Originally published here HumSub
حال ہی میں، ملک کے مشہور میزبان اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل نعیم بخاری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ "ایک کلومیٹر سے خاتون کا کردار پہچان جاتا ہوں".
یقین جانئے، سن کر دل کوتسلّی ہوئی کہ بالاخر ہم نے بحیثیت قوم اتنی ترقی تو کرلی کہ کردار جانچنے کی پیمائش ایک کلومیٹر ہے. اچھے وقتوں میں، بنا دوپٹے، گہرے گلے، بنا آستین وغیرہ کے کپڑے پہننے والی خواتین کا ہی کردار شبہے کے دائرے میں آتا تھا. بہت چھلانگ ماری، تو سگریٹ پینے والی اور مردوں کے ساتھ قہقہہ لگانے والی کو بھی ١٠٠ مردوں کے بستر سے گزار دیتے تھے.
اب سچ پوچھئے توقصور بھی عورتوں کا ہی ہے، خامخواہ آجاتی ہیں سامنے ایسے واہیات معاشرے کے سامنے جہاں لوگ کپڑے تو پہنتے ہیں لیکن سوچ ننگی ہے، روٹی چاول سے پیٹ تو بھرتے ہیں لیکن ہوس بھوکی ہے.
ایک چٹکی سندور تو سنا تھا لیکن ایک کلومیٹر کی کیا ہی بات ہے.سو بس مذاق کی رو میں بہہ کر نعیم بخاری صاحب نے بھی ملک کا انتہائی پیچیدہ مثلا حل کردیا اور وہ ہے عورت کا کردار جس کی حد ہے ایک کلومیٹر!
اب پنچایت کو فیصلہ سنانے کے لئے گواہ کی نہیں بس ایک کلومیٹر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اس معصوم کو جس پر الزام ہے. مقدّر تو ویسے بھی اس بیچاری کا قتل یا ریپ ہے تو گواہ کو کیوں تکلیف دیں؟ بس ایک کلومیٹر سے دیکھ لینگے. وہ غیرت مند بھائی جن کا خون نیلم سے زیادہ ٹھنڈا پر جوشیلا ہے، وہ بھی اپنی بہن بھابھی کا کردار ایک کلومیٹر سے پہچان لینگے.
میری نظر میں اس کا بہترین فائدہ جو ہوگا وہ ہوگا رشتہ ڈھونڈتے وقت آنٹی قسم کی خواتین کو کیوںکہ میرے تجربے کے مطابق خواتین لیپسٹک کے کلر،لڑکی کے بال وغیرہ اور شاید بکری کے دو دانت بھی دیکھتی ہونگی. ان سب باتوں سے لڑکی پہلا مرحلہ رشتہ پاس کرتی ہے. اب نعیم بخاری کے ماہرانہ سائنسی فارمولا کے مطابق آپ رشتہ طے کرسکتی ہیں صرف ایک کلومیٹر سے. آپ اپنے تیز ذہن کو ذرا تخیل کی دنیا میں لے جائیں اور سوچیں: یونیورسٹی، کالج کے باہر لڑکے کی ماں انتظار کررہی ہے تاکہ وہ ایک کلومیٹر سے ہی چند لڑکیوں کو منتخب کرلے جن کا کردار اچھا ہو.
نعیم بخاری صاحب بھی اسی معاشرے کا حصّہ ہیں. گو کہ وہ کہیں گے کہ یہ بات انہوں نے ازراہ مذاق کہی تھی لیکن سوال یہ بنتا ہے آخر تذلیل اور تحزیک کا نشانہ عورت کے وجود کہ اس پاس ہی کیوں گھومتا ہے؟ گالی دینی ہو تو ماں بہن، تھیٹر کامیڈی میں ہنسانا ہو تو بیوی پر فقرہ کس دو، مذاق اڑا لو، فون پر لطیفے اتے ہوں تو اکثریت عورتوں پر ہوتی ہے.
پچھلے کچھ ماہ میں شہر ممبئی اور کراچی میں موسلادھار بارشیں ہوئیں جس کے باعث کاروباری اور ذاتی زندگی مفلوج ہوگئی. اس دوران فیس بک، ٹویٹر، اور وہاٹسپپ وغیرہ پر ایک ہی طرح کا لطیفہ مرد حضرات لگا رہے تھے کہ انھیں انکی بیویوں سے بچایا جائے. مرد دوست ہاسا اڑا رہے تھے، خواتین بھی internal misogyny کا منہ بولتا ثبوت دیتے ہوئے کھی کھی کر رہی تھیں. اس دوران میں یہ سوچ رہی تھی کیا یہ عورتیں اس طرح کا مزاق شوہر کا یا کسی بھی مردانہ رشتے کا اڑا سکتی ہیں؟ یا جس خاتون سے اپکا صیغہ پڑھا گیا ہے اپ اسکو یوں چار لوگوں کے بیچ ہنسی کا بیان بنا رہے ہیں؟
پڑھنے والے کہیں گے یار آگئی یہ خاتون اپنا "فیمینزم" اور "مساوی حقوق" کا بینڈ باجا لے کر لیکن میری باتیں درحقیقت بنیادی انسانی حقوق کی ہے. ہم ہر بات کو جو عورت کے قلم اور زبان سے نکلے اس کو ہنسی میں اڑا کر اصل مسائل سے توجہ نہیں ہٹا سکتے.
چاہے وہ بلیو وہیل کا گیم ہو یا شہر کراچی میں چاقو گھونپنے والا چھلاوا، ہمارے ملک میں ہر چیز کا مزاق بن گیا ہے. کوئی اپنی بیوی کو بلیو وہیل گیم کھیلنے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی بیگم کو گلستان جوہر جانے کو کہ رہا ہے. قتل یا خودکشی کوئی معنی نہیں رکھتی کیا؟
ان ساری باتوں کا المیہ یہ ہے کہ، جس کی تذلیل ہورہی ہے وہ اصل ذلیل نہیں ہے، بلکہ وہ ہے جو تذلیل کر رہا ہے، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
گویا تمہارا جنم عورت کے بطن سے، تمہاری نسل اس عورت سے، تمھارے گھر کی چولھا چکّی اس عورت سے، تمہارا جسمانی عیش و عشرت، دماغی سکون اس عورت سے ہے. قصّہ مختصر کہ زندگی مکمّل کرنے اور گزارنے کا انحصار عورت پر ہے پھر بھی اس کی عزت کا انحصار مرد پرہے. واہ رے انسان!
0 comments:
Post a Comment