Originally published here HumSub
جب میں پیدا ہوئی تب ہی ابّا جی نے سوچ لیا تھا یہ والی بچی تو بس ڈاکٹر بن گی اور تقریباً تیرا سال اس امید اور خواب میں گزارے کے یہ پیاری بچی انکی بات مانے گی ،لیکن خدا نے اور زندگی نے مجھے ایک بار نہیں بلکہ دو بار بغاوت کا موقع دیا . سکول میں تو جان جاتی تھےکے مینڈک کو ہاتھ لگانا ہوگا لیکن جب کالج میں آئی تو بورڈ کے فارم میں بائیولوجی بھرنے سے پہلے ہسپتال کا کوئی چکّر لگ گیا.
ہلکا سا بخار چڑھا تھا توگھر کے قریبی ہسپتال کی OPD میں بیٹھی تھی جب میں نے ایک ماں کو رکشے سے اترتے دیکھا اور اسکی گود میں بمشکل ڈھائی یا تین سال کا بچا ہوگا جس کا سر پھٹ گیا تھا. بچے کو تو ہسپتال کا عملہ تیزی سے اندر لے گیا لیکن اسکی ماں کی حالت مجھے آج بھی یاد ہے. تب ہی مجھے احساس ہوگیا کے اگر میں ڈاکٹر بنی تو سواۓ رونے کے کسی اور چیز کی اسپیشلسٹ نہیں بن سکتی.
اس ماں کا بیٹا تو ٹانکے لگوا کر پھر سے اپنی ماں کی گود میں چڑھ گیا ہوگا. اگلے کئی دنوں تک ماں باپ سے نخرے بھی اٹھوائیں ہونگے. کبھی ان بچوں کا سوچیں جو خود یا ان کے والدین کا سوچیں جو بمباری، شیلنگ، اور فائرنگ کا شکار ہوتے ہیں.
انسان اپنی کی غلطی کی بھی چوٹ کھائے تو غصّہ اور تکلیف ہوتی ہے، پھر یہ تو مسلط جنگیں ہیں جو آنے والی نسلوں کو یتیم، جوان کو بیوہ، اور بوڑھوں کا سہارا چھین لیتی ہیں.
جب کبھی میڈیا پر شام میں ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجے میں زخمی اور ہلاک بچوں کی خبر یا ویڈیو چلتی ہے تو میرا فیس بک، اور ٹویٹر ہمدردیوں سے بھر جاتا ہے. الان کردی، عمر دقنیش، اور کئی شامی بچوں پر ہماری قوم کا کلیجہ کٹ جاتا ہے، آنسوؤں کے سمندر بہ جاتے ہیں، اپنی اولاد کی سلامتی کے لئے دعائیں ہوتی ہیں.
یہ تمام جذبات اس وقت نیند کی گولی کھا لیتے ہیں جب کشمیر کے LOC پر حملہ یا فائرنگ کا واقعہ پیش آتا ہے قوم کا بس نہیں چلتا اپنے کمپیوٹر کی سکرین سے ہی ایک عدد نیوکلیئر بم ہندوستان کو دیں ماریں اور کچھ ایسے ہی جذبات پڑوسی ملک بھی ہمیں دکھاتا ہے.
"جنگ"
یہ تین حروف آپ کی تین نسلیں تباہ کرنے کی حیثیت رکھتا ہے. آپ کا گزرا ہوا کل، آنے والا کل، اور ان کا رکھوالا آج....... سب جنگ کی نظر!
سوشل میڈیا اور میڈیا کا المیہ ایک یہ بھی ہے کہ، اس پر موجود نسل نے جنگ کا ج بھی نہیں دیکھا اور جنہوں نے جھلک دیکھی یا سنی ہے وہ اس کے نقصانات سے مستفید نہ ہو سکے.
بدقسمتی سے میرے ماں باپ نے ٧١' کی جنگ دیکھی بھی اور سہی بھی، بدقسمتی اس لئے کیوںکہ ان کے پاس شہادت، قومیت سے جڑی کوئی کہانیاں نہیں ہیں، ہاں سبق ضرور ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ میری تربیت میں انسانیت کو ہر چیز پر فوقیت ہے.
اور پھر کیوں نہ ہو؟
١٤٠٠ سال پہلے امام وقت نے بھی کربلا میں قدم جنگ کی نیت سے نہیں رکھا تھا بلکہ آخری وقت تک صلح اور گفتگو کی روش اپنائی تھی. تاریخ گواہ ہے جنگوں سے کسی عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا سواۓ اس کے کہ اسکو لاشیں اٹھانی پڑیں، گھر بار چھوڑنا پڑا، فاقہ کاٹنا پڑا.
لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف وہ لوگ بستے ہیں جنہوں نے آپس میں شادیاں کر رکھی ہیں، یادیں، نسلیں جوڑ رکھی ہیں. کبھی ان سے پوچھیں کیا وہ جنگ کے خواہشمند ہونگے؟ اس ماں سے پوچھیں جس کا بیٹا فوج کی وردی پر سرحد پر محافظ بنا کھڑا ہے. وہ روز اسکی لمبی عمر کی دعا کرتی ہوگی، اس کا صحرا سجانے سے لے کر اس کے بچوں کو گود میں کھلانے کا سوچتی ہوگی.
میں تو یہ بھی نہیں مانتی کہ کوئی فوجی جو انسان پہلے ہے، شوق شہادت رکھتا ہوگا. زندگی کے ارمان اس کو بھی پیارے ہونگے، گھر پر کئی انتظار ہونگے.
خدارہ! اس دنیا میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ امن و محبت کی ہے، آپ اس کو بلکل ہی نا پید نہ کردیں. نفرت کا بیج زمین بنجر کرتا ہے اور میں آپ اسی زمین کا باسی ہیں.
قوم پرستی اچھی بات ہے لیکن انسانیت کی قیمت پر اسکا پرچار کرنا یقینن عقلمندی نہیں ہے.
0 comments:
Post a Comment