Apr 20, 2015

انارکلی


"انارکلی" سے میرا پہلا تعارف کچھ ایسے ہوا کہ میری اماں جی کی دو ہی پسندیدہ فلمیں ہیں، اک پاکیزہ اور دوسری مغل اعظم. اب چونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن کے کافی حصّے تک میں نے بچکانہ فلمیں ہی دیکھی اس لئے بات کافی عرصے تک تعارف سے آگے نہ بڑھی. 

یوں میں نے کئ سال بنا جانے گزار دیے کہ یہ انارکلی کس کے دل کی کلی تھی اور کھلی بھی تھی یا بن کھلے مرجھا گی تھی .

پھر ایک دن میں اپنے نانا کے گھر پر کتابیں چھان رہی تھی جب ان کے شیلف سے  امتیاز علی تاج کا ڈرامہ "انارکلی" میرے ہاتھ لگ گیا. تب میری عمر تیرہ سال تھی لیکن اردو کا شغف کچھ گھٹی میں ہے سو اپنی بہن کے ساتھ جامن توڑنے کے بجائے میں کتاب لے کر بیٹھ گئی  اور پورا ڈرامہ ایسے پڑھ ڈالا جیسے اگلے دن سکول میں امتحان ہو. 

ہم جس انارکلی کو جانتے ہیں وہ اصل تھی یا تخیل یہ تو شاید میں آپ نہ جان پایئں لیکن اتنا ضرور ہے کے زمانہ کوئی بھی ہو، عشق پر پہرے سدا رہے اور رہیں گے. 

مجھے انارکلی کا خیال کیوںکر آیا؟

جب ایک اتوار صبح ٩ بجے، سلمان رشید، پاکستان کے مشہور سفری نامہ نگار، اپنے ساتھ انارکلی بازار ناشتے کے لئے لے گئے. مقصد تو آٹے کی پوریاں کھانا تھا لیکن سلمان کے ہوتے ہوئے تاریخ پر گفتگو نہ ہو، ناممکن.

میں نے ہمیشہ ہی لاہور کے بارے میں ایک بات کہی ہے کہ "لاہور کا حسن اس کی لال اینٹوں میں ہے." ایک دوست نے کہا اگر یہ اینٹیں کسی اور شہر میں رکھ دیں تو؟ میں نے جواب دیا، وہ بات نہیں کیوںکہ ہر شہر کی اپنی داستان ہے." 

اس روز بھی جب ہم  ناشتہ کر کے اٹھے تو سلمان نے کہا آؤ کچھ پرانا حصّہ دکھاتا ہوں اور تب ہم اس محرابی دروازے کی طرف بڑھے. 


Photo Courtesy: Bano Bee
 Location: Anarkali Bazar, Lahore

یہ داخلی محراب شاید ایک صدی یا اس سے بھی پرانا  ہو لیکن اس کی ہر اینٹ سورج کی تازہ روشنی میں آپ کو نئی پرانی ہر کہانی سناۓ گی. 

کتنی ہی انارکلیاں اپنے سلیم سے اس روشن اندھیرے میں ملی ہونگی جہاں ان پر زمانے کی نظر کچھ دیر سے پڑے گی. چوڑیوں کی کھنک دھیمی پڑ گئی ہوگی، آنچل سر سے سرکے ہونگے، لفظوں کی جگہ پلکوں کے اشارے سے جذبات بیان ہوئے ہونگے. 
اس راہ گزر نے کئی خط گرتے دیکھے ہونگے اور انکو اٹھانے والوں کی گواہ بھی یہی دیواریں ہونگی. ہاتھوں کو تھامتے اور ساتھ ہی ان کو الگ ہوتے دیکھا ہوگا. پائل سی کھنکتی ہنسی اور گالوں سے گرتے ہوئے خاموش آنسو بھی اسی دیوار نے پی لئے تھے. 

داستانیں سناتی یہ دیواریں، رکے ہوئے  راستے، بھٹی سے نکلی اینٹیں، مجھے بتاتی ہیں کہ اکبر نے تو بس ایک انارکلی کو ہم میں چنوایا تھا........ لیکن ہم تو زمانے سے کتنی انارکلیوں کو خود میں چنواتےآۓ  ہیں. 




بانو سازی 
٢٠ اپریل، ٢٠١٥
رات ١٢:٢٠