروری ہے. 












  

0 comments: