اس نے چونک کر آنکھیں کھولی اور اپنے سرہانے پر رکھی ہوئی گھڑی دیکھی تو یہی کوئی رات کہ ساڑھے تین بج رہے تھے. یوں لگا جیسے نیند کو اچانک سے کوئی کام یاد آگیا ہو اوروہ اسے اکیلا چھوڑکر چلی گئی ہو.
ایسا نہیں کہ یہ پہلی بار ہوا تھا لیکن اب اکثر ہونے لگا تھا وہ یونہی آنکھیں کھول کر ادھر ادھر تکتی جیسے دن چڑھا ہوا ہو اور اسے کوئی کام نہ مل رہا ہو کرنے کو.
کھڑکی سے جو روشنی چھن چھن کر اندر آرہی تھے، اس میں غور سے آس پاس دیکھا تو اس کو اپنی بکھری ہوئی سوچیں نظر آیئں.
خود پر پڑی چادر کو سرکا کر پرے کرتی ہے اور دھیان سے پیر نیچے رکھتی ہے، کیا معلوم کوئی سوچ نیچے آ کر دب نہ جائے. اس نے اب تک کتنی ہی سوچوں کو سمجھنے سے پہلے ہی دبا ڈالا تھا بنا جانے ہوئے کہ یہ دبی ہوئی سوچیں کرچیاں بن جاتی ہیں اور انسان کہ دماغ کی شریانوں کو پھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں.
وہ دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ عجیب بات ہے یہ جو ڈھیر ساری سوچیں بکھری پڑی ہیں اسکو دن میں کیوں نہیں نظر آتیں؟ وہ تو ہر شہ قرینے سے سجا کر رکھنے کی عادی ہے. جو شہ جہاں رکھ دی جاتی ہے وہیں سے ملتی ہے اور یہ سوچیں دیکھو............عجیب الجھی الجھی پڑی ہیں ہر کونے میں.
اسکے گھر میں تو کبھی مٹی کے جالے نہیں لگے تو یہ سوچیں کیسے جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں؟
سلجھے ہوئے مکان میں اتنی الجھنیں؟
اس نے سوچا چلو جب تک نیند اپنے کام نپٹا کر آتی ہے میں بھی تھوڑی صفائی کرلوں.
وہ برآمدے میں کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھی، وہاں کونے میں ایک سوچ سمٹی ہوئی تھی جیسے کسی کا خوف ہو. یہ اس کے بچپن سے وابستہ تھی جب اسکو زیادہ بولنے کی اجازت نہیں تھی کیوںکہ "لڑکیاں زیادہ نہیں بولتی".
یہ وہ سوچ تھی جس نے ڈر کے مارے خود کو گونگا کرلیا تھا.
ذرا آگے بڑھی تو کتابوں پر اسکی جوانی کی سوچوں کا اجتماع تھا جنہوں نے اسے بغاوت کا مطلب سمجھایا تھا. کئی بار اس نے جب ان سوچوں کو الفاظ دینے کی کوشش کی تو یہی سننے کو ملا، "جب بولنا الٹا ہی بولنا". جس کو زمانے نے الٹا جانا وہ تو بس منطق کی تلاش تھی.
اسی تلاش میں اس نے کتنی ہی سوچوں کو اپنے ذھن کے میدان میں کھلا چھوڑ دیا تھا.
کسی تھکے ہارے مزدور کی طرح اس کے شانے اور نظریں نیچے جھک گئی اور وہ کمرے میں رکھے ہوئے صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی. اب جو چاروں طرف نظریں دوڑآیں تو ہر کونے کھدرے میں سوچوں کا انبار نظر آیا.
اسکی پلکیں بھاری ہونے لگیں تو وہیں دراز ہوگئی اور خود کو یہ کہہ کر تسّلی دے دی، یہ "صفائی" پھر کبھی سہی!
بانو سازی
اپریل ١١، ٢٠١٦
رات ١١:٢٩
5 comments:
عُمدہ خیال۔۔۔ موضوع اگرچہ نیا نہیں مگر منظر نگاری نے بیان کو پُر اثر بنایا۔۔۔۔۔۔ جیتی رہئیے اور لکھتی رہئیے۔۔۔
Thank you so much. I am literally honored that you visited and commented on my blog. Thanks for the feedback :)
بہت عمدہ
خیال اور اظہارخیال دونوں بہت کمال
ایک اچھا خیال اور عمدہ طرز سے لکھی گئی معاشرے کی ایک الگ کہانی۔ سلامتی اور خیر ہی خیر :)
کمال کر دیا جناب ۔۔۔۔۔ حقیقت کے قریب تر :) بن بولی باتیں لکھ دیں جو ابھی بھی کہیں نہ کہیں بن بولی ہی ہیں اور ایسے ہی سینے میں دفن آگے چلی جاتی
Post a Comment